پاک بھارت تعلقات کا بند دروازہ کھلنے کا امکان
شنگھائی تعاون تنظیم میں دُنیا کی تین ارب سے زائد آبادی شامل ہے ۔
15اور16اکتوبر2024کو،وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ''شنگھائی تعاون تنظیم''( جسے مختصر طور پر SCOکے نام سے یاد کیا جاتا ہے)کی25 ویں دو روزہ سربراہی کانفرنس ہو رہی ہے ۔ تقریباً تین عشرے بعد پاکستان میں عالمی نوعیت کا ایک بڑا ایونٹ ہورہا ہے ۔
پاکستان ہی کے لیے نہیں بلکہ یہ کانفرنس پورے جنوبی ایشیا اور یوریشیا کے لیے نہائت اہمیت کی حامل ہے ۔ خوش قسمتی سے پاکستان کو اِس اہم سربراہی اجلاس کی میزبانی کا شرف حاصل ہورہا ہے ۔
خطّے میں یہ پاکستانی اہمیت کی ایک اور دلیل ہے ۔ 11ستمبر 2024کو اسلام آباد ہی میں SCOکے اکنامک اینڈ ٹریڈ منسٹرز کی ایک ابتدائی میٹنگ ہُوئی تھی۔ اڑھائی عشرے قبل جب ''شنگھائی تعاون تنظیم'' کی بنیاد رکھی گئی تھی تو اِس میں صرف چین، رُوس، قزاخستان، کرغستان،تاجکستان اور ازبکستان شامل تھے۔ 2017میں پاکستان اور بھارت اِس میں مشروط طور پر شامل ہُوئے تھے۔ حال ہی میں اِس تنظیم میں ایران اور بیلاروس بھی شامل ہو گئے ہیں ۔اور یوں اس کے ممبران کی کُل تعداد10ہو گئی ہے ۔
شنگھائی تعاون تنظیم میں دُنیا کی تین ارب سے زائد آبادی شامل ہے ۔ یہ دُنیا کی کُل آبادی کا40فیصد بنتا ہے۔ اس میں 24ٹریلین ڈالر کی جی ڈی پی بھی شامل ہے۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہSCOدُنیا کا ایک اہم ترین معاشی فورم بھی ہے ۔ یعنی اِس میں دُنیا کے تین ارب انسانوں کے مالی مسائل و مصائب حل کرنے کا پوٹینشل پایا جاتا ہے۔ اِس کی تخلیق کے ابتدائی دو بڑے مقاصد تھے :اوّل، ریجنل سطح کے مسائل خود حل کرنا ، دوم ، دہشت گردی اور دہشت گردوں کا مل کر خاتمہ کرنا ۔لیکن پچھلے کچھ عرصے کے دوران اِس تنظیم نے اپنے ممبر ممالک کی معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کا عزم بھی شامل کر لیا ہے۔
چونکہ SCOمیں رُوس، ایران ، ازبکستان اور تاجکستان ایسے توانائی پیدا کرنے والے ممالک شامل ہیں، اس لیے کہا جارہا ہے کہ اِس فورم کی وساطت سے کم از کم یہ ممبر ممالک اپنی انرجی کی مطلوبہ ضروریات بحسن و خوبی پوری کر سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ مذکورہ ممبر ممالک میں دُنیا کے کُل تیل کا20فیصد اور گیس کا40فیصد حصہ پایا جاتا ہے ۔
مغربی سامراج قوتوں کی مگر خواہش اور کوشش یہ ہے کہ SCOکا یہ فورم مزید پھیل اور طاقتور ہو کر خود انحصاری پر نہ چل پڑے۔ شاید اِسی لیے ابھی تک پاکستان کو ایران سے سستے تیل اور گیس سے مستفید ہونے کی کھلی اور بلا رکاوٹ اجازت نہیں مل رہی۔ امریکا بہادر بار بار پاکستان کے سامنے سد ِراہ بن رہا ہے ۔چونکہ چین بھی اِس فورم کے بانی ارکان میں شامل ہے، اس لیے امریکا اور مغربی ممالک کی جانب سے پاکستان کو ''سی پیک'' سے مکمل طور پر استفادہ نہیں کرنے دیا جا رہا ۔ بانی پی ٹی آئی کے ساڑھے تین سالہ دَور میں تو یہ بند ہی کر دیا گیا تھا ۔
مبینہ طور پر محض امریکی خوشنودی کی خاطر ۔ اب پھر اربوں ڈالر کے اِس اہم پروجیکٹ کے آگے بڑھنے کے امکانات روشن ہُوئے ہیں ۔ ایم ایل وَن منصوبہ بھی اِسی نئے پروگرام کا حصہ بتایا جاتا ہے ۔چین کی زیر نگرانیBRIعالمی پروجیکٹ کے تحت دُنیا کے 350شہروں میں چین11ہزار کلومیٹر لمبی ریلوے لائنز بچھا رہا ہے ۔
یوں ہم بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ 15اور16اکتوبر کو اسلام آباد میں شروع ہونے والاSCOسربراہی اجلاس کس قدر اہم اور پاکستان کے لیے کتنا مفید ہے۔ حکومت نے SCO سربراہی کانفرنس کے دوران کسی بھی شرارت اور فساد سے اسلام آباد کو محفوظ بنانے کے لیے وفاقی دارالحکومت میں فوج، رنیجرز، ایف سی اور پولیس تعینات کر دی ہے ۔ اِس حوالے سے اسلام آباد ہائیکورٹ نے بھی خاص حکم صادر کیا ہے ۔
پاکستان نے SCOکے سربراہی اجلاس میں، اصولاً، بھارتی وزیر اعظم ، نریندر مودی، کو بھی دعوت دی تھی۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان پچھلے پانچ برسوں سے خاص طور پر جو تناؤ اور کھچاؤ چلا آرہا ہے، اِس کے سبب مودی جی پاکستان نہیں آ رہے۔ جب سے مودی جی اور انڈین اسٹیبلشمنٹ کی متفقہ کارستانی سے بھارتی آئین میں جموں و کشمیر بارے خصوصی شق (370) کا خاتمہ کیا گیا ہے ، پاکستان اور بھارت کے درمیان سفارتی بول چال بھی بند ہے اور تجارت بھی۔ ستمبر2024ء کے آخری ہفتے نیویارک کی جنرل اسمبلی میں پاکستان اور بھارت کے درمیان جو گرما گرمی ہُوئی ہے مگر مودی صاحب کی جگہ بھارتی وزیر خارجہ، ایس جئے شنکر، اسلام آباد آ رہے ہیں ۔ بھارتی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے اِس کی تصدیق کر دی ہے ۔
واضح رہے کہ پچھلے آٹھ برسوں کے دوران کوئی بھی اہم بھارتی شخصیت نے پاکستان کا دَورہ نہیں کیا۔سابق وزیر اعظم پاکستان ، جناب محمد نواز شریف، سے ملنے بھارتی وزیر اعظم ، نریندر مودی، بھی لاہور پہنچے تھے ۔ اِس ملاقات کو مگر ہم پاکستانی ''باقاعدہ سرکاری ملاقات'' ہی نہیں گردانتے کہ یہ مودی ، نواز ملاقات خالصتاً نجی اور گھریلو قسم کی تھی۔ ابSCOسربراہی کانفرنس (Council of Heads of State Summit) میں ہم اصولی طور پر بھارتی شرکت کے منتظر ہیں ۔
اگرچہ پاک بھارت کشیدگی عروج پر ہے اور بھارت تکبر سے یہ کہتے بھی پایا جارہا ہے کہ ہمیں تو پاکستان سے مکالمہ اور مصافحہ کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے ۔ انڈین میڈیا میں مگر یہ اصرار کیا جارہا ہے کہ اگر مودی جی اپنی ضد پر قائم رہتے ہُوئے اسلام آباد نہیں جاتے تو بھارتی وزیر خارجہ، ایس جئے شنکر، کو ضرور شریک ہونا چاہیے کہ SCOکا یہ اجلاس بھارت کے لیے ایک سنہری موقع ہے ۔ واقعہ بھی یہ ہے کہ بھارت ایسے ملک کوSCOمیں شامل 10یوریشیائی ممالک کی متفقہ اور اہم ترین کانفرنس سے غیر حاضر رہنا سفارتی طور پر مہنگا ثابت ہو سکتا ہے ۔
