شعبہ تعلیم اور طبقاتی فرق
میری بہو سعدیہ اور بیٹا زدیون بھی ہر وقت بچوں کی اچھی تعلیم کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔
میرے نواسہ، نواسی نے بچپن سے جن اسکولوں میں تعلیم حاصل کی وہ شہر کے اچھے اسکول تھے۔ ان میں داخلے کی تیاری، سمرکیمپ لے جانے اور لانے کی بھاگ دوڑ اور او اینڈ اے لیول میں اچھے نمبروں کے لیے ٹیوشن اور پھر بیرون ملک کی یونیورسٹیوں میں داخلے کے لیے میری بیٹی اور داماد نے جو محنت کی وہ تو ہے ہی مگر پرما اور فرجاد نے بھی بے پناہ محنت کی۔ یہ دونوں بچے بیرون ملک میں بہت اچھی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ والدین ہر وقت صرف اس فکر میں ہیں کہ وقت پر بچوں کی یونیورسٹی کی فیس چلی جائے اور اس کے لیے انھیں کتنی محنت کرنی پڑتی ہے یہ وہی جانتے ہیں۔ پرما بی آج کلUnited Nations میں internship کر رہی ہیں، وہاں internship ملنا آسان بات نہیں وہ جس یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کر رہی ہے، وہ Politics کے شعبے میں دنیا کی دوسری بہترین یونیورسٹی ہے، وہ ایک محنتی اور قابل بچی ہے۔
میری بہو سعدیہ اور بیٹا زدیون بھی ہر وقت بچوں کی اچھی تعلیم کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ سبل اور آبان دونوں کراچی کے بہت اچھے تعلیمی ادارے سے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ اپنے بچوں کے اچھے مستقبل کے لیے ماں باپ ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔ بچوں کی اچھی اور معیاری تعلیم کے اخراجات ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے والدین دن رات اس ہی فکر میں ہیں کہ کسی طرح اپنے بچے کو ایک بہتر مستقبل دے سکیں جو آج کے دور میں آسان نہیں۔
جب فینی، سحینا اور زدیون اسکول یا کالج جا رہے تھے تو فیس بہت مناسب ہوا کرتی تھی۔ سحینا کی فیس کراچی اسکول آف آرٹ میں اس وقت کے حساب سے تھوڑی زیادہ لگتی تھی،کیونکہ آرٹ کا سامان مہنگا آتا تھا۔ زدیون نے پرائیویٹ یونیورسٹی سے graduation کیا تھا تو اس وقت وہ فیس زیادہ معلوم ہوتی تھی مگر جو صورتحال آج ہے اس حساب سے تو وہ رقم جو میرے تینوں بچوں کی پڑھائی پر خرچ ہوئی وہ بہت کم ہے۔
میں بہت خوش ہوں کہ میرے نواسہ، نواسی اور پوتا، پوتی بہت اچھا پڑھ رہے ہیں (چشم بدور) اور ایک بہتر مستقبل ان کا منتظر ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ ہر بچے کو یہ مواقعے میسر ہوں اور تعلیم میں طبقاتی فرق نہ ہو۔
تعلیم کسی بھی معاشرے کی ترقی اور خوشحالی کی بنیاد ہوتی ہے۔ یہ وہ طاقت ہے جو فرد کو اپنی قابلیت کو پہچاننے، اسے نکھارنے اور سماجی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے، مگر بدقسمتی سے ہمارے سماج میں تعلیم کے شعبے میں طبقاتی فرق نے ایک ایسی خلیج پیدا کردی ہے جو نہ صرف معیاری تعلیم تک رسائی کو محدود کرتی ہے بلکہ سماجی ناہمواریوں کو مزید بڑھاوا دیتی ہے۔
طبقاتی فرق کے اثرات تعلیمی نظام میں واضح طور پر دکھائی دیتے ہیں۔ یہ فرق نہ صرف شہری اور دیہی علاقوں کے تعلیمی اداروں کے درمیان ہے، بلکہ نجی اور سرکاری اسکولوں کے معیار میں بھی صاف نظر آتا ہے۔ اعلیٰ طبقے کے بچے مہنگے نجی اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں، جہاں انھیں بہترین اساتذہ، جدید تعلیمی وسائل اور معیاری ماحول فراہم کیا جاتا ہے، جب کہ غریب طبقے کے بچے سرکاری اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں، جہاں نہ تو مناسب تعلیمی وسائل موجود ہوتے ہیں اور نہ ہی اساتذہ کی تربیت پر خاص توجہ دی جاتی ہے۔
