انتشار کی سیاست بھلا کب تک
پاکستان تحریک انصاف کے میدان میں ہوتے ہوئے کسی بھی شخص کے لیے حکومت کرنا آسان نہیں سمجھا جاتا ہے
وطن عزیز میں معاشی اور سیاسی عدم استحکام کی ایک بڑی وجہ مقتدر حلقوں کی بے جا مداخلت ہے تو وہاں بدقسمتی سے خود سیاسی زعماء اور لیڈروں کی جمہوریت کے نام پر ہنگامہ آرائی اور انتشارکی سیاست ہے جس کی وجہ سے وہ حلقے بھی اپنا کام دکھا جاتے ہیں جنھیں ہمارا آئین اس کام سے روکتا ہے۔ جمہوری نظام میں منتخب پارلیمنٹ کو حکومت کرنے کے تمام حقوق حاصل ہوتے ہیں، وہ دستور اور آئین میں درج قوانین کے مطابق سارے کام کرسکتی ہے جسے ملک کا آئین اُسے اجازت دیتا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ ہماری عدلیہ کی بھی یہی ذمے داری ہے کہ وہ آئین سے ماورا کوئی بھی فیصلہ صادر نہ کرے، لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ کوئی بھی اِن اُصولوں کے مطابق اپنا کام نہیں کرتا ہے۔ یہی ہماری بدقسمتی ہے کہ یہاں ہر ایک خود کو آئین سے بھی بالاتر سمجھتا ہے اور اپنی پسند اور ترجیحات کے مطابق فیصلے بھی کرتا ہے اور اُسے منواتا بھی ہے۔ ہماری عدلیہ کی تاریخ ایسے نامناسب فیصلوں سے بھری پڑی ہے۔ مولوی تمیز الدین سے لے کر آج تک ایسے فیصلے لکھے گئے جن پر ہم ہرگز فخر نہیں کرسکتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ دنیا میں کارکردگی کے لحاظ سے ہماری عدلیہ 134 ویں نمبر پر شمارکی جاتی ہے۔ خود ہماری عدلیہ نے کئی کئی سال گزر جانے کے بعد اپنے ہی کیے گئے فیصلوں کو ناقص اور غلط قرار بھی دیا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کا فیصلہ بھی اُن فیصلوں میں سے ایک ہے۔ اسی طرح مارشل لاؤں کو جائز اور قانونی قرار دیے جانے والے فیصلے بھی باعث شرمندگی ہیں۔ افسوس کی بات ہے کہ فیصلے کرتے وقت کسی کو بھی یہ خیال نہیں آتا کہ اِن فیصلوں کی وجہ سے عدلیہ کا وقار مجروح ہوگا۔ سیاسی وابستگی کی وجہ سے غیر جانبدارانہ فیصلے بھی کیے گئے اور اُن پر زبردستی عمل درآمد بھی کروایا گیا۔
2023 میں جب پنجاب کی اسمبلی توڑ دی گئی اور ہماری عدلیہ نے صرف ایک صوبے میں فوراً نئے الیکشن کروانے کا حکم صادرکر دیا تو یہ بھی غور نہیں کیا کہ اس فیصلے کے کیا نتائج سامنے آسکتے ہیں۔ صرف ایک صوبے میں اگلے پانچ سالوں کے لیے انتخابات کروانے سے سارا نظام ہی اتھل پتھل ہوجائے گا۔ پنجاب اور باقی صوبوں کی معیاد اور مدت کے فرق سے صدر اور سینیٹ کے انتخابات میں مشکل پیدا ہوسکتی ہے ۔