انڈین میڈیا کا کہنا ہے کہ جب 2023 میں بھارت نے Goaمیں SCOکے وزرائے خارجہ کی کانفرنس کروائی تھی تو نہائت کشیدگی کے باوجود پاکستان نے اپنے نوجوان وزیر خارجہ( بلاول بھٹو زرداری) کو اِس میں شرکت کے لیے بھجوایا تھا ۔ اس لیے اب بھارت کو بھی اپنے وزیر خارجہ کو اسلام آباد بھجوا کر اپنا عالمی، اخلاقی اور سفارتی فریضہ ادا کرنا چاہیے ۔ شنید ہے کہ کچھ سینئر بھارتی صحافی بھیSCOکی کوریج کے لیے اسلام آباد آ رہے ہیں۔
پاکستان میں سفارتی فرائض انجام دینے والے 4سابقہ بھارتی ہائی کمشنرز(اجے بساریہ،ٹی سی رگھوان،گوتم بمبا والا اور شرت سبھروال)نے بھی بیک زبان کہا ہے کہ بھارتی وزیر خارجہ کو اسلام آباد جانا چاہیے اور پاکستانی وزیر خارجہ ، اسحق ڈار، سے براہِ راست ملاقات بھی کرنی چاہیے ۔ شاید بند کھڑکیاں اور دروازے ، کچھ نہ کچھ، کھل ہی جائیں ۔
انڈین میڈیا کا یہ بھی کہنا ہے کہ 2023 میں جب Goaمیں بلاول بھٹو زرداری آئے تھے تو اگرچہ بھارتی وزیر خارجہ ، ایس جئے شنکر، نے اُن سے باقاعدہ ملاقات تو نہیں کی تھی لیکن بلاول صاحب کا خود استقبال تو کیا تھا۔ اس لیے اب اگر بھارتی وزیر خارجہ اسلام آباد جاتے ہیں تو اگرچہ اسحاق ڈار کی اُن سے باقاعدہ اور تفصیلی ملاقات نہ ہو لیکن اسحاق ڈار اُن کا خود استقبال تو کریں گے ۔ بھارتی سنجیدہ دانشوروں کا بالاصرار کہنا ہے کہ بھارت کو یہ زریں موقع ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہیے ۔
پاکستان ہی کے لیے نہیں بلکہ یہ کانفرنس پورے جنوبی ایشیا اور یوریشیا کے لیے نہائت اہمیت کی حامل ہے ۔ خوش قسمتی سے پاکستان کو اِس اہم سربراہی اجلاس کی میزبانی کا شرف حاصل ہورہا ہے ۔
خطّے میں یہ پاکستانی اہمیت کی ایک اور دلیل ہے ۔ 11ستمبر 2024کو اسلام آباد ہی میں SCOکے اکنامک اینڈ ٹریڈ منسٹرز کی ایک ابتدائی میٹنگ ہُوئی تھی۔ اڑھائی عشرے قبل جب ''شنگھائی تعاون تنظیم'' کی بنیاد رکھی گئی تھی تو اِس میں صرف چین، رُوس، قزاخستان، کرغستان،تاجکستان اور ازبکستان شامل تھے۔ 2017میں پاکستان اور بھارت اِس میں مشروط طور پر شامل ہُوئے تھے۔ حال ہی میں اِس تنظیم میں ایران اور بیلاروس بھی شامل ہو گئے ہیں ۔اور یوں اس کے ممبران کی کُل تعداد10ہو گئی ہے ۔
شنگھائی تعاون تنظیم میں دُنیا کی تین ارب سے زائد آبادی شامل ہے ۔ یہ دُنیا کی کُل آبادی کا40فیصد بنتا ہے۔ اس میں 24ٹریلین ڈالر کی جی ڈی پی بھی شامل ہے۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہSCOدُنیا کا ایک اہم ترین معاشی فورم بھی ہے ۔ یعنی اِس میں دُنیا کے تین ارب انسانوں کے مالی مسائل و مصائب حل کرنے کا پوٹینشل پایا جاتا ہے۔ اِس کی تخلیق کے ابتدائی دو بڑے مقاصد تھے :اوّل، ریجنل سطح کے مسائل خود حل کرنا ، دوم ، دہشت گردی اور دہشت گردوں کا مل کر خاتمہ کرنا ۔لیکن پچھلے کچھ عرصے کے دوران اِس تنظیم نے اپنے ممبر ممالک کی معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کا عزم بھی شامل کر لیا ہے۔
