پھانسی کے بعد بھٹو سے متعلق پی ٹی وی لائبریری کی تمام فلمیں تلف کردی گئیں شاہدہ قاضی
آج کے لبرل انتہا پسندوں سے زیادہ انتہا پسند ہیں، درس گاہوں میں پڑھائی جانے والی تاریخ جھوٹ کا پلندا ہے، شاہدہ قاضی
کہانیاں تلاش کرتے ہوئے اگر آپ کی ملاقات ایک قابل تقلید انسان سے ہوجائے، تو اِسے ماسوائے خوش بختی کے اور کیا کہا جاسکتا ہے۔
اور قابل تقلید انسان کون ہوتا ہے؟
وہ، جو معاشرے میں مثبت روایات کی داغ بیل ڈالے۔ اور یہ عمل براہ راست پہل کرنے سے مشروط ہے۔ اور پہل کرنے والا ایک جرات مند انسان ہوتا ہے۔ ایسا انسان، جو ڈگر سے ہٹ کر سوچنے کا ہنر جانتا ہو۔ شاہدہ قاضی میں ہنر بہ درجہ اتم موجود ہے۔ اِسی کے طفیل اُنھوں نے پاکستان میں خواتین صحافت کو نئی بُلندیوں سے ہم کنار کیا۔
ذرا اعزازات پر تو نظر ڈالیں۔ جامعہ کراچی سے صحافت میں ماسٹرز کرنے والی پہلی طالبہ۔ پرنٹ میڈیا کی اولین خاتون رپورٹر۔ پی ٹی وی کی پہلی خاتون نیوزپروڈیوسر۔ کراچی یونیورسٹی کے ماس کمیونیکشن ڈیپارٹمنٹ کی اولین چیئرپرسن۔
پروفیسر شاہدہ قاضی ایک روشن مثال ہیں۔ عملی اور تدریسی؛ دونوں ہی طرز کی صحافت میں منفرد۔ پوری ایک نسل نے اُن سے اکتساب فیض کیا۔ اُن کے سیکڑوں شاگرد میدان صحافت میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔
کتابوں کو بہترین دوست گرداننے والی یہ معلمہ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے درمیان بگڑتے توازن کو گھٹتے مطالعے کا شاخسانہ قرار دیتی ہیں۔ رپورٹنگ کے میدان میں اخبارات کے کردار کو چینلز سے بہتر تصور کرتی ہیں۔ سنسنی خیز رپورٹنگ کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتی ہیں۔ نیوز ریڈنگ کے ڈرامائی طرز پر بھی تنقید کرتی ہیں۔ اور اِس میدان میں پی ٹی وی کو قابل تقلید ٹھہراتی ہیں۔ بے شک روشن خیال، مگر قدامت پسندوں سے زیادہ اُن افراد سے نالاں، جنھوں نے روشن خیالی کو ''سلوگن'' بنا لیا ہے۔
کہنا ہے،''لبرل حلقہ اب رہا ہی کہاں۔ اور آج جو نام نہاد لبرل ہیں، وہ انتہا پسندوں سے زیادہ انتہا پسند ہیں۔ لبرل ازم برداشت اور ذہنی کشادگی کا نام ہے، مگر خود کو لبرل کہنے والے آج دوسروں کی بات سننے کو تیار نہیں۔ ہمارے زمانے میں لیفٹ رائٹ؛ دونوں ہی پارٹیاں ہوتی تھیں، مگر وہ مل بیٹھ کر مسائل حل کرتے۔ اب دونوں طرف برداشت ختم ہوگئی ہے۔''
اُن کے افکار کا ماخذ وہ علمی و ادبی گھرانا ہے، جہاں اُنھوں نے آنکھ کھولی۔ وہاں کتابوں کی فراوانی تھی۔ خواتین کی تعلیم کا تصور سانس لیتا تھا۔ یہ ممتاز اسکالر، علامہ آئی آئی قاضی کا خاندان تھا۔ دادو کے قریب واقع گاؤں ''پاٹ'' اُن کا آبائی وطن ہے۔ ہمایوں نے ہندوستان بدری سے قبل کچھ عرصے پاٹ میں قیام کیا۔ وہاں شادی بھی کی۔ 1944 میں کراچی میں پیدا ہونے والی شاہدہ قاضی کے بہ قول؛ تقسیم کے وقت پاٹ میں خواندگی کی شرح سو فی صد تھی۔
