بی جے پی کی ہندوتوا پالیسی مودی سرکار اقلیتوں کے بنیادی حقوق کی دشمن بن گئی

بھارت میں مذہبی اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کی عبادت گاہیں غیرمحفوظ ہو گئیں، ریاستی سطح پر انہدامی کارروائیاں جاری


ویب ڈیسک October 08, 2024
(فوٹو: فائل)

ہندو انتہا پسند سیاسی جماعت بی جے پی کی کٹھ پتلی مودی سرکار بھارت میں اقلیتوں کے بنیادی حقوق کی دشمن بن گئی۔


بھارت ہر گزرتے دن کے ساتھ خطےمیں اپنی انتہاپسندانہ پالیسیوں کا دائرہ وسیع کر رہاہے۔ مودی سرکار نسلی، لسانی اور مذہبی تعصبات کو فروغ دے کر اپنے مذموم سیاسی عزائم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ بی جے پی کے ہندوتوا نظریے کا بھرپور پرچار کررہی ہے اور بھارت کو ہر قیمت پر ہندو ریاست بنانا چاہتی ہے۔


مذہبی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کی عبادت گاہیں بھارت میں غیرمحفوظ ہیں اور ریاستی سطح پر اُن کو منہدم کیا جارہا ہے۔


حال ہی میں ایک رپورٹ کے مطابق بھارتی ریاست گجرات میں سومنات ٹرسٹ کی آڑ میں ہزاروں لوگوں کو بے گھر کردیا گیا ہے اور متعدد مساجد اور درگاہوں کو منہدم کر دیا گیا۔


گجرات کے ضلع گر سومناتھ کے ویراول علاقے میں درگاہ، مسلمانوں سے منسلک 8 مذہبی عمارتیں اور 47 سےزیادہ مسلمانوں کے مکانات کو حکام نے 6 گھنٹے کی مہم میں منہدم کر دیا۔ اس دوران ویروال میں 200 مقامی خاندان متاثر ہوئے جب کہ اس مہم کے دوران پولیس نے تقریباً 150 سے زائد مقامی افراد کو حراست میں لے لیا۔


مقامی افراد کا دعویٰ ہے کہ تمام انہدامات 100 ایکڑ زمین پر ہوئے جو شری سومناتھ ٹرسٹ اور ریاستی حکومت کی ملکیت قرار دی جاتی ہے۔ انہوں نے صبح 6 بجے کے قریب انہدامی کارروائی شروع کی، جب بچے سو رہے تھے، ہمیں نہ کوئی وارننگ ملی، نہ ہی کپڑوں اور ضروری سامان کو باندھنے کی مہلت۔ جو کچھ بھی ہمارے پاس تھا یا ہم نے کمایا تھا، اب ملبے میں تبدیل ہو چکا ہے۔


مقامی افراد کا کہنا ہے کہ جب انہوں نے ہمارے تمام گھروں، مساجد اور یہاں تک کہ قبرستانوں کو بھی منہدم کیا تو شدید بارش ہو رہی تھی، ہمیں تو انسانوں میں بھی شمار نہیں کیا گیا۔ پربھاس پتن میں کئی تاریخی مزارات، حاجی منگرول درگاہ، شاہ سالار درگاہ، غریب شاہ درگاہ اور جعفر مظفر درگاہ کو منہدم کر دیا گیا ہے۔


نصرت پنجا، نائب صدر گجرات پردیش کانگریس کمیٹی کا کہنا ہے کہ ان انہدامی کارروائیوں کا مقصد مسلمانوں کو خوفزدہ کر کے زمین خالی کروانا ہے، جو عمارتیں منہدم کی گئیں وہ تاریخی اور قدیم تھی ۔ یہ مزارات اس علاقے میں 800 سال سے موجود ہیں اور جوناگڑھ کی نوابی ریاست کے دور میں ان کی قانونی دستاویزات موجود تھیں۔ یہ ناقابل فہم ہے کہ کلکٹر اور ریاستی حکومت ان قانونی عمارتوں کو کیوں تباہ کر رہی ہے۔


علاقے کے سماجی کارکن بصیر گوہل نے کہا کہ بہت سے لوگوں کو اپنا سامان اٹھانے کی اجازت بھی نہیں دی گئی۔ یہ سراسر غیر انسانی اور انتہائی سیاسی عمل تھا، ہمیں معلوم تھا کہ یہ ہماری غلطی نہیں تھی مگر پھر بھی ہمارے ساتھ ظلم کیا گیا ۔


واضح رہے کہ اس سے قبل شملہ، سورت اور اُتر پردیش کے متعدد علاقوں میں بھی مسلما نوں کی مذہبی عمارتوں کو نشانہ بنایا جا چکا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں