انسانی لاش کی حرمت اور اسلام کی روشن تعلیمات
اسلام دوران جنگ بھی انسانی لاش کی بے توقیری کی اجازت نہیں دیتا۔
اللّہ تعالٰی کے نزدیک ایک انسانی جان کی عزت واحترام کعبۃ اللّہ سے بڑھ کر ہے۔ اسی لیے کسی شخص کے لیے جائز نہیں کہ وہ انسانی نعش کے ساتھ بے حرمتی کرے۔ اسلام میں انسانی لاش کی بے حرمتی حرام ہے۔ فوت ہونے کے بعد میت کا احترام، عزت و تکریم اور حرمت کو برقرار رکھنا لازم ہے۔ لاشوں کی بے حرمتی اسلامی اصولوں کے منافی ہے۔ اسلام انسانی حقوق کا سب سے بڑا پاس دار اور محافظ ہے۔
اسلام دوران جنگ بھی انسانی لاش کی بے توقیری کی اجازت نہیں دیتا۔ دین اسلام نے جس طرح انسان کی زندگی میں اس کے ساتھ بدسلوکی اور بے حرمتی کو حرام اور ممنوع قرار دیا ہے اسی طرح بعد از مرگ اس کی حرمت کو برقرار رکھنا بھی لازم ہے۔ کسی انسان کے مرنے کے بعد بھی ہڈی پسلی، نکالنا، توڑنا، تمام چیزیں حرام ہیں، متعدد احادیث مبارکہ میں ہے کہ کسی بھی مردہ کی ہڈی وغیرہ توڑنا، اس کو اذیت دینا ایسا ہی ہے کہ جیسے کسی زندہ کی ہڈی پسلی توڑی جائے جیسا کہ کسی زندہ کو اذیت دی جائے، اس پر وہی گناہ ملے گا جیسے زندہ انسان کی پسلی یا ہڈی توڑنے کا گناہ ہے۔
مسلمان لاش کی تکریم، شریعت کے مقاصد میں سے ہے، جس طرح انسان کی تکریم، تعظیم اورعزت اس کی زندگی میں ہے، اسی طرح عزت وتکریم اس کے مرنے کے بعد اس کی لاش کی ہے۔
دین اسلام اپنے ماننے والوں کو اس بات کی تعلیم دیتا ہے کہ حالتِ امن ہو یا جنگ، سفر ہو یا حضر، مستقل رہائش ہو یا عارضی، کسی طور پر بھی کسی بھی انسان کی جان ومال اور عزت وآبرو کے ساتھ کھلواڑ نہیں کیا جائے، خاص کر جب وہ انسان ایک مومن ومسلمان ہو تو اس کی تکریم اور عزت اور بھی بڑھ جاتی ہے، بلکہ ایک مسلمان کے مال وجان کا تحفظ کرنا دوسرے مسلمان کے بنیادی حقوق میں سے ہے، اور فوت ہونے کے بعد اپنے بھائی کے غسل ، کفن ، ودفن اور جنازہ پڑھنے کا حکم ہے۔ تکریم انسانیت کا اندازہ آپ درج ذیل احادیث نبویؐ سے لگا سکتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے انسان کے مرنے کے بعد اس کی لاش اور قبر کے بارے میں کیا کیا احکامات دیے ہیں۔
لاش کو جلانے کی ممانعت:
شریعت محمدیہ میں کسی میت کو بیماری کے پھیلنے کے خوف یا کسی اور بنا پر جلانا ہرگز جائز نہیں، بلکہ یہ مشرکانہ رسم کا تاثر ہے، میت کو جلانا میت کی سخت توہین ہے۔ احادیثِ مبارکہ میں کسی کو جلانے سے صراحتاً ممانعت آئی ہے۔ اس لیے کہ آگ جہنم کا عذاب ہے، اور آگ میں جلانے کا حق صرف خالقِ کائنات کو حاصل ہے۔ دنیا میں کسی کو بھی آگ میں جلانا جائز نہیں ہے، خواہ وہ کافر ہوں یا جانور وغیرہ چہ جائے کہ مسلمان کی میت کو جلایا جائے۔
حضرت حمزہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللّہﷺ نے ان کو ایک دستہ کا امیر مقرر فرما دیا۔ وہ کہتے ہیں: پس میں نکلا آپ ﷺ نے فرمایا: اگر فلاں شخص کو پائو تو اس کو آگ میں جلا دینا، جب میں چلنے لگا تو آپ ﷺ نے آواز دی، پس میں آپ ﷺ کے پاس آیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اگر تم فلاں شخص کو پائوتو اس کو قتل کرنا، جلانا مت؛ کیوںکہ آگ کا عذاب وہی دے گا جو آگ کا پیدا کرنے والا ہے۔ (سنن ابی دائود: 2673 )
اسی طرح ایک اور مقام پر سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں ایک فوج میں بھیجا اور ہدایت فرمائی کہ اگر فلاں فلاں دو قریشی (ہبا بن اسود اور نافع بن عبد عمر) جن کا آپ نے نام لیا تم کو مل جائیں تو انہیں آگ میں جلا دینا۔ ابوہریرہؓ نے کہا کہ جب ہم آپ ﷺ کی خدمت میں آپ سے رخصت ہونے کی اجازت کے لیے حاضر ہوئے، اس وقت آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں نے تمہیں پہلے ہدایت کی تھی کہ فلاں فلاں قریشی اگر تمہیں مل جائیں تو انہیں آگ میں جلا دینا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ آگ کی سزا دینا اللّہ تعالی کے سوا کسی کے لیے سزاوار نہیں ہے۔ اس لیے اگر وہ تمہیں مل جائیں تو انہیں قتل کردینا (آگ میں نہ جلانا) (صحیح البخاری: 2954)
ہندو مذہب میں ہر میت کو جلا دیا جاتا ہے اور اس کی راکھ دریا برد کر دی جاتی ہے بلکہ ستم بر ستم یہ ہے کہ مرنے والے کی بیوی کو بھی زندہ ہی جل مرنے پر مجبور کیا جاتا رہا ہے، جسے ستی کہا جاتا ہے۔ اسلام نے میت کو جلانا تو کجا اس کی ہڈی توڑنے سے بھی سختی سے منع کیا ہے۔
لاش کو مثلہ کرنے کی ممانعت:
دینِ اسلام نے دشمن کی لاشوں کی بے حرمتی اور ان کے اعضا کی قطع و برید کرنے سے بھی سختی سے منع کیا۔ حضرت عبداللہ بن یزید انصاری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: نبی کریم ﷺ نے لوٹ مار اور مثلہ کرنے سے منع فرمایا ہے۔ (صحیح البخاری: 2474)
امام احمد بن حنبل حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ جب اسلامی لشکروں کو جہاد پر روانہ کرتے تو انہیں واضح طور پر یہ ہدایات فرمایا کرتے تھے: اللّہ کے نام سے اور اللّہ کی راہ میں غزوہ کرو اور اللّہ کا انکار کرنے والوں سے قتال کرو۔ غزوہ کرو، غدر نہ کرو، (غنیمت میں) خیانت نہ کرو، مقتولین کے اعضا نہ کاٹو اور نہ کسی بچے کو قتل کرو۔ (سنن ا بی دائود: 2613)
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللّہ ﷺ اپنے خطبے میں ہمیں صدقہ پر ابھارتے اور مثلہ سے منع فرماتے تھے۔ (سنن ابی دائود: 2667)
مثلہ سے کیا مراد ہے؟
مثلہ سے مراد مقتول کے اعضا کاٹنا ہے۔ یعنی کسی کی ناک کاٹ دی جائے۔ کسی کا کان کاٹ دیا جائے۔ کسی کی آنکھیں نکال دی جائیں ۔ کسی کے ہاتھ اور بازو کاٹ دیے جائیں تاکہ لاش کی تذلیل کی جائے۔ احترام انسانیت کی بنا پر رسول اللّہ ﷺ نے ایسا کرنے سے منع فرمادیا ہے، کیوںکہ رسول اللہ ﷺ تمام جہانوں کے لیے رحمت اور شفقت بناکر بھیجے گئے تھے۔ جنگوں میں مثلہ کا عام رواج تھا۔ کفار اس کو فخر سے کرتے تھے۔ اسلام ایک سنجیدہ دین ہے، اس لیے آپ ﷺ نے جنگوں میں بھی اور دشمنوں کے ساتھ بھی مثلہ سے روک دیا۔ البتہ اگر کسی قاتل نے اپنے مقتول کے ساتھ قتل سے پہلے یا بعد میں ایسا سلوک کیا ہو تو اس کے ساتھ بھی وہی سلوک اسی طرح کیا جائے گا تاکہ قصاص کا حق ادا ہو اور اس فعل کی حوصلہ شکنی ہو۔
لاش کا پوسٹ مارٹم:
خالق کائنات نے انسان کو محترم بنایا ہے، جس کی وجہ سے اس کا احترام ہر حالت میں لازم ہے، خواہ وہ زندہ ہو یا مردہ ہو، پس انسان کے ساتھ ایسا معاملہ کرنا جو اس کی زندگی میں اہانت کا باعث ہو یا جس سے اس کی بے احترامی لازم آتی ہو، اسلام نے اس کی اجازت نہ اس کی زندگی میں دی ہے اور نہ ہی اس کی موت کے بعد دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی عذر شرعی کے بغیر انسانی جسم میں زخم لگانے، کاٹنے یا عضو کے تلف کرنے کی اجازت نہیں دی گئی ہے، اور ظلماً کسی کا عضو تلف کرنے پر قصاص لینے حق عطا فرمایا ہے۔
پوسٹ مارٹم کرنے میں انسانی جسم کی توہین کا لازم آنا ظاہر ہے کہ چیرپھاڑ کی جاتی ہے اور جسم کے گوشت، ہڈی وغیرہ کو بطورنمونہ کے حاصل کیا جاتاہے، اور اس کے لیے اس کے ستر کو کھولا جاتا ہے، اور یہ سب امور ایسے ہیں جو زندگی کی حالت میں باعثِ اہانت اور تکلیف ہیں، یہ مردہ انسان کے لیے بھی باعثِ اہانت وتکلیف دہ ہیں۔ چناںچہ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ مردہ کی ہڈی توڑنا زندہ شخص کی ہڈی توڑنے کی طرح ہے۔ (سنن ابن ماجہ 1320)
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: یعنی کسی مومن کو اس کی موت پر تکلیف دینا اس کی زندگی میں اسے تکلیف پہنچانے کے مترادف ہے۔ (رواہ ابن بی شیب فی المصنف: 3/ 367)
امام طحاوی رحمہ اللہ اس حدیث کے ذیل میں فرماتے ہیں کہ مردہ انسان کی ہڈی کا احترام ایسا ہے جیسا کہ زندہ انسان کا ہے۔ (حاشیہ: موطا امام مالک، ص: 220)
مذکورہ بالا سطور سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جس طرح زندہ انسانوں کے اعضا کو کاٹنے سے تکلیف ہوتی ہے اسی طرح مردہ انسان کو اس کے جسم کے کسی بھی حصے کو کاٹنے سے تکلیف ہوتی ہے۔
پوسٹ مارٹم کی شرعی حیثیت:
اس حدیث کی رو سے مردے کی لاش کا پوسٹ مارٹم (میڈیکل معائنہ) ممنوع قرار پاتا ہے مگر انتہائی مجبوری اور ضرورت کے پیش نظر اس میں گنجائش ہے، یعنی جب سبب ِموت، وجہ ِقتل اور اصل قاتل تک پہنچنے کی شدید ضرورت ہو یا مردہ عورت کے جسم سے زندہ بچہ نکالنے کی ضرورت ہو، وگرنہ محض طبی تجربات کے لیے اس کی گنجائش نہیں۔ اسی طرح سمندری سفر میں اگر کوئی فوت ہوجائے اور قریبی ساحل یا کسی جزیرے تک رسائی سے پہلے اس میں تعفن کا خدشہ ہو تو اسے سمندر کے سپرد کیا جاسکتا۔ ہے۔(المغنی: 439/3، و فقہ السنۃ: 556/1 )
انسانی قبروں کی عزت احترام احادیث کی روشنی میں:
جس طرح انسانی لاش کی تکریم اور عزت کا حکم ہے، اسی طرح عزت وتکریم اس کی قبرکا بھی ہے۔
قبروں پر بیٹھنے کی ممانعت:
رسول ریمﷺ کا ارشاد ہے: لوگو! قبروں پر نہ بیٹھا کرو۔ (تخریج المسند لشعیب الارنائووط: 43 ، باسناد صحیح)
اسی طرح حضرت عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے ایک قبر پر دیکھا تو فرمایا: قبر سے اتر جائو، اس قبر والے کو اذیت نہ دو۔ (السلسلۃ الصحیحۃ : 3266)
قبروں پر بیٹھنا آگ کے انگارے پر بیٹھنے سے بہتر ہے:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تم میں سے کسی شخص کا انگارے پر بیٹھنا جو اس کے کپڑوں کو جلا دے اور اس کا اثر اس کی جلد تک پہنچ جائے تو یہ اس کے لیے کسی قبر پر بیٹھنے سے بہتر ہے۔ (صحیح ابن ماجہ:1567)
قبروں پر چلنے کی ممانعت:
حضرت عقبہ بن عامررضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: مسلمان کی قبر پر چلنے کے مقابلے میں مجھے یہ بات پسند ہے کہ میں انگارے پر یا تلوار پر چلوں یا اپنا جوتا اپنی ٹانگ سے سی لوں، (اسی طرح) سربازار قضائے حاجت کرنا اور قبروں کے درمیان قضائے حاجت کرنا میرے نزدیک برابر ہے۔ (صحیح ابن ماجہ: 1283، وصحیح الجامع : 5038)
قبروں کے ساتھ ٹیک لگانے کی ممانعت:
حضرت عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے مجھے ایک قبر پر ٹیک لگائے ہوئے دیکھا تو فرمایا: اس قبر والے کو تکلیف نہ پہنچا ئو۔ (السلسلۃ الصحیۃح:2960 )
قبروں کو روندنے کی ممانعت:
حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیںکہ نبی کریم ﷺ نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ قبریں پختہ کی جائیں۔ ان پر لکھا جائے اور ان پر عمارت بنائی جائے اور انہیں روندا جائے۔ (صحیح سنن الترمذی :1052)
قبروں کو اکھاڑنے کی ممانعت:
ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے قبروں کواکھاڑنے والے مردوں اور عورتوں پر لعنت بھیجی ہے۔ (صحیح الجامع : 5102، والسلسلۃ الصحیحۃ : 3293)
احادیث مذکورہ بالا میں کس قدر انسانی لاش کی تکریم اور اس کی قبر کا احترام کا حکم دیا گیا ہے، ان احادیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مرنے کے بعد بھی جسمِ انسانی کا تعلق روح کے ساتھ برقرار رہتا ہے۔ اسی طرح انسان کو مرنے کے بعد حیاتِ برزخی حاصل ہوتی ہے، اسی لیے زندہ انسانوں کو حکم دیا گیا کہ وہ قبرستان جائیں تو السلام علیکم یا اہل القبور کے الفاظ کہہ کر اہلِ قبرستان کو سلام کہیں۔
میت کی تعریف کریں:
کسی بھی ایسے آدمی کی برائی نہیں کرنی چاہیے جس کا انتقال ہوچکا ہو۔ چاہے اس کے اعمال کیسے ہی رہے ہوں، کیوں کہ مردہ انسان کی غیبت کرنا نہایت ہی قابل گرفت جرم ہے، چونکہ اگر زندہ انسان کی غیبت کی تو ممکن ہے کہ اس سے معافی تلافی کرالے؛ لیکن مردہ سے تو یہ بھی ممکن نہیں۔ اور یہ بات بھی ہے کہ کسی انسان کی کام یابی اور ناکامی اس کے اعمال سے براہ راست نہیں بلکہ نہ جانے اللّہ تبارک و تعالی کو کس انسان کی کون سی ادا پسند آجائے، جس سے خوش ہوکر اللّہ تعالٰی اس کے گناہوں کو معاف فرمادیں، اس لیے کسی مردہ انسان پر لعنت کرنا جائز نہیں۔
عبرت کا پہلو:
قارئین کرام ! آئے دن ہمیں یہ خبر ملتی ہے کہ فلاں مقام سے ایک نامعلوم لاش ملی ہے۔ بے یار ومددگار پڑی ان انسانی لاشوں میں ہمارے لیے عبرت کا پہلو یہ ہے کہ دنیا میں کوئی کتنا اہم کیوں نہ ہو، مگر موت ایک اٹل حقیقت ہے، لیکن کسی انسان کو یہ معلوم نہیں کہ وہ کہاں مرے گا، کیسے موت واقع ہوگی، انسان کو اپنے انجام کا کوئی خبر نہیں، ممکن ہے کہ کسی کو کفن نصیب نہ ہو، کسی کو قبر نصیب نہ ہو، کسی کا جنازہ ہی نہ پڑھا جائے، کسی کے حق میں دعائے مغفرت کا موقع ہی نہ آئے۔ کسی کی موت کا کوئی کسی کو کوئی علم ہی نہ ہو، اور کسی کی لاش کو کوئی لینے والا ہی نہ ملے۔
لہٰذا ہمیں اپنی موت اور اپنے انجام کی فکر کرنی چاہیے کہ مرنے کے بعد ہمارا انجام کیا ہوگا؟ ہم سب کو موت کو گلے لگانا ہے، جسم سے روح کے الگ ہونے کے بعد ہمارے جسم کے ساتھ کیا ہوگا؟ کسی کو کچھ علم نہیں، لہٰذا اللّہ تعالٰی سے ہر وقت دنیا وآخرت کی عافیت کا سوال کرتے رہنا چاہیے۔ اللّہ تعالیٰ ہمیںایمان وسلامتی والی زندگی اور ایمان والی موت نصیب فرمائے اور نیک لوگوں کے ساتھ قبروحشر اور جنت میں جگہ نصیب فرمائے (آمین )
اسلام دوران جنگ بھی انسانی لاش کی بے توقیری کی اجازت نہیں دیتا۔ دین اسلام نے جس طرح انسان کی زندگی میں اس کے ساتھ بدسلوکی اور بے حرمتی کو حرام اور ممنوع قرار دیا ہے اسی طرح بعد از مرگ اس کی حرمت کو برقرار رکھنا بھی لازم ہے۔ کسی انسان کے مرنے کے بعد بھی ہڈی پسلی، نکالنا، توڑنا، تمام چیزیں حرام ہیں، متعدد احادیث مبارکہ میں ہے کہ کسی بھی مردہ کی ہڈی وغیرہ توڑنا، اس کو اذیت دینا ایسا ہی ہے کہ جیسے کسی زندہ کی ہڈی پسلی توڑی جائے جیسا کہ کسی زندہ کو اذیت دی جائے، اس پر وہی گناہ ملے گا جیسے زندہ انسان کی پسلی یا ہڈی توڑنے کا گناہ ہے۔
مسلمان لاش کی تکریم، شریعت کے مقاصد میں سے ہے، جس طرح انسان کی تکریم، تعظیم اورعزت اس کی زندگی میں ہے، اسی طرح عزت وتکریم اس کے مرنے کے بعد اس کی لاش کی ہے۔
دین اسلام اپنے ماننے والوں کو اس بات کی تعلیم دیتا ہے کہ حالتِ امن ہو یا جنگ، سفر ہو یا حضر، مستقل رہائش ہو یا عارضی، کسی طور پر بھی کسی بھی انسان کی جان ومال اور عزت وآبرو کے ساتھ کھلواڑ نہیں کیا جائے، خاص کر جب وہ انسان ایک مومن ومسلمان ہو تو اس کی تکریم اور عزت اور بھی بڑھ جاتی ہے، بلکہ ایک مسلمان کے مال وجان کا تحفظ کرنا دوسرے مسلمان کے بنیادی حقوق میں سے ہے، اور فوت ہونے کے بعد اپنے بھائی کے غسل ، کفن ، ودفن اور جنازہ پڑھنے کا حکم ہے۔ تکریم انسانیت کا اندازہ آپ درج ذیل احادیث نبویؐ سے لگا سکتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے انسان کے مرنے کے بعد اس کی لاش اور قبر کے بارے میں کیا کیا احکامات دیے ہیں۔
لاش کو جلانے کی ممانعت:
شریعت محمدیہ میں کسی میت کو بیماری کے پھیلنے کے خوف یا کسی اور بنا پر جلانا ہرگز جائز نہیں، بلکہ یہ مشرکانہ رسم کا تاثر ہے، میت کو جلانا میت کی سخت توہین ہے۔ احادیثِ مبارکہ میں کسی کو جلانے سے صراحتاً ممانعت آئی ہے۔ اس لیے کہ آگ جہنم کا عذاب ہے، اور آگ میں جلانے کا حق صرف خالقِ کائنات کو حاصل ہے۔ دنیا میں کسی کو بھی آگ میں جلانا جائز نہیں ہے، خواہ وہ کافر ہوں یا جانور وغیرہ چہ جائے کہ مسلمان کی میت کو جلایا جائے۔
حضرت حمزہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللّہﷺ نے ان کو ایک دستہ کا امیر مقرر فرما دیا۔ وہ کہتے ہیں: پس میں نکلا آپ ﷺ نے فرمایا: اگر فلاں شخص کو پائو تو اس کو آگ میں جلا دینا، جب میں چلنے لگا تو آپ ﷺ نے آواز دی، پس میں آپ ﷺ کے پاس آیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اگر تم فلاں شخص کو پائوتو اس کو قتل کرنا، جلانا مت؛ کیوںکہ آگ کا عذاب وہی دے گا جو آگ کا پیدا کرنے والا ہے۔ (سنن ابی دائود: 2673 )
اسی طرح ایک اور مقام پر سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں ایک فوج میں بھیجا اور ہدایت فرمائی کہ اگر فلاں فلاں دو قریشی (ہبا بن اسود اور نافع بن عبد عمر) جن کا آپ نے نام لیا تم کو مل جائیں تو انہیں آگ میں جلا دینا۔ ابوہریرہؓ نے کہا کہ جب ہم آپ ﷺ کی خدمت میں آپ سے رخصت ہونے کی اجازت کے لیے حاضر ہوئے، اس وقت آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں نے تمہیں پہلے ہدایت کی تھی کہ فلاں فلاں قریشی اگر تمہیں مل جائیں تو انہیں آگ میں جلا دینا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ آگ کی سزا دینا اللّہ تعالی کے سوا کسی کے لیے سزاوار نہیں ہے۔ اس لیے اگر وہ تمہیں مل جائیں تو انہیں قتل کردینا (آگ میں نہ جلانا) (صحیح البخاری: 2954)
ہندو مذہب میں ہر میت کو جلا دیا جاتا ہے اور اس کی راکھ دریا برد کر دی جاتی ہے بلکہ ستم بر ستم یہ ہے کہ مرنے والے کی بیوی کو بھی زندہ ہی جل مرنے پر مجبور کیا جاتا رہا ہے، جسے ستی کہا جاتا ہے۔ اسلام نے میت کو جلانا تو کجا اس کی ہڈی توڑنے سے بھی سختی سے منع کیا ہے۔
لاش کو مثلہ کرنے کی ممانعت:
دینِ اسلام نے دشمن کی لاشوں کی بے حرمتی اور ان کے اعضا کی قطع و برید کرنے سے بھی سختی سے منع کیا۔ حضرت عبداللہ بن یزید انصاری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: نبی کریم ﷺ نے لوٹ مار اور مثلہ کرنے سے منع فرمایا ہے۔ (صحیح البخاری: 2474)
امام احمد بن حنبل حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ جب اسلامی لشکروں کو جہاد پر روانہ کرتے تو انہیں واضح طور پر یہ ہدایات فرمایا کرتے تھے: اللّہ کے نام سے اور اللّہ کی راہ میں غزوہ کرو اور اللّہ کا انکار کرنے والوں سے قتال کرو۔ غزوہ کرو، غدر نہ کرو، (غنیمت میں) خیانت نہ کرو، مقتولین کے اعضا نہ کاٹو اور نہ کسی بچے کو قتل کرو۔ (سنن ا بی دائود: 2613)
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللّہ ﷺ اپنے خطبے میں ہمیں صدقہ پر ابھارتے اور مثلہ سے منع فرماتے تھے۔ (سنن ابی دائود: 2667)
مثلہ سے کیا مراد ہے؟
مثلہ سے مراد مقتول کے اعضا کاٹنا ہے۔ یعنی کسی کی ناک کاٹ دی جائے۔ کسی کا کان کاٹ دیا جائے۔ کسی کی آنکھیں نکال دی جائیں ۔ کسی کے ہاتھ اور بازو کاٹ دیے جائیں تاکہ لاش کی تذلیل کی جائے۔ احترام انسانیت کی بنا پر رسول اللّہ ﷺ نے ایسا کرنے سے منع فرمادیا ہے، کیوںکہ رسول اللہ ﷺ تمام جہانوں کے لیے رحمت اور شفقت بناکر بھیجے گئے تھے۔ جنگوں میں مثلہ کا عام رواج تھا۔ کفار اس کو فخر سے کرتے تھے۔ اسلام ایک سنجیدہ دین ہے، اس لیے آپ ﷺ نے جنگوں میں بھی اور دشمنوں کے ساتھ بھی مثلہ سے روک دیا۔ البتہ اگر کسی قاتل نے اپنے مقتول کے ساتھ قتل سے پہلے یا بعد میں ایسا سلوک کیا ہو تو اس کے ساتھ بھی وہی سلوک اسی طرح کیا جائے گا تاکہ قصاص کا حق ادا ہو اور اس فعل کی حوصلہ شکنی ہو۔
لاش کا پوسٹ مارٹم:
خالق کائنات نے انسان کو محترم بنایا ہے، جس کی وجہ سے اس کا احترام ہر حالت میں لازم ہے، خواہ وہ زندہ ہو یا مردہ ہو، پس انسان کے ساتھ ایسا معاملہ کرنا جو اس کی زندگی میں اہانت کا باعث ہو یا جس سے اس کی بے احترامی لازم آتی ہو، اسلام نے اس کی اجازت نہ اس کی زندگی میں دی ہے اور نہ ہی اس کی موت کے بعد دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی عذر شرعی کے بغیر انسانی جسم میں زخم لگانے، کاٹنے یا عضو کے تلف کرنے کی اجازت نہیں دی گئی ہے، اور ظلماً کسی کا عضو تلف کرنے پر قصاص لینے حق عطا فرمایا ہے۔
پوسٹ مارٹم کرنے میں انسانی جسم کی توہین کا لازم آنا ظاہر ہے کہ چیرپھاڑ کی جاتی ہے اور جسم کے گوشت، ہڈی وغیرہ کو بطورنمونہ کے حاصل کیا جاتاہے، اور اس کے لیے اس کے ستر کو کھولا جاتا ہے، اور یہ سب امور ایسے ہیں جو زندگی کی حالت میں باعثِ اہانت اور تکلیف ہیں، یہ مردہ انسان کے لیے بھی باعثِ اہانت وتکلیف دہ ہیں۔ چناںچہ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ مردہ کی ہڈی توڑنا زندہ شخص کی ہڈی توڑنے کی طرح ہے۔ (سنن ابن ماجہ 1320)
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: یعنی کسی مومن کو اس کی موت پر تکلیف دینا اس کی زندگی میں اسے تکلیف پہنچانے کے مترادف ہے۔ (رواہ ابن بی شیب فی المصنف: 3/ 367)
امام طحاوی رحمہ اللہ اس حدیث کے ذیل میں فرماتے ہیں کہ مردہ انسان کی ہڈی کا احترام ایسا ہے جیسا کہ زندہ انسان کا ہے۔ (حاشیہ: موطا امام مالک، ص: 220)
مذکورہ بالا سطور سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جس طرح زندہ انسانوں کے اعضا کو کاٹنے سے تکلیف ہوتی ہے اسی طرح مردہ انسان کو اس کے جسم کے کسی بھی حصے کو کاٹنے سے تکلیف ہوتی ہے۔
پوسٹ مارٹم کی شرعی حیثیت:
اس حدیث کی رو سے مردے کی لاش کا پوسٹ مارٹم (میڈیکل معائنہ) ممنوع قرار پاتا ہے مگر انتہائی مجبوری اور ضرورت کے پیش نظر اس میں گنجائش ہے، یعنی جب سبب ِموت، وجہ ِقتل اور اصل قاتل تک پہنچنے کی شدید ضرورت ہو یا مردہ عورت کے جسم سے زندہ بچہ نکالنے کی ضرورت ہو، وگرنہ محض طبی تجربات کے لیے اس کی گنجائش نہیں۔ اسی طرح سمندری سفر میں اگر کوئی فوت ہوجائے اور قریبی ساحل یا کسی جزیرے تک رسائی سے پہلے اس میں تعفن کا خدشہ ہو تو اسے سمندر کے سپرد کیا جاسکتا۔ ہے۔(المغنی: 439/3، و فقہ السنۃ: 556/1 )
انسانی قبروں کی عزت احترام احادیث کی روشنی میں:
جس طرح انسانی لاش کی تکریم اور عزت کا حکم ہے، اسی طرح عزت وتکریم اس کی قبرکا بھی ہے۔
قبروں پر بیٹھنے کی ممانعت:
رسول ریمﷺ کا ارشاد ہے: لوگو! قبروں پر نہ بیٹھا کرو۔ (تخریج المسند لشعیب الارنائووط: 43 ، باسناد صحیح)
اسی طرح حضرت عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے ایک قبر پر دیکھا تو فرمایا: قبر سے اتر جائو، اس قبر والے کو اذیت نہ دو۔ (السلسلۃ الصحیحۃ : 3266)
قبروں پر بیٹھنا آگ کے انگارے پر بیٹھنے سے بہتر ہے:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تم میں سے کسی شخص کا انگارے پر بیٹھنا جو اس کے کپڑوں کو جلا دے اور اس کا اثر اس کی جلد تک پہنچ جائے تو یہ اس کے لیے کسی قبر پر بیٹھنے سے بہتر ہے۔ (صحیح ابن ماجہ:1567)
قبروں پر چلنے کی ممانعت:
حضرت عقبہ بن عامررضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: مسلمان کی قبر پر چلنے کے مقابلے میں مجھے یہ بات پسند ہے کہ میں انگارے پر یا تلوار پر چلوں یا اپنا جوتا اپنی ٹانگ سے سی لوں، (اسی طرح) سربازار قضائے حاجت کرنا اور قبروں کے درمیان قضائے حاجت کرنا میرے نزدیک برابر ہے۔ (صحیح ابن ماجہ: 1283، وصحیح الجامع : 5038)