آج ہماری نئی حکومت کو برسر اقتدار آئے ہوئے سات مہینے گزرے ہیں اور ہمیں تسلیم کرنا ہوگا کہ اس قدر مشکل حالات میں جب کسی بھی سیاسی پارٹی نے حکومت بنانے سے صاف صاف انکارکر دیا تھا، خود پاکستان تحریک انصاف جسے سب سے زیادہ اکثریت حاصل تھی، حکومت لینے سے انکارکردیا تھا۔ پاکستان مسلم لیگ نے یہ ذمے داری اپنے کاندھوں پر اُٹھالی اور کام کر کے بھی دکھایا۔ ملک جو ڈیفالٹ ہونے کے دہانے پرکھڑا تھا اُسے نہ صرف سنبھالا بلکہ معاشی خطرات سے باہر بھی نکالا۔ پاکستان پیپلزپارٹی نے اگرچہ ساتھ ضرور دیا لیکن اپنا دامن بھی بچائے رکھا ۔
اس کا خیال تھا کہ اِن حالات میں کوئی بھی کامیابی سے حکومت چلا نہیں پائے گا۔ پاکستان تحریک انصاف کے میدان میں ہوتے ہوئے کسی بھی شخص کے لیے حکومت کرنا آسان نہیں سمجھا جاتا ہے، یہ پارٹی صرف مخالفت برائے مخالفت اور مزاحمت کی پالیسی پر یقین رکھتی ہے۔ وہ سمجھتی ہے کہ اسی طرح سے عوام کی حمایت اور ہمدردیاں سمیٹی جاسکتی ہیں۔ خاموش رہ کر اگر حکومت کو کام کرنے دیا گیا پھر اس کی اپنی سیاست ناکامی و نامرادی سے دوچار ہوسکتی ہے۔ مسلم لیگ نون کو اگر مسلسل پانچ سال مل گئے تو وہ ملک اور عوام کی حالت زار بدل سکتی ہے۔
2017 میں جب مسلم لیگ نون کی حکومت کو ابھی صرف چار سال ہی گزرے تھے اور یہ سمجھا جانے لگا تھا کہ وہ اپنی کارکردگی کے بل بوتے پر اگلا الیکشن بھی جیت جائے گی تو پھر ایک منظم سازش کر کے اس کا راستہ روکا گیا۔ اپنے چار سالہ دور میں اس نے باوجود غیرملکی دہشت گردی، بم دھماکوں اور بجلی کی زبردست لوڈ شیڈنگ کے ملک کے حالات سدھار دیے۔ کراچی شہرکی بدامنی اور روزانہ کی بنیاد پر احتجاج اور فساد کو کنٹرول بھی کیا اور وہاں امن بھی قائم کر ڈالا۔ سارے ملک میں سڑکوں اور شاہراہوں کا جال بچھایا اور سی پیک منصوبے پر تیزی سے کام شروع کیا۔ چار سال کے مختصر عرصے میں وہ کام کر ڈالے جن کا اعتراف ملائیشیا کے وزیراعظم انور ابراہیم نے اپنے حالیہ دورہ پاکستان میں بھی کیا۔ مسلم لیگ نون اسی لیے اپنے کاموں اور کارکردگی کی وجہ سے جانی پہچانی جاتی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کو بھی اپنی کارکردگی دکھانے کے لیے تقریباً چار سال ہی ملے تھے لیکن اس نے یہ ضایع کر دیے اور کوئی قابل ذکرکارکردگی نہیں دکھائی۔ جتنے قرضے اس ملک نے ستر سالوں میں لیے تھے، تحریک انصاف کی حکومت نے اتنے ہی قرضے صرف چار سالوں میں لے ڈالے اورکوئی کام بھی کرکے نہیں دکھایا۔ اس نے اپنے قیمتی چار سال صرف مزاحمتی سیاست میں گزار دیے، وہ چاہے اقتدار میں ہو یا پھر حزب اختلاف میں، مخالفت اور مزاحمت اس کا وطیرہ بن چکا ہے۔ سڑکوں کی سیاست اور ہر روز کا احتجاج اس کا اوڑھنا بچھونا ہے۔
