زباں فہمی نمبر225 ناچ رقص اور ڈانس حصہ اوّل
زباں فہمی نمبر225 ؛ناچ ، رقص اور ڈانس (حصہ اوّل)از سہیل احمد صدیقی (فوٹو : ایکسپریس)
دنیا میں کون سی ایسی قوم ہوگی جس کے رسم وروا ج میں کسی نہ کسی قسم کا ناچ شامل نہ ہو۔ متعددمُشرک اَقوام کی ثقافت میں رقص کو مذہبی تقدس حاصل ہے۔
آگے بڑھنے سے پہلے اس نکتے کی وضاحت بھی کرتا چلوں۔ افریقہ اور آسٹریلیا کے قدیم باشندے (سیاہ فام یعنی ایک ہی نسل) غذا اور بارش کے لیے بطور عبادت یاپُوجا رقص کرتے ہیں، یہی سلسلہ امریکا کے اصل باشندوں کے یہاں ہے جنھیں غلط العام وغلط العوام نام ریڈ اِنڈیئن (Red Indians) یعنی سُرخ ہندی دیا گیا، (کیونکہ کولمبس نے اپنے خیال میں انڈیا دریافت کیا تھا)، کینیڈا میں فرسٹ نیشن (First Nation ) کہا گیا اور خاکسار نے مدتوں پہلے اُن کے ادب سے خوشہ چینی کرتے ہوئے تراجم کیے تو اُنھیں 'دیسی امریکی' (Native/Indigenous American) قراردیا۔
انھیں American Indianبھی کہا جاتا ہے (جبکہ دوسری طرف امریکا میں مقیم ہندوستانی بھی اسی نام سے جانے جاتے ہیں)، انھیں بجا طور پر First American بھی کہا جاسکتا ہے۔ محولہ بالارقص کا اکثر جادو اور دیگر مذہبی رسوم سے بھی ہوتا ہے۔ اس معاملے میں افریقہ کے سیاہ فام زیادہ آگے ہیں۔ اس رقص میں اُچھل کُود اور ڈھول تاشوں سمیت مختلف آلاتِ مُوسیقی اور رقاصوں کے حلق سے کیا جانے والاشورشرابا بھی شامل ہیں جو مختلف قبائل میں ارواحِ خبیثہ کو بھگانے کے خیال سے کیے جاتے ہیں۔ دیکھا جائے تو ہمارے یہاں شِیدی قوم کے توسط سے افریقی رقص کی یہ قسم کسی حد تک دَخیل ہوچکی ہے، اسی طرح لِیوا رقص بھی ہے۔
رقص یا ناچ کا سلسلہ کب اور کیسے شروع ہوا، اس بابت ہم قیاس ہی کرسکتے ہیں کہ خوشی سے ناچنا یا کسی بھی معاملے میں اچانک کامیابی کے حصول پر، جوش میں رقص کرنا گویا انسانی فطرت کا حصہ ہے تو عین ممکن ہے کہ انسان نے جب اپنی آفرینش اور زمین پر آمد کے بعد، مختلف مواقع پر جذبات کا اظہار اَزخود سیکھا ہوتو رقص بھی (گو بے قاعدہ) شروع کردیا ہوگا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسان نے اس اچانک اور بے اختیار عمل کو فَن بنادیا اور آج دنیا بھر میں رقص کے بے شمار طریقے رائج ہیں، بعض کا استعمال طِبّی لحاظ سے انسانی صحت کے لیے مفید ہے تو کچھ کے بارے میں ماہرین کا خیال ہے کہ ان سے ذہنی سکون ملتا ہے۔ اردو میں عربی الاصل لفظ رقص، ہندی الاصل ناچ اور انگریزی لفظ ڈانس یکساں طور پر رائج ہیں۔ نوراللغات میں ناچ کے معانی اس طرح بیان کیے گئے ہیں:
ناچ: (ہندی الاصل اسم مذکر) :(ا)۔ رقص، خوشی میں آکر اُچھلنا کُودنا، اہلِ نغمہ کا باقاعدہ پاؤں کو زمین پر مارنا،
بقول پنڈِت دَیا شنکرنسیم لکھنوی (صاحب ِ گلزارِ نسیم):
ناچ اگرچہ خوش نُما تھا
سنگت کا پکھاؤجی تھکا تھا
کسی کے آگے ناچنا، رقص دِکھانا، ناچ رنگ، (راگ رنگ، گانا بجانا، رقص و نغمہ، سامان عیش و نشاط، دھوم دھڑکا، رنگ رلیاں: اضافہ ازمختصر اُردو لغت: اردو لغت بورڈ)، ناچ گانا: (مذکر ،)،گانا بجانا، رقص و سرود (ہونا کے ساتھ) (ہمارے یہاں اکثر لوگ ناواقفیت میں سرود یعنی گانے یا گانے بجانے کو سُرور کہہ دیتے ہیں، ویسے سرود ایک ساز کا نام بھی ہے: س اص) شعر:
رہتا تھا ہمیشہ ناچ گانا
تھا اُس کا محل طلسم خانہ
(واجدعلی شاہ اخترؔشاہ ِ اَودھ)
ناچ گھر (مذکر): تماشا گاہ ، سوانگ گھر، تھیٹر، (جدید دور کا نائٹ کلب : س ا ص)، ناچ نچانا (کنایۃ ً ) : حیران پریشان کرنا، ستانا
؎ چل پھرتری موروں کو نئے ناچ نچائے
دیکھے جو کبک دری چال بدل جائے (رشکؔ)
ب)۔(کنایۃ ً ): قواعد کرنا (انگریزی میں drill یعنی فوج کی مشق وکسرت: س ا ص)، ایرے پھیرے کرانا (یہ اب متروک ہے: س ا ص)،ناچ نہ جانوں،آنگن ٹیڑھا ۔نیز۔ناچ نہ جانے، آنگن ٹیڑھا: مثل، اُس جگہ بولتے ہیں جب کوئی شخص کسی کام میں مداخلت نہ رکھنے کی وجہ سے حیلے بہانے کرے۔یا۔اُس سے کوئی کام نہ ہوسکے اور دوسرے پر اِلزام رکھے ۔یا۔کوئی کام اُس کو نہ آتا ہو اور اسباب وآلات کے بُرا ہونے کی شکایت کرے۔ ناچنا: رقص کرنا، خفگی یا غصے میں تلملانا ، ناچنے لگے تو گھونگھٹ کیسا: مثل، جس کام کا کرنا منظور ہے، پھر اُس میں لحاظ کرنا عبث ہے۔ اس کام کے واسطے بھی مستعمل ہے جس میں کوئی عیب ہو یعنی جب عیب والا کام اختیار کیا تو پھر شرم کیسی، مثال کے لیے دیکھیے قدرؔ کا شعر 'گھونگھٹ' میں:
مانگنے نکلے تو لگاوٹ ہی کیا
ناچنے جب نکلے تو گھونگھٹ ہی کیا
اس اہم اور مستند لغت میں 'تگنی کا ناچ نچانا' کا اندراج نہیں، حیرت ہے!
فرہنگ ِ اُردومحاورات از پروفیسر محمد حسن میں مذکور، مزید اضافے بھی ملاحظہ فرمائیں:
''ناچنے لگی تو گھونگھٹ کیسا''یعنی جب کوئی (گھٹیا یا نامناسب:س ا ص) کام کرنا ہی ہے تو شرم کیسی
''ناچے بامن، دیکھے دھوبی'' یعنی اُلٹا زمانہ (کسی معاملے میں وقت اور ماحول کا موافق نہ ہونا: س ا ص)
''ناچے کُودے ، توڑے تان'' یعنی جو شخص دنیا میں اپنا وقت ہنسی خوشی سے گزارے، اُسی کی عزت ہوتی ہے۔
فرہنگِ آصفیہ اور نوراللغات جیسی مستند ومعتبر لغات میں گاہے عوامی، ذیلی یاتحتی بولی (Slang) کی مثالیںبھی ملتی ہیں، مگر بعض اوقات بندہ ششدر رہ جاتا ہے جب کوئی بہت مشہور مثال اِن دونوں میں موجود نہ ہو۔ اس کی دو وجوہ ہیں:
ا)۔ وہ لفظ، ترکیب یا فقرہ اُس دور میں موجودہی نہ ہویعنی بعد میں گھڑا گیا ہو ۔یا۔ب)۔ مؤلف نے اسے شامل کرنا مناسب نہ سمجھا ہو۔ اب میں آپ کو یاد دِلاؤں ایسا ہی ایک لفظ جو کم ازکم ہمارے گھرانوں میں بہت عام رہا ہے: نَچنیا (نچن یا) یعنی ناچنے والا (کلمہ تحقیر)۔
راجہ راجیسور (راجیشور) راؤ اصغرؔ جیسے فاضل، ماہرِِلسان کی مرتبہ اردو۔ہندی لغت، ناچ کے ذکر سے خالی ہے، کیونکہ اصل لفظ 'ناٹ' (دراوڑی الاصل جو تَمِل جیسی زبانوں میں موجود ہے) سے ناٹَک بنا تو وہی جگہ پاگیا۔ اس لغت میں لکھا ہے:
ناٹ: ناچ، رقص، نقل (یعنی وہی ناٹک یا انگریزی کا Farce: س اص)، مُلک کرناٹک (بھارت کی ریاست یعنی صوبہ کرناٹک جسے لوگ سہواً کرناٹکا بولتے ہیں، حالانکہ اس نام کا آخری حرف ساکن ہے: س اص)۔
ناٹک: کھیل (انگریزی میں آج بھی ڈرامے کو ڈراما کے علاوہ Playیعنی کھیل کہتے ہیں، البتہ ہمارے یہاں اب لفظ کھیل بمعنیٰ ڈراما متروک ہوچکا ہے: س ا ص)، تماشا، تھیٹر، ڈراما، مضامینِ شاعرانہ سے بیانِ حالِ بزرگان وغیرہ جیسے ہنومان ناٹک وغیرہ (یہاں فاضل مؤلف 'رام لِیلا' بھی لکھ سکتے تھے: س اص)
ناٹِکا : ناٹک کرنے والی عورت، نَٹوی (نَٹ یعنی کرتب باز کی مؤنث: س اص)
ناٹک شالا: ناچ گھر ، خانہ ٔ رقص و سرود
ناٹِکی: ناٹک کرنے والی عورت، نَٹوی
ناٹَن: ناچنا، رقص کرنا
ناٹیہ: ناچ، رقص
ناٹیہ شالا: ناچ گھر، رقص خانہ
یہاں یاد رکھنے کی بات ہے کہ لفظ 'ناٹیہ' کو کھُل کر ناٹیا نہیں بولا جائے گا، بلکہ یہ 'ناٹ ۔اے' ہے ، اسی طرح ناٹیہ شالا۔
اردو لغت بورڈ کی مختصر اُردو لغت نے اسی اندراج میں اضافے کرکے یوں بیان کیا:
ناٹک: عملی تمثیل (ڈراما) جس میں ایک کہانی، مُکالمے اور اَداکاری کے ذریعے سے تماشائیوں کے سامنے پیش کی جاتی ہے اور لباس، مناظر، احساسات اور جذبات سے کہانی کے عہد کی اصلی زندگی کی عکاسی کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، نقل، کہانی جس کے اجزاء میں ڈرامے کی طرح ربط ہو اور جو بالآخر کسی (طربیہ یا المیہ) نتیجے پر اختتام پذیر ہو، بناوٹی عمل، سوانگ، (مجازاً) تھیٹر کمپنی، کھیل دِکھانے والوں کی منڈلی، تھیٹر ، تماشا گاہ
ناٹک بازی: ڈراما یا ناٹک کھیلنے کا عمل، ناٹک دِکھانا (مجازاً) تماشا کرنا، سوانگ رچانا
(یہاں خاکسار سہیل کا اضافہ بھی لازم ہے: ناٹک کرنا بمعنیٰ جھوٹ موٹ کا عمل یا تماشا کرنا جس سے وقتی طور پر صورت ِ حال بدل سکتی ہو۔ یہ تحتی یا ذیلی یا عوامی بولی ہے جسے انگریزی میں Slang کہتے ہیں)
ناٹیہ : گیت، ناچ، نقل اور سازینہ کی مجموعی پیشکش، رقص یا اَداکاری کا فن یا علم، ناچ گانے کا علم، فنِ تمثیل، (صفت) ناٹک کا، تمثیلی، ڈرامے کی شکل میں
رقص عربی الاصل لفظ ہے جو ہماری پیاری زبان سمیت دنیا کی متعدد زبانوں میں رائج ہے۔ رقص کی تعریف میں یہ کہاجاتا ہے کہ اس سے مراد، فرطِ جذبات (یاجوشِ جذبات) میں بے ساختہ سرزد ہونے والی حرکات ہیں۔ عربی میں 'رَقَصَ' سے مراد ہے ناچنا، اضطراب کرنا، بہت زیادہ ناچنے والا'الرّقّاص' ہے (جبکہ اردو میں محض رقص کرنے والا مراد ہے)۔ دل چسپ انکشاف یہ ہے کہ گھڑی کے لنگر یعنی پنڈولم (pendulum) کو عربی میں رَقّاص ُالسّاعَۃ کہتے ہیں، گویا وہ بھی رقص کرتا ہے۔ ناچنے والی کو عربی میں الرّقاصہ کہتے ہیں، جبکہ اس کے دیگر مطالب میں 'عربوں کا ایک کھیل' اور بنجر زمین بھی شامل ہیں۔ (المنجد عربی اردو لغات)۔ فارسی میں رقص مستعمل ہے اور دوسرا لفظ خالص فارسی ہے: پاکوبی، جبکہ جدید تُرکی میں رکس (رومن رسم الخط میں 'ق' نہ ہونے کی بِناء پر) اور دانس (ڈانس) دونوں بولے جاتے ہیں۔
فرہنگ آصفیہ کے الفاظ میں رقص کا مطلب ہے: اُچھلنا، کودنا، کُودپھاند، اُچھل کُود، ناچ اور اصولِ نغمات کے موافق تھِرَکنا۔ یہاں غور طلب نکتہ یہ ہے کہ رقص مربوط ومنظم ہو تو اُس میں جسم کی معتدل ومتوازن حرکات، رقص کرنے والے کی نبض اور دھڑکن سے جُڑے ہوتے ہیں اور اعضاء کی متناسب ومتوازن جُنبش تماشائی کو محو کردیتی ہے، نیز دیکھنے والے اُس تھرکتے، لچکتے، بل کھاتے جسم میں گویا زندگی کی انوکھی حرارت محسوس کرتے ہیں اور کبھی اُنھیں یہ احساس بھی ہوتا ہے کہ اعضائے جسمانی کی یہ پُرکشش نمائش بھی انسانی حُسن کی لطیف عکاسی ہے جو خود تماشائی کو اِس عمل میں شامل ہونے پر آمادہ کرتی ہے یا کرسکتی ہے۔
اردو لغت بورڈ کی مختصر اُردو لغت (جلد اوّل) میں لفظ 'رقص' کا اندراج یوں ملتا ہے: اسم مذکر: اصولِ نغمہ یا فطری آہنگ اور جوش ِ مسرت میں تھرکنے اور ناچنے کا عمل یا کیفیت ، ناچ، ناچنا، اُچھلنے کُودنے، جھُومنے یا چکّر لگانے کی کیفیت یا عمل، اُچھل کُود، دائرے کی صورت میں تیز حرکت، چکّر، دَور، وَجد ، حال''۔ یہاں مشہور اصطلاح 'رقصِ بسمل' کا اندراج بھی دیکھیے: زخمی کے تڑپنے یا پھڑکنے کی حالت، کیفیت یا صورتِ حال
فنون ِ لطیفہ میں رقص ڈرامے، آرائش وزیبائش اور مُوسِیقی کی بنیاد سمجھا جاتا ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ جب 'ناٹ' یعنی ناچ سے ناٹک بنا تو وہی قدیم ڈراما ہے اور مُوسیقی کا استعمال بھی ناٹک سے مربوط ہے۔
مشاہدہ بتاتاہے کہ رقص کے ذریعے اپنے احساسات کا اظہار کرنے والی واحد مخلوق حضرتِ انسان نہیں، بلکہ جانور،پرندے اور حشرات الارض بھی رقص کرنا جانتے ہیں۔ خاکسار نے بہت پہلے اپنے کسی کالم یا مضمون میںاپنا یہ واقعہ لکھا تھا کہ ُاس نے اپنے پڑوس کی مسجد میں ایک مرتبہ، جمعہ کے خطبے کی سماعت کے دوران میں، ایک انتہائی پتلے اور ننھے مُنّے (نارنجی رنگ کے ) کیڑے کو عین اُس وقت وجد کی حالت میں جھومتے، بلکہ گویا باقاعدہ ناچتے ہوئے دیکھا جب امام صاحب نے سنت کی ادائی کے لیے وقفہ کیا اور خاکسار درودشریف پڑھ رہا تھا۔
