تتلیوں کا مہینہ گزر گیا

ستمبر کا مہینہ گزر گیا، تتلیوں سے محبت کا مہینہ تھا اور ہم نے یہ مہینہ ان کی قربت میں گزارا۔

پاکستان بٹرفلائی سوسائٹی مسلسل دو سال سے ماہ ستمبر کو تتلیوں کے مہینے کے طور پر منا رہی ہے۔ نیچر دوست ساتھی سلمان بلوچ پاکستان بٹرفلائی سوسائٹی کا سہ ماہی جریدہ اپنی فیس بک وال پر شیئر نہ کرتے تو میں موجودہ سال بھی اس قافلے کا ہمراہی نہیں بن پاتا۔ میں نے جریدہ ڈاؤن لوڈ کرکے اس کا مطالعہ کیا، آگاہی ملی۔ خیال آیا کیوں نہ اس ٹیم سے منسلک ہوکر آگاہی حاصل کروں اور یہی آگاہی اسکول کے طلبا تک پہنچا دوں۔

ہمارا نصاب آگاہی کے سلسلے میں خالی ہے۔ نصاب میں نیچر سے دوستی سکھائی ہی نہیں جاتی۔ انسان اور جنگلی حیات کے مابین جو تنازع موجود ہے اس تنازع کا سدباب کرنے کےلیے ہمارے نصاب میں ایک بھی مضمون نہیں پایا جاتا۔

ستمبر کا مہینہ تتلیوں کا بڑا مہینہ تھا اور ہم نے اس مہینے کا خوب لطف اٹھایا، اس لیے کہ تتلیوں کو بہت ہی قریب سے دیکھا، ان کے عادات و اطوار سے شناسائی ہوئی۔

پاکستان بٹر فلائی سوسائٹی نے اس ماہ کو ’’بِگ بٹرفلائی منتھ 2024‘‘ کا نام دیا۔ جس میں پاکستان بھر سے تتلیوں سے محبت کرنے والوں کو دعوت دی گئی کہ وہ اپنے اپنے علاقوں کی تتلیوں کی تصویریں لے کر Inaturalist (بین الاقوامی سطح پر قائم نیچر کا پلیٹ فارم) پر اپ لوڈ کریں۔ پاکستان بھر سے 54 تتلی دوستوں نے اس مہم میں حصہ لیا، جس میں راقم بھی شامل تھا۔ 1596 مشاہدات ہوئے، جس میں 142 سپیشیز ریکارڈ ہوئیں۔

فوٹوگرافی کے معاملے میں کورا کاغذ ہوں لیکن تتلیوں سے قربت نے موبائل کا کیمرہ استعمال کرنے پر آمادہ کیا۔ شروعات میں یوں محسوس ہوا کہ تتلیوں کی فوٹوگرافی کرنا آسان کام نہیں۔ قریب جاؤ تو یہ اڑ جاتی ہیں، دور سے کھینچو تو تصویر میں تتلی کا عکس واضح نہیں۔ پھر میں نے ان کی نفسیات کا مطالعہ کرنا شروع کردیا۔ مشاہدے اور قربت سے ان کی عادات و اطوار، مسکن اور رویوں سے متعلق آگاہی ہونے لگی۔

آئی نیچرلسٹ قدرت کا ڈیٹا محفوظ کرنے کےلیے ایک اہم ذریعہ ہے۔ سلمان بلوچ آئی نیچرلسٹ کو پروموٹ کرنے میں کافی متحرک ہیں اور اس پلیٹ فارم تک رسائی کا ذریعہ وہی بنے۔ انہوں نے ہی مجھے اس کے استعمال کا طریقہ کار بتایا۔

اب تتلیوں کی پہچان کیسے ہو؟ اس تحریک کے ساتھ منسلک ہونے سے قبل میرے نزیک تمام تتلیاں ہی کہلاتی تھیں، یہ معلوم نہیں تھا کہ ہر ایک کا الگ الگ نام اور سائنسی نام ہے۔ عادات و اطوار، مساکن کے حوالے سے ہر ایک کا جداگانہ طریقہ کار ہے۔ اس تحریک کو پاکستان کی سطح پر لیڈ کرنے والے اکرم اعوان کی قربت نے یہ کام آسان کردیا۔ تتلیوں کا انسائیکلوپیڈیا ہیں، وسیع مطالعہ اور تجربہ رکھتے ہیں۔ تتلی کا نام نہیں آرہا، تصویر انہیں بھیج دی، شناخت نامہ ان کی طرف سے آیا۔ تصویر بمعہ نام آئی نیچرلسٹ پر اپ لوڈ کرکے علاقے کا ایک اہم ڈیٹا محفوظ کرلیا۔

ایک دن ہوا یوں کہ تتلیوں کی لی گئی چند تصویریں شناخت کےلیے انہیں بھیج دیں۔ چند ہی لمحے کے بعد ان کی کال آئی اور انہوں نے مسحورکن آواز میں یہ خوش خبری سنائی کہ یہ نہ صرف ’’بگ بٹرفلائی منتھ پروجیکٹ‘‘ میں ایک حیران کن اضافہ ہے بلکہ آپ پاکستان سے اس تتلی کی زندہ حالت میں تصویر لینے والے پہلے شخص بن گئے ہیں۔

یہ تتلی Desert Orange-Tip تھی۔ میں نے انھیں بتایا کہ یہ تتلی ہمارے ہاں (جاھو آواران میں) تو عام ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ تتلی برصغیر میں 1935 میں ریکارڈ ہوئی تھی، جس علاقے سے یہ ریکارڑ ہوئی تھی وہ پسنی کا علاقہ تھا۔ شاید گمان یہی ہوگا کہ مذکورہ تتلی ایران سے ہجرت کرکے آئی ہوگی، بعد میں ایکسپلور نہیں ہوئی۔ اس خبر نے مجھے شاد کردیا۔ شاد اس لیے کہ اپنی مٹی، تخلیق اور دریافت کے اس عمل میں شامل ہوگئی ہے۔

