چینی باشندوں پر حملے مقاصد کیا ہیں
درحقیقت جب بھی ملک معاشی طور پر مضبوطی کی طرف چلتا ہے۔ شرپسند عناصر اسے کمزور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے قریب دھماکے میں دو غیر ملکی اور ایک مقامی جاں بحق جب کہ 17 شہری زخمی ہوگئے، تین گاڑیاں اور چار موٹر سائیکلیں تباہ ہوگئیں۔ زخمیوں میں پانچ سیکیورٹی اہلکار بھی شامل ہیں۔ یہ کوئی پہلی بار نہیں ہوا ہے کہ پاکستان میں چینی انجینیئرز یا سی پیک منصوبوں سے جڑے افراد کو دہشت گرد تنظیموں نے نشانہ بنایا ہو، لیکن اس بار حملے کی ٹائمنگ بہت اہم ہے،کیونکہ ملک میں شنگھائی کانفرنس ہونے جا رہی ہے۔ جغرافیائی اعتبار سے SCO دنیا کے تقریباً 80فیصد رقبے پر محیط ہے۔ 2023کے اعداد و شمار کے مطابق SCO دنیا کی 40فیصد آبادی اور جی ڈی پی کا تقریباً 32فیصد حصہ رکھتی ہے۔
درحقیقت جب بھی ملک معاشی طور پر مضبوطی کی طرف چلتا ہے۔ شرپسند عناصر اسے کمزور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ غیر جمہوری قوتیں گہری سازشیں کر کے ملک میں امن و امان کی صورتحال کو سبوتاژ کرنے پر تل گئی ہیں۔ موجودہ اپوزیشن کا مقصد ملک میں انتشار اور شرانگیزی کی سیاست کرنا ہے۔چین پاکستان میں 62 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے جس کے نتیجے میں ملک بھر میں مختلف منصوبوں کے ذریعے سڑکیں، ڈیم، پائپ لائن اور بندرگاہ پر کام جاری ہے۔ ملک میں جہادی تنظیموں کے علاوہ بلوچ عسکریت پسند تنظیمیں بھی سرگرم ہیں جنھیں کوئی بھی مخصوص کاموں کے لیے متحرک کرسکتا ہے۔
مثال کے طور پر اگر خیبر پختونخوا میں جب چینی باشندوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے وہاں جو جہادی گروہ ہیں وہ پاکستان طالبان سے منسلک بھی ہیں اور کچھ آزاد گروہ بھی ہیں۔ اب جن پر اس حملے میں ملوث ہونے کا شبہ ظاہر کیا جا رہا ہے وہ ایسے جہادی عناصر ہیں جنھیں فری لانسرز کہا جا سکتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کا تعلق ماضی میں جہادی تنظیموں سے رہا ہے جیسے کہ پاکستان طالبان کے ساتھ یا القاعدہ برصغیر کے ساتھ۔ آج کل وہ آزاد حیثیت میں کام کر رہے ہیں تو ان کے حملے آؤٹ سورس کیے جاتے ہیں اور ان کو اہداف دیے جاتے ہیں، اور وہ پھر خودکش حملہ آور بھرتی کرتے ہیں اور حملہ کر دیتے ہیں جیسا کہ کراچی ایئر پورٹ پر غیرملکیوں کے قافلے پر ہونیوالے حملے کی تحقیقات میں اہم معلومات سامنے آئی ہیں۔
تحقیقات کے دوران معلوم ہوا کہ حملے میں چھوٹی کار استعمال کی گئی کار میں ممکنہ طور پر بارود تھا، جس سے گاڑی مکمل تباہ ہوگئی۔ اس خطے کے لیے بڑی بدقسمتی کی بات ہے کہ بھارت اور افغانستان پڑوسی ممالک سے بہتر تعلقات استوار کرنے کے بجائے تعلقات کو مزید بگاڑنے کی کوششیں کررہے ہیں ۔ دونوں ممالک نے پاکستان کے خلاف نہ صرف جھوٹا پروپیگنڈہ تسلسل سے جاری رکھا ہوا ہے بلکہ ملک کے اندر دہشت گردی، تخریب کاری اور مذہبی و فرقہ وارانہ نفرت پیدا کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ کئی تربیت یافتہ دہشت گردوں کو پاکستان بھیجا جا رہا ہے۔ جن کے یقیناً یہاں سہولت کار بھی موجود ہیں۔ بھارت بلاشبہ ایک مکار دشمن ہے۔ اس کی اسی ذہنیت اور سوچ کی وجہ سے کوئی پڑوسی ملک اس کے شر سے محفوظ نہیں۔ بھارت اس خطے میں امن کا کھلا دشمن ہے۔ نیپال ہو، بنگلہ دیش، یا چین، ہر پڑوسی کے خلاف سازشیں کرنا بھارت کی مکارانہ سوچ کی کھلی عکاس ہیں، یعنی کہ ہر وہ کوشش اور سازش کرتا رہا ہے جس سے پاکستان کو نقصان پہنچے۔
کسی ملک کا معاشی استحکام سیاسی استحکام سے جڑا ہوتا ہے۔ ہر وقت احتجاج اور جلسے جلوس بے یقینی پیدا کرتے ہیں جس سے معاشی سرگرمیوں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ اسلام آباد میں تحریک انصاف کے احتجاج کے اعلان کے بعد ہی راستے بند ہو گئے اور دیگر کئی شہروں میں بھی یہی صورتحال ہے۔ جب سے احتجاجوں اور جلسوں کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوا ہے ہر چند دن بعد راستے بند ہو جاتے ہیں اور کاروباری سرگرمیاں برُی طرح متاثر ہوتی ہیں۔ دوسرا بڑا خطرہ بڑی شاہراہوں پر قائم فیکٹریوں کی حفاظت کا ہے۔ مالکان اسی خوف میں مبتلا رہتے ہیں کہ کوئی ہجوم اندر گھس کر عمارت اور مشینری کو نقصان نہ پہنچا دے۔ ایسے حالات میں کاروبار کیسے ہو سکتا ہے؟ احتجاج کے دوران انٹرنیٹ اور موبائل بھی بند کردیا جاتا ہے جس سے رابطوں میں دشواری پیدا ہوتی ہے اور انٹر نیٹ بند ہونے سے آئی ٹی کی صنعت بھی شدید متاثر ہوتی ہے۔
احتجاج کرنا ہر شہری کا جمہوری حق ہے لیکن شرط یہ ہے کہ امن و امان کی صورتحال خراب نہ ہو، معیشت کو نقصان نہ پہنچے اور ملک کا امیج خراب نہ ہو، تاکہ ملک میں سرمایہ کاری کی راہ ہموار ہو سکے۔15اور 16 اکتوبر کو اسلام آباد میں شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس ہونا ہے۔ اس دوران مختلف ممالک کے وفود پاکستان آئیں گے۔ معیشت اور سرمایہ کاری سمیت مختلف امور پر بات ہوگی، اگر احتجاج کی صورتحال برقرار رہی تو بیرونِ ملک سے آئے وفود کو سرمایہ کاری پر قائل کرنا مشکل ہے۔
ایسے حالات میں تو ملک کے اندر سرمایہ کار بھی اپنے سرمائے کو غیر محفوظ سمجھنے لگتے ہیں، بیرونی ممالک سے سرمایہ کاری کی تو توقع ہی نہیں کی جا سکتی، اگر ماضی کو دیکھا جائے تو 2014میں چینی صدر کا دورہ پاکستان تحریک انصاف کے دھرنے کی وجہ سے ہی معطل ہوا تھا۔ آئی ایم ایف کے ساتھ جب ڈیل فائنل ہونے کے مرحلے میں تھی تو تحریک انصاف کی جانب سے آئی ایم ایف کو خط لکھ دیا گیا، یہ رویہ اب ختم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ملکی معاشی مسائل کو سنجیدگی سے حل کی طرف لایا جا سکے، جب کہ اطلاعات ہیں کہ چین کے وزیراعظم بھی شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شرکت کریں گے۔ حکومت چین کے ساتھ آئی پی پیز قرض کی ادائیگی ڈالرز کے بجائے یوآن میں کرنے کے حوالے سے مذاکرات کر رہی ہے۔
