مسئلہ نقل کا …

اسلام آباد کی شہید ذوالفقار علی نظیر بھٹو میڈیکل یونیورسٹی نے بھی اس معاملے کی تحقیقات کا فیصلہ کیا۔

tauceeph@gmail.com

ہر سال میڈیکل کالجوں اور یونیورسٹیوں میں داخلے کا امتحان ہوتا ہے، یہ امتحان ایم ڈی کیڈ کہلاتا ہے اور ہر سال یہ امتحان اسکینڈلزکا شکار ہوتا ہے مگر حکومت ایک معیاری اور شفاف امتحانات کے انعقاد کا طریقہ رائج نہ کرسکی۔ اس سال بھی پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کے تحت ایم بی بی ایس میں داخلوں کے لیے انٹری ٹیسٹ پورے ملک میں ایک ساتھ منعقد ہوا۔ ملک کی سات میڈیکل یونیورسٹیوں کی نگرانی میں ایک لاکھ 70 ہزار امیدواروں نے امتحانات میں شرکت کی۔

امتحان پورے ملک میں 22 ستمبر کو منعقد ہوا۔ امتحان شروع ہونے کے ساتھ ہی سوشل میڈیا پر پیپر آؤٹ ہونے کی خبریں وائرل ہونے لگیں تو حسبِ روایت الیکٹرانک میڈیا پر امتحانات میں بدنظمی، نقل کی وارداتوں اور امتحانی پرچہ آؤٹ ہونے کی خبریں شایع ہوئیں۔ 23 ستمبر کے اخبارات میں امتحانات میں بدنظمی اور پرچہ آؤٹ ہونے کے بارے میں تفصیلی رپورٹیں شایع ہوئیں۔ ان امتحانات میں نقل کی توکئی خبریں اخبارات کی زینت بنیں مگر ایک بڑے انگریزی کے اخبار میں شایع ہونے والی خبر نے سب کو چونکا دیا کہ حیدرآباد کے ایک فارم ہاؤس میں بھی امتحانی مرکز بنایا گیا جہاں امیدواروں کو 14 لاکھ روپے فیس ادا کر کے پرچہ حل کرنے کی تمام سہولتیں دستیاب تھیں۔

اخبارات میں یہ الزام بھی شایع ہوا کہ امتحانی پرچہ میں 30 فیصد کے قریب سوالات آؤٹ آف کورس تھے، اس پھر یہ معاملہ عدالتوں میں چلا گیا۔ سندھ ہائی کورٹ اور پھر اسلام آباد ہائی کورٹ نے اسٹے آرڈر دیدیے کہ جب تک ان عرض داشتوں پر کوئی فیصلہ نہیں آئے گا تو یہ پورے ملک میں ایم بی بی ایس کی کلاسیں شروع نہیں ہوسکتیں۔ پی ایم ڈی سی نے اس پورے معاملے کی تحقیقات شروع کردی۔ کونسل نے آزاد ماہرین کی خدمات حاصل کی ہیں جو تمام شکایتوں کا جائزہ بھی لیں گے۔

اسلام آباد کی شہید ذوالفقار علی نظیر بھٹو میڈیکل یونیورسٹی نے بھی اس معاملے کی تحقیقات کا فیصلہ کیا۔ پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل نے اس انٹری ٹیسٹ منعقد کرنے والی ملک کی 7 یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر صاحبان کا اجلاس منعقد کیا۔ کونسل کے ایک افسرکا کہنا ہے کہ ٹیسٹ کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ پنجاب، سندھ اور بلوچستان کے امیدواروں نے اچھے نمبر حاصل کیے مگر اسلام آباد، آزاد کشمیر اور دیگر شہروں کے مراکز میں امتحانات دینے والے طلبہ کی کارکردگی بہت زیادہ بہتر ثابت نہیں ہوئی۔ یