مشرق وسطیٰ کی بگڑتی صورتحال

زمرد نقوی  پير 7 اکتوبر 2024
www.facebook.com/shah Naqvi

www.facebook.com/shah Naqvi

صدر بائیڈن نے وائٹ ہاؤس میں پریس بریفنگ میں رپورٹروں کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے اسرائیل کو نصیحت کی کہ وہ ایران آئل فیلڈز پر حملہ نہ کرے بلکہ اس کے بجائے دوسرے متبادلات پر غور کرے۔اس کے ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی بتایا کہ اسرائیل ابھی تک فیصلہ نہیں کر سکا کہ وہ ایرانی حملے کا کس طرح جواب دے۔

اسرائیل کی اعلیٰ قیادت میں مشورے جاری ہیں لیکن اس کا نتیجہ ابھی تک نہیں نکل سکا۔ بائیڈن نے کہا کہ میں اگر ان کی جگہ ہوتا تو ایرانی آئل فیلڈز پر حملے کے بجائے کچھ اور سوچ رہا ہوتا۔ ان سے یہ بھی پوچھا گیا کہ اسرائیلی وزیر اعظم 4نومبرکے امریکی الیکشن پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہے ہیں اس کے جواب میں انھوں نے کہا کہ کسی امریکی انتظامیہ نے مجھ سے زیادہ اسرائیل کی مدد نہیں کی۔ امریکی الیکشن میں ڈیموکریٹ پارٹی کی پوزیشن نازک ہے، وجہ اس کی یہ ہے کہ بائیڈن انتظامیہ غزہ میں جنگ بندی کے حوالے سے اب تک مکمل ناکام رہی ہے۔

امریکی مسلمانوں نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا ہے کہ اس دفعہ وہ گزشتہ امریکی الیکشن کی طرح ڈیموکریٹ کو ووٹ نہیں دیں گے۔ افسوس ناک حقیقت یہ ہے ری پبلکن ہوں یا ڈیموکریٹ دونوں میں امریکا میں موجود اسرائیلی لابی کی خوشنودی حاصل کرنے کی بازی لگی ہوئی ہے تاکہ الیکشن جیتا جا سکے۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت بائیڈن کا حالیہ بیان ہے جس میں انھوں نے کہا کہ کسی امریکی انتظامیہ نے اسرائیل کی اتنی مدد نہیں کی جتنی میں نے کی ہے۔

مصدقہ ایرانی ذرایع کے مطابق اسماعیل ہانیہ کی شہادت کے بعد ایران فوری طور پر اسرائیل پر حملہ کرنے کے لیے تیار تھا۔ لیکن امریکا اور قطر وغیرہ کی طرف سے ایران کو یہ یقین دہانی کرائی گئی کہ غزہ میں جنگ بندی ہونے والی ہے۔ اس بارے میں مذاکرات فیصلہ کن مرحلہ میں ہیں۔اس صورت حال میں اگر ایران اسرائیل پر حملہ کرے گا توجنگ بندی کی کوششیں سبوتاژ ہو جائیں گی اور اس کا ذمے دار ایران ہو گا ۔ اس طرح ایران کو دھوکا دے کر اسرائیل پر حملہ کرنے سے باز رکھا گیا،اس مہلت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سید حسن نصراﷲ کو ٹارگٹ کیا گیا۔

صدر بائیڈن کے اس اعتراف کے بعد اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں رہا کہ اسماعیل ہانیہ ہوں یا لبنانی تنظیم حزب اﷲ کے سربراہ سید حسن نصراﷲ ان لوگوں کو امریکی اسرائیلی جوائنٹ آپریشن کے ذریعہ ہٹ کیا گیا۔اس کے پیچھے امریکا اور اسرائیل کی مشترکہ ٹیکنالوجی تھی ہر دو سیکنڈ کے بعد ایک ہی ٹارگٹ 85بلاک بسٹر بم امریکا ہی کا تحفہ تھے۔ پچھلے ایک برس میں دہشت گرد اسرائیل کو امریکا نے ہر طرح کی فوجی مالی اور ٹیکنالوجیکل مدد دی۔ اس مدد میں اس کے اتحادی فرانس، برطانیہ ،جرمنی بھی پیچھے نہ رہے۔ سوال یہ ہے کہ امریکا مشرق وسطی میں اسرائیل کے ذریعے دہشت گردی کیوں کرا رہا ہے؟ مقصد صرف ایک ہی ہے حماس حزب اﷲ ،ایران کا خاتمہ کر کے پورے مشرق وسطی پرقبضہ کیا جائے۔

امریکا کا یہ منصوبہ بہت پرانا ہے پہلی دفعہ اس پر باقاعدہ عملدرآمد 2006میں نئے مشرق وسطی کی پیدائش کے حوالے سے کیا گیا جس میں لبنان کو فتح کرتے ہوئے شام سے گزرتے ہوئے ایران پہنچ کر وہاں کی انقلابی حکومت کا تختہ الٹنا تھا،لیکن حزب اﷲ کے سربراہ حسن نصراﷲ کے ہاتھوں اسرائیل کی عبرت ناک شکست سے یہ منصوبہ پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکا۔ لیکن یہ منصوبہ ختم نہیں ہوا تھا اس پر کام ہوتا رہا۔ 18سال بعد دہشت گرد اسرائیل کے ذریعے اب پھر اس پر عملدرآمد کرایا جا رہا ہے ۔ عرب ریاستوں نے ایران پر فضائی حملے کے لیے اسرائیل کو اپنی فضائی حدود استعمال کرنے سے منع کر دیا ہے۔

ایران کی ایٹمی تنصیبات پر حملہ کے لیے امریکا اسرائیل کو اجازت دینے کے لیے ہرگز تیار نہیں ۔ایک تو یہ تنصیبات دور دراز جگہوں پر مختلف مقامات پر پھیلی ہوئی ہیں۔ ان کا مکمل خاتمہ نا ممکن ہے۔ دوسرے ایٹمی تباہی سے پیدا ہونے والے تابکاری اثرات سے نہ صرف پاکستان اور ہمسایہ ممالک بلکہ باقی دنیا بھی بچ نہ پائے گی۔

ایران اس قابل ہو گیا ہے کہ کم از کم وقت میں ایک ایٹم بم بنا سکے، اگر یہ ایٹم بم اسرائیل پر گرا تو نہ اسرائیل رہے گا اور نہ اس کے یہودی عوام۔سب کے سب نیست و نابود ہو جائیں گے۔ اگر ایران اب تک ایٹم بم بنا چکا ہوتا تو کبھی فلسطینیوں کا قتل عام ،نسل کشی نہ ہو رہی ہوتی جو اب ہو رہی ہے۔ ایران کی آئل فیلڈز پر حملے کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ خلیج کی کوئی بھی آئل فیلڈ سلامت نہیں رہے گی۔اس لے امریکا اس آپشن کے بھی خلاف ہے۔ خلیج میں امریکا کے جنگی جہاز اور 30ہزار فوجی موجود ہیں۔ ان سب کو اپنی جان بچانا مشکل ہو جائے گا۔

تمام تردہشت گردی کے باوجود اسرائیل کا رقبہ بہت محدود ہے ۔لامحدود مدت تک وہ جنگ نہیں لڑسکتا۔ جب کہ ایران بہت بڑ ے رقبے والا ملک ہے۔ مدتوں وہ جنگ لڑ سکتے ہیں۔ گزشتہ45برسوں سے وہ امریکا جیسے دہشت گرد ملک کے خلاف بلواسطہ جنگ لڑ رہے ہیں۔ اس  کے وہ عادی ہیں،وہ بدترین حالات میں بھی جنگ لڑنے کے عادی ہیں،اس دہشت گردی کی جنگ میں لاکھوں ایرانی عوام شہید ہو چکے ہیں۔ مدتوں سے بدترین معاشی حالات کے باوجود ایران کے اسرائیل پر حملہ کے بعد لاکھوں کی تعداد میں ایرانی سڑکوں پر آ کر خوشی کا اظہار کر رہے ہیں۔

اسی خوشی کا اظہار فلسطینی، عراقی ،شامی اور یمنی مجاہدین بھی کر رہے ہیں۔ کبھی آپ نے سنا کہ فلسطینی عوام نے اس جنگ کے خلاف حماس کے مجاہدین یا ایران کے خلاف احتجاج کیا ہو ۔وہ ایران جس نے فلسطینیوں کی حمایت میں اپنا سب کچھ تباہ و برباد کرا دیا لیکن امریکا جیسی طاقت کے تباہ کن دباؤ کے باوجود فلسطینی عوام کی حمایت سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹا۔بے بنیاد تجزیوں اور بے پرکی اڑانے والے پاکستانی عوام کو گمراہ نہ کریں۔

عالمی شہرت کے حامل سابق امریکا وزیر خارجہ ہنری کسنجرجو ایک بڑے دانشور اور خود بھی یہودی تھے ان کا ایک دلچسپ تبصرہ سننے کے لائق ہے کہ ” آخر یہودیوں نے کچھ تو کیا ہو گا کہ دنیا انھیں پچھلے دو ہزار سال سے تکلیف دے رہی ہے”اس پر اسرائیلی حکومت ان سے سخت خفا ہو گئی،جو بات دنیا خاص طور پر مسلمانوں کو ذہن نشیں کر لینی چاہیے کہ دہشت گرد دنیا میں کوئی اور نہیں صرف امریکا ہے ۔ حال ہی میں ایک امریکی ریٹائرڈ جنرل نے کہا ہے کہ امریکا اپنے قیام سے اب تک کروڑوں انسانوں کو قتل کر چکا ہے۔

اسرائیل کے رد عمل کے حوالے سے فوری اہم تاریخیں 8-9سے 12-13اکتوبر ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