ماضی میں تحریک انصاف کے دور میں بھی یہ مذاکرات ہوئے تھے مگر کامیاب نہ ہو سکے۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ چینی وزیراعظم کے ساتھ مذاکرات میں دیگر امور کے علاوہ 16 ارب ڈالر کے چینی قرضوں کی ادائیگی کے طریقہ کار پر بھی بات ہوگی۔ 16 ارب ڈالرز کے یہ قرض 12 سے زیادہ انرجی پلانٹس لگانے کے لیے لیے گئے تھے، جن میں سے تقریباً سات ابھی زیرِ تعمیر ہیں۔ علاوہ ازیں ایس آئی ایف سی کے تحت سرمایہ کاری کے کئی منصوبوں پر بھی دستخط کیے جا سکتے ہیں۔ گیارہ سالوں میں چینی وزیراعظم کا یہ پہلا دورہ پاکستان ہو گا۔ حکومت اس دورے سے پورا فائدہ اٹھانے کا ارادہ رکھتی ہے۔
چینی انجینئرز اور منصوبوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے تقریباً 45 ارب روپے کے بجٹ کی منظوری دی جا چکی ہے، اگر ملک میں کوئی سیاسی بھونچال نہ آیا اور حالات خراب نہ ہوئے تو تقریباً 25 ارب ڈالرز کے پچیس منصوبوں میں سرمایہ کاری کی اچھی ڈیلز ہو سکتی ہیں اور 16 ارب ڈالرز کے چینی قرضوں کا بوجھ بھی پاکستان کے کندھوں سے اُتر سکتا ہے اور بجلی بھی سستی ہو سکتی ہے۔ اس وقت بجلی سستی کرنے کے لیے دیگر امور پر بھی کام ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ حکومت تقریباً 1200 میگاواٹ سولر بجلی کی پیداوار کے لیے پلانٹ لگانے جارہی ہے۔ گو کہ ملک میں پہلے ہی بجلی وافر مقدار میں موجود ہے۔ ملکی ضرورت21 ہزار سے 24 ہزار میگاواٹ ہے جب کہ پیداواری استعداد تقریباً42 ہزار میگاواٹ ہے' اسی لیے کپیسٹی چارجز کی مد میں پاور پلانٹس کو اضافی ادائیگی کرنا پڑ رہی ہے۔
لگ بھگ 18 روپے فی یونٹ اضافی صرف کپیسٹی چارجز کی مد میں عوام سے وصول کیے جا رہے ہیں جو تقریباً دو ٹریلین روپے بنتے ہیں۔ البتہ سولر سے حاصل کردہ بجلی تیل سے پیدا کی گئی بجلی سے کم قیمت ہوتی ہے۔ اس منصوبے سے فائدہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب اس 1200 میگاواٹ سولر بجلی کو کسی آئی پی پی کو ختم کرکے سسٹم میں شامل کیا جائے۔ اس منصوبے میں شفافیت کو مدنظر رکھنا بھی ضروری ہے۔ دوسری جانب ہمیں بھارت سے تجارت پر پابندی ختم کرنا چاہیے اور بھارت کو بھی SCO اور سارک میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ ہم علاقائی بلاکس کے مقاصد حاصل کرسکیں۔ SCO اور سارک ممالک سے تجارت کے فروغ کے لیے ہمیں ممبر ممالک میں بینکنگ چینل کھولنے ہوں گے جب کہ وسط ایشیائی ممالک جن کی اپنی بندرگاہیں نہیں اور وہ پاکستان کے زمینی راستے تجارت کررہے ہیں، کے فروغ کے لیے ہمیں ٹرانسپورٹ اور لاجسٹک کی سہولتوں کو بہتر بنانا ہوگا۔
جیسے جیسے شنگھائی تعاون تنظیم وسعت اختیار کررہی ہے، ویسے ویسے اس کا بنیادی مقصد محض علاقائی سیکیورٹی پر مرکوز نہیں رہا اور اب یہ ممالک کے درمیان تعلقات کو بڑھانے، توانائی کے انفرا اسٹرکچر میں شراکت، مقامی کرنسی کی لین دین کو ممکن بنانے کے لیے بینکنگ پلیٹ فارمز کو بہتر بنانے اور علاقائی تجارت کو بڑھانے پر بھی توجہ دے رہا ہے۔ یہ اہم ترین وقت ہے کہ ایک آل پارٹیز کانفرنس بلا کے نئے میثاق جمہوریت کی منظوری لی جائے۔
