IMFپروگرام پروفاق اورصوبوں کوایک پیج پرآناہوگا، شہبازرانا

مانیٹرنگ ڈیسک  اتوار 6 اکتوبر 2024
احتجاج میں عام شہریوں کے حقوق کی پاسداری ممکن بنائی جائے،کامران یوسف،دی ریویو میں گفتگو
(فوٹو: فائل)

احتجاج میں عام شہریوں کے حقوق کی پاسداری ممکن بنائی جائے،کامران یوسف،دی ریویو میں گفتگو (فوٹو: فائل)

  اسلام آباد:  تجزیہ کار شہباز رانا کا کہنا ہے کہ پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچانے کیلیے اور اگلا پروگرام نہ لینے کیلیے جو شرائط ہیں وہ پوری کرنی ہیں تو وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو مل بیٹھ کر بات کرنی ہے اور ملک کو آگے لے کر چلنا ہے، پی ٹی آئی، حکومت اور اسٹیبلشمنٹ ایک دوسرے کو ری ایکشن دیا جا رہا اور آئین میں جو ترامیم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

یہ کام کرنا انتہائی مشکل ہو جائے گا، قومی مالیاتی معاہدے پر دستخط ہو جانے کے بعد بھی اس پر عملدرآمد چیلنجنگ ٹاسک ہو گا۔ ایکسپریس نیوز کے پروگرام دی ریویو میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ آئی ایم ایف نے قومی مالیاتی معاہدے پر دستخط کرنے کے لیے 30 ستمبر کی ڈیڈ لائن دی تھی، اس کے خدوخال میں تین بنیادی چیزیں آتی ہیں، ایک صوبوں نے ٹیکس محصولات میں اضافہ کرنا ہے۔

دوسرا یہ کہ وفاق جو خرچے کر رہا ہے وہ صوبوں کو منتقل کیے جائیں گے اور تین خراب حکمرانی کو بہتر کرنے کے لیے اقدامات کرنا شامل ہیں، انھوں نے کہا کہ کل سے ایک تماشہ لگا ہوا ہے ایک طرح سے پورے ملک کو مفلوج کر کے رکھ دیا گیا ہے، احتجاج کی کال کی ٹائمنگ بڑی مشکوک بن گئی، پاکستان میں شنگھائی تعاون تنظیم کا ایک اجلاس ہونے جا رہا ہے۔

اس دوران انھوں نے احتجاج کی کال دے دی اور دھرنے کا بھی کہا۔ کامران یوسف نے کہا کہ انتظامیہ کی جانب سے کھڑی کی جانے والی تمام رکاوٹوں کے باوجود پی ٹی آئی کے کئی کارکن اسلام آباد میں ڈی چوک کے قریب پہنچنے میں کامیاب ہوئے ، لیکن خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور ایک بڑی ریلی کی قیادت کرتے ہوئے اسلام آباد میںداخل ہوئے تو پراسرار طور پر قافلے سے غائب ہوئے، تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ احتجاج جاری رہے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ طے ہو جانا چاہیے کہ اگر احتجاج کرنے والوں کے حقوق ہیں تو پھر عام شہریوں کے بھی حقوق ہیں، وہ کہاں جائیں ؟حکومت سے فریاد کریں، تحریک انصاف سے کہیں؟ احتجاج کے لیے ایک مخصوص علاقہ مختص کیا جانا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