اس طبقاتی فرق کا سب سے زیادہ نقصان غریب طبقے کے بچوں کو ہوتا ہے۔ یہ بچے وسائل کی کمی، تعلیمی اداروں کے ناقص معیار اور مالی مشکلات کی وجہ سے تعلیم کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ اکثر اوقات ان بچوں کو گھر کے معاشی حالات کی بہتری کے لیے کم عمری میں ہی کام کاج میں لگا دیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے وہ تعلیم سے دور ہوجاتے ہیں۔
طبقاتی فرق کی ایک اور مثال اعلیٰ تعلیمی اداروں میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ بڑے اور معروف یونیورسٹیوں میں داخلے کی فیس اور دیگر اخراجات اتنے زیادہ ہوتے ہیں کہ غریب و متوسط طبقے کے طلبہ کے لیے ان اداروں میں داخلہ لینا ایک خواب بن جاتا ہے۔ یہ فرق صرف فیس تک محدود نہیں، بلکہ تعلیمی معیار، تحقیق کے مواقعے اور دیگر سہولیات میں بھی صاف نظر آتا ہے۔
تعلیم میں طبقاتی فرق نہ صرف انفرادی سطح پر نقصان دہ ہے، بلکہ یہ قومی ترقی کے عمل میں بھی رکاوٹ بنتا ہے۔ جب ملک کے ایک بڑے طبقے کو معیاری تعلیم سے محروم رکھا جائے تو وہ اپنے سماجی اور معاشی حالات کو بہتر بنانے کے قابل نہیں رہتا۔ اس کے نتیجے میں غربت اور جہالت کے مسائل میں مزید اضافہ ہوتا ہے، جو سماجی عدم استحکام کا سبب بنتے ہیں۔
حکومتی پالیسیوں میں بھی طبقاتی فرق کا گہرا اثر ہوتا ہے۔ امیر طبقے کے لیے بہترین تعلیمی ادارے اور اسکالر شپس دستیاب ہوتے ہیں، جب کہ غریب طبقے کے بچوں کے لیے تعلیم کے بنیادی وسائل بھی فراہم نہیں کیے جاتے۔ حکومت کی جانب سے تعلیمی اصلاحات کے دعوے تو کیے جاتے ہیں، مگر ان کا اثر صرف کاغذی حد تک محدود رہتا ہے۔
اس صورتحال میں طبقاتی فرق کو ختم کرنے کے لیے چند اہم اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔ سب سے پہلے، تعلیمی بجٹ میں اضافے کی ضرورت ہے تاکہ سرکاری اسکولوں کو معیاری تعلیمی وسائل فراہم کیے جا سکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اساتذہ کی تربیت پر بھی خصوصی توجہ دی جائے تاکہ وہ جدید تعلیمی طریقوں سے واقف ہو سکیں اور طلباء کو بہتر تعلیم فراہم کر سکیں۔
دیہی علاقوں میں معیاری تعلیم کی فراہمی کے لیے اسکولوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے اور وہاں جدید تعلیمی ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے۔ آن لائن تعلیم کے مواقع فراہم کیے جائیں تاکہ دور دراز علاقوں کے طلباء بھی معیاری تعلیم حاصل کر سکیں۔اعلیٰ تعلیمی اداروں میں داخلے کے لیے مالی امداد کے پروگرامز شروع کیے جائیں تاکہ غریب اور متوسط طبقے کے طلباء بھی ان اداروں میں تعلیم حاصل کر سکیں۔ اسکالر شپس کی تعداد میں اضافہ کیا جائے اور طلباء کے لیے تحقیق کے مواقع فراہم کیے جائیں۔
نجی تعلیمی اداروں کی نگرانی کی جائے اور ان کے معیارکو بہتر بنانے کے لیے حکومت کی جانب سے اقدامات کیے جائیں تاکہ تعلیم کے شعبے میں منافع خوری کا رجحان ختم کیا جا سکے۔اس کے علاوہ، سماجی شعور اجاگرکرنے کی ضرورت ہے تاکہ عوام میں تعلیم کے حوالے سے طبقاتی فرق کے نقصانات کا ادراک ہو سکے۔ میڈیا اور تعلیمی ادارے اس حوالے سے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
