سیاسی چکریاں
یہ سیاست کی کاری گری ہے کہ اچھا بھلا پڑھا لکھا حق بات بولتا انسان بھی دوغلے پن پر اتر آتا ہے
'' امریکی صدر جوبائیڈن اور امریکی نائب صدر و صدارتی امیدوار کملا ہیرس نے حسن نصر اللہ کی موت کو بہت سے متاثرین کے لیے انصاف پر مبنی اقدام قرار دیا ہے۔'' یہ ایک خبر تھی۔ اس کے ساتھ ایک اور خبر جڑی تھی۔ دونوں نے ایک بار پھرکہا ہے کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔ کملا ہیرس نے کہا کہ امریکا، ایران اور اس کے حمایت یافتہ گروپوں کے خلاف اسرائیلی سیکیورٹی کے لیے پرعزم ہے۔
نیتن یاہو نے کیا کہا ہے، ایران کا اب کیا بیان ہے، اس کے درپیش امریکا کی مستقبل میں ہونے والی صدرکے چند ہی مہینوں میں بدلتے سیاسی قسم کے بیانات نے ایک عجیب تاثر پیدا کردیا ہے۔ ایک یہ کہ محسوس یہ ہوتا ہے کہ بیرونی دنیا کی سیاست اور حالات سے انھیں دلچسپی بس اسی حد تک ہے کہ ان کے مخالفین اب کیا کہتے ہیں، دوم ان کے حامی کیا رجحان رکھتے ہیں۔
ابھی جولائی میں ہی ان کی اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو سے ایک ملاقات ہوئی، یقینا اس وقت کملا کے جذبات و احساسات عام کرسچین امریکی جیسے تھے جو غزہ میں جاری جنگ کا خاتمہ چاہتے ہیں، لہٰذا کملا نے اپنے حامیوں اور ٹرمپ کو دھول چٹانے کے موافق اعلیٰ درجے کے بیانات داغے۔ انھوں نے بظاہر جوبائیڈن کی اسرائیل کا ساتھ اور اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق جیسے حمایتی لفظوں کا سہارا دیتے، اپنے برہم انداز کو بھی عیاں کردیا کہ وہ اسرائیل کے دفاع کے پرتشدد طریقہ کار سے ناخوش ہیں، وہ جانتی تھیں کہ جوبائیڈن نے اسرائیل کے ساتھ کا اعلان کر کے اپنے مخالفین اور جماعت میں منفی انداز اور تنقید کو ابھارا ہے، اس لیے انھوں نے اپنے اس رویے کو آگے بڑھاتے ذرا لہجے کو سخت رکھا۔ ان کا ''میں خاموش نہیں رہوں گی'' کا جملہ خاصا چبھتا ہوا محسوس کیا گیا تھا۔
پہلے بھی جوبائیڈن کے اسرائیل نواز رویے نے کھنچاؤ کی سی کیفیت پیدا کر دی تھی کیونکہ ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے مسلسل نیتن یاہو پر تنقید جاری ہے۔ دوسری جانب امریکی عوام کی بھی عمومی طور پر غزہ کے متاثرین کی جانب جھکاؤ واضح محسوس کیا جاسکتا ہے۔ ٹرمپ کملا ہیرس کے اس چبھتے اندازکو اپنے لیے استعمال کرتے دکھائی دیے، جب انھوں نے امریکا کے یہودی اور یہودی نواز ووٹرز کو علی الاعلان مخاطب کرتے کہا کہ اگر کملا ہیرس جیت گئیں تو اسرائیل ختم ہو جائے گا۔ یہ تنبیہ تھی کہ پیش گوئی؟ لیکن امریکی اس انداز کو سمجھتے یا نہ سمجھتے پرکملا نے اسے بھانپ لیا اور پھر ایک اور قلابازی یا سیاسی حربہ منظر عام پر آیا۔
یہ سیاست کی کاری گری ہے کہ اچھا بھلا پڑھا لکھا حق بات بولتا انسان بھی دوغلے پن پر اتر آتا ہے،گویا سیاست کی تعریف میں ایسا ہرگز نہیں ہے، پر شاید آج کی تیز رفتار دنیا میں سیاست کے معنی ہی بدل گئے ہیں۔ جوڑ توڑ، سازشیں، سامنے والے کی کمزوریاں، حامیوں کا موڈ، مخالفوں کا جوش بس یہی دیکھا جاتا ہے۔ عوام کی خدمت، حق کے لیے ڈٹ کرکھڑے ہو جانا، مظلوم کی آواز بن کر ابھرنا اور اس کا ساتھ دینا جیسے ماضی کے دھندلکوں میں کھو چکا ہے، ساری سیاست گری کتابوں تک محدود رہ گئی ہے، اب جو ہے وہ دنیا کے اسٹیج پر ولیم شیکسپیئرکے ڈرامے کی مانند ہے۔
لوگ آتے ہیں، اپنا کردار ادا کرتے ہیں اور چلے جاتے ہیں، پر اس آنے جانے کے عمل میں بے گناہ جانیں اور املاک روندتے چلے جاتے ہیں۔دنیا میں غزہ کی حالت زار عیاں ہے پر بڑے سفید ہاتھی خاموش ہیں۔ حمایتوں، مخالفتوں کے راگ الاپے جا رہے ہیں، کسی کو ذرہ برابر بھی پرواہ نہیں کہ غزہ کے بے گناہ انسانوں کی جانوں کے ضیاع پرکیا کرنا چاہیے، کیونکہ وہ اپنے ایوانوں میں بدمست ہیں، درحقیقت وہ خوش و مطمئن ہیں کہ یہود و نصاریٰ کا بڑا مخالف اس وقت گاجر مولی کی طرح کٹ رہا ہے۔ بہت سی حقیقتیں نزول اسلام کے بعد ہی واضح کردی گئی تھیں، بقول کسی کے قیامت اور تباہی ہر قوم کے لیے ہوتی ہے، ابھی قیامت تو دور ہے، پر شاید جانے انجانے میں حضرت انسان کس قیامت اورکس تباہی میں اپنا حصہ ڈال رہا ہے، یہ بڑی قیامت کے لیے تیاریاں ہیں۔
کملا ہیرس ری پبلک پارٹی کے جوان خون کی بہار ہیں توکیا وہ دنیا کو ایک جنگ کی جانب بڑھتا دیکھ کر خاموش ہیں، تو ایسا ہی ہے کہ انھیں لبنان میں ہونے والی حالیہ تباہ کاریوں، نصراللہ شہید اور ان بے گناہ انسانوں کے خون کی کوئی فکر نہیں کہ ظاہر ہے امریکی تخت ان کی شہرت کو چار پانچ چاند لگانے کے درپے ہے۔
اب کون اس جھنجھٹ میں پڑے، لہٰذا بڑے سود خور اور کرائے کے ہاتھیوں کی ٹیم جو سونے چاندی سے لدی ہے پھر مذہبی عصبیت کا رنگ بھی ہے اب چاہے وہ اپنے کھلے ذہن، روشن دل اور چمکتے خون کی کتنی ہی صدائیں بلند کریں، تلخ حقیقت یہی ہے کہ آج کی دنیا چند سر پھرے، خودغرض اورکینہ پرور لیڈران کے کھیل کا میدان بنی ہے، عوام بے چاری ہے وہ کیا چاہتی ہے اسے تھپک سے سلانا، بہلانا اتنا مشکل نہیں اگر ایسا ہی ہوتا تو مغرب کے گلی کوچوں میں مظلوم انسانوں کی حمایت میں نوجوان، بڑے بوڑھے نہ نکلتے۔ یہ بھی سچ ہے کہ ان مظلوموں کی آواز بننے میں ہم مسلمانوں سے زیادہ وہ غیر مسلم شامل ہیں جنھیں ہم کافر کہہ کر آنکھیں بند کر لیتے ہیں اور ہم مسلمان۔۔۔۔ بس افسوس صد افسوس۔
نیتن یاہو نے کیا کہا ہے، ایران کا اب کیا بیان ہے، اس کے درپیش امریکا کی مستقبل میں ہونے والی صدرکے چند ہی مہینوں میں بدلتے سیاسی قسم کے بیانات نے ایک عجیب تاثر پیدا کردیا ہے۔ ایک یہ کہ محسوس یہ ہوتا ہے کہ بیرونی دنیا کی سیاست اور حالات سے انھیں دلچسپی بس اسی حد تک ہے کہ ان کے مخالفین اب کیا کہتے ہیں، دوم ان کے حامی کیا رجحان رکھتے ہیں۔
ابھی جولائی میں ہی ان کی اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو سے ایک ملاقات ہوئی، یقینا اس وقت کملا کے جذبات و احساسات عام کرسچین امریکی جیسے تھے جو غزہ میں جاری جنگ کا خاتمہ چاہتے ہیں، لہٰذا کملا نے اپنے حامیوں اور ٹرمپ کو دھول چٹانے کے موافق اعلیٰ درجے کے بیانات داغے۔ انھوں نے بظاہر جوبائیڈن کی اسرائیل کا ساتھ اور اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق جیسے حمایتی لفظوں کا سہارا دیتے، اپنے برہم انداز کو بھی عیاں کردیا کہ وہ اسرائیل کے دفاع کے پرتشدد طریقہ کار سے ناخوش ہیں، وہ جانتی تھیں کہ جوبائیڈن نے اسرائیل کے ساتھ کا اعلان کر کے اپنے مخالفین اور جماعت میں منفی انداز اور تنقید کو ابھارا ہے، اس لیے انھوں نے اپنے اس رویے کو آگے بڑھاتے ذرا لہجے کو سخت رکھا۔ ان کا ''میں خاموش نہیں رہوں گی'' کا جملہ خاصا چبھتا ہوا محسوس کیا گیا تھا۔