اِس وقت یہ تاثر عام ہے کہ سیاسی قوتیں اپنے فیصلے آپ کرنے کی جرأت و صلاحیت نہیں رکھتیں اور وہ بیساکھیوں کا سہارا لیتی ہیں، یہ چیز جمہوریت اور سیاسی جماعتوں کے لیے عوام کے عدم اعتماد کی بنیاد بن سکتی ہے۔ ہر صورت میں اقتدار سے چمٹے رہنا اور پارلیمینٹ کی صحیح معنوں میں توقیر بحال نہ کرنا نہ صرف آئین کی روح کے خلاف ہے، بلکہ سیاست کو بازیچہ اطفال بنانے کے مترادف ہے، اِس وقت ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ سب کی ناکامی ہے ۔ سیاست میں مذاکرات کے دروازے کبھی بند نہیں ہوتے۔ کوئی نہ کوئی راستہ کھلا رکھنا پڑتا ہے۔
درحقیقت جب بھی ملک معاشی طور پر مضبوطی کی طرف چلتا ہے۔ شرپسند عناصر اسے کمزور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ غیر جمہوری قوتیں گہری سازشیں کر کے ملک میں امن و امان کی صورتحال کو سبوتاژ کرنے پر تل گئی ہیں۔ موجودہ اپوزیشن کا مقصد ملک میں انتشار اور شرانگیزی کی سیاست کرنا ہے۔چین پاکستان میں 62 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے جس کے نتیجے میں ملک بھر میں مختلف منصوبوں کے ذریعے سڑکیں، ڈیم، پائپ لائن اور بندرگاہ پر کام جاری ہے۔ ملک میں جہادی تنظیموں کے علاوہ بلوچ عسکریت پسند تنظیمیں بھی سرگرم ہیں جنھیں کوئی بھی مخصوص کاموں کے لیے متحرک کرسکتا ہے۔
مثال کے طور پر اگر خیبر پختونخوا میں جب چینی باشندوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے وہاں جو جہادی گروہ ہیں وہ پاکستان طالبان سے منسلک بھی ہیں اور کچھ آزاد گروہ بھی ہیں۔ اب جن پر اس حملے میں ملوث ہونے کا شبہ ظاہر کیا جا رہا ہے وہ ایسے جہادی عناصر ہیں جنھیں فری لانسرز کہا جا سکتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کا تعلق ماضی میں جہادی تنظیموں سے رہا ہے جیسے کہ پاکستان طالبان کے ساتھ یا القاعدہ برصغیر کے ساتھ۔ آج کل وہ آزاد حیثیت میں کام کر رہے ہیں تو ان کے حملے آؤٹ سورس کیے جاتے ہیں اور ان کو اہداف دیے جاتے ہیں، اور وہ پھر خودکش حملہ آور بھرتی کرتے ہیں اور حملہ کر دیتے ہیں جیسا کہ کراچی ایئر پورٹ پر غیرملکیوں کے قافلے پر ہونیوالے حملے کی تحقیقات میں اہم معلومات سامنے آئی ہیں۔
تحقیقات کے دوران معلوم ہوا کہ حملے میں چھوٹی کار استعمال کی گئی کار میں ممکنہ طور پر بارود تھا، جس سے گاڑی مکمل تباہ ہوگئی۔ اس خطے کے لیے بڑی بدقسمتی کی بات ہے کہ بھارت اور افغانستان پڑوسی ممالک سے بہتر تعلقات استوار کرنے کے بجائے تعلقات کو مزید بگاڑنے کی کوششیں کررہے ہیں ۔ دونوں ممالک نے پاکستان کے خلاف نہ صرف جھوٹا پروپیگنڈہ تسلسل سے جاری رکھا ہوا ہے بلکہ ملک کے اندر دہشت گردی، تخریب کاری اور مذہبی و فرقہ وارانہ نفرت پیدا کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ کئی تربیت یافتہ دہشت گردوں کو پاکستان بھیجا جا رہا ہے۔ جن کے یقیناً یہاں سہولت کار بھی موجود ہیں۔ بھارت بلاشبہ ایک مکار دشمن ہے۔ اس کی اسی ذہنیت اور سوچ کی وجہ سے کوئی پڑوسی ملک اس کے شر سے محفوظ نہیں۔ بھارت اس خطے میں امن کا کھلا دشمن ہے۔ نیپال ہو، بنگلہ دیش، یا چین، ہر پڑوسی کے خلاف سازشیں کرنا بھارت کی مکارانہ سوچ کی کھلی عکاس ہیں، یعنی کہ ہر وہ کوشش اور سازش کرتا رہا ہے جس سے پاکستان کو نقصان پہنچے۔