طبقاتی فرق کا خاتمہ صرف حکومت یا تعلیمی اداروں کی ذمے داری نہیں، بلکہ سماج کے ہر فرد کو اس عمل میں شامل ہونا ہوگا۔ ہر انسان کو برابر کے تعلیمی مواقع فراہم کرنا نہ صرف ایک اخلاقی ذمے داری ہے، بلکہ یہ ملک کی ترقی کے لیے بھی ناگزیر ہے۔ تعلیم ایک ایسی دولت ہے جو تقسیم کرنے سے کم نہیں ہوتی، بلکہ اس سے سماج مزید مضبوط ہوتا ہے۔
خواتین کے لیے تعلیم کے شعبے میں طبقاتی فرق کے اثرات اور بھی زیادہ شدید ہیں۔ غریب اور دیہی علاقوں میں لڑکیوں کی تعلیم کو اکثر نظر انداز کیا جاتا ہے۔ والدین کی مالی مشکلات اور سماجی رسم و رواج کی وجہ سے لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے کا موقع نہیں ملتا۔ یہ طبقاتی فرق نہ صرف انفرادی طور پر لڑکیوں کے مستقبل کو متاثرکرتا ہے، بلکہ یہ ملک کی مجموعی ترقی کے عمل کو بھی نقصان پہنچاتا ہے۔ لڑکیوں کے لیے معیاری اور سستی تعلیم کے مواقع فراہم کرنا ضروری ہے تاکہ وہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے سماجی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔
دیہی علاقوں میں خواتین اساتذہ کی تعیناتی اور آن لائن تعلیم کے مواقع فراہم کر کے اس مسئلے کا حل نکالا جا سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تعلیم ایک ایسی بنیاد ہے جس پر معاشرے کی ترقی اور خوشحالی کا انحصار ہوتا ہے۔ طبقاتی فرق کو ختم کر کے ہی ہم ایک ایسا سماج تشکیل دے سکتے ہیں جہاں ہر فرد کو برابرکے مواقع میسر ہوں اور وہ اپنی قابلیت کو بہترین طریقے سے بروئے کار لا سکے۔تعلیم کے شعبے میں طبقاتی فرق کو ختم کرنا ایک لمبا اور مشکل عمل ہے، مگر یہ ناممکن نہیں، اگر حکومت، تعلیمی ادارے اور عوام اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیں اور مل جل کرکام کریں تو یہ فرق کم ہو سکتا ہے اور ہمارا معاشرہ ترقی کی راہ پرگامزن ہو سکتا ہے۔
سماجی انصاف کا تقاضا ہے کہ ہم تعلیم کے شعبے میں طبقاتی فرق کو ختم کریں اور ہر بچے کو ایک جیسے مواقع فراہم کریں۔ تعلیم کا حق ہر انسان کا بنیادی حق ہے اور اس حق کی فراہمی سے ہی ہم ایک مضبوط، مستحکم اور ترقی یافتہ معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں۔
میری بہو سعدیہ اور بیٹا زدیون بھی ہر وقت بچوں کی اچھی تعلیم کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ سبل اور آبان دونوں کراچی کے بہت اچھے تعلیمی ادارے سے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ اپنے بچوں کے اچھے مستقبل کے لیے ماں باپ ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔ بچوں کی اچھی اور معیاری تعلیم کے اخراجات ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے والدین دن رات اس ہی فکر میں ہیں کہ کسی طرح اپنے بچے کو ایک بہتر مستقبل دے سکیں جو آج کے دور میں آسان نہیں۔
جب فینی، سحینا اور زدیون اسکول یا کالج جا رہے تھے تو فیس بہت مناسب ہوا کرتی تھی۔ سحینا کی فیس کراچی اسکول آف آرٹ میں اس وقت کے حساب سے تھوڑی زیادہ لگتی تھی،کیونکہ آرٹ کا سامان مہنگا آتا تھا۔ زدیون نے پرائیویٹ یونیورسٹی سے graduation کیا تھا تو اس وقت وہ فیس زیادہ معلوم ہوتی تھی مگر جو صورتحال آج ہے اس حساب سے تو وہ رقم جو میرے تینوں بچوں کی پڑھائی پر خرچ ہوئی وہ بہت کم ہے۔