فقط ایک بار وہاں جانا ہوا، اور یہ واقعہ ڈیڑھ برس قبل پیش آیا۔ خوش ہیں کے مرنے سے قبل آبائی وطن دیکھ لیا۔ آئی آئی قاضی کی یادیں، جنھیں وہ اپنا ''گریٹ گرینڈ فادر'' کہتی ہیں، بندرگاہ کے گرد گھومتی ہیں۔ جب کبھی وہ لندن سے آتے، تو شاہدہ صاحبہ اہل خانہ کے ساتھ اُن کے استقبال کے لیے جایا کرتی تھیں۔
والد، قاضی محمد حسن تاجر تھے۔ سماجی سطح پر انتہائی سرگرم۔ وسیع المشرب۔ حلقۂ یاراں میں تمام مذاہب کے ماننے والے شامل۔ شاہدہ صاحبہ کے ذہن میں ہندو، پارسی اور مسیحی گھرانوں کی تقریبات کی یادیں محفوظ ہیں۔ بھٹو، سومرو اور کھوڑو خاندان سے ان کے گھرانے کے دیرینہ مراسم تھے۔
تقسیم کے بعد کی تصویریں بھی یادوں کے البم میں سنبھال رکھی ہیں۔ بنگلے کے اردگرد جھگیاں ڈال دی گئیں۔ کئی خوش حال گھرانے ہجرت کے بعد اُن جھگیوں میں رہنے پر مجبور تھے۔ ایک خاتون ملازمت تلاش کرتی آئیں، تو اُن کی والدہ نے اُسے آیا رکھ لیا۔ اُس کا شوہر کبھی کبھار آیا کرتا۔ پھر پتا چلا کہ وہ صاحب علی گڑھ کے جانے مانے وکیل ہیں۔ قاضی محمد حسن کی معاونت سے اُنھوں نے کراچی میں پریکٹس شروع کی۔
چار بہنوں، ایک بھائی میں وہ چوتھی ہیں۔ بڑی بہن، خاندان میں ایم اے کرنے والی پہلی خاتون۔ باقی دو ڈاکٹر۔ بچپن میں خاصی کم گو اور شرمیلی ہوا کرتی تھیں۔ اوائل عمری میں کتابوں سے تعلق قائم ہوگیا۔ پریوں کی کہانیوں، الف لیلہ کے قصّوں سے ابتدا ہوئی۔ تیزی سے سفر طے کیا۔ ڈکنز اور جین آسٹن کو کم سنی میں پڑھ ڈالا۔ اگاتھا کرسٹی کے ناول توجہ کا محور رہے۔ مطالعے نے لکھنے پر اُکسایا۔ پانچویں جماعت میں جب پسندیدہ شخصیت پر مضمون لکھا، تو پنڈت جواہر لعل نہرو کا چناؤ کرکے سب کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔
سینٹ لورنس کانونٹ اسکول سے میٹرک کرنے کے بعد سینٹ جوزف کالج سے 63ء میں گریجویشن کی سند حاصل کی۔ شوق مطالعہ کراچی یونیورسٹی کے جرنلزم ڈیپارٹمنٹ لے گیا۔ وہاں شریف المجاہد، انعام الرحمان، محسن علی اور زکریا ساجد جیسے اساتذہ کی سرپرستی میسر آئی۔ ڈیپارٹمنٹ کے دوسرے ''بیج'' کا حصہ تھیں۔ اکلوتی طالبہ۔ مشکلات پیش آئی، البتہ اساتذہ کی شفقت نے حوصلہ دیا۔ 65ء میں پہلی پوزیشن کے ساتھ ماسٹرز کیا۔
ابتدا میں ایڈورٹائزنگ کے شعبے نے اپنی سمت کھینچا۔ چند اداروں میں انٹرشپ بھی کی، مگر خود کو ماحول سے ہم آہنگ نہیں کرسکیں۔ کچھ عرصہ ریڈیو پاکستان میں گزرا۔ اس دوران انگریزی اخبارات و رسائل میں مضامین شایع ہوتے رہے۔ ایک روز ''ڈان'' میں اپنا مضمون دینے گئیں، تو سٹی ایڈیٹر، شمیم احمد نے بہ طور رپورٹر کام کرنے کی پیش کش کردی۔ خواتین کا رپورٹنگ میں آنے کا تصور ناپید تھا۔ تھوڑا گھبرا گئیں، مگر والد کی حوصلہ افزائی نے مشکل آسان کردی۔ 65ء میں ''ڈان'' سے منسلک ہوگئیں۔
تن خواہ 425 روپے، جو گریڈ 17 کے افسر کی تن خواہ کے مساوی تھی۔ ''سوشل بیٹ'' ان کے پاس۔ تجربہ شان دار رہا۔ دو برس بعد پی ٹی وی میں اسامیوں کا اعلان ہوا۔ قسمت آزمائی۔ بہ طور نیوز پروڈیوسر انتخاب ہوگیا۔ پی ٹی وی کے ذیلی ادارے ''ایشین ٹیلی ویژن سروس'' سے سفر شروع کیا۔ پھر نیوز روم کا حصہ بن گئیں۔ پی ٹی وی میں اٹھارہ برس گزرے۔ علیحدگی کے سمے سینئر نیوز ایڈیٹر تھیں۔
ٹیچنگ کی جانب آنے کا فیصلہ تدریسی صحافت کے جگت گرو، زکریا ساجد کے اصرار پر کیا۔ 85ء میں بہ طور اسسٹنٹ پروفیسر ذمے داریاں سنبھالیں۔ اپنے تجربات طلبا و طالبات سے بانٹنا یادگار رہا۔ انھیں ہر دل عزیز استاد کا درجہ حاصل تھا۔ کمرہ مباحثوں کا مرکز ہوا کرتا۔ گھر یونیورسٹی کے قریب ہی تھا۔ چھٹی کے بعد اسٹوڈنٹس ساتھ چلے آتے۔ جہاں سے بحث ٹوٹی ہوتی، وہیں سے بات کا سرا پکڑ لیا جاتا۔ پروفیسر صاحبہ کے مطابق اُس زمانے میں استاد سقراطی طرز پر طلبا کی تربیت کیا کرتے تھے، مگر اب وہ ماحول نہیں رہا، نظریاتی ہم آہنگی دم توڑ گئی ہے۔ ''مجھے لبرل سمجھا جاتا ہے، مگر میرے بہترین طلبا میں سے اکثریت کا تعلق جمعیت سے تھا۔ میرے نزدیک لبرل سے مراد ایسا شخص ہے، جس میں برداشت ہو۔ جو دوسرے کی بات سننے کا روادار ہو۔ صوفیوں کا یہی طریق تھا۔ اور میں اُن ہی کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرتی ہوں۔''
97ء میں چیئرپرسن بنیں۔ 2004 میں جامعہ کراچی سے ریٹائر ہونے کے بعد جناح یونیورسٹی فور ویمن، ناظم آباد میں ماس کمیونیکشن ڈیپارٹمنٹ کی چیئرپرسن ہوگئیں۔ وہاں یہ شعبہ نیا نیا تھا۔ اُسے مستحکم کیا۔ جامعہ کراچی میں بھی شام کے اوقات میں کلاسیں لیتی رہیں۔2010 میں انسٹی ٹیوٹ آف بزنس مینجمنٹ کا حصہ بن گئیں۔ 2014 میں جامعہ کراچی لوٹ آئیں۔ اِس وقت وہ بے نظیر بھٹو چیئر کی سربراہ ہیں۔
جامعہ کراچی سے پچاس برس کی سنگت۔ جب پوچھا؛ اُن کے زمانۂ طالب علمی میں اِس درس گاہ کا کیا روپ تھا، تو کہنے لگیں،''اب تو یہ خاصی پھیل گئی ہے۔ اس وقت اتنی گنجان نہیں تھی۔ آرٹس کے بیش تر شعبے ایک ہی عمارت تک محدود تھے۔ اور شعبہ تین چار کمروں پر مشتمل ہوتا۔'' معیار پر بات نکلی، تو کہا؛ کچھ مضامین میں تو معیار بہتر ہوا ہے۔ البتہ چند شعبوں میں فقط مضامین کی مقدار بڑھی ہے۔
ذرایع ابلاغ میں خواتین کا کردار بھی زیر بحث آیا۔ ان کے مطابق یوں تو آج فیلڈ میں خاصی خواتین ہیں، البتہ اخبارات کے رپورٹنگ سیکشن میں خواتین برائے نام ہیں۔ ''الیکٹرانک میڈیا کے برعکس اخبارات میں ان کی تعداد کم ہے۔ میری خواہش ہے کہ خواتین پرنٹ رپورٹنگ کی جانب آئیں۔''
تدریسی صحافت کا وسیع تجربہ رکھنے والی شاہدہ صاحبہ کے مطابق صحافت کے طلبا کی نظری تعلیم کے ساتھ عملی تربیت بھی ضروری ہے۔ یہ کلیہ اساتذہ پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ اسی باعث شعبۂ ابلاغ عامہ کی ذمے داریاں سنبھالنے کے بعد اُن ہی افراد کو تدریس کے لیے چُنا، جو عملی تجربے کے حامل تھے۔ جرنلزم کے استاد کے لیے وہ کم از کم دس برس کا تجربہ لازمی ٹھہراتی ہیں۔
حقوق نسواں کی وہ الم بردار، مگر شکایت ہے کہ آج اِن سرگرمیوں نے فیشن کی شکل اختیار کر لی ہے۔ امیرکبیر گھرانوں کی خواتین، منہگے ہوٹلز میں اکٹھی ہوتی ہیں، مسائل پر بات کرتی ہیں، اور لنچ کے بعد اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جاتی ہیں۔ جس طبقے میں شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے، وہاں جانے کی کوئی زحمت نہیں کرتا۔ ان کے نزدیک خواتین سے زیادہ سماج کے مردوں میں شعور بیدار کرنا ضروری ہے۔
''ہمیں پہلے مرد کو قائل کرنا ہوگا کہ وہ اپنے گھر کی عورت کو حقوق دے۔ این جی اوز فقط خواتین کو ٹارگیٹ کرتی ہیں، اُنھیں بتاتی ہیں کہ آپ کو اپنے حق کے لیے آواز اٹھانی چاہیے۔ اِس سے خواتین کی پوزیشن مزید خراب ہوتی ہے۔ گھروں میں تو مردوں کو حکم رانی ہے۔''
اِس بات کا دُکھ ہے کہ انگریزی ٹی وی چینلز اپنی جگہ نہیں بناسکے۔ چینلز کے درمیان مقابلے کی فضا کی قائل، مگر تصادم کو غلط تصور کرتی ہیں۔ اِس بات کا قلق ہے کہ جس مقصد کے لیے ان کی نسل کے صحافیوں نے جدوجہد کی، کوڑے کھائے، اسے بھلا دیا گیا ہے۔
شکوہ ہے کہ ملکی مسائل حل کرنے کے لیے گذشتہ 65 برسوں میں کوئی اقدام نہیں کیا گیا۔ ''انتہاپسندی، لسانی مسائل، معاشی مشکلات؛ اِن سب میں اضافہ ہوا ہے۔ جمہوریت کا معاملہ وہیں کا وہیں ہے۔ ہر الیکشن کے بعد کوئی نہ کوئی کھڑا ہوجاتا ہے کہ دھاندلی ہوئی ہے۔ حکومت گرانے کے لیے گروپ بن جاتا ہے۔ چھے عشروں میں ہم نے کون سا مسئلہ حل کر لیا۔ ہمیں شترمرغ والی پالیسی اب ترک کرنی ہوگی۔''
پروفیسر صاحبہ نے اپنی پہلی کتاب میں ''ٹیلی ویژن جرنلزم'' کا احاطہ کیا۔ وہ اِس موضوع پر کسی پاکستانی کے قلم سے نکلی اولین نصابی کتاب تھی۔ "Pakistan Studies in Focus" اگلی کتاب، جو ایک نجی ادارے کے طلبا کے لیے لکھی گئی۔ محمدبن قاسم کی آمد کے بجائے موئن جودڑو سے اِس خطے کی تاریخ کا آغاز کیا۔ کہتی ہیں،''پاکستانی درس گاہوں میں پڑھائی جانے والی تاریخ جھوٹ کا پلندا ہے۔
اسے پروپیگنڈے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا۔ تو اُس کتاب میں مَیں نے کوشش کہ ہر دور کی حقیقی تصویر پیش کی جائے۔ صرف خوبیاں نہیں، خامیوں کی بھی نشان دہی ہو۔'' "Black White and Grey" مطبوعہ مضامین کا مجموعہ۔ مزید مضامین کو بھی کتابیں شکل دینے کا ارادہ ہے۔ البتہ زیادہ توجہ یادداشتوں پر مرکوز ہے۔ ارادہ تو پختہ ہے، مگر ابھی یہ فیصلہ نہیں کیا کہ اُنھیں کسی پیرایے میں بیان کیا جائے۔
زندگی میں بہت نشیب و فراز دیکھے، جن کے بارے میں بات کرنا پسند نہیں کرتیں۔ مثبت سوچ اُن کا اصول۔ کینہ، بغض اور حسد سے خود کو دُور رکھتی ہیں۔ تلخ واقعات بھول جانے پر یقین رکھتی ہیں۔ لمحۂ موجود سے محظوظ ہونے کا طریقہ کھوج نکالا ہے۔ شعرا میں غالب، فیض اور راشد کی مداح۔ قرۃ العین حیدر کی معترف۔ روسی ادب کی دل دادہ۔ دوستوفسکی کا ''جرم و سزا'' پسندیدہ ناول۔ پاؤلو کوئلیو کی ابتدائی تحریریں اچھی لگیں، مگر اُن کے نزدیک اب وہ فقط پیسے کے لیے لکھ رہے ہیں۔
کشور کی آواز بھاتی ہے۔ ''پیاسا'' اور ''کاغذ کے پھول'' پسندیدہ فلمیں۔ گرودت کو سراہتی ہیں۔ پاکستانی صحافیوں میں ضمیر نیازی اور منہاج برنا کا نام لیتی ہیں۔ ہر قسم کے کھانے پسند ہیں۔ اپنے ہم عمروں کے برعکس برگر اور پیزا دیکھ کر ناک بھوں نہیں چڑھاتیں۔ عملی زندگی باورچی خانے سے دُور نہیں کرسکی۔ اُن کے ہاتھ کے کھانوں کی بہت تعریف ہوتی تھی، البتہ کوکنگ کا سلسلہ خاصا کم ہوگیا ہے۔
