اسپرے مہم شروع نہ ہونے سے کراچی سمیت سندھ میں ڈینگی وائرس تیزی سے پھیلنے لگا

طفیل احمد  پير 7 اکتوبر 2024
(فوٹو: فائل)

(فوٹو: فائل)

  کراچی: کراچی سمیت سندھ بھر میں مون سون کے بعد ڈینگی وائرس تیزی سے پھیلنا شروع ہوگیا ہے جبکہ محکمہ صحت سمیت صوبائی اور مقامی حکومتوں نے ڈینگی کے خاتمے کے لیے تاحال اسپرے مہم شروع نہیں کی ہے۔

ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ اگست کے وسط سے دسمبر کے درمیان تک ڈینگی وائرس کا سیزن رہتا ہے، کراچی سمیت صوبے بھر میں گزشتہ 4 برسوں سے ڈینگی کے خاتمے کے لیے محکمہ صحت کوئی قابل ذکر اقدامات کرنے میں ناکام رہا ہے۔

سال 2020 سے اگست 2024 تک سندھ بھر میں ڈینگی کے 37 ہزار سے زائد ڈینگی کے کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں جبکہ 4 سال میں ڈینگی وائرس کی وجہ سے 96 افراد جاں بحق ہوئے۔ ڈینگی کے خاتمے کے لیے حکومتی اداروں کے درمیان رابطے کا فقدان ہے۔

ماہرین صحت نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر 2024 کے آنے والے دنوں میں ڈینگی کے خاتمے کے لیے کوئی مؤثر مہم نہ چلائی گئی تو دسمبر 2024 تک سندھ بھر میں ڈینگی کا مرض خطرناک صورت اختیار کر سکتا ہے۔ ماہرین صحت نے عوام سے درخواست کی ہے کہ وہ ڈینگی سے بچاؤ کے لیے احتیاطی تدابیر پر عمل کریں، سندھ بھر میں سرکاری اسپتالوں میں ڈینگی کے وارڈز تاحال فعال نہیں ہیں جبکہ نجی استپالوں میں ڈینگی کا علاج بہت مہنگا جو غریب آدمی کے بس سے باہر ہے۔

ویکٹربون ڈیزیز پروگرام کے ڈائریکٹر ڈاکٹر مشتاق شاہ نے کہا کہ ڈی ایچ اوز کے ساتھ مل کر ڈینگی کے خاتمے کے لیے اسپرے مہم شروع کر دی گئی ہے، محکمہ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ ڈینگی سے بچاؤ کے لیے سرکاری اسپتالوں میں وارڈز اور دیگر سہولیات کے بتدریج فعال کیا جا رہا ہے۔

ایکسپریس ٹریبوں نے سندھ میں ڈینگی کے حوالے سے رپورٹ مرتب کی ہے۔

محکمہ صحت کے ویکٹربون ڈیزیز کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق کراچی سمیت سندھ میں 2020 میں 4 ہزار 318 افراد ڈینگی وائرس سے متاثر ہوئے اور 3 افراد اس وائرس کا شکار ہوکر جاں بحق ہوئے، 2021 میں 6 ہزار739 افراد وائرس کا شکار ہوئے اور اس وائرس نے 28 افراد کی جان لے لی، اس کے باوجود کراچی سمیت سندھ بھر میں مچھر مارنے کی اسپرے مہم شروع نہیں کی گئی جس کے نتیجے میں 2022  میں ڈینگی وائرس نے شدت اختیار کی جس کی وجہ سے 22 ہزار 274 افراد وائرس کا شکار ہوئے اور 64 افراد اپنی جان سے گئے، 2023 میں ڈینگی سے 2800 افراد اس وائرس کا شکار ہوئے جبکہ کوئی اموات نہیں ہوئی۔

ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ سروسز سندھ کے ویکٹر بون ڈیزیز سندھ کے ستمبر 2024 کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق کراچی سمیت سندھ بھر میں ڈینگی وائرس سے 1579 افراد شکار ہوئے جبکہ کراچی میں ایک موت ہوئی جس کا تعلق ضلع وسطی سے تھا۔

حکام نے بتایا کہ کراچی ایسٹ میں 458، کراچی سینٹرل میں 339، کورنگی میں 100، ساوتھ میں 257، ویسٹ میں 71، ملیر میں 66 جبکہ کیماڑی میں 82 افراد وائرس کا شکار ہوئے۔ اسی طرح حیدرآباد میں 109، جامشورو میں 6، بدین میں 1، دادو میں 5، ٹندو محمد خان میں 2، ٹھٹھہ میں 3، تھرپارکر میں 24، میرپورخاص میں 13، لاڑکارنہ میں 7، جیکب آباد میں 2، شکارپور میں 1، گھوٹکی میں 4، خیرپور میں 5، سکھر میں 7، نوشیرو فیروز میں 3، سانگھڑ میں 4 جبکہ شہید بے نظیر آباد میں 10 افراد وائرس کا شکار ہوئے۔

بجٹ دستاویز کے مطابق 2024-25 میں ویکٹربون ڈیزیز کے ماتحت کام کرنے والے ڈینگی کنٹرول پروگرام کا بجٹ ڈھائی ملین روپے بڑھا کر 67.349 ملین روپے کر دیا گیا جس میں اسپرے کی مد میں 16.66  ملین روپے مختص کیے گئے ہیں جبکہ پیٹرول اور فیول کی مد میں 27 لاکھ 83 ہزار روپے رکھے گئے ہیں۔ سال 2023-24 میں اس پروگرام کے لیے 61.660 ملین روپے مختص کیے گئے تھے، مچھر مار اسپرے میں استعمال ہونے والی ادویات کی مد میں 14.5 ملین روپے دیے گئے لیکن کراچی میں مؤثر اسپرے مہم شروع نہیں کی جا سکی۔

یاد رہے کہ اسپرے سے پہلے علاقوں کا سروے کیا جاتا ہے لیکن کراچی سمیت سندھ میں مچھر کے خاتمے کے لیے کوئی اسپرے نہیں کیا گیا۔

واضح رہے کہ ڈینگی پروگرام کے لیے 2022-23 کے بجٹ میں 83.286 ملین روپے مختص کیے گئے تھے جس میں مچھر مار اسپرے میں استعمال ہونے والی ادویات کی مد میں 12.142 ملین روپے دیے گئے جبکہ 2021-22 کے مطابق ڈینگی پروگرام کے لیے 76.088 ملین روپے مختص کیے گئے تھے جس میں مچھر مار اسپرے میں استعمال ہونے والی ادویات کی مد میں 11.038 ملین روپے دیے گئے۔ اس طرح 2021 سے 2024 تک چار سالوں میں ڈینگی پروگرام کے لیے 288.383 ملین روپے فراہم کیے جا چکے ہیں لیکن پھر میں اس وائرس پر قابو نہیں پایا جا سکا۔

انڈس اسپتال کے انفیکشن ڈیزیز شعبے کی سربراہ ڈاکٹر سمرین سرفراز نے بتایا کہ ڈینگی ایک وبائی مرض بن چکا ہے، مون سون کے بعد اس کی شرح زیادہ بڑھ جاتی ہے جس میں اہم وجہ اس موسم میں مچھر کی افزائش ہے۔ ڈینگی کے مچھر کی افزائش ٹہرے ہوئے پانی میں ہوتی ہے اور بارش کے موسم میں اس کی افزائش بڑھ جاتی ہے۔ رواں تین ماہ میں ہمارے اسپتال میں ڈینگی کی تعداد میں تھوڑا اضافہ ہوا ہے، ان تین ماہ میں 700 کی کیسز رپورٹ ہوئے، 80 کے قریب مریض اسپتال میں داخل ہوئے ہیں، ان میں سے 5 مریض کا انتقال ہوگیا، بارش کا موسم ختم ہوتے ہی اس سے متاثرہ افراد کی تعداد میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ ڈینگی کی تعداد میں ہر سال اضافے کی وجہ مچھر پر قابو نہ پانا ہے، ڈینگی سے بچاؤ کا بنیادی حل صفائی اور مچھر مار اسپرے ضروری ہے، لوگ کے لیے ضروری ہے کہ مچھر سے بچاؤ کی احتیاتی تدابیر پر عمل کریں۔

پی ای سی ایچ ایس میں مقامی لیب کی انچارج امبر شیخ نے بتایا کہ جب ڈینگی پھیلاتا ہے تو مریض کی زندگی بچانے کے لیے سنگل اور میگا پلیٹلیٹس کی ضرورت ہوتی ہے اور جب یہ وبائی صورت اختیار کرتا ہے تو اس کا حصول ایک چیلنج ہوتا ہے۔ گزشتہ سال ڈینگی کے دوران سنگل پلیٹلیٹ 10 ہزار اور میگا پلیٹلیٹ 25 سے 30ہزار روپے کے درمیان فروخت کیا جاتا ہے۔ اس وقت جیسے جیسے اس مرض میں اضافہ ہوگا، پلیٹلیٹ بیگ کی قیمتوں میں مزید اضافے کا امکان ہے۔

صدر میں مچھر دانی فروخت کرنے والے اسٹور کے مالک زاہد علی نے بتایا کہ مچھردانی کی مختلف اقسام کی قیمتوں میں 400 سے 800 روپے تک اضافہ ہوا ہے اور یہ 1500 سے 3 ہزار روپے سے زائد میں فروخت ہو رہی ہے۔ اس کے علاوہ، مختلف اقسام کے مچھر مار اسپرے اور لوشن کی قیمتوں میں بھی 15 سے 20 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور یہ 300 سے 1 ہزار روپے یا اس سے زائد میں فروخت ہو رہے ہیں۔