ویسے دیکھا جائے تو دریافت ہونے کےلیے بہت کچھ ہے۔ مگر سرحدیں اور بندشیں اتنی ہوگئیں کہ حسرتوں کے باوجود ہم وہاں تک جا نہیں پاتے۔ سُورگر جو ہمارا ہی علاقہ ہے لوگوں سے اس کی خوبصورتی اور قدرتی کنکشن کا سن کر خواہش شدت کے ساتھ امڈ آتی ہے کہ پَر لگا کر وہاں چلا جاؤں، وہاں کی چھاؤں میں بیٹھ کر قدرت کے کمالات کا گُن گاؤں۔ مگر ہائے قسمت! وہاں جانے کےلیے ویزے کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہیں مجھے ’’رفیوجی‘‘ فلم کی ایک گانے کے بول یاد آتے ہیں:

’’پنچھی ندیا پون کے جھونکے

کوئی سرحد نہ انہیں روکے

سرحد انسانوں کےلیے ہے

سوچو! میں نے اور تم نے

کیا پایا انسان ہوکے‘‘

(سوائے سرحدیں بنانے کے)۔

کہنے کا مقصد یہی ہے کہ آواران بلکہ یوں کہیے کہ بلوچستان کا خطہ ایکسپلور ہونا چاہیے۔ اس کی خوبصورتی، اس کی قدرت اور قدرت سے جڑے حیات کا مشاہدہ اور دل کو جکڑنے والے مناظر۔

1929 میں ایک انگریز بریگیڈیئر ڈبلیو ایچ ایونز کا تبادلہ بلوچستان میں ہوا۔ وہ قدرتی مناظر کے دلدادہ تھے اور قدرت نے انھیں تتلیوں کے ساتھ منسلک کردیا۔ انھوں نے بلوچستان کی تتلیوں کو ایکسپلور کرنا شروع کیا۔ 1932 اُن کی سروس کا آخری سال تھا۔ اسی سال انھوں نے تتلیوں پر اپنی کتاب شائع کی۔ بلوچستان تتلیوں پر ان کا آرٹیکل جرنل میں بعنوان “The Butterflies of Balochistan” شائع ہوا۔ جس میں ایونز نے 108 اقسام کی تتلیوں کی نشاندہی کی۔ ان تتلیوں کے مسکن اور افزائش نسل سے متعلق احوال بھی درج کیے۔ انہوں نے اس کام کےلیے بلوچستان کے تین اضلاع، جہاں ان کی تعیناتی اور نقل و حمل رہی، کو ایکسپلور کیا۔ اگر وہ پورے بلوچستان کو ایکسپلور کرتے تو وہ بلوچستان کی تتلیوں کا ایک بڑا مجموعہ ریکارڑ پر لے آتے۔

پیلو کا درخت جو کبڑھ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ مشاہدے کے دوران یہ بات مجھے کلک کرگئی کہ کبڑھ کا درخت تتلیوں کو لبھاتا ہے۔ پلین ٹائیگرز، سسی تتلی، وائٹ پائینور اور بے شمار اقسام کی تتلیاں اس درخت کو اپنا مسکن بنا لیتی ہیں۔ پھر میں نے ڈیزرٹ اورنج ٹپ تتلی کی عادات، حرکات و سکنات کا قریب سے مشاہدہ کرنا شروع کردیا، اب بھی ایک ادنیٰ طالب علم کی حیثیت سے کررہا ہوں۔ اس تتلی کے پَر سفید ہوتے ہیں۔ قدرت نے اس کے پروں کے اوپری حصے کو نارنگی رنگ سے پینٹ کیا ہے اور پھر کالے رنگ کا باریک بارڈر بنا کر اس نارنگی رنگ کو اور دلکش بنا دیا ہے۔ جب اس کے پَر بند ہوں تو اس کی خوبصورتی مدہم پڑ جاتی ہے۔ شام کے وقت یہ اپنے پر بالکل نہیں کھولتی۔ آپ لاکھ اس کی منت سماجت کریں، یا اسے خدا کا واسطہ دیں، یہ اپنی انا پر قائم رہتی ہے۔

ڈیزرٹ اورنج ٹپ کی نر اور مادہ کے خصائل میں فرق پایا جاتا ہے۔ نر ایک گھاس، جسے بلوچی میں ’’شَیز‘‘ کہا جاتا ہے، پر قیام کرنا پسند کرتا ہے، جبکہ مادہ اپنا مسکن ’’جُگر‘‘ (درخت کا مقامی نام) کو بنا لیتی ہے۔ یہیں انڈے دیتی ہے اور درخت کے پتے لاروا کی خوراک بن جاتے ہیں۔

صبح جب دھوپ نکل آتی ہے تو دیگر تتلیوں کی طرح یہ تتلی چہل قدمی کرنا شروع کردیتی ہے۔ سورج نکلنے کے ایک گھنٹے بعد یہ اپنے خوبصورت پروں کا رخ سورج کی طرف کرکے کھولنا شروع کردیتی ہے۔ جب یہ اپنے پروں کو کھولتی ہے تو یہ لمحہ دل کے کیمرے میں قید ہوکر اسے مسکرانے پر مجبور کردیتا ہے اور کیمرے کا رخ پروں کی طرف چلا جاتا ہے۔

بگ بٹرفلائی منتھ تو چلا گیا مگر تتلیاں ہمارے آس پاس موجود ہیں، اور ان کے رنگ ہماری دنیا کو ہمہ وقت خوبصورت بنا رہے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