سنڈے اسپیشل

سنڈے اسپیشل کی دلچسپ خبریں

فوٹو : فائل

سوشل میڈیا اور ذہنی صحت
محمد فیضان قریشی
شعبہ صحافت جامعہ پنجاب لاہور

دس سے بیس منٹ تک مشاہدہ کریں کہ آپ کے آس پاس کے لوگو ں میں ایک بے چینی سی ہے۔ چاہے آپ دفتر میں موجود ہیں، پارک میں تفریح کے لیے آئے ہیں، شاپنگ مال میں گھوم رہے ہیں، دوستوں میں بیٹھے ہیں، سفر کر رہے ہیں، یا اپنی فیملی کے ساتھ بیٹھے ہیں، آپ دیکھیں گے کہ لوگ بے چینی سے اپنے موبائل فون کی اسکرینوں سے نظر ہی نہیں اْٹھانا چاہتے۔ اپنے موبائل فون کو نیچے اسکرول کر رہے ہیں، بات آپ سے کر رہے ہیں توجہ موبائل اسکرین پر ہے، بار بار جیب سے اپنا موبائل فون نکال کر چیک کر رہے ہیں، تازہ ترین پیغامات، کالز یا اسٹیٹس اپ ڈیٹس حاصل کر نے کے لیے۔ کیا ان کے چہروں پر اضطراب کی آمیزش ہے؟ آج کی تیز رفتار دنیا میں یہ ایک عام سی بات ہے۔ ٹیکنالوجی اور معاشرتی توقعات کی وجہ سے غیر ضروری مصروفیت کی یہ مستقل حالت ہماری ذہنی اور جسمانی صحت پر اثر ڈال رہی ہے۔

اس کے بجائے ہمیں اپنی ترجیحات کا بہتر تعین کرنا چاہیے۔ اپنے روز مرہ کے کاموں کی طرف توجہ دیں، ای میلز فوری توجہ کا مطالبہ کرتی ہیں۔ دیر سے معلومات کی فراہمی ہمارے کام میں خلل کا باعث بنتی ہیں، ایک مخصوص وقت (ڈیڈلائن) میں اہم چیزیں ختم کرنا ہوتی ہیں تو یہ ہمیں فکر مند کر دیتی ہیں۔ کام اور ذاتی زندگی کے درمیان ڈیڈلائن سے پہلے کام کو مکمل کرنے کے لیے ہمیں دن میں 24 گھنٹے میسر ہوتے ہیں۔ ہمیں وقت کا بہتر استعمال کرتے ہوئے دیکھنا چاہیے کہ کس وقت کون سے کام کی اہمیت ہے۔ دفتر کے کام اور دیگر ذمہ داریوں کو بروقت نمٹانا آپ کا فرض اولین ہے۔ اس کے بعد باقی کے وقت کو آپ اپنے ذوق اور ضرورریات کے مطابق استعمال کر سکتے ہیں۔

سوشل میڈیا پر وقت ضائع کرنے سے دفتروں کے علاوہ ہماری ذاتی زندگی بھی یکساں طور پر متاثر ہوتی ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز، جو باہم رابطے کے لیے بنائے گئے ہیں، اکثر ہمیں یہ احساس دلاتے ہیں کہ ہم کچھ نہ کچھ کھورہے ہیں۔ ہم خود کو لامتناہی طور پر اسکرول کرتے ہوئے پاتے ہیں، اپنی زندگیوں کا موازنہ دوسروں کی زندگیوں کے بہترین لمحات سے کرتے ہیں، جس کی وجہ سے عدم اطمینان کا احساس ہوتا ہے۔

ہمارا دماغ ایک ساتھ بہت سے کام سر انجام دینے میں ساتھ نہیں دیتا۔ مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ ملٹی ٹاسکنگ پیداواری صلاحیت کو کم کر سکتی ہے۔ جب ہم تیزی سے کاموں کے درمیان سوئچ کرتے ہیں، تو ہمارا دماغ توجہ مرکوز کرنے کے لیے جدوجہد کرتا ہے، جس کی وجہ سے غلطیاں ہوتی ہیں اور کارکردگی میں کمی آتی ہے۔

ہر وقت اپڈیٹ رہنے کی یہ بے چینی ہمیں جسمانی طور پر کمزور کر دیتی ہے، جسم کے پٹّھوں کا کھِنچاؤ شروع ہو جاتا ہے، یہ اعصابی کمزوری وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ صحت کے بہت سے مسائل کا باعث بن سکتی ہے جیساکہ دل کی بیماری، موٹاپا، مدافعتی قوت کی کمی وغیرہ۔

مصروفیت کے اس سفر کا مقابلہ کرنے کے لیے، ہمیں ترجیح اور حدود کا تعین کرنا چاہیے۔ ضروری کاموں غیر ضروری کاموں کے درمیان فرق کرنا ضروری ہے۔ 'نہیں' کہنا سیکھنا ایک قابل قدر مہارت ہے جو ہماری ذہنی اور جسمانی تندرستی کی حفاظت کر سکتی ہے۔

ٹیکنالوجی، جب کہ ایک طاقتور ٹول ہے، یہ بھی دماغی خلفشار کا باعث بن سکتی ہے۔ اسکرین کو دیکھنے کے وقت کی حد مقرر کریں۔ یہ حدود افراتفری کے درمیان سکون کا احساس پیدا کرنے میں ہماری مدد کر سکتی ہیں۔

بالآخر، ہماری ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگیوں کے درمیان توازن تلاش کرنا بہت ضروری ہے۔ فلاح و بہبود کو ترجیح دے کر، حدود طے کر کے، اور اپنے وقت کا مؤثر طریقے سے استعمال کر کے، ہم اپنی زندگیوں کو دماغی انتشار سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔

بروقت نتائج کیسے حاصل کریں؟

٭جب آپ مسلسل مصروف رہتے ہیں لیکن کوئی مثبت پیشرفت نہیں ہو رہی ہوتی، تو آپ خود کو الجھن میں محسوس کر سکتے ہیں۔ آپ سوچ سکتے ہیں کہ آپ کے ساتھی کیوں زیادہ پراڈکٹو ہیں یا آپ کو کام کرنا نہیں آتا؟ حقیقت یہ ہے کہ بہت سے لوگ اپنے کام میں دلچسپی کھو چکے ہوتے ہیں۔ اگر آپ اپنے کام سے خوش نہیں ہیں تو توجہ مرکوز کرنا اور اپنے آپ کو کام کرنے کے لیے آمادہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔

کامیابی کے لیے خود کو تیار کریں۔ حقیقت پسندانہ مقاصد طے کریں لیکن اپنے عزائم اور تخیل کو بلند رکھیں۔ یقینی بنائیں کہ آپ کے مقاصد حاصل کرنے کے قابل ہیں۔ انہیں چھوٹے مراحل میں تقسیم کریں تاکہ آپ کامیابی کا احساس حاصل کر سکیں۔

تمام کام ایک جیسے اہم نہیں ہوتے۔ سب سے اہم کاموں پر پہلے توجہ دیں۔ ایک وقت میں ایک کام کریں۔ ملٹی ٹاسکنگ سے بچیں۔ ایک کام مکمل ہونے تک اس پر توجہ دیں۔ مختصر وقفے توجہ اور پراڈکٹیویٹی کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ کاموں کو فوری طور پر انجام دیں بجائے اس کے کہ انہیں ملتوی کریں۔ کام کے دوران مناسب آرام بھی ضروری ہے اس سے آپ کو کام پر ارتکاز یا توجہ مرکوز رکھنے میں مدد ملتی ہے۔

حقیقی ترقی حاصل کرنے کے لیے، آپ کو اپنے کام سے لطف اندوز ہونا ہوگا۔ اگر آپ خود کو غیر مطمئن محسوس کر رہے ہیں، تو نئے مواقع تلاش کرنے یا اپنے کیریئر میں مہارت حاصل کرنے پر غور کریں۔ یاد رکھیں، آپ کی فلاح و بہبود آپ کی کارکردگی کے لیے اہم ہے۔ ان تجاویز پر عمل کرکے، آپ اپنے کام کے بوجھ پر قابو پا سکتے ہیں اور ایک متوازن اور پْر اطمینان زندگی بسر کر سکتے ہیں۔

۔۔۔

بے روزگاری کی وجوہات اور حل
ثمینہ عابد
شعبہ صحافت جامعہ پنجاب لاہور


مہنگائی اور بے روزگاری پاکستان میں ایک بڑا مسئلہ ہے جو ملکی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ خاص طور پر نوجوان طبقہ روزگار کی کمی کا شکار ہے۔ اس کی بڑی وجوہات مندرجہ ذیل ہیں:

٭ تعلیم کا معیار: پاکستان کے تعلیمی نظام کا معیار بہتر نہیں ہے۔ زیادہ تر نوجوانوں کو کام نہیں مل پاتا کیونکہ ان کے پاس عملی مہارت نہیں ہوتی۔


٭ ملک کی معاشی صورتحال بہت اچھی نہیں ہے۔ کم آمدنی کی وجہ سے زیادہ تر افراد اپنے ذاتی کاروبار کا آغاز نہیں کر سکتے۔

٭ آبادی میں اضافہ: آبادی میں میں اضافے کے سبب وسائل میں کمی آتی ہے۔ ملازمت کی گنجائش کم پڑ جاتی ہے اور مقابلہ سخت ہوتا ہے۔

٭ آج کل جدید ٹیکنالوجی کے سبب بہت سے شعبے خودکار ہو گئے ہیں۔ جنکی وجہ سے روایتی ملازمتیں ختم ہو رہی ہیں۔ اور جو لوگ جدید تکنیکی ترقی سے ہم آہنگ نہیں ہوتے وہ بے روزگار رہ جاتے ہیں۔

بے روزگاری کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے درج ذیل اقدامات کی ضرورت ہے:

٭ تعلیمی اصلاحات: تعلیمی نظام کو بہتر بنانا ضروری ہے تاکہ نوجوان جدید تکنیکی مہارت حاصل کر سکیں۔

٭ روزگار کی تخلیق: حکومتوں کو کاروبار کے لیے چھوٹے اور درمیانے درجے کے اداروں کو آسان قرضے فراہم کرنے چاہیں۔

٭ نوجوانوں کی تربیت: حکومتوں اور نجی اداروں کو مشترکہ طور پر تربیتی پروگراموں کو متعارف کرانا چاہیے تاکہ نوجوانوں کو مارکیٹ کی ضروریات سے متعلقہ ہنر حاصل کرنے میں مدد ملے۔ اور وہ بہتر طریقے سے اپنے روزگار کے مواقع بڑھا سکیں۔

٭ انٹرن شپ: حکومت کو سرکاری اور نجی اداروں میں انٹرن شپ کے مواقع بڑھانے کی ضرورت ہے جو نوجوانوں کو موجودہ ملازمتوں کے لئے تیار کرے۔

٭ انٹرپنیورشپ: نوجوانوں میں خود اپنا روزگار تخلیق کرنے کے متعلق بیداری پیدا کرنے کے لیے مہم چلائی جانی چاہیے تاکہ وہ اپنی صلاحیتوں کو کاروبار میں بدل سکیں۔

نوجوانوں میں بے روزگاری ایک اہم مسئلہ ہے، لیکن اگر ہم سب مشترکہ کوشش کریں تو اسے حل کر سکتے ہیں۔ اگر ہم توجہ دیں اور تعلیمی نظام میں بہتری، معاشی حالات میں اصلاح اور مواقع کی فراہمی پر کام کیا جائے تو نوجوانوں کو روزگار مل سکتا ہے اور ملکی ترقی کا ایک نیا دور شروع ہو سکتا ہے۔

۔۔۔

پانی کی کمی، ایک سنگین مسئلہ

(ثمینہ عابد)

پانی اس قدر ضروری ہے کہ اس کے بنا انسانی بقاء کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ وقت کے ساتھ ساتھ پاکستان کو پانی کی کمی جیسے بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، جو کہ ایک سنگین مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ اس کے اثرات زراعت، معیشت اور صحت پر پڑ رہے ہیں۔ ملک کی بڑھتی ہوئی آبادی اور لوگوں کے غیر معیاری رہن سہن کی وجہ سے پانی کی قلت میں اضافہ ہوا ہے اور ساتھ ساتھ آبی وسائل کی فراہمی میں کمی آ رہی ہے۔ ماہرین کے مطابق، پاکستان میں 2050 تک آبادی 40کروڑ سے تجاوز کر جائے گی، جس سے پانی کی شدید قلت کا خطرہ ہے۔ زراعت، جو ملک کی معیشت کا ایک اہم ستون ہے، کو بھی اس بحران کا سامنا ہے۔ اس قلت کا سامنا صرف صوبہ سندھ کو ہی نہیں بلکہ بلوچستان کے بھی کئی علاقے پانی کی قلت سے شدید متاثر ہیں۔ کسان پانی کی کمی کی وجہ سے فصلیں اگانے میں ناکام ہو رہے ہیں، جس سے غذائی پیداوار پر اثر ہو رہا ہے۔

حکومت نے مختلف اقدامات کیے ہیں، جیسے نئے ڈیمز کی تعمیر اور پانی کی بچت کی تکنیکوں کی ترغیب۔ لیکن لیکن کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ ڈیموں اور بیراجوں کی وجہ سے ہی پاکستان میں پانی کی قلت کا مسئلہ کھڑا ہوا ہے، اس لیے حکومت کو پانی کے استعمال سے متعلق مستقل پالیسیز بنانی چاہیے، اس کے سا تھ ساتھ عوامی آگاہی اور تعاون کی ضرورت ہے، اور آبی وسائل کی بہتر منصوبہ بندی اور انتظام کی بھی ضرورت ہے۔ پاکستان میں پانی کی قلت بہت پیچیدہ مسئلہ ہے۔ جس کو اگر وقت پر حل نہ کیا گیا تو یہ ایک سنگین مسئلہ بن سکتا ہے۔ چنانچہ پاکستان کو اس مسئلے کے حوالے سے دیگر ممالک سے بات کرنی چاہیے اور ایک بہتر انتظام کرنا چاہیے۔ حکومت، عوام اور متعلقہ اداروں کو مل کر اس مسئلے سے نمٹنا ہوگا۔

خواتین کی تعلیم اور معاشی مواقع

٭پاکستان میں خواتین کی ترقی پر توجہ دینا بہت ضروری ہے۔ وطن عزیز میں جہاں لڑکوں کو کئی مواقع حاصل ہیں، وہاں لڑکیوں کو تعلیم کے حق کے لیے بھی لڑنا پڑ رہا ہے۔ ایک ملک تب تک ترقی نہیں کر سکتا جب تک خواتین و حضرات دونوں ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا نہ کریں۔ خواتین کی تعلیم اور معاشی مواقع دونوں ہی ملک کی ترقی کے اہم ستون ہیں۔ پاکستان کی تقریباً 52 فیصد آبادی خواتین پر مشتمل ہے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، دیہی علاقوں میں تعلیم حاصل کرنے والی لڑکیوں کی تعداد مردوں کی نسبت کم ہے۔ لڑکیوں کی تعلیم میں اب بھی بہت سی رکاوٹیں حائل ہیں جن میں میں روایتی خیالات، گھریلو ذمہ داریاں اور مالی مشکلات شامل ہیں۔

تعلیم کے بغیر، خواتین اپنے حقوق اور بہتر زندگی کے مواقع سے آگاہ نہیں ہو پاتی ہیں۔ حکومت اور غیر سرکاری تنظیموں نے حالیہ برسوں میں لڑکیوں کی تعلیم کو فروغ دینے کے لیے متعدد پروگرام شروع کیے ہیں، جن میں اسکالرشپ، تعلیمی سہولیات، اور آگاہی مہمات شامل ہیں۔ روزگار کے مواقع، معاشی طور پر بااختیار ہونا، خواتین کی ترقی کا ایک اہم پہلو ہے۔

اگرچہ پاکستانی معیشت میں خواتین کی شرکت بڑھ رہی ہے، لیکن پھر بھی انہیں بے شمار رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ کام کی جگہ پر مساوی مواقع نہ ملنا اور تنخواہوں میں عدم مساوات جیسے مسائل انہیں درپیش ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ خواتین کی ترقی کے لیے خصوصی اقدامات کیے جائیں اور ان کو درپیش مشکلات دور کرنے کے لیے حکومتی پالیسی مرتب کی جائے۔
Load Next Story