پہلے بھی جوبائیڈن کے اسرائیل نواز رویے نے کھنچاؤ کی سی کیفیت پیدا کر دی تھی کیونکہ ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے مسلسل نیتن یاہو پر تنقید جاری ہے۔ دوسری جانب امریکی عوام کی بھی عمومی طور پر غزہ کے متاثرین کی جانب جھکاؤ واضح محسوس کیا جاسکتا ہے۔ ٹرمپ کملا ہیرس کے اس چبھتے اندازکو اپنے لیے استعمال کرتے دکھائی دیے، جب انھوں نے امریکا کے یہودی اور یہودی نواز ووٹرز کو علی الاعلان مخاطب کرتے کہا کہ اگر کملا ہیرس جیت گئیں تو اسرائیل ختم ہو جائے گا۔ یہ تنبیہ تھی کہ پیش گوئی؟ لیکن امریکی اس انداز کو سمجھتے یا نہ سمجھتے پرکملا نے اسے بھانپ لیا اور پھر ایک اور قلابازی یا سیاسی حربہ منظر عام پر آیا۔
یہ سیاست کی کاری گری ہے کہ اچھا بھلا پڑھا لکھا حق بات بولتا انسان بھی دوغلے پن پر اتر آتا ہے،گویا سیاست کی تعریف میں ایسا ہرگز نہیں ہے، پر شاید آج کی تیز رفتار دنیا میں سیاست کے معنی ہی بدل گئے ہیں۔ جوڑ توڑ، سازشیں، سامنے والے کی کمزوریاں، حامیوں کا موڈ، مخالفوں کا جوش بس یہی دیکھا جاتا ہے۔ عوام کی خدمت، حق کے لیے ڈٹ کرکھڑے ہو جانا، مظلوم کی آواز بن کر ابھرنا اور اس کا ساتھ دینا جیسے ماضی کے دھندلکوں میں کھو چکا ہے، ساری سیاست گری کتابوں تک محدود رہ گئی ہے، اب جو ہے وہ دنیا کے اسٹیج پر ولیم شیکسپیئرکے ڈرامے کی مانند ہے۔
لوگ آتے ہیں، اپنا کردار ادا کرتے ہیں اور چلے جاتے ہیں، پر اس آنے جانے کے عمل میں بے گناہ جانیں اور املاک روندتے چلے جاتے ہیں۔دنیا میں غزہ کی حالت زار عیاں ہے پر بڑے سفید ہاتھی خاموش ہیں۔ حمایتوں، مخالفتوں کے راگ الاپے جا رہے ہیں، کسی کو ذرہ برابر بھی پرواہ نہیں کہ غزہ کے بے گناہ انسانوں کی جانوں کے ضیاع پرکیا کرنا چاہیے، کیونکہ وہ اپنے ایوانوں میں بدمست ہیں، درحقیقت وہ خوش و مطمئن ہیں کہ یہود و نصاریٰ کا بڑا مخالف اس وقت گاجر مولی کی طرح کٹ رہا ہے۔ بہت سی حقیقتیں نزول اسلام کے بعد ہی واضح کردی گئی تھیں، بقول کسی کے قیامت اور تباہی ہر قوم کے لیے ہوتی ہے، ابھی قیامت تو دور ہے، پر شاید جانے انجانے میں حضرت انسان کس قیامت اورکس تباہی میں اپنا حصہ ڈال رہا ہے، یہ بڑی قیامت کے لیے تیاریاں ہیں۔
کملا ہیرس ری پبلک پارٹی کے جوان خون کی بہار ہیں توکیا وہ دنیا کو ایک جنگ کی جانب بڑھتا دیکھ کر خاموش ہیں، تو ایسا ہی ہے کہ انھیں لبنان میں ہونے والی حالیہ تباہ کاریوں، نصراللہ شہید اور ان بے گناہ انسانوں کے خون کی کوئی فکر نہیں کہ ظاہر ہے امریکی تخت ان کی شہرت کو چار پانچ چاند لگانے کے درپے ہے۔
اب کون اس جھنجھٹ میں پڑے، لہٰذا بڑے سود خور اور کرائے کے ہاتھیوں کی ٹیم جو سونے چاندی سے لدی ہے پھر مذہبی عصبیت کا رنگ بھی ہے اب چاہے وہ اپنے کھلے ذہن، روشن دل اور چمکتے خون کی کتنی ہی صدائیں بلند کریں، تلخ حقیقت یہی ہے کہ آج کی دنیا چند سر پھرے، خودغرض اورکینہ پرور لیڈران کے کھیل کا میدان بنی ہے، عوام بے چاری ہے وہ کیا چاہتی ہے اسے تھپک سے سلانا، بہلانا اتنا مشکل نہیں اگر ایسا ہی ہوتا تو مغرب کے گلی کوچوں میں مظلوم انسانوں کی حمایت میں نوجوان، بڑے بوڑھے نہ نکلتے۔ یہ بھی سچ ہے کہ ان مظلوموں کی آواز بننے میں ہم مسلمانوں سے زیادہ وہ غیر مسلم شامل ہیں جنھیں ہم کافر کہہ کر آنکھیں بند کر لیتے ہیں اور ہم مسلمان۔۔۔۔ بس افسوس صد افسوس۔