کسی ملک کا معاشی استحکام سیاسی استحکام سے جڑا ہوتا ہے۔ ہر وقت احتجاج اور جلسے جلوس بے یقینی پیدا کرتے ہیں جس سے معاشی سرگرمیوں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ اسلام آباد میں تحریک انصاف کے احتجاج کے اعلان کے بعد ہی راستے بند ہو گئے اور دیگر کئی شہروں میں بھی یہی صورتحال ہے۔ جب سے احتجاجوں اور جلسوں کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوا ہے ہر چند دن بعد راستے بند ہو جاتے ہیں اور کاروباری سرگرمیاں برُی طرح متاثر ہوتی ہیں۔ دوسرا بڑا خطرہ بڑی شاہراہوں پر قائم فیکٹریوں کی حفاظت کا ہے۔ مالکان اسی خوف میں مبتلا رہتے ہیں کہ کوئی ہجوم اندر گھس کر عمارت اور مشینری کو نقصان نہ پہنچا دے۔ ایسے حالات میں کاروبار کیسے ہو سکتا ہے؟ احتجاج کے دوران انٹرنیٹ اور موبائل بھی بند کردیا جاتا ہے جس سے رابطوں میں دشواری پیدا ہوتی ہے اور انٹر نیٹ بند ہونے سے آئی ٹی کی صنعت بھی شدید متاثر ہوتی ہے۔
احتجاج کرنا ہر شہری کا جمہوری حق ہے لیکن شرط یہ ہے کہ امن و امان کی صورتحال خراب نہ ہو، معیشت کو نقصان نہ پہنچے اور ملک کا امیج خراب نہ ہو، تاکہ ملک میں سرمایہ کاری کی راہ ہموار ہو سکے۔15اور 16 اکتوبر کو اسلام آباد میں شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس ہونا ہے۔ اس دوران مختلف ممالک کے وفود پاکستان آئیں گے۔ معیشت اور سرمایہ کاری سمیت مختلف امور پر بات ہوگی، اگر احتجاج کی صورتحال برقرار رہی تو بیرونِ ملک سے آئے وفود کو سرمایہ کاری پر قائل کرنا مشکل ہے۔
ایسے حالات میں تو ملک کے اندر سرمایہ کار بھی اپنے سرمائے کو غیر محفوظ سمجھنے لگتے ہیں، بیرونی ممالک سے سرمایہ کاری کی تو توقع ہی نہیں کی جا سکتی، اگر ماضی کو دیکھا جائے تو 2014میں چینی صدر کا دورہ پاکستان تحریک انصاف کے دھرنے کی وجہ سے ہی معطل ہوا تھا۔ آئی ایم ایف کے ساتھ جب ڈیل فائنل ہونے کے مرحلے میں تھی تو تحریک انصاف کی جانب سے آئی ایم ایف کو خط لکھ دیا گیا، یہ رویہ اب ختم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ملکی معاشی مسائل کو سنجیدگی سے حل کی طرف لایا جا سکے، جب کہ اطلاعات ہیں کہ چین کے وزیراعظم بھی شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شرکت کریں گے۔ حکومت چین کے ساتھ آئی پی پیز قرض کی ادائیگی ڈالرز کے بجائے یوآن میں کرنے کے حوالے سے مذاکرات کر رہی ہے۔
ماضی میں تحریک انصاف کے دور میں بھی یہ مذاکرات ہوئے تھے مگر کامیاب نہ ہو سکے۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ چینی وزیراعظم کے ساتھ مذاکرات میں دیگر امور کے علاوہ 16 ارب ڈالر کے چینی قرضوں کی ادائیگی کے طریقہ کار پر بھی بات ہوگی۔ 16 ارب ڈالرز کے یہ قرض 12 سے زیادہ انرجی پلانٹس لگانے کے لیے لیے گئے تھے، جن میں سے تقریباً سات ابھی زیرِ تعمیر ہیں۔ علاوہ ازیں ایس آئی ایف سی کے تحت سرمایہ کاری کے کئی منصوبوں پر بھی دستخط کیے جا سکتے ہیں۔ گیارہ سالوں میں چینی وزیراعظم کا یہ پہلا دورہ پاکستان ہو گا۔ حکومت اس دورے سے پورا فائدہ اٹھانے کا ارادہ رکھتی ہے۔
