کلاسیکی ادب کے فروغ کے لیے ’’مجلس ترقی ادب‘‘ نے مثالی کام کیا محمد منیر
ممتاز علمی ادارے، مجلس ترقی ادب کے ساتھ پچاس برس سے وابستہ، محمد منیر سے گفت گو
ہمارے ہاں ادب کے نام پر قائم اداروں میں مجلس ترقیِ ادب کو خاص مقام حاصل ہے، جس کی ایک وجہ اس ادارے کا کلاسیکی ادب کو تواتر سے چھاپنا ہے۔
دوسرے اس ادارے میں امتیازعلی تاج، پروفیسر حمید احمد خان، احمد ندیم قاسمی اور شہزاد احمد جیسی قابل قدر علمی و ادبی شخصیات کو سربراہ کے طور پرکام کرنے کا موقع ملا۔ سردست ڈاکٹر تحسین فراقی کے ہاتھ میں اس ادارے کی زمام کار ہے۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں میرٹ کا قتل عام سی بات ہو وہاں پچاس برس سے زاید عرصہ کسی ادارے کے سربراہ کا میرٹ پرتقرر ہوتے چلے جانا، بڑی عجیب سی بات لگتی ہے۔
مگر معاملہ ایسا ہی ہے۔ مجلس ترقی ادب میں اب بھی ایک ایسے صاحب موجود ہیں، جنھوں نے ماضی کے چاروں سربراہان کی سرپرستی میں کام کیا، اور اب وہ ڈاکٹر تحسین فراقی کے ماتحت خدمات انجام دے رہے ہیں۔ یہ صاحب محمد منیر ہیں۔
اس ادارے پر بیتے سردوگرم سے وہ خوب واقف ہیں۔ اس بات کی تفصیلات جانتے ہیں کہ کس طرح سے قانونی تقاضے پورے ہونے کے بعد یہ جگہ، جہاں پر ادارہ ثقافت اسلامیہ، بزم اقبال اور مجلس ترقی ادب کے دفاتر قائم ہیں، قیمتاً خریدی گئی۔ وہ زورآوروں کی طرف سے مجلس کی زمین پرہونے والے قبضے کے قضیے سے بھی خوب واقف ہیں، لیکن اس بارے میں کھل کربات کرنے سے احتراز کرتے ہیں۔ اس بابت بتایا تو بس اتنا کہ ''ارباب اختیارکو سب پتا ہے۔ اس زمین کو خریدنے کے لیے جو بھاگ دوڑ ہوئی، اس میں مَیں یوں شریک رہا کہ پٹواری اورریونیو بورڈ کے دفتر میں جاتا رہا۔ اِس جگہ کے لیے آدھی رقم مجلس نے اور آدھی رقم ادارہ ثقافت اسلامیہ نے دی۔''
اِدھر کام کے دوران ہی انھیں امتیازعلی تاج کے بہیمانہ قتل کی خبرسننی پڑی، جن کے ساتھ پانچ برس کام کے دوران ان کا بہت اچھا تعلق رہا۔ اس دفتر ہی میں سقوط ڈھاکا کے بعد حمید احمد خان کو دل گرفتہ پایا۔ اس وقت موجود تھے، جب ایک بیوروکریٹ نے احمد ندیم قاسمی جیسے نجیب شخص سے بدتمیزی کی ، اوران کے خلاف انکوائری کراتا پھرا، مگر کچھ ثابت نہیں کرسکا۔ قاسمی صاحب پر ''فنون'' کے سلسلے کا کام مجلس کے دفتر میں کرنے کے الزام کو بھی رد کرتے ہیں۔ سمجھتے ہیں کہ یونس جاوید سے بھی کسی قسم کی زیادتی نہیں ہوئی۔
محمد منیرکے خیال میں اس ادارے کی خوش قسمتی رہی کہ بڑے علمی قد کاٹھ کی حامل شخصیات کو معاملات چلانے کا اختیار رہا۔ ان کے نزدیک، ہر ذرہ آفتاب تھا۔ امتیازعلی تاج، حمید احمد خان اور احمد ندیم قاسمی کے برتاؤ کا بڑے اچھے لفظوں میں ذکرکرتے ہیں۔ رویے میں تھوڑی تبدیلی اُنھیں شہزاد احمد کے دور میں محسوس ہوئی، لیکن مجموعی طور پران کے سلوک کی بھی تعریف ہی کرتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ مجلس کو اگرمناسب گرانٹ ملتی رہتی توکارکردگی اور بھی بہتر ہوتی۔
اس ضمن میں احمد ندیم قاسمی نے کوشش تو بہتیری کی، لیکن ارباب اختیار کے کان پرجوں تک نہ رینگی۔ بہ قول ان کے،''شہزاد احمد کا دور اس اعتبارسے مبارک ثابت ہوا کہ گرانٹ میں ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ بڑھوتری ہوئی۔ کتابوں کی اشاعت میں تیزی آگئی۔ سیل میں قابل قدراضافہ ہوا اور تین چارلاکھ کی سالانہ سیل پندرہ سولہ لاکھ تک بھی پہنچ گئی۔ شہزاد احمد کے دور میں لائبریری کو نئی زندگی مل گئی۔ جو امداد ملی اُس کا صحیح طریقے سے استعمال ہوا۔''
مجلس ترقی ادب کے بارے میں بتاتے ہیں،''اس ادارے نے کلاسیکی ادب کی بہترین کتابوں کو دوبارہ شائع کیا۔ تحقیق و تدوین کا بہترین معیار پیش کیا۔ کلب علی خان فائق اور سید عابد علی عابد جیسے عالم لوگوں نے کتابوں پرکام کیا۔ تجارتی مقاصداس ادارے کے کبھی نہیں رہے۔
یہی بات اس بیوروکریٹ کی سمجھ میں نہیں آئی، جو قاسمی صاحب سے اس لیے الجھا کہ اس کے خیال میں ادارے نے اتنے برسوں میں کوئی ترقی نہیں کی۔ قیمتیں بہت مناسب ہیں۔ اگر یہی کتابیں کوئی غیرسرکاری ادارہ چھاپے، تو لوگوں کے لیے انھیں خریدنا مشکل ہوجائے۔ جہاں تک آپ کے اس سوال کا تعلق ہے کہ پہلے کے مقابلے میں اب ہمارے ہاں عام قارئین زیادہ آتے ہیں یا کم، تو بات یہ ہے کہ اس تعداد میں خاص فرق نہیں پڑا۔ ہم نے خریداری کے حساب سے رعایت کا بھی طریقۂ کار وضع کیا ہوا ہے۔''
محمد منیرکا بتانا ہے، کتابوں کی اشاعت سے ہٹ کرمجلس ترقی ادب نے نہایت عمدہ پرچہ''صحیفہ ''بھی نکالا، جو گذشتہ پچاس برس سے بھی زائد عرصے سے شائع ہو رہا ہے۔ سید عابد علی عابد اور ڈاکٹر وحید قریشی جیسے جید لوگ اس رسالے کے ایڈیٹر رہے۔ ''صحیفہ'' کا اشاریہ بھی کتابی صورت میں ہم نے چھاپا ہے، جس سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ کس قدراہم تخلیقات اس رسالے میں چھپتی رہی ہیں۔
مجلس میں گزرے وقت کو زندگی کا بہترین سرمایہ گردانتے ہیں۔ محمد منیر نارووال میں سادھوکی کے علاقے سے تعلق رکھتے ہیں، جس سے چار پانچ میل دور ہی فیض احمد فیض کا آبائی گاؤںکالا قادر ہے۔ بڑی خوشی سے بتایا، وہ بھی انھی کی طرح جٹ برادری سے تعلق رکھتے تھے۔
میٹرک کے بعد لاہور آگئے۔ پنجابی فاضل کرکے فروری 1965 میں مجلس ترقی ادب میں جونیرکلرک بن گئے۔ اس زمانے میں سٹور کیپرکے طور پر چند بندے آزمائے گئے، لیکن وہ چلے نہیں تو پھر یہ ذمہ داری انھیں سونپ دی گئی، جس کو وہ اب تک نبھاتے چلے آرہے ہیں۔ جب عام قارئین کے لیے مجلس کے دفتر سے کتب خرید کا انتظام کیا گیا، تو سیل پوائنٹ کے انچارج کے فرائض کا بار ان ہی کے کندھوں پر آن پڑا۔ 2003ء میں وہ ریٹائر ہوئے، لیکن ان کی دیانت کے باعث کنٹریکٹ میں اضافہ ہوتا چلا گیا، اور اب یہ گیارہواں سال ہے۔ زندگی سے مطمئن ہیں۔ حج کرنے اور روضۂ رسولؐ کی زیارت کی خواہش تھی، وہ بھی الحمداللہ پوری ہوگئی۔
دوسرے اس ادارے میں امتیازعلی تاج، پروفیسر حمید احمد خان، احمد ندیم قاسمی اور شہزاد احمد جیسی قابل قدر علمی و ادبی شخصیات کو سربراہ کے طور پرکام کرنے کا موقع ملا۔ سردست ڈاکٹر تحسین فراقی کے ہاتھ میں اس ادارے کی زمام کار ہے۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں میرٹ کا قتل عام سی بات ہو وہاں پچاس برس سے زاید عرصہ کسی ادارے کے سربراہ کا میرٹ پرتقرر ہوتے چلے جانا، بڑی عجیب سی بات لگتی ہے۔
مگر معاملہ ایسا ہی ہے۔ مجلس ترقی ادب میں اب بھی ایک ایسے صاحب موجود ہیں، جنھوں نے ماضی کے چاروں سربراہان کی سرپرستی میں کام کیا، اور اب وہ ڈاکٹر تحسین فراقی کے ماتحت خدمات انجام دے رہے ہیں۔ یہ صاحب محمد منیر ہیں۔
اس ادارے پر بیتے سردوگرم سے وہ خوب واقف ہیں۔ اس بات کی تفصیلات جانتے ہیں کہ کس طرح سے قانونی تقاضے پورے ہونے کے بعد یہ جگہ، جہاں پر ادارہ ثقافت اسلامیہ، بزم اقبال اور مجلس ترقی ادب کے دفاتر قائم ہیں، قیمتاً خریدی گئی۔ وہ زورآوروں کی طرف سے مجلس کی زمین پرہونے والے قبضے کے قضیے سے بھی خوب واقف ہیں، لیکن اس بارے میں کھل کربات کرنے سے احتراز کرتے ہیں۔ اس بابت بتایا تو بس اتنا کہ ''ارباب اختیارکو سب پتا ہے۔ اس زمین کو خریدنے کے لیے جو بھاگ دوڑ ہوئی، اس میں مَیں یوں شریک رہا کہ پٹواری اورریونیو بورڈ کے دفتر میں جاتا رہا۔ اِس جگہ کے لیے آدھی رقم مجلس نے اور آدھی رقم ادارہ ثقافت اسلامیہ نے دی۔''
اِدھر کام کے دوران ہی انھیں امتیازعلی تاج کے بہیمانہ قتل کی خبرسننی پڑی، جن کے ساتھ پانچ برس کام کے دوران ان کا بہت اچھا تعلق رہا۔ اس دفتر ہی میں سقوط ڈھاکا کے بعد حمید احمد خان کو دل گرفتہ پایا۔ اس وقت موجود تھے، جب ایک بیوروکریٹ نے احمد ندیم قاسمی جیسے نجیب شخص سے بدتمیزی کی ، اوران کے خلاف انکوائری کراتا پھرا، مگر کچھ ثابت نہیں کرسکا۔ قاسمی صاحب پر ''فنون'' کے سلسلے کا کام مجلس کے دفتر میں کرنے کے الزام کو بھی رد کرتے ہیں۔ سمجھتے ہیں کہ یونس جاوید سے بھی کسی قسم کی زیادتی نہیں ہوئی۔
محمد منیرکے خیال میں اس ادارے کی خوش قسمتی رہی کہ بڑے علمی قد کاٹھ کی حامل شخصیات کو معاملات چلانے کا اختیار رہا۔ ان کے نزدیک، ہر ذرہ آفتاب تھا۔ امتیازعلی تاج، حمید احمد خان اور احمد ندیم قاسمی کے برتاؤ کا بڑے اچھے لفظوں میں ذکرکرتے ہیں۔ رویے میں تھوڑی تبدیلی اُنھیں شہزاد احمد کے دور میں محسوس ہوئی، لیکن مجموعی طور پران کے سلوک کی بھی تعریف ہی کرتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ مجلس کو اگرمناسب گرانٹ ملتی رہتی توکارکردگی اور بھی بہتر ہوتی۔
اس ضمن میں احمد ندیم قاسمی نے کوشش تو بہتیری کی، لیکن ارباب اختیار کے کان پرجوں تک نہ رینگی۔ بہ قول ان کے،''شہزاد احمد کا دور اس اعتبارسے مبارک ثابت ہوا کہ گرانٹ میں ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ بڑھوتری ہوئی۔ کتابوں کی اشاعت میں تیزی آگئی۔ سیل میں قابل قدراضافہ ہوا اور تین چارلاکھ کی سالانہ سیل پندرہ سولہ لاکھ تک بھی پہنچ گئی۔ شہزاد احمد کے دور میں لائبریری کو نئی زندگی مل گئی۔ جو امداد ملی اُس کا صحیح طریقے سے استعمال ہوا۔''
مجلس ترقی ادب کے بارے میں بتاتے ہیں،''اس ادارے نے کلاسیکی ادب کی بہترین کتابوں کو دوبارہ شائع کیا۔ تحقیق و تدوین کا بہترین معیار پیش کیا۔ کلب علی خان فائق اور سید عابد علی عابد جیسے عالم لوگوں نے کتابوں پرکام کیا۔ تجارتی مقاصداس ادارے کے کبھی نہیں رہے۔
یہی بات اس بیوروکریٹ کی سمجھ میں نہیں آئی، جو قاسمی صاحب سے اس لیے الجھا کہ اس کے خیال میں ادارے نے اتنے برسوں میں کوئی ترقی نہیں کی۔ قیمتیں بہت مناسب ہیں۔ اگر یہی کتابیں کوئی غیرسرکاری ادارہ چھاپے، تو لوگوں کے لیے انھیں خریدنا مشکل ہوجائے۔ جہاں تک آپ کے اس سوال کا تعلق ہے کہ پہلے کے مقابلے میں اب ہمارے ہاں عام قارئین زیادہ آتے ہیں یا کم، تو بات یہ ہے کہ اس تعداد میں خاص فرق نہیں پڑا۔ ہم نے خریداری کے حساب سے رعایت کا بھی طریقۂ کار وضع کیا ہوا ہے۔''
محمد منیرکا بتانا ہے، کتابوں کی اشاعت سے ہٹ کرمجلس ترقی ادب نے نہایت عمدہ پرچہ''صحیفہ ''بھی نکالا، جو گذشتہ پچاس برس سے بھی زائد عرصے سے شائع ہو رہا ہے۔ سید عابد علی عابد اور ڈاکٹر وحید قریشی جیسے جید لوگ اس رسالے کے ایڈیٹر رہے۔ ''صحیفہ'' کا اشاریہ بھی کتابی صورت میں ہم نے چھاپا ہے، جس سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ کس قدراہم تخلیقات اس رسالے میں چھپتی رہی ہیں۔
مجلس میں گزرے وقت کو زندگی کا بہترین سرمایہ گردانتے ہیں۔ محمد منیر نارووال میں سادھوکی کے علاقے سے تعلق رکھتے ہیں، جس سے چار پانچ میل دور ہی فیض احمد فیض کا آبائی گاؤںکالا قادر ہے۔ بڑی خوشی سے بتایا، وہ بھی انھی کی طرح جٹ برادری سے تعلق رکھتے تھے۔
میٹرک کے بعد لاہور آگئے۔ پنجابی فاضل کرکے فروری 1965 میں مجلس ترقی ادب میں جونیرکلرک بن گئے۔ اس زمانے میں سٹور کیپرکے طور پر چند بندے آزمائے گئے، لیکن وہ چلے نہیں تو پھر یہ ذمہ داری انھیں سونپ دی گئی، جس کو وہ اب تک نبھاتے چلے آرہے ہیں۔ جب عام قارئین کے لیے مجلس کے دفتر سے کتب خرید کا انتظام کیا گیا، تو سیل پوائنٹ کے انچارج کے فرائض کا بار ان ہی کے کندھوں پر آن پڑا۔ 2003ء میں وہ ریٹائر ہوئے، لیکن ان کی دیانت کے باعث کنٹریکٹ میں اضافہ ہوتا چلا گیا، اور اب یہ گیارہواں سال ہے۔ زندگی سے مطمئن ہیں۔ حج کرنے اور روضۂ رسولؐ کی زیارت کی خواہش تھی، وہ بھی الحمداللہ پوری ہوگئی۔