اور قابل تقلید انسان کون ہوتا ہے؟
وہ، جو معاشرے میں مثبت روایات کی داغ بیل ڈالے۔ اور یہ عمل براہ راست پہل کرنے سے مشروط ہے۔ اور پہل کرنے والا ایک جرات مند انسان ہوتا ہے۔ ایسا انسان، جو ڈگر سے ہٹ کر سوچنے کا ہنر جانتا ہو۔ شاہدہ قاضی میں ہنر بہ درجہ اتم موجود ہے۔ اِسی کے طفیل اُنھوں نے پاکستان میں خواتین صحافت کو نئی بُلندیوں سے ہم کنار کیا۔
ذرا اعزازات پر تو نظر ڈالیں۔ جامعہ کراچی سے صحافت میں ماسٹرز کرنے والی پہلی طالبہ۔ پرنٹ میڈیا کی اولین خاتون رپورٹر۔ پی ٹی وی کی پہلی خاتون نیوزپروڈیوسر۔ کراچی یونیورسٹی کے ماس کمیونیکشن ڈیپارٹمنٹ کی اولین چیئرپرسن۔
پروفیسر شاہدہ قاضی ایک روشن مثال ہیں۔ عملی اور تدریسی؛ دونوں ہی طرز کی صحافت میں منفرد۔ پوری ایک نسل نے اُن سے اکتساب فیض کیا۔ اُن کے سیکڑوں شاگرد میدان صحافت میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔
کتابوں کو بہترین دوست گرداننے والی یہ معلمہ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے درمیان بگڑتے توازن کو گھٹتے مطالعے کا شاخسانہ قرار دیتی ہیں۔ رپورٹنگ کے میدان میں اخبارات کے کردار کو چینلز سے بہتر تصور کرتی ہیں۔ سنسنی خیز رپورٹنگ کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتی ہیں۔ نیوز ریڈنگ کے ڈرامائی طرز پر بھی تنقید کرتی ہیں۔ اور اِس میدان میں پی ٹی وی کو قابل تقلید ٹھہراتی ہیں۔ بے شک روشن خیال، مگر قدامت پسندوں سے زیادہ اُن افراد سے نالاں، جنھوں نے روشن خیالی کو ''سلوگن'' بنا لیا ہے۔
کہنا ہے،''لبرل حلقہ اب رہا ہی کہاں۔ اور آج جو نام نہاد لبرل ہیں، وہ انتہا پسندوں سے زیادہ انتہا پسند ہیں۔ لبرل ازم برداشت اور ذہنی کشادگی کا نام ہے، مگر خود کو لبرل کہنے والے آج دوسروں کی بات سننے کو تیار نہیں۔ ہمارے زمانے میں لیفٹ رائٹ؛ دونوں ہی پارٹیاں ہوتی تھیں، مگر وہ مل بیٹھ کر مسائل حل کرتے۔ اب دونوں طرف برداشت ختم ہوگئی ہے۔''
اُن کے افکار کا ماخذ وہ علمی و ادبی گھرانا ہے، جہاں اُنھوں نے آنکھ کھولی۔ وہاں کتابوں کی فراوانی تھی۔ خواتین کی تعلیم کا تصور سانس لیتا تھا۔ یہ ممتاز اسکالر، علامہ آئی آئی قاضی کا خاندان تھا۔ دادو کے قریب واقع گاؤں ''پاٹ'' اُن کا آبائی وطن ہے۔ ہمایوں نے ہندوستان بدری سے قبل کچھ عرصے پاٹ میں قیام کیا۔ وہاں شادی بھی کی۔ 1944 میں کراچی میں پیدا ہونے والی شاہدہ قاضی کے بہ قول؛ تقسیم کے وقت پاٹ میں خواندگی کی شرح سو فی صد تھی۔
فقط ایک بار وہاں جانا ہوا، اور یہ واقعہ ڈیڑھ برس قبل پیش آیا۔ خوش ہیں کے مرنے سے قبل آبائی وطن دیکھ لیا۔ آئی آئی قاضی کی یادیں، جنھیں وہ اپنا ''گریٹ گرینڈ فادر'' کہتی ہیں، بندرگاہ کے گرد گھومتی ہیں۔ جب کبھی وہ لندن سے آتے، تو شاہدہ صاحبہ اہل خانہ کے ساتھ اُن کے استقبال کے لیے جایا کرتی تھیں۔