چونکہ SCOمیں رُوس، ایران ، ازبکستان اور تاجکستان ایسے توانائی پیدا کرنے والے ممالک شامل ہیں، اس لیے کہا جارہا ہے کہ اِس فورم کی وساطت سے کم از کم یہ ممبر ممالک اپنی انرجی کی مطلوبہ ضروریات بحسن و خوبی پوری کر سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ مذکورہ ممبر ممالک میں دُنیا کے کُل تیل کا20فیصد اور گیس کا40فیصد حصہ پایا جاتا ہے ۔
مغربی سامراج قوتوں کی مگر خواہش اور کوشش یہ ہے کہ SCOکا یہ فورم مزید پھیل اور طاقتور ہو کر خود انحصاری پر نہ چل پڑے۔ شاید اِسی لیے ابھی تک پاکستان کو ایران سے سستے تیل اور گیس سے مستفید ہونے کی کھلی اور بلا رکاوٹ اجازت نہیں مل رہی۔ امریکا بہادر بار بار پاکستان کے سامنے سد ِراہ بن رہا ہے ۔چونکہ چین بھی اِس فورم کے بانی ارکان میں شامل ہے، اس لیے امریکا اور مغربی ممالک کی جانب سے پاکستان کو ''سی پیک'' سے مکمل طور پر استفادہ نہیں کرنے دیا جا رہا ۔ بانی پی ٹی آئی کے ساڑھے تین سالہ دَور میں تو یہ بند ہی کر دیا گیا تھا ۔
مبینہ طور پر محض امریکی خوشنودی کی خاطر ۔ اب پھر اربوں ڈالر کے اِس اہم پروجیکٹ کے آگے بڑھنے کے امکانات روشن ہُوئے ہیں ۔ ایم ایل وَن منصوبہ بھی اِسی نئے پروگرام کا حصہ بتایا جاتا ہے ۔چین کی زیر نگرانیBRIعالمی پروجیکٹ کے تحت دُنیا کے 350شہروں میں چین11ہزار کلومیٹر لمبی ریلوے لائنز بچھا رہا ہے ۔
یوں ہم بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ 15اور16اکتوبر کو اسلام آباد میں شروع ہونے والاSCOسربراہی اجلاس کس قدر اہم اور پاکستان کے لیے کتنا مفید ہے۔ حکومت نے SCO سربراہی کانفرنس کے دوران کسی بھی شرارت اور فساد سے اسلام آباد کو محفوظ بنانے کے لیے وفاقی دارالحکومت میں فوج، رنیجرز، ایف سی اور پولیس تعینات کر دی ہے ۔ اِس حوالے سے اسلام آباد ہائیکورٹ نے بھی خاص حکم صادر کیا ہے ۔
پاکستان نے SCOکے سربراہی اجلاس میں، اصولاً، بھارتی وزیر اعظم ، نریندر مودی، کو بھی دعوت دی تھی۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان پچھلے پانچ برسوں سے خاص طور پر جو تناؤ اور کھچاؤ چلا آرہا ہے، اِس کے سبب مودی جی پاکستان نہیں آ رہے۔ جب سے مودی جی اور انڈین اسٹیبلشمنٹ کی متفقہ کارستانی سے بھارتی آئین میں جموں و کشمیر بارے خصوصی شق (370) کا خاتمہ کیا گیا ہے ، پاکستان اور بھارت کے درمیان سفارتی بول چال بھی بند ہے اور تجارت بھی۔ ستمبر2024ء کے آخری ہفتے نیویارک کی جنرل اسمبلی میں پاکستان اور بھارت کے درمیان جو گرما گرمی ہُوئی ہے مگر مودی صاحب کی جگہ بھارتی وزیر خارجہ، ایس جئے شنکر، اسلام آباد آ رہے ہیں ۔ بھارتی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے اِس کی تصدیق کر دی ہے ۔