ملک میں انتشار اور فساد پھیلا کر اسے ترقی سے روکنا اس کے منشور اور مینو فیسٹو کا حصہ ہے، وہ خود بھی چین سے نہیں بیٹھتی اورکسی اورکو بھی بیٹھنے نہیں دیتی۔ وہ سمجھتی ہے کہ اسی طرح وہ اپنے چاہنے والوں میں مقبول رہے گی، وہ کسی سیاسی فریق سے بات چیت کرنے کی روا دار بھی نہیں ہے۔ وہ صرف اسی الیکشن کو صاف اور شفاف مانتی ہے جس میں اسے مکمل کامیابی حاصل ہو۔ اس نے 2013 انتخابات کو دھاندلی زدہ کہہ کر نہیں مانا اور چار حلقے کھولنے کا مطالبہ لے کر ڈی چوک پر دھرنا دے ڈالا۔ 35 پنکچروں کی من گھڑت کہانی اختراع کر کے ایسا ہی جھوٹ بولا جیسے آج فارم 47 کو بہانہ بنا کر بول رہی ہے۔ اس کی نظر میں KPK میں ہونے والے الیکشن تو صاف اور شفاف تھے لیکن پنجاب اور دیگر صوبوں میں دھاندلی ہوئی ہے۔ وہ آج ایک بار پھر سڑکوں پر ہے اور ہر روز احتجاج کے نام پر لاشیں گرنے کا انتظار کر رہی ہے۔
KPK کے وزیراعلیٰ اپنے صوبے کے لوگوں کے لیے کوئی آسانی فراہم نہیںکر رہے ہیں اور آئے دن لشکر لے کر پنجاب پر حملہ آور ہو جاتے ہیں۔ دس گیارہ سالوں سے وہاں صرف ایک پارٹی یعنی PTI کی حکومت ہے ، ان دس سالوں میں وہ صوبہ ایک مثالی صوبہ بن سکتا تھا، لیکن وہاں کے عوام جانتے ہیں کہ وہ کس مصیبت سے دوچار ہیں۔ وہاں عوام کی سہولت کے لیے کوئی بھی ایسا کام نہیں ہوا جس کی مثال دیکر پنجاب کا مقابلہ کیا جاسکتا ہو۔ بانی پی ٹی آئی کو سوچنا ہوگا کہ انتشارکی سیاست کب تک کامیاب رہ پائے گی۔ ایک دن آئے گا کہ عوام خود ہی اس انتشاری سیاست سے بیزار آجائیں گے اور پھر جب وہ پیچھے مڑکر دیکھیں گے توکوئی بھی ان کے ساتھ نہ ہوگا۔
اس کے ساتھ ساتھ ہماری عدلیہ کی بھی یہی ذمے داری ہے کہ وہ آئین سے ماورا کوئی بھی فیصلہ صادر نہ کرے، لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ کوئی بھی اِن اُصولوں کے مطابق اپنا کام نہیں کرتا ہے۔ یہی ہماری بدقسمتی ہے کہ یہاں ہر ایک خود کو آئین سے بھی بالاتر سمجھتا ہے اور اپنی پسند اور ترجیحات کے مطابق فیصلے بھی کرتا ہے اور اُسے منواتا بھی ہے۔ ہماری عدلیہ کی تاریخ ایسے نامناسب فیصلوں سے بھری پڑی ہے۔ مولوی تمیز الدین سے لے کر آج تک ایسے فیصلے لکھے گئے جن پر ہم ہرگز فخر نہیں کرسکتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ دنیا میں کارکردگی کے لحاظ سے ہماری عدلیہ 134 ویں نمبر پر شمارکی جاتی ہے۔ خود ہماری عدلیہ نے کئی کئی سال گزر جانے کے بعد اپنے ہی کیے گئے فیصلوں کو ناقص اور غلط قرار بھی دیا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کا فیصلہ بھی اُن فیصلوں میں سے ایک ہے۔ اسی طرح مارشل لاؤں کو جائز اور قانونی قرار دیے جانے والے فیصلے بھی باعث شرمندگی ہیں۔ افسوس کی بات ہے کہ فیصلے کرتے وقت کسی کو بھی یہ خیال نہیں آتا کہ اِن فیصلوں کی وجہ سے عدلیہ کا وقار مجروح ہوگا۔ سیاسی وابستگی کی وجہ سے غیر جانبدارانہ فیصلے بھی کیے گئے اور اُن پر زبردستی عمل درآمد بھی کروایا گیا۔
2023 میں جب پنجاب کی اسمبلی توڑ دی گئی اور ہماری عدلیہ نے صرف ایک صوبے میں فوراً نئے الیکشن کروانے کا حکم صادرکر دیا تو یہ بھی غور نہیں کیا کہ اس فیصلے کے کیا نتائج سامنے آسکتے ہیں۔ صرف ایک صوبے میں اگلے پانچ سالوں کے لیے انتخابات کروانے سے سارا نظام ہی اتھل پتھل ہوجائے گا۔ پنجاب اور باقی صوبوں کی معیاد اور مدت کے فرق سے صدر اور سینیٹ کے انتخابات میں مشکل پیدا ہوسکتی ہے ۔
آج ہماری نئی حکومت کو برسر اقتدار آئے ہوئے سات مہینے گزرے ہیں اور ہمیں تسلیم کرنا ہوگا کہ اس قدر مشکل حالات میں جب کسی بھی سیاسی پارٹی نے حکومت بنانے سے صاف صاف انکارکر دیا تھا، خود پاکستان تحریک انصاف جسے سب سے زیادہ اکثریت حاصل تھی، حکومت لینے سے انکارکردیا تھا۔ پاکستان مسلم لیگ نے یہ ذمے داری اپنے کاندھوں پر اُٹھالی اور کام کر کے بھی دکھایا۔ ملک جو ڈیفالٹ ہونے کے دہانے پرکھڑا تھا اُسے نہ صرف سنبھالا بلکہ معاشی خطرات سے باہر بھی نکالا۔ پاکستان پیپلزپارٹی نے اگرچہ ساتھ ضرور دیا لیکن اپنا دامن بھی بچائے رکھا ۔
اس کا خیال تھا کہ اِن حالات میں کوئی بھی کامیابی سے حکومت چلا نہیں پائے گا۔ پاکستان تحریک انصاف کے میدان میں ہوتے ہوئے کسی بھی شخص کے لیے حکومت کرنا آسان نہیں سمجھا جاتا ہے، یہ پارٹی صرف مخالفت برائے مخالفت اور مزاحمت کی پالیسی پر یقین رکھتی ہے۔ وہ سمجھتی ہے کہ اسی طرح سے عوام کی حمایت اور ہمدردیاں سمیٹی جاسکتی ہیں۔ خاموش رہ کر اگر حکومت کو کام کرنے دیا گیا پھر اس کی اپنی سیاست ناکامی و نامرادی سے دوچار ہوسکتی ہے۔ مسلم لیگ نون کو اگر مسلسل پانچ سال مل گئے تو وہ ملک اور عوام کی حالت زار بدل سکتی ہے۔
2017 میں جب مسلم لیگ نون کی حکومت کو ابھی صرف چار سال ہی گزرے تھے اور یہ سمجھا جانے لگا تھا کہ وہ اپنی کارکردگی کے بل بوتے پر اگلا الیکشن بھی جیت جائے گی تو پھر ایک منظم سازش کر کے اس کا راستہ روکا گیا۔ اپنے چار سالہ دور میں اس نے باوجود غیرملکی دہشت گردی، بم دھماکوں اور بجلی کی زبردست لوڈ شیڈنگ کے ملک کے حالات سدھار دیے۔ کراچی شہرکی بدامنی اور روزانہ کی بنیاد پر احتجاج اور فساد کو کنٹرول بھی کیا اور وہاں امن بھی قائم کر ڈالا۔ سارے ملک میں سڑکوں اور شاہراہوں کا جال بچھایا اور سی پیک منصوبے پر تیزی سے کام شروع کیا۔ چار سال کے مختصر عرصے میں وہ کام کر ڈالے جن کا اعتراف ملائیشیا کے وزیراعظم انور ابراہیم نے اپنے حالیہ دورہ پاکستان میں بھی کیا۔ مسلم لیگ نون اسی لیے اپنے کاموں اور کارکردگی کی وجہ سے جانی پہچانی جاتی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کو بھی اپنی کارکردگی دکھانے کے لیے تقریباً چار سال ہی ملے تھے لیکن اس نے یہ ضایع کر دیے اور کوئی قابل ذکرکارکردگی نہیں دکھائی۔ جتنے قرضے اس ملک نے ستر سالوں میں لیے تھے، تحریک انصاف کی حکومت نے اتنے ہی قرضے صرف چار سالوں میں لے ڈالے اورکوئی کام بھی کرکے نہیں دکھایا۔ اس نے اپنے قیمتی چار سال صرف مزاحمتی سیاست میں گزار دیے، وہ چاہے اقتدار میں ہو یا پھر حزب اختلاف میں، مخالفت اور مزاحمت اس کا وطیرہ بن چکا ہے۔ سڑکوں کی سیاست اور ہر روز کا احتجاج اس کا اوڑھنا بچھونا ہے۔
ملک میں انتشار اور فساد پھیلا کر اسے ترقی سے روکنا اس کے منشور اور مینو فیسٹو کا حصہ ہے، وہ خود بھی چین سے نہیں بیٹھتی اورکسی اورکو بھی بیٹھنے نہیں دیتی۔ وہ سمجھتی ہے کہ اسی طرح وہ اپنے چاہنے والوں میں مقبول رہے گی، وہ کسی سیاسی فریق سے بات چیت کرنے کی روا دار بھی نہیں ہے۔ وہ صرف اسی الیکشن کو صاف اور شفاف مانتی ہے جس میں اسے مکمل کامیابی حاصل ہو۔ اس نے 2013 انتخابات کو دھاندلی زدہ کہہ کر نہیں مانا اور چار حلقے کھولنے کا مطالبہ لے کر ڈی چوک پر دھرنا دے ڈالا۔ 35 پنکچروں کی من گھڑت کہانی اختراع کر کے ایسا ہی جھوٹ بولا جیسے آج فارم 47 کو بہانہ بنا کر بول رہی ہے۔ اس کی نظر میں KPK میں ہونے والے الیکشن تو صاف اور شفاف تھے لیکن پنجاب اور دیگر صوبوں میں دھاندلی ہوئی ہے۔ وہ آج ایک بار پھر سڑکوں پر ہے اور ہر روز احتجاج کے نام پر لاشیں گرنے کا انتظار کر رہی ہے۔
KPK کے وزیراعلیٰ اپنے صوبے کے لوگوں کے لیے کوئی آسانی فراہم نہیںکر رہے ہیں اور آئے دن لشکر لے کر پنجاب پر حملہ آور ہو جاتے ہیں۔ دس گیارہ سالوں سے وہاں صرف ایک پارٹی یعنی PTI کی حکومت ہے ، ان دس سالوں میں وہ صوبہ ایک مثالی صوبہ بن سکتا تھا، لیکن وہاں کے عوام جانتے ہیں کہ وہ کس مصیبت سے دوچار ہیں۔ وہاں عوام کی سہولت کے لیے کوئی بھی ایسا کام نہیں ہوا جس کی مثال دیکر پنجاب کا مقابلہ کیا جاسکتا ہو۔ بانی پی ٹی آئی کو سوچنا ہوگا کہ انتشارکی سیاست کب تک کامیاب رہ پائے گی۔ ایک دن آئے گا کہ عوام خود ہی اس انتشاری سیاست سے بیزار آجائیں گے اور پھر جب وہ پیچھے مڑکر دیکھیں گے توکوئی بھی ان کے ساتھ نہ ہوگا۔