والد، قاضی محمد حسن تاجر تھے۔ سماجی سطح پر انتہائی سرگرم۔ وسیع المشرب۔ حلقۂ یاراں میں تمام مذاہب کے ماننے والے شامل۔ شاہدہ صاحبہ کے ذہن میں ہندو، پارسی اور مسیحی گھرانوں کی تقریبات کی یادیں محفوظ ہیں۔ بھٹو، سومرو اور کھوڑو خاندان سے ان کے گھرانے کے دیرینہ مراسم تھے۔
تقسیم کے بعد کی تصویریں بھی یادوں کے البم میں سنبھال رکھی ہیں۔ بنگلے کے اردگرد جھگیاں ڈال دی گئیں۔ کئی خوش حال گھرانے ہجرت کے بعد اُن جھگیوں میں رہنے پر مجبور تھے۔ ایک خاتون ملازمت تلاش کرتی آئیں، تو اُن کی والدہ نے اُسے آیا رکھ لیا۔ اُس کا شوہر کبھی کبھار آیا کرتا۔ پھر پتا چلا کہ وہ صاحب علی گڑھ کے جانے مانے وکیل ہیں۔ قاضی محمد حسن کی معاونت سے اُنھوں نے کراچی میں پریکٹس شروع کی۔
چار بہنوں، ایک بھائی میں وہ چوتھی ہیں۔ بڑی بہن، خاندان میں ایم اے کرنے والی پہلی خاتون۔ باقی دو ڈاکٹر۔ بچپن میں خاصی کم گو اور شرمیلی ہوا کرتی تھیں۔ اوائل عمری میں کتابوں سے تعلق قائم ہوگیا۔ پریوں کی کہانیوں، الف لیلہ کے قصّوں سے ابتدا ہوئی۔ تیزی سے سفر طے کیا۔ ڈکنز اور جین آسٹن کو کم سنی میں پڑھ ڈالا۔ اگاتھا کرسٹی کے ناول توجہ کا محور رہے۔ مطالعے نے لکھنے پر اُکسایا۔ پانچویں جماعت میں جب پسندیدہ شخصیت پر مضمون لکھا، تو پنڈت جواہر لعل نہرو کا چناؤ کرکے سب کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔
سینٹ لورنس کانونٹ اسکول سے میٹرک کرنے کے بعد سینٹ جوزف کالج سے 63ء میں گریجویشن کی سند حاصل کی۔ شوق مطالعہ کراچی یونیورسٹی کے جرنلزم ڈیپارٹمنٹ لے گیا۔ وہاں شریف المجاہد، انعام الرحمان، محسن علی اور زکریا ساجد جیسے اساتذہ کی سرپرستی میسر آئی۔ ڈیپارٹمنٹ کے دوسرے ''بیج'' کا حصہ تھیں۔ اکلوتی طالبہ۔ مشکلات پیش آئی، البتہ اساتذہ کی شفقت نے حوصلہ دیا۔ 65ء میں پہلی پوزیشن کے ساتھ ماسٹرز کیا۔
ابتدا میں ایڈورٹائزنگ کے شعبے نے اپنی سمت کھینچا۔ چند اداروں میں انٹرشپ بھی کی، مگر خود کو ماحول سے ہم آہنگ نہیں کرسکیں۔ کچھ عرصہ ریڈیو پاکستان میں گزرا۔ اس دوران انگریزی اخبارات و رسائل میں مضامین شایع ہوتے رہے۔ ایک روز ''ڈان'' میں اپنا مضمون دینے گئیں، تو سٹی ایڈیٹر، شمیم احمد نے بہ طور رپورٹر کام کرنے کی پیش کش کردی۔ خواتین کا رپورٹنگ میں آنے کا تصور ناپید تھا۔ تھوڑا گھبرا گئیں، مگر والد کی حوصلہ افزائی نے مشکل آسان کردی۔ 65ء میں ''ڈان'' سے منسلک ہوگئیں۔
تن خواہ 425 روپے، جو گریڈ 17 کے افسر کی تن خواہ کے مساوی تھی۔ ''سوشل بیٹ'' ان کے پاس۔ تجربہ شان دار رہا۔ دو برس بعد پی ٹی وی میں اسامیوں کا اعلان ہوا۔ قسمت آزمائی۔ بہ طور نیوز پروڈیوسر انتخاب ہوگیا۔ پی ٹی وی کے ذیلی ادارے ''ایشین ٹیلی ویژن سروس'' سے سفر شروع کیا۔ پھر نیوز روم کا حصہ بن گئیں۔ پی ٹی وی میں اٹھارہ برس گزرے۔ علیحدگی کے سمے سینئر نیوز ایڈیٹر تھیں۔
ٹیچنگ کی جانب آنے کا فیصلہ تدریسی صحافت کے جگت گرو، زکریا ساجد کے اصرار پر کیا۔ 85ء میں بہ طور اسسٹنٹ پروفیسر ذمے داریاں سنبھالیں۔ اپنے تجربات طلبا و طالبات سے بانٹنا یادگار رہا۔ انھیں ہر دل عزیز استاد کا درجہ حاصل تھا۔ کمرہ مباحثوں کا مرکز ہوا کرتا۔ گھر یونیورسٹی کے قریب ہی تھا۔ چھٹی کے بعد اسٹوڈنٹس ساتھ چلے آتے۔ جہاں سے بحث ٹوٹی ہوتی، وہیں سے بات کا سرا پکڑ لیا جاتا۔ پروفیسر صاحبہ کے مطابق اُس زمانے میں استاد سقراطی طرز پر طلبا کی تربیت کیا کرتے تھے، مگر اب وہ ماحول نہیں رہا، نظریاتی ہم آہنگی دم توڑ گئی ہے۔ ''مجھے لبرل سمجھا جاتا ہے، مگر میرے بہترین طلبا میں سے اکثریت کا تعلق جمعیت سے تھا۔ میرے نزدیک لبرل سے مراد ایسا شخص ہے، جس میں برداشت ہو۔ جو دوسرے کی بات سننے کا روادار ہو۔ صوفیوں کا یہی طریق تھا۔ اور میں اُن ہی کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرتی ہوں۔''
97ء میں چیئرپرسن بنیں۔ 2004 میں جامعہ کراچی سے ریٹائر ہونے کے بعد جناح یونیورسٹی فور ویمن، ناظم آباد میں ماس کمیونیکشن ڈیپارٹمنٹ کی چیئرپرسن ہوگئیں۔ وہاں یہ شعبہ نیا نیا تھا۔ اُسے مستحکم کیا۔ جامعہ کراچی میں بھی شام کے اوقات میں کلاسیں لیتی رہیں۔2010 میں انسٹی ٹیوٹ آف بزنس مینجمنٹ کا حصہ بن گئیں۔ 2014 میں جامعہ کراچی لوٹ آئیں۔ اِس وقت وہ بے نظیر بھٹو چیئر کی سربراہ ہیں۔
جامعہ کراچی سے پچاس برس کی سنگت۔ جب پوچھا؛ اُن کے زمانۂ طالب علمی میں اِس درس گاہ کا کیا روپ تھا، تو کہنے لگیں،''اب تو یہ خاصی پھیل گئی ہے۔ اس وقت اتنی گنجان نہیں تھی۔ آرٹس کے بیش تر شعبے ایک ہی عمارت تک محدود تھے۔ اور شعبہ تین چار کمروں پر مشتمل ہوتا۔'' معیار پر بات نکلی، تو کہا؛ کچھ مضامین میں تو معیار بہتر ہوا ہے۔ البتہ چند شعبوں میں فقط مضامین کی مقدار بڑھی ہے۔
ذرایع ابلاغ میں خواتین کا کردار بھی زیر بحث آیا۔ ان کے مطابق یوں تو آج فیلڈ میں خاصی خواتین ہیں، البتہ اخبارات کے رپورٹنگ سیکشن میں خواتین برائے نام ہیں۔ ''الیکٹرانک میڈیا کے برعکس اخبارات میں ان کی تعداد کم ہے۔ میری خواہش ہے کہ خواتین پرنٹ رپورٹنگ کی جانب آئیں۔''
تدریسی صحافت کا وسیع تجربہ رکھنے والی شاہدہ صاحبہ کے مطابق صحافت کے طلبا کی نظری تعلیم کے ساتھ عملی تربیت بھی ضروری ہے۔ یہ کلیہ اساتذہ پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ اسی باعث شعبۂ ابلاغ عامہ کی ذمے داریاں سنبھالنے کے بعد اُن ہی افراد کو تدریس کے لیے چُنا، جو عملی تجربے کے حامل تھے۔ جرنلزم کے استاد کے لیے وہ کم از کم دس برس کا تجربہ لازمی ٹھہراتی ہیں۔
حقوق نسواں کی وہ الم بردار، مگر شکایت ہے کہ آج اِن سرگرمیوں نے فیشن کی شکل اختیار کر لی ہے۔ امیرکبیر گھرانوں کی خواتین، منہگے ہوٹلز میں اکٹھی ہوتی ہیں، مسائل پر بات کرتی ہیں، اور لنچ کے بعد اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جاتی ہیں۔ جس طبقے میں شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے، وہاں جانے کی کوئی زحمت نہیں کرتا۔ ان کے نزدیک خواتین سے زیادہ سماج کے مردوں میں شعور بیدار کرنا ضروری ہے۔