قبروں کے ساتھ ٹیک لگانے کی ممانعت:
حضرت عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے مجھے ایک قبر پر ٹیک لگائے ہوئے دیکھا تو فرمایا: اس قبر والے کو تکلیف نہ پہنچا ئو۔ (السلسلۃ الصحیۃح:2960 )
قبروں کو روندنے کی ممانعت:
حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیںکہ نبی کریم ﷺ نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ قبریں پختہ کی جائیں۔ ان پر لکھا جائے اور ان پر عمارت بنائی جائے اور انہیں روندا جائے۔ (صحیح سنن الترمذی :1052)
قبروں کو اکھاڑنے کی ممانعت:
ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے قبروں کواکھاڑنے والے مردوں اور عورتوں پر لعنت بھیجی ہے۔ (صحیح الجامع : 5102، والسلسلۃ الصحیحۃ : 3293)
احادیث مذکورہ بالا میں کس قدر انسانی لاش کی تکریم اور اس کی قبر کا احترام کا حکم دیا گیا ہے، ان احادیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مرنے کے بعد بھی جسمِ انسانی کا تعلق روح کے ساتھ برقرار رہتا ہے۔ اسی طرح انسان کو مرنے کے بعد حیاتِ برزخی حاصل ہوتی ہے، اسی لیے زندہ انسانوں کو حکم دیا گیا کہ وہ قبرستان جائیں تو السلام علیکم یا اہل القبور کے الفاظ کہہ کر اہلِ قبرستان کو سلام کہیں۔
میت کی تعریف کریں:
کسی بھی ایسے آدمی کی برائی نہیں کرنی چاہیے جس کا انتقال ہوچکا ہو۔ چاہے اس کے اعمال کیسے ہی رہے ہوں، کیوں کہ مردہ انسان کی غیبت کرنا نہایت ہی قابل گرفت جرم ہے، چونکہ اگر زندہ انسان کی غیبت کی تو ممکن ہے کہ اس سے معافی تلافی کرالے؛ لیکن مردہ سے تو یہ بھی ممکن نہیں۔ اور یہ بات بھی ہے کہ کسی انسان کی کام یابی اور ناکامی اس کے اعمال سے براہ راست نہیں بلکہ نہ جانے اللّہ تبارک و تعالی کو کس انسان کی کون سی ادا پسند آجائے، جس سے خوش ہوکر اللّہ تعالٰی اس کے گناہوں کو معاف فرمادیں، اس لیے کسی مردہ انسان پر لعنت کرنا جائز نہیں۔
عبرت کا پہلو:
قارئین کرام ! آئے دن ہمیں یہ خبر ملتی ہے کہ فلاں مقام سے ایک نامعلوم لاش ملی ہے۔ بے یار ومددگار پڑی ان انسانی لاشوں میں ہمارے لیے عبرت کا پہلو یہ ہے کہ دنیا میں کوئی کتنا اہم کیوں نہ ہو، مگر موت ایک اٹل حقیقت ہے، لیکن کسی انسان کو یہ معلوم نہیں کہ وہ کہاں مرے گا، کیسے موت واقع ہوگی، انسان کو اپنے انجام کا کوئی خبر نہیں، ممکن ہے کہ کسی کو کفن نصیب نہ ہو، کسی کو قبر نصیب نہ ہو، کسی کا جنازہ ہی نہ پڑھا جائے، کسی کے حق میں دعائے مغفرت کا موقع ہی نہ آئے۔ کسی کی موت کا کوئی کسی کو کوئی علم ہی نہ ہو، اور کسی کی لاش کو کوئی لینے والا ہی نہ ملے۔
لہٰذا ہمیں اپنی موت اور اپنے انجام کی فکر کرنی چاہیے کہ مرنے کے بعد ہمارا انجام کیا ہوگا؟ ہم سب کو موت کو گلے لگانا ہے، جسم سے روح کے الگ ہونے کے بعد ہمارے جسم کے ساتھ کیا ہوگا؟ کسی کو کچھ علم نہیں، لہٰذا اللّہ تعالٰی سے ہر وقت دنیا وآخرت کی عافیت کا سوال کرتے رہنا چاہیے۔ اللّہ تعالیٰ ہمیںایمان وسلامتی والی زندگی اور ایمان والی موت نصیب فرمائے اور نیک لوگوں کے ساتھ قبروحشر اور جنت میں جگہ نصیب فرمائے (آمین )