واضح رہے کہ پچھلے آٹھ برسوں کے دوران کوئی بھی اہم بھارتی شخصیت نے پاکستان کا دَورہ نہیں کیا۔سابق وزیر اعظم پاکستان ، جناب محمد نواز شریف، سے ملنے بھارتی وزیر اعظم ، نریندر مودی، بھی لاہور پہنچے تھے ۔ اِس ملاقات کو مگر ہم پاکستانی ''باقاعدہ سرکاری ملاقات'' ہی نہیں گردانتے کہ یہ مودی ، نواز ملاقات خالصتاً نجی اور گھریلو قسم کی تھی۔ ابSCOسربراہی کانفرنس (Council of Heads of State Summit) میں ہم اصولی طور پر بھارتی شرکت کے منتظر ہیں ۔
اگرچہ پاک بھارت کشیدگی عروج پر ہے اور بھارت تکبر سے یہ کہتے بھی پایا جارہا ہے کہ ہمیں تو پاکستان سے مکالمہ اور مصافحہ کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے ۔ انڈین میڈیا میں مگر یہ اصرار کیا جارہا ہے کہ اگر مودی جی اپنی ضد پر قائم رہتے ہُوئے اسلام آباد نہیں جاتے تو بھارتی وزیر خارجہ، ایس جئے شنکر، کو ضرور شریک ہونا چاہیے کہ SCOکا یہ اجلاس بھارت کے لیے ایک سنہری موقع ہے ۔ واقعہ بھی یہ ہے کہ بھارت ایسے ملک کوSCOمیں شامل 10یوریشیائی ممالک کی متفقہ اور اہم ترین کانفرنس سے غیر حاضر رہنا سفارتی طور پر مہنگا ثابت ہو سکتا ہے ۔
انڈین میڈیا کا کہنا ہے کہ جب 2023 میں بھارت نے Goaمیں SCOکے وزرائے خارجہ کی کانفرنس کروائی تھی تو نہائت کشیدگی کے باوجود پاکستان نے اپنے نوجوان وزیر خارجہ( بلاول بھٹو زرداری) کو اِس میں شرکت کے لیے بھجوایا تھا ۔ اس لیے اب بھارت کو بھی اپنے وزیر خارجہ کو اسلام آباد بھجوا کر اپنا عالمی، اخلاقی اور سفارتی فریضہ ادا کرنا چاہیے ۔ شنید ہے کہ کچھ سینئر بھارتی صحافی بھیSCOکی کوریج کے لیے اسلام آباد آ رہے ہیں۔
پاکستان میں سفارتی فرائض انجام دینے والے 4سابقہ بھارتی ہائی کمشنرز(اجے بساریہ،ٹی سی رگھوان،گوتم بمبا والا اور شرت سبھروال)نے بھی بیک زبان کہا ہے کہ بھارتی وزیر خارجہ کو اسلام آباد جانا چاہیے اور پاکستانی وزیر خارجہ ، اسحق ڈار، سے براہِ راست ملاقات بھی کرنی چاہیے ۔ شاید بند کھڑکیاں اور دروازے ، کچھ نہ کچھ، کھل ہی جائیں ۔
انڈین میڈیا کا یہ بھی کہنا ہے کہ 2023 میں جب Goaمیں بلاول بھٹو زرداری آئے تھے تو اگرچہ بھارتی وزیر خارجہ ، ایس جئے شنکر، نے اُن سے باقاعدہ ملاقات تو نہیں کی تھی لیکن بلاول صاحب کا خود استقبال تو کیا تھا۔ اس لیے اب اگر بھارتی وزیر خارجہ اسلام آباد جاتے ہیں تو اگرچہ اسحاق ڈار کی اُن سے باقاعدہ اور تفصیلی ملاقات نہ ہو لیکن اسحاق ڈار اُن کا خود استقبال تو کریں گے ۔ بھارتی سنجیدہ دانشوروں کا بالاصرار کہنا ہے کہ بھارت کو یہ زریں موقع ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہیے ۔