ایران کی قدس فورس کے سربراہ بیروت حملے کے بعد رابطے میں نہیں ہیں، رپورٹ میں دعویٰ

ویب ڈیسک  پير 7 اکتوبر 2024
اسرائیلی فوج کے ترجمان تصدیق یا تردید نہیں کی—فوٹو: رائٹرز

اسرائیلی فوج کے ترجمان تصدیق یا تردید نہیں کی—فوٹو: رائٹرز

بیروت: غیرملکی خبرایجنسی نے ایرانی عہدیداروں کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ قدس فورس کے سربراہ اسماعیل قانی گزشتہ ہفتے بیروت میں ہونے والے حملے کے بعد حکام سے رابطے میں نہیں ہیں۔

خبرایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق ایران کے دو سیکیورٹی عہدیداروں نے بتایا کہ قدس فورس کے سربراہ اسماعیل قانی بیروت حملے میں حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ کی شہادت کے بعد لبنان گئے تھے اور گزشتہ ہفتے ہونے والے حملوں کے بعد سے کہیں نظر نہیں آئے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ اسماعیل قانی بیروت کے مضافات داہیہ میں تھے اور اس دوران حملہ کیا گیا تھا اور حزب اللہ کے سینئر عہدیدار ہاشم صفی الدین کو نشانہ بنایا گیا ہے لیکن عہدیدار نے بتایا کہ ان کی ہاشم صفی الدین سے ملاقات طے نہیں تھی۔

عہدیدار نے کہا کہ ایران اور حزب اللہ کا اس واقعے کے بعد اسماعیل قانی سے کوئی رابطہ نہیں ہے۔

دوسرے عہدیدار کا کہنا تھا کہ اسماعیل قانی حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ کی شہادت کے بعد لبنان گئے تھے اور ایرانی حکام کا ہاشم صفی الدین کے خلاف حملے کے بعد ان سے رابطہ نہیں ہو رہا ہے، ہاشم صفی الدین کے بارے میں خیال کیا جا رہا تھا کہ وہ حزب اللہ کے اگلے سربراہ ہوں گے۔

دوسری جانب اسرائیلی فوج کے ترجمان لیفٹننٹ کرنل نادیو شوشانی نے اسماعیل قانی کو نشانہ بنانے سے متعلق سوال پر کہا کہ مذکورہ حملے کے حوالے سے  اب تک جائزہ لیا جا رہا ہے تاہم اسرائیل نے گزشتہ ہفتے بیروت میں حزب اللہ کے انٹیلیجینس ہیڈکوارٹرز پر ایک حملہ کیا تھا۔

اسرائیلی فوج کے ترجمان نے صحافیوں کو بتایا کہ جب ہمارے پاس اس حملے سے متعلق واضح رپورٹس ہوں گی تو ہم جاری کردیں گے تاہم کئی سوالات ہیں کہ وہاں کون موجود تھا۔

خیال رہے کہ قدس فورس ایرانی پاسداران انقلاب کے اسلحے کے معاملات کی نگرانی کرتی ہے اور حزب اللہ سمیت مشرق وسطیٰ میں موجود تنظیموں سے رابطے میں رہتی ہے جو تہران کی اتحادی ہیں۔

اسرائیل کی بمباری سے 27 ستمبر کو حزب اللہ کے سیکریٹری جنرل حسن نصراللہ کے ہمراہ پاسداران انقلاب کے کمانڈر بریگیڈیئر جنرل عباس نیلوفروشان بھی شہید ہوگئے تھے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