چینی انجینئرز اور منصوبوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے تقریباً 45 ارب روپے کے بجٹ کی منظوری دی جا چکی ہے، اگر ملک میں کوئی سیاسی بھونچال نہ آیا اور حالات خراب نہ ہوئے تو تقریباً 25 ارب ڈالرز کے پچیس منصوبوں میں سرمایہ کاری کی اچھی ڈیلز ہو سکتی ہیں اور 16 ارب ڈالرز کے چینی قرضوں کا بوجھ بھی پاکستان کے کندھوں سے اُتر سکتا ہے اور بجلی بھی سستی ہو سکتی ہے۔ اس وقت بجلی سستی کرنے کے لیے دیگر امور پر بھی کام ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ حکومت تقریباً 1200 میگاواٹ سولر بجلی کی پیداوار کے لیے پلانٹ لگانے جارہی ہے۔ گو کہ ملک میں پہلے ہی بجلی وافر مقدار میں موجود ہے۔ ملکی ضرورت21 ہزار سے 24 ہزار میگاواٹ ہے جب کہ پیداواری استعداد تقریباً42 ہزار میگاواٹ ہے' اسی لیے کپیسٹی چارجز کی مد میں پاور پلانٹس کو اضافی ادائیگی کرنا پڑ رہی ہے۔
لگ بھگ 18 روپے فی یونٹ اضافی صرف کپیسٹی چارجز کی مد میں عوام سے وصول کیے جا رہے ہیں جو تقریباً دو ٹریلین روپے بنتے ہیں۔ البتہ سولر سے حاصل کردہ بجلی تیل سے پیدا کی گئی بجلی سے کم قیمت ہوتی ہے۔ اس منصوبے سے فائدہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب اس 1200 میگاواٹ سولر بجلی کو کسی آئی پی پی کو ختم کرکے سسٹم میں شامل کیا جائے۔ اس منصوبے میں شفافیت کو مدنظر رکھنا بھی ضروری ہے۔ دوسری جانب ہمیں بھارت سے تجارت پر پابندی ختم کرنا چاہیے اور بھارت کو بھی SCO اور سارک میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ ہم علاقائی بلاکس کے مقاصد حاصل کرسکیں۔ SCO اور سارک ممالک سے تجارت کے فروغ کے لیے ہمیں ممبر ممالک میں بینکنگ چینل کھولنے ہوں گے جب کہ وسط ایشیائی ممالک جن کی اپنی بندرگاہیں نہیں اور وہ پاکستان کے زمینی راستے تجارت کررہے ہیں، کے فروغ کے لیے ہمیں ٹرانسپورٹ اور لاجسٹک کی سہولتوں کو بہتر بنانا ہوگا۔
جیسے جیسے شنگھائی تعاون تنظیم وسعت اختیار کررہی ہے، ویسے ویسے اس کا بنیادی مقصد محض علاقائی سیکیورٹی پر مرکوز نہیں رہا اور اب یہ ممالک کے درمیان تعلقات کو بڑھانے، توانائی کے انفرا اسٹرکچر میں شراکت، مقامی کرنسی کی لین دین کو ممکن بنانے کے لیے بینکنگ پلیٹ فارمز کو بہتر بنانے اور علاقائی تجارت کو بڑھانے پر بھی توجہ دے رہا ہے۔ یہ اہم ترین وقت ہے کہ ایک آل پارٹیز کانفرنس بلا کے نئے میثاق جمہوریت کی منظوری لی جائے۔
اِس وقت یہ تاثر عام ہے کہ سیاسی قوتیں اپنے فیصلے آپ کرنے کی جرأت و صلاحیت نہیں رکھتیں اور وہ بیساکھیوں کا سہارا لیتی ہیں، یہ چیز جمہوریت اور سیاسی جماعتوں کے لیے عوام کے عدم اعتماد کی بنیاد بن سکتی ہے۔ ہر صورت میں اقتدار سے چمٹے رہنا اور پارلیمینٹ کی صحیح معنوں میں توقیر بحال نہ کرنا نہ صرف آئین کی روح کے خلاف ہے، بلکہ سیاست کو بازیچہ اطفال بنانے کے مترادف ہے، اِس وقت ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ سب کی ناکامی ہے ۔ سیاست میں مذاکرات کے دروازے کبھی بند نہیں ہوتے۔ کوئی نہ کوئی راستہ کھلا رکھنا پڑتا ہے۔