پرندوں کے رقص کی متحرک تصاویر انٹرنیٹ پر دستیاب ہیں، مور کا رقص بہت مشہور ہے کہ 'جنگل میں مورناچا، کس نے دیکھا'۔ اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ مور فقط اپنی مورنی کو لُبھانے کے لیے ناچتا ہے، مگر عموماً ایسا کرتے ہوئے وہ مکمل تنہائی اور یکسوئی چاہتا ہے، پھر بھی ہم ایسے خوش نصیب ہیں کہ چڑیا گھر میں اُسے رقصاں دیکھ چکے ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ہندوستانی نسل کا مور محض برسات میں ناچتا ہے۔ 'رقصِ طاؤس' سے مرا د مور کا ناچ بھی ہے اور مور کی طرح پنکھ (یا پاؤں) پسار کے ناچنے کا عمل بھی۔ خاکسار کا خیال ہے کہ مولوی سید احمد دہلوی نے غالباً قدیم وجدید رقص کی وہ مثالیں نہیں دیکھی ہوں گی جن میں اُچھل کُود بھی لازم ہے اور جو بطور ورزش کی جاتی ہیں، ورنہ وہ مزید وضاحت کردیتے کہ بغیر اُچھل کُود کے بھی، جسم کو لچکانا اور مٹکانا رقص کہلاتا ہے۔ نثر ونظم کی بات کریں تو استعارے کی زبان میں رقصاں لہریں، چہرے پر رقصاں زُلفیں، چہرے پر خوف رقصاں، پاگلوں کی طرح ناچنا، ناچتی کرنیں اور سمندر کی موجوں پر رقص کرتی ہوئی ناؤ جیسی تراکیب اور فقرے اپنا مفہوم بھرپور اَدا کرتے ہیں۔ ریختہ ڈکشنری نے مختلف لغات سے مواد نقل کرتے ہوئے یہ اضافہ بھی کیا:
''پاکوبی جس کے ساتھ ساتھ موسیقی کی دُھن پر اعضائے جسم کی متناسب و مقررہ دلکش حرکات سے نرت کیا جائے یا بھاؤ بتائے جائیں، رقص، ناٹ، ترت، تھرکنا۔ رقص سے ملتا جلتا وہ نشاط آگیں عمل جو کوئی شخص فرطِ ِمسرت سے وجد میں یا شعر یا نغمہ سے متاثر ہوکر شروع کردے خواہ اس کی حرکات ہم آہنگ ہوں یا نہ ہوں، وجد کا عالم، وجد کی کیفیت۔ مذکر۔ رقص، خوشی میں آکر اچھلنا کودنا، اہل نغمہ کا باقاعدہ پاؤں کو زمین پر مارنا''۔ اسی آنلائن لغت میں، محفل رقص و سرود کے موضوع پر یہ شعر بھی نقل کیا گیا:
یہ واقعہ مری آنکھوں کے سامنے کا ہے
شراب ناچ رہی تھی گلاس بیٹھے رہے
(سعید قیس)
کچھ اور اَشعار بھی ملاحظہ فرمائیں:
کوئی مرے کسی کو خوشی ہو خدا کی شان
ماتم کسی جگہ ہو کہیں ناچ رنگ ہو
(لالہ مادھو رام جوہرؔ)
رکھا ہے ٹھور مجھ کو کہروے کے ناچ نے
کولھا کہیں کو جاوے ہے اس کا، کمر کہیں
(غلام ہمدانی مصحفی ؔ)
رقص کے موضوع پر اُردو میں بہت سے اشعار ملتے ہیں، لیکن 'می رقصم' کی ردیف پر فارسی میں کم ازکم تین یا چار شعراء سے منسوب کلام ملتا ہے، تھوڑے بہت تغیر کے ساتھ۔ اس کا ذکر اگلی قسط میں کروں گا۔ سردست اپنے بزرگ معاصر جناب عارف امام کی ایک غزل پیش کرکے رخصت ہوتا ہوں:
زخم سب اس کو دکھا کر رقص کر
ایڑیوں تک خوں بہا کر رقص کر
جامہ خاکی پہ مشت خاک ڈال
خود کو مٹی میں ملا کر رقص کر
اس عبادت کی نہیں کوئی قضا
سر کو سجدے سے اٹھا کر رقص کر
دور ہٹ جا سایہ محراب سے
دھوپ میں خود کو جلا کر رقص کر
بھول جا سب کچھ مگر تصویر یار
اپنے سینے سے لگا کر رقص کر
توڑ دے سب حلقۂ بود و نبود
زلف کے حلقے میں جا کر رقص کر
اس کی چشم مست کو نظروں میں رکھ
اک ذرا مستی میں آ کر رقص کر
اپنے ہی پیروں سے اپنا آپ روند
اپنی ہستی کو مٹا کر رقص کر
اس کے دروازے پہ جا کر دف بجا
اس کو کھڑکی میں بلا کر رقص کر
آگے بڑھنے سے پہلے اس نکتے کی وضاحت بھی کرتا چلوں۔ افریقہ اور آسٹریلیا کے قدیم باشندے (سیاہ فام یعنی ایک ہی نسل) غذا اور بارش کے لیے بطور عبادت یاپُوجا رقص کرتے ہیں، یہی سلسلہ امریکا کے اصل باشندوں کے یہاں ہے جنھیں غلط العام وغلط العوام نام ریڈ اِنڈیئن (Red Indians) یعنی سُرخ ہندی دیا گیا، (کیونکہ کولمبس نے اپنے خیال میں انڈیا دریافت کیا تھا)، کینیڈا میں فرسٹ نیشن (First Nation ) کہا گیا اور خاکسار نے مدتوں پہلے اُن کے ادب سے خوشہ چینی کرتے ہوئے تراجم کیے تو اُنھیں 'دیسی امریکی' (Native/Indigenous American) قراردیا۔
انھیں American Indianبھی کہا جاتا ہے (جبکہ دوسری طرف امریکا میں مقیم ہندوستانی بھی اسی نام سے جانے جاتے ہیں)، انھیں بجا طور پر First American بھی کہا جاسکتا ہے۔ محولہ بالارقص کا اکثر جادو اور دیگر مذہبی رسوم سے بھی ہوتا ہے۔ اس معاملے میں افریقہ کے سیاہ فام زیادہ آگے ہیں۔ اس رقص میں اُچھل کُود اور ڈھول تاشوں سمیت مختلف آلاتِ مُوسیقی اور رقاصوں کے حلق سے کیا جانے والاشورشرابا بھی شامل ہیں جو مختلف قبائل میں ارواحِ خبیثہ کو بھگانے کے خیال سے کیے جاتے ہیں۔ دیکھا جائے تو ہمارے یہاں شِیدی قوم کے توسط سے افریقی رقص کی یہ قسم کسی حد تک دَخیل ہوچکی ہے، اسی طرح لِیوا رقص بھی ہے۔
رقص یا ناچ کا سلسلہ کب اور کیسے شروع ہوا، اس بابت ہم قیاس ہی کرسکتے ہیں کہ خوشی سے ناچنا یا کسی بھی معاملے میں اچانک کامیابی کے حصول پر، جوش میں رقص کرنا گویا انسانی فطرت کا حصہ ہے تو عین ممکن ہے کہ انسان نے جب اپنی آفرینش اور زمین پر آمد کے بعد، مختلف مواقع پر جذبات کا اظہار اَزخود سیکھا ہوتو رقص بھی (گو بے قاعدہ) شروع کردیا ہوگا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسان نے اس اچانک اور بے اختیار عمل کو فَن بنادیا اور آج دنیا بھر میں رقص کے بے شمار طریقے رائج ہیں، بعض کا استعمال طِبّی لحاظ سے انسانی صحت کے لیے مفید ہے تو کچھ کے بارے میں ماہرین کا خیال ہے کہ ان سے ذہنی سکون ملتا ہے۔ اردو میں عربی الاصل لفظ رقص، ہندی الاصل ناچ اور انگریزی لفظ ڈانس یکساں طور پر رائج ہیں۔ نوراللغات میں ناچ کے معانی اس طرح بیان کیے گئے ہیں:
ناچ: (ہندی الاصل اسم مذکر) :(ا)۔ رقص، خوشی میں آکر اُچھلنا کُودنا، اہلِ نغمہ کا باقاعدہ پاؤں کو زمین پر مارنا،
بقول پنڈِت دَیا شنکرنسیم لکھنوی (صاحب ِ گلزارِ نسیم):
ناچ اگرچہ خوش نُما تھا
سنگت کا پکھاؤجی تھکا تھا
کسی کے آگے ناچنا، رقص دِکھانا، ناچ رنگ، (راگ رنگ، گانا بجانا، رقص و نغمہ، سامان عیش و نشاط، دھوم دھڑکا، رنگ رلیاں: اضافہ ازمختصر اُردو لغت: اردو لغت بورڈ)، ناچ گانا: (مذکر ،)،گانا بجانا، رقص و سرود (ہونا کے ساتھ) (ہمارے یہاں اکثر لوگ ناواقفیت میں سرود یعنی گانے یا گانے بجانے کو سُرور کہہ دیتے ہیں، ویسے سرود ایک ساز کا نام بھی ہے: س اص) شعر:
رہتا تھا ہمیشہ ناچ گانا
تھا اُس کا محل طلسم خانہ
(واجدعلی شاہ اخترؔشاہ ِ اَودھ)
ناچ گھر (مذکر): تماشا گاہ ، سوانگ گھر، تھیٹر، (جدید دور کا نائٹ کلب : س ا ص)، ناچ نچانا (کنایۃ ً ) : حیران پریشان کرنا، ستانا
؎ چل پھرتری موروں کو نئے ناچ نچائے
دیکھے جو کبک دری چال بدل جائے (رشکؔ)
ب)۔(کنایۃ ً ): قواعد کرنا (انگریزی میں drill یعنی فوج کی مشق وکسرت: س ا ص)، ایرے پھیرے کرانا (یہ اب متروک ہے: س ا ص)،ناچ نہ جانوں،آنگن ٹیڑھا ۔نیز۔ناچ نہ جانے، آنگن ٹیڑھا: مثل، اُس جگہ بولتے ہیں جب کوئی شخص کسی کام میں مداخلت نہ رکھنے کی وجہ سے حیلے بہانے کرے۔یا۔اُس سے کوئی کام نہ ہوسکے اور دوسرے پر اِلزام رکھے ۔یا۔کوئی کام اُس کو نہ آتا ہو اور اسباب وآلات کے بُرا ہونے کی شکایت کرے۔ ناچنا: رقص کرنا، خفگی یا غصے میں تلملانا ، ناچنے لگے تو گھونگھٹ کیسا: مثل، جس کام کا کرنا منظور ہے، پھر اُس میں لحاظ کرنا عبث ہے۔ اس کام کے واسطے بھی مستعمل ہے جس میں کوئی عیب ہو یعنی جب عیب والا کام اختیار کیا تو پھر شرم کیسی، مثال کے لیے دیکھیے قدرؔ کا شعر 'گھونگھٹ' میں:
مانگنے نکلے تو لگاوٹ ہی کیا
ناچنے جب نکلے تو گھونگھٹ ہی کیا
اس اہم اور مستند لغت میں 'تگنی کا ناچ نچانا' کا اندراج نہیں، حیرت ہے!
فرہنگ ِ اُردومحاورات از پروفیسر محمد حسن میں مذکور، مزید اضافے بھی ملاحظہ فرمائیں:
''ناچنے لگی تو گھونگھٹ کیسا''یعنی جب کوئی (گھٹیا یا نامناسب:س ا ص) کام کرنا ہی ہے تو شرم کیسی
''ناچے بامن، دیکھے دھوبی'' یعنی اُلٹا زمانہ (کسی معاملے میں وقت اور ماحول کا موافق نہ ہونا: س ا ص)
''ناچے کُودے ، توڑے تان'' یعنی جو شخص دنیا میں اپنا وقت ہنسی خوشی سے گزارے، اُسی کی عزت ہوتی ہے۔
فرہنگِ آصفیہ اور نوراللغات جیسی مستند ومعتبر لغات میں گاہے عوامی، ذیلی یاتحتی بولی (Slang) کی مثالیںبھی ملتی ہیں، مگر بعض اوقات بندہ ششدر رہ جاتا ہے جب کوئی بہت مشہور مثال اِن دونوں میں موجود نہ ہو۔ اس کی دو وجوہ ہیں:
ا)۔ وہ لفظ، ترکیب یا فقرہ اُس دور میں موجودہی نہ ہویعنی بعد میں گھڑا گیا ہو ۔یا۔ب)۔ مؤلف نے اسے شامل کرنا مناسب نہ سمجھا ہو۔ اب میں آپ کو یاد دِلاؤں ایسا ہی ایک لفظ جو کم ازکم ہمارے گھرانوں میں بہت عام رہا ہے: نَچنیا (نچن یا) یعنی ناچنے والا (کلمہ تحقیر)۔
راجہ راجیسور (راجیشور) راؤ اصغرؔ جیسے فاضل، ماہرِِلسان کی مرتبہ اردو۔ہندی لغت، ناچ کے ذکر سے خالی ہے، کیونکہ اصل لفظ 'ناٹ' (دراوڑی الاصل جو تَمِل جیسی زبانوں میں موجود ہے) سے ناٹَک بنا تو وہی جگہ پاگیا۔ اس لغت میں لکھا ہے:
ناٹ: ناچ، رقص، نقل (یعنی وہی ناٹک یا انگریزی کا Farce: س اص)، مُلک کرناٹک (بھارت کی ریاست یعنی صوبہ کرناٹک جسے لوگ سہواً کرناٹکا بولتے ہیں، حالانکہ اس نام کا آخری حرف ساکن ہے: س اص)۔
ناٹک: کھیل (انگریزی میں آج بھی ڈرامے کو ڈراما کے علاوہ Playیعنی کھیل کہتے ہیں، البتہ ہمارے یہاں اب لفظ کھیل بمعنیٰ ڈراما متروک ہوچکا ہے: س ا ص)، تماشا، تھیٹر، ڈراما، مضامینِ شاعرانہ سے بیانِ حالِ بزرگان وغیرہ جیسے ہنومان ناٹک وغیرہ (یہاں فاضل مؤلف 'رام لِیلا' بھی لکھ سکتے تھے: س اص)
ناٹِکا : ناٹک کرنے والی عورت، نَٹوی (نَٹ یعنی کرتب باز کی مؤنث: س اص)
ناٹک شالا: ناچ گھر ، خانہ ٔ رقص و سرود
ناٹِکی: ناٹک کرنے والی عورت، نَٹوی
ناٹَن: ناچنا، رقص کرنا
ناٹیہ: ناچ، رقص
ناٹیہ شالا: ناچ گھر، رقص خانہ
یہاں یاد رکھنے کی بات ہے کہ لفظ 'ناٹیہ' کو کھُل کر ناٹیا نہیں بولا جائے گا، بلکہ یہ 'ناٹ ۔اے' ہے ، اسی طرح ناٹیہ شالا۔
اردو لغت بورڈ کی مختصر اُردو لغت نے اسی اندراج میں اضافے کرکے یوں بیان کیا:
ناٹک: عملی تمثیل (ڈراما) جس میں ایک کہانی، مُکالمے اور اَداکاری کے ذریعے سے تماشائیوں کے سامنے پیش کی جاتی ہے اور لباس، مناظر، احساسات اور جذبات سے کہانی کے عہد کی اصلی زندگی کی عکاسی کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، نقل، کہانی جس کے اجزاء میں ڈرامے کی طرح ربط ہو اور جو بالآخر کسی (طربیہ یا المیہ) نتیجے پر اختتام پذیر ہو، بناوٹی عمل، سوانگ، (مجازاً) تھیٹر کمپنی، کھیل دِکھانے والوں کی منڈلی، تھیٹر ، تماشا گاہ
ناٹک بازی: ڈراما یا ناٹک کھیلنے کا عمل، ناٹک دِکھانا (مجازاً) تماشا کرنا، سوانگ رچانا
(یہاں خاکسار سہیل کا اضافہ بھی لازم ہے: ناٹک کرنا بمعنیٰ جھوٹ موٹ کا عمل یا تماشا کرنا جس سے وقتی طور پر صورت ِ حال بدل سکتی ہو۔ یہ تحتی یا ذیلی یا عوامی بولی ہے جسے انگریزی میں Slang کہتے ہیں)