میں بہت خوش ہوں کہ میرے نواسہ، نواسی اور پوتا، پوتی بہت اچھا پڑھ رہے ہیں (چشم بدور) اور ایک بہتر مستقبل ان کا منتظر ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ ہر بچے کو یہ مواقعے میسر ہوں اور تعلیم میں طبقاتی فرق نہ ہو۔
تعلیم کسی بھی معاشرے کی ترقی اور خوشحالی کی بنیاد ہوتی ہے۔ یہ وہ طاقت ہے جو فرد کو اپنی قابلیت کو پہچاننے، اسے نکھارنے اور سماجی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے، مگر بدقسمتی سے ہمارے سماج میں تعلیم کے شعبے میں طبقاتی فرق نے ایک ایسی خلیج پیدا کردی ہے جو نہ صرف معیاری تعلیم تک رسائی کو محدود کرتی ہے بلکہ سماجی ناہمواریوں کو مزید بڑھاوا دیتی ہے۔
طبقاتی فرق کے اثرات تعلیمی نظام میں واضح طور پر دکھائی دیتے ہیں۔ یہ فرق نہ صرف شہری اور دیہی علاقوں کے تعلیمی اداروں کے درمیان ہے، بلکہ نجی اور سرکاری اسکولوں کے معیار میں بھی صاف نظر آتا ہے۔ اعلیٰ طبقے کے بچے مہنگے نجی اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں، جہاں انھیں بہترین اساتذہ، جدید تعلیمی وسائل اور معیاری ماحول فراہم کیا جاتا ہے، جب کہ غریب طبقے کے بچے سرکاری اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں، جہاں نہ تو مناسب تعلیمی وسائل موجود ہوتے ہیں اور نہ ہی اساتذہ کی تربیت پر خاص توجہ دی جاتی ہے۔
اس طبقاتی فرق کا سب سے زیادہ نقصان غریب طبقے کے بچوں کو ہوتا ہے۔ یہ بچے وسائل کی کمی، تعلیمی اداروں کے ناقص معیار اور مالی مشکلات کی وجہ سے تعلیم کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ اکثر اوقات ان بچوں کو گھر کے معاشی حالات کی بہتری کے لیے کم عمری میں ہی کام کاج میں لگا دیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے وہ تعلیم سے دور ہوجاتے ہیں۔
طبقاتی فرق کی ایک اور مثال اعلیٰ تعلیمی اداروں میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ بڑے اور معروف یونیورسٹیوں میں داخلے کی فیس اور دیگر اخراجات اتنے زیادہ ہوتے ہیں کہ غریب و متوسط طبقے کے طلبہ کے لیے ان اداروں میں داخلہ لینا ایک خواب بن جاتا ہے۔ یہ فرق صرف فیس تک محدود نہیں، بلکہ تعلیمی معیار، تحقیق کے مواقعے اور دیگر سہولیات میں بھی صاف نظر آتا ہے۔
تعلیم میں طبقاتی فرق نہ صرف انفرادی سطح پر نقصان دہ ہے، بلکہ یہ قومی ترقی کے عمل میں بھی رکاوٹ بنتا ہے۔ جب ملک کے ایک بڑے طبقے کو معیاری تعلیم سے محروم رکھا جائے تو وہ اپنے سماجی اور معاشی حالات کو بہتر بنانے کے قابل نہیں رہتا۔ اس کے نتیجے میں غربت اور جہالت کے مسائل میں مزید اضافہ ہوتا ہے، جو سماجی عدم استحکام کا سبب بنتے ہیں۔
حکومتی پالیسیوں میں بھی طبقاتی فرق کا گہرا اثر ہوتا ہے۔ امیر طبقے کے لیے بہترین تعلیمی ادارے اور اسکالر شپس دستیاب ہوتے ہیں، جب کہ غریب طبقے کے بچوں کے لیے تعلیم کے بنیادی وسائل بھی فراہم نہیں کیے جاتے۔ حکومت کی جانب سے تعلیمی اصلاحات کے دعوے تو کیے جاتے ہیں، مگر ان کا اثر صرف کاغذی حد تک محدود رہتا ہے۔
اس صورتحال میں طبقاتی فرق کو ختم کرنے کے لیے چند اہم اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔ سب سے پہلے، تعلیمی بجٹ میں اضافے کی ضرورت ہے تاکہ سرکاری اسکولوں کو معیاری تعلیمی وسائل فراہم کیے جا سکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اساتذہ کی تربیت پر بھی خصوصی توجہ دی جائے تاکہ وہ جدید تعلیمی طریقوں سے واقف ہو سکیں اور طلباء کو بہتر تعلیم فراہم کر سکیں۔
دیہی علاقوں میں معیاری تعلیم کی فراہمی کے لیے اسکولوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے اور وہاں جدید تعلیمی ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے۔ آن لائن تعلیم کے مواقع فراہم کیے جائیں تاکہ دور دراز علاقوں کے طلباء بھی معیاری تعلیم حاصل کر سکیں۔اعلیٰ تعلیمی اداروں میں داخلے کے لیے مالی امداد کے پروگرامز شروع کیے جائیں تاکہ غریب اور متوسط طبقے کے طلباء بھی ان اداروں میں تعلیم حاصل کر سکیں۔ اسکالر شپس کی تعداد میں اضافہ کیا جائے اور طلباء کے لیے تحقیق کے مواقع فراہم کیے جائیں۔
نجی تعلیمی اداروں کی نگرانی کی جائے اور ان کے معیارکو بہتر بنانے کے لیے حکومت کی جانب سے اقدامات کیے جائیں تاکہ تعلیم کے شعبے میں منافع خوری کا رجحان ختم کیا جا سکے۔اس کے علاوہ، سماجی شعور اجاگرکرنے کی ضرورت ہے تاکہ عوام میں تعلیم کے حوالے سے طبقاتی فرق کے نقصانات کا ادراک ہو سکے۔ میڈیا اور تعلیمی ادارے اس حوالے سے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
طبقاتی فرق کا خاتمہ صرف حکومت یا تعلیمی اداروں کی ذمے داری نہیں، بلکہ سماج کے ہر فرد کو اس عمل میں شامل ہونا ہوگا۔ ہر انسان کو برابر کے تعلیمی مواقع فراہم کرنا نہ صرف ایک اخلاقی ذمے داری ہے، بلکہ یہ ملک کی ترقی کے لیے بھی ناگزیر ہے۔ تعلیم ایک ایسی دولت ہے جو تقسیم کرنے سے کم نہیں ہوتی، بلکہ اس سے سماج مزید مضبوط ہوتا ہے۔
خواتین کے لیے تعلیم کے شعبے میں طبقاتی فرق کے اثرات اور بھی زیادہ شدید ہیں۔ غریب اور دیہی علاقوں میں لڑکیوں کی تعلیم کو اکثر نظر انداز کیا جاتا ہے۔ والدین کی مالی مشکلات اور سماجی رسم و رواج کی وجہ سے لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے کا موقع نہیں ملتا۔ یہ طبقاتی فرق نہ صرف انفرادی طور پر لڑکیوں کے مستقبل کو متاثرکرتا ہے، بلکہ یہ ملک کی مجموعی ترقی کے عمل کو بھی نقصان پہنچاتا ہے۔ لڑکیوں کے لیے معیاری اور سستی تعلیم کے مواقع فراہم کرنا ضروری ہے تاکہ وہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے سماجی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔
دیہی علاقوں میں خواتین اساتذہ کی تعیناتی اور آن لائن تعلیم کے مواقع فراہم کر کے اس مسئلے کا حل نکالا جا سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تعلیم ایک ایسی بنیاد ہے جس پر معاشرے کی ترقی اور خوشحالی کا انحصار ہوتا ہے۔ طبقاتی فرق کو ختم کر کے ہی ہم ایک ایسا سماج تشکیل دے سکتے ہیں جہاں ہر فرد کو برابرکے مواقع میسر ہوں اور وہ اپنی قابلیت کو بہترین طریقے سے بروئے کار لا سکے۔تعلیم کے شعبے میں طبقاتی فرق کو ختم کرنا ایک لمبا اور مشکل عمل ہے، مگر یہ ناممکن نہیں، اگر حکومت، تعلیمی ادارے اور عوام اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیں اور مل جل کرکام کریں تو یہ فرق کم ہو سکتا ہے اور ہمارا معاشرہ ترقی کی راہ پرگامزن ہو سکتا ہے۔
سماجی انصاف کا تقاضا ہے کہ ہم تعلیم کے شعبے میں طبقاتی فرق کو ختم کریں اور ہر بچے کو ایک جیسے مواقع فراہم کریں۔ تعلیم کا حق ہر انسان کا بنیادی حق ہے اور اس حق کی فراہمی سے ہی ہم ایک مضبوط، مستحکم اور ترقی یافتہ معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں۔