جناح، سول اور عباسی شہید اسپتالوں کے سروے کے دوران دیکھنے میں آیا کہ ان اسپتالوں میں ڈینگی وارڈ فعال نہیں ہیں۔ ڈینگی کے مریض اسپتال میں آرہے ہیں لیکن علاج کی مناسب سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے بیشتر مریض نجی اسپتالوں کا رخ کر رہے ہیں، ان اسپتالوں کے حکام نے بتایا کہ ڈینگی وارڈ کو جلد فعال کر دیا جائے گا۔

ماہر صحت ڈاکٹر فاروق پٹھان نے بتایا کہ کراچی میں گزشتہ کئی برسوں سے موثر طریقے سے ڈینگی اسپرے نہیں ہو رہا ہے جس کی وجہ سے ڈینگی کے کیسز میں مزید اضافے کا امکان ہے۔ انہوں نے بتایا کہ مچھر مار اسپرے مہم ویکٹربون ڈیزیز کی ذمہ داری تھی لیکن اس منصوبے نے کراچی سمیت سندھ بھر کے اضلاع میں اسپرے مہم کو ضلعی سطح پر قائم ڈسٹرکٹ ہیلتھ افسران کے ذمے ہے لیکن ڈی ایچ اوز اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔

کراچی کے ضلعی ہیلتھ افسران کا کہنا ہے کہ فیومیگیشن کے لیے ہمارے پاس ویکٹربون ڈیزیز کا عملہ ناکافی ہے، یہ عملہ انتظامی طورپر ضلعی ہیلتھ افسران کے ماتحت نہیں ہوتا، ہر ضلع میں ایک سے دو اہلکار تعینات ہیں جو کراچی میں اسپرے مہم کے لیے ناکافی ہیں۔

ڈینگی کنٹرول پروگرام کے حکام نے بتایا کہ کراچی کے مختلف اضلاع میں سروے کے دوران 2022 میں 55 اور 2023 میں 45 علاقوں کی نشاندہی کی گئی ہے، جس میں ضلع شرقی کے علاقے گلستان جوہر بلاک 18، گلشن اقبال، پہلوان گوٹھ، رافع سوسائٹی، گرین ٹاون، محمود آباد، گلزار ہجری، پی ای سی ایچ سوسائٹی،13 ڈی گلشن اقبال اور دیگر شامل ہیں جبکہ ضلع جنوبی دوسرے نمبر پر ہے جہاں ڈیفنس، ہلال پارک، بدر کمرشل، بخاری کمرشل، لیاری سمیت دیگر علاقے شامل ہیں۔ ان سروے میں ضلع کورنگی، ملیر، کیماڑی، وسطی اور غربی کے مختلف علاقوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ 2024 میں ڈینگی کے حوالے سے کوئی سروے نہیں کیا گیا۔

انفکشن ڈیزیز کے ماہر ڈاکٹر رفیق خانانی نے بتایا کہ 2024 میں ڈینگی شدت اختیار کرے گا کیونکہ مچھروں میں مکس سیرو ٹائپ وائرس شامل ہوگیا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ایک تحقیق میں معلوم ہوا ہے کہ ڈینگی مچھر میں 4 وائرس کی اقسام شامل ہوگئی ہیں جنھیں سیرو ٹائپ کا نام دیا گیا ہے کیونکہ ہر ایک کے انسانی خون کے سیرم میں اینٹی باڈیز کے ساتھ مختلف ری ایکشن ہوتا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ کراچی میں جراثیم کش ادویات کا اسپرے ہنگامی بنیادوں پر کرنا لازمی ہوگیا ہے، کراچی سمیت سندھ میں مختلف اقسام کے مچھروں کی بہتات اور ان کی نشوونما تیزی سے شروع ہوگئی ہے۔ ڈینگی وائرس ستمبر سے دسمبر تک اپنی پوری قوت کے ساتھ حملہ آور ہوتا ہے اور موجودہ موسم ڈینگی وائرس کا موسم ہے، فل آستین کے کپٹرے پہنیں جائیں، ڈینگی وائرس کا شکار ہونے والے افراد میں پلیٹلیٹ کی شدید کمی واقع ہو جاتی ہے جبکہ بخار کے ساتھ نقاہت اور جسم میں شدید درد بھی ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں ڈینگی اور ملیریا کے لیے ٹیسٹ کرانا لازمی ہوتا ہے، ڈاکٹروں کے مشورے کے بغیر غیر ضروری اینٹی بائیٹک سے اجتناب کریں۔

ویکٹر بورن ڈیزیز میں شامل ڈینگی کنٹرول پروگرام کے ڈائریکٹر ڈاکٹر مشتاق شاہ کا کہنا ہے کہ ہم ضلعی ہیلتھ افسران مقامی حکومتوں کو مچھروں کے خاتمے اور مادہ مچھروں کے انڈوں سے نکلنے والے لاورے کے خاتمے کے لیے فنی امداد فراہم کرتے ہیں، اسپرے مہم ضلعی ہیلتھ آفسران کے ماتحت ہوتی ہے اور اسپرے مہم کے آغاز کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں اور کئی علاقوں میں اسپرے مہم شروع کر دی گئی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