ناٹیہ : گیت، ناچ، نقل اور سازینہ کی مجموعی پیشکش، رقص یا اَداکاری کا فن یا علم، ناچ گانے کا علم، فنِ تمثیل، (صفت) ناٹک کا، تمثیلی، ڈرامے کی شکل میں
رقص عربی الاصل لفظ ہے جو ہماری پیاری زبان سمیت دنیا کی متعدد زبانوں میں رائج ہے۔ رقص کی تعریف میں یہ کہاجاتا ہے کہ اس سے مراد، فرطِ جذبات (یاجوشِ جذبات) میں بے ساختہ سرزد ہونے والی حرکات ہیں۔ عربی میں 'رَقَصَ' سے مراد ہے ناچنا، اضطراب کرنا، بہت زیادہ ناچنے والا'الرّقّاص' ہے (جبکہ اردو میں محض رقص کرنے والا مراد ہے)۔ دل چسپ انکشاف یہ ہے کہ گھڑی کے لنگر یعنی پنڈولم (pendulum) کو عربی میں رَقّاص ُالسّاعَۃ کہتے ہیں، گویا وہ بھی رقص کرتا ہے۔ ناچنے والی کو عربی میں الرّقاصہ کہتے ہیں، جبکہ اس کے دیگر مطالب میں 'عربوں کا ایک کھیل' اور بنجر زمین بھی شامل ہیں۔ (المنجد عربی اردو لغات)۔ فارسی میں رقص مستعمل ہے اور دوسرا لفظ خالص فارسی ہے: پاکوبی، جبکہ جدید تُرکی میں رکس (رومن رسم الخط میں 'ق' نہ ہونے کی بِناء پر) اور دانس (ڈانس) دونوں بولے جاتے ہیں۔
فرہنگ آصفیہ کے الفاظ میں رقص کا مطلب ہے: اُچھلنا، کودنا، کُودپھاند، اُچھل کُود، ناچ اور اصولِ نغمات کے موافق تھِرَکنا۔ یہاں غور طلب نکتہ یہ ہے کہ رقص مربوط ومنظم ہو تو اُس میں جسم کی معتدل ومتوازن حرکات، رقص کرنے والے کی نبض اور دھڑکن سے جُڑے ہوتے ہیں اور اعضاء کی متناسب ومتوازن جُنبش تماشائی کو محو کردیتی ہے، نیز دیکھنے والے اُس تھرکتے، لچکتے، بل کھاتے جسم میں گویا زندگی کی انوکھی حرارت محسوس کرتے ہیں اور کبھی اُنھیں یہ احساس بھی ہوتا ہے کہ اعضائے جسمانی کی یہ پُرکشش نمائش بھی انسانی حُسن کی لطیف عکاسی ہے جو خود تماشائی کو اِس عمل میں شامل ہونے پر آمادہ کرتی ہے یا کرسکتی ہے۔
اردو لغت بورڈ کی مختصر اُردو لغت (جلد اوّل) میں لفظ 'رقص' کا اندراج یوں ملتا ہے: اسم مذکر: اصولِ نغمہ یا فطری آہنگ اور جوش ِ مسرت میں تھرکنے اور ناچنے کا عمل یا کیفیت ، ناچ، ناچنا، اُچھلنے کُودنے، جھُومنے یا چکّر لگانے کی کیفیت یا عمل، اُچھل کُود، دائرے کی صورت میں تیز حرکت، چکّر، دَور، وَجد ، حال''۔ یہاں مشہور اصطلاح 'رقصِ بسمل' کا اندراج بھی دیکھیے: زخمی کے تڑپنے یا پھڑکنے کی حالت، کیفیت یا صورتِ حال
فنون ِ لطیفہ میں رقص ڈرامے، آرائش وزیبائش اور مُوسِیقی کی بنیاد سمجھا جاتا ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ جب 'ناٹ' یعنی ناچ سے ناٹک بنا تو وہی قدیم ڈراما ہے اور مُوسیقی کا استعمال بھی ناٹک سے مربوط ہے۔
مشاہدہ بتاتاہے کہ رقص کے ذریعے اپنے احساسات کا اظہار کرنے والی واحد مخلوق حضرتِ انسان نہیں، بلکہ جانور،پرندے اور حشرات الارض بھی رقص کرنا جانتے ہیں۔ خاکسار نے بہت پہلے اپنے کسی کالم یا مضمون میںاپنا یہ واقعہ لکھا تھا کہ ُاس نے اپنے پڑوس کی مسجد میں ایک مرتبہ، جمعہ کے خطبے کی سماعت کے دوران میں، ایک انتہائی پتلے اور ننھے مُنّے (نارنجی رنگ کے ) کیڑے کو عین اُس وقت وجد کی حالت میں جھومتے، بلکہ گویا باقاعدہ ناچتے ہوئے دیکھا جب امام صاحب نے سنت کی ادائی کے لیے وقفہ کیا اور خاکسار درودشریف پڑھ رہا تھا۔