''ہمیں پہلے مرد کو قائل کرنا ہوگا کہ وہ اپنے گھر کی عورت کو حقوق دے۔ این جی اوز فقط خواتین کو ٹارگیٹ کرتی ہیں، اُنھیں بتاتی ہیں کہ آپ کو اپنے حق کے لیے آواز اٹھانی چاہیے۔ اِس سے خواتین کی پوزیشن مزید خراب ہوتی ہے۔ گھروں میں تو مردوں کو حکم رانی ہے۔''
اِس بات کا دُکھ ہے کہ انگریزی ٹی وی چینلز اپنی جگہ نہیں بناسکے۔ چینلز کے درمیان مقابلے کی فضا کی قائل، مگر تصادم کو غلط تصور کرتی ہیں۔ اِس بات کا قلق ہے کہ جس مقصد کے لیے ان کی نسل کے صحافیوں نے جدوجہد کی، کوڑے کھائے، اسے بھلا دیا گیا ہے۔
شکوہ ہے کہ ملکی مسائل حل کرنے کے لیے گذشتہ 65 برسوں میں کوئی اقدام نہیں کیا گیا۔ ''انتہاپسندی، لسانی مسائل، معاشی مشکلات؛ اِن سب میں اضافہ ہوا ہے۔ جمہوریت کا معاملہ وہیں کا وہیں ہے۔ ہر الیکشن کے بعد کوئی نہ کوئی کھڑا ہوجاتا ہے کہ دھاندلی ہوئی ہے۔ حکومت گرانے کے لیے گروپ بن جاتا ہے۔ چھے عشروں میں ہم نے کون سا مسئلہ حل کر لیا۔ ہمیں شترمرغ والی پالیسی اب ترک کرنی ہوگی۔''
پروفیسر صاحبہ نے اپنی پہلی کتاب میں ''ٹیلی ویژن جرنلزم'' کا احاطہ کیا۔ وہ اِس موضوع پر کسی پاکستانی کے قلم سے نکلی اولین نصابی کتاب تھی۔ "Pakistan Studies in Focus" اگلی کتاب، جو ایک نجی ادارے کے طلبا کے لیے لکھی گئی۔ محمدبن قاسم کی آمد کے بجائے موئن جودڑو سے اِس خطے کی تاریخ کا آغاز کیا۔ کہتی ہیں،''پاکستانی درس گاہوں میں پڑھائی جانے والی تاریخ جھوٹ کا پلندا ہے۔
اسے پروپیگنڈے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا۔ تو اُس کتاب میں مَیں نے کوشش کہ ہر دور کی حقیقی تصویر پیش کی جائے۔ صرف خوبیاں نہیں، خامیوں کی بھی نشان دہی ہو۔'' "Black White and Grey" مطبوعہ مضامین کا مجموعہ۔ مزید مضامین کو بھی کتابیں شکل دینے کا ارادہ ہے۔ البتہ زیادہ توجہ یادداشتوں پر مرکوز ہے۔ ارادہ تو پختہ ہے، مگر ابھی یہ فیصلہ نہیں کیا کہ اُنھیں کسی پیرایے میں بیان کیا جائے۔
زندگی میں بہت نشیب و فراز دیکھے، جن کے بارے میں بات کرنا پسند نہیں کرتیں۔ مثبت سوچ اُن کا اصول۔ کینہ، بغض اور حسد سے خود کو دُور رکھتی ہیں۔ تلخ واقعات بھول جانے پر یقین رکھتی ہیں۔ لمحۂ موجود سے محظوظ ہونے کا طریقہ کھوج نکالا ہے۔ شعرا میں غالب، فیض اور راشد کی مداح۔ قرۃ العین حیدر کی معترف۔ روسی ادب کی دل دادہ۔ دوستوفسکی کا ''جرم و سزا'' پسندیدہ ناول۔ پاؤلو کوئلیو کی ابتدائی تحریریں اچھی لگیں، مگر اُن کے نزدیک اب وہ فقط پیسے کے لیے لکھ رہے ہیں۔
کشور کی آواز بھاتی ہے۔ ''پیاسا'' اور ''کاغذ کے پھول'' پسندیدہ فلمیں۔ گرودت کو سراہتی ہیں۔ پاکستانی صحافیوں میں ضمیر نیازی اور منہاج برنا کا نام لیتی ہیں۔ ہر قسم کے کھانے پسند ہیں۔ اپنے ہم عمروں کے برعکس برگر اور پیزا دیکھ کر ناک بھوں نہیں چڑھاتیں۔ عملی زندگی باورچی خانے سے دُور نہیں کرسکی۔ اُن کے ہاتھ کے کھانوں کی بہت تعریف ہوتی تھی، البتہ کوکنگ کا سلسلہ خاصا کم ہوگیا ہے۔