پرندوں کے رقص کی متحرک تصاویر انٹرنیٹ پر دستیاب ہیں، مور کا رقص بہت مشہور ہے کہ 'جنگل میں مورناچا، کس نے دیکھا'۔ اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ مور فقط اپنی مورنی کو لُبھانے کے لیے ناچتا ہے، مگر عموماً ایسا کرتے ہوئے وہ مکمل تنہائی اور یکسوئی چاہتا ہے، پھر بھی ہم ایسے خوش نصیب ہیں کہ چڑیا گھر میں اُسے رقصاں دیکھ چکے ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ہندوستانی نسل کا مور محض برسات میں ناچتا ہے۔ 'رقصِ طاؤس' سے مرا د مور کا ناچ بھی ہے اور مور کی طرح پنکھ (یا پاؤں) پسار کے ناچنے کا عمل بھی۔ خاکسار کا خیال ہے کہ مولوی سید احمد دہلوی نے غالباً قدیم وجدید رقص کی وہ مثالیں نہیں دیکھی ہوں گی جن میں اُچھل کُود بھی لازم ہے اور جو بطور ورزش کی جاتی ہیں، ورنہ وہ مزید وضاحت کردیتے کہ بغیر اُچھل کُود کے بھی، جسم کو لچکانا اور مٹکانا رقص کہلاتا ہے۔ نثر ونظم کی بات کریں تو استعارے کی زبان میں رقصاں لہریں، چہرے پر رقصاں زُلفیں، چہرے پر خوف رقصاں، پاگلوں کی طرح ناچنا، ناچتی کرنیں اور سمندر کی موجوں پر رقص کرتی ہوئی ناؤ جیسی تراکیب اور فقرے اپنا مفہوم بھرپور اَدا کرتے ہیں۔ ریختہ ڈکشنری نے مختلف لغات سے مواد نقل کرتے ہوئے یہ اضافہ بھی کیا:
''پاکوبی جس کے ساتھ ساتھ موسیقی کی دُھن پر اعضائے جسم کی متناسب و مقررہ دلکش حرکات سے نرت کیا جائے یا بھاؤ بتائے جائیں، رقص، ناٹ، ترت، تھرکنا۔ رقص سے ملتا جلتا وہ نشاط آگیں عمل جو کوئی شخص فرطِ ِمسرت سے وجد میں یا شعر یا نغمہ سے متاثر ہوکر شروع کردے خواہ اس کی حرکات ہم آہنگ ہوں یا نہ ہوں، وجد کا عالم، وجد کی کیفیت۔ مذکر۔ رقص، خوشی میں آکر اچھلنا کودنا، اہل نغمہ کا باقاعدہ پاؤں کو زمین پر مارنا''۔ اسی آنلائن لغت میں، محفل رقص و سرود کے موضوع پر یہ شعر بھی نقل کیا گیا:
یہ واقعہ مری آنکھوں کے سامنے کا ہے
شراب ناچ رہی تھی گلاس بیٹھے رہے
(سعید قیس)
کچھ اور اَشعار بھی ملاحظہ فرمائیں:
کوئی مرے کسی کو خوشی ہو خدا کی شان
ماتم کسی جگہ ہو کہیں ناچ رنگ ہو
(لالہ مادھو رام جوہرؔ)
رکھا ہے ٹھور مجھ کو کہروے کے ناچ نے
کولھا کہیں کو جاوے ہے اس کا، کمر کہیں
(غلام ہمدانی مصحفی ؔ)
رقص کے موضوع پر اُردو میں بہت سے اشعار ملتے ہیں، لیکن 'می رقصم' کی ردیف پر فارسی میں کم ازکم تین یا چار شعراء سے منسوب کلام ملتا ہے، تھوڑے بہت تغیر کے ساتھ۔ اس کا ذکر اگلی قسط میں کروں گا۔ سردست اپنے بزرگ معاصر جناب عارف امام کی ایک غزل پیش کرکے رخصت ہوتا ہوں:
زخم سب اس کو دکھا کر رقص کر
ایڑیوں تک خوں بہا کر رقص کر
جامہ خاکی پہ مشت خاک ڈال
خود کو مٹی میں ملا کر رقص کر
اس عبادت کی نہیں کوئی قضا
سر کو سجدے سے اٹھا کر رقص کر
دور ہٹ جا سایہ محراب سے
دھوپ میں خود کو جلا کر رقص کر
بھول جا سب کچھ مگر تصویر یار
اپنے سینے سے لگا کر رقص کر
توڑ دے سب حلقۂ بود و نبود
زلف کے حلقے میں جا کر رقص کر
اس کی چشم مست کو نظروں میں رکھ
اک ذرا مستی میں آ کر رقص کر
اپنے ہی پیروں سے اپنا آپ روند
اپنی ہستی کو مٹا کر رقص کر
اس کے دروازے پہ جا کر دف بجا
اس کو کھڑکی میں بلا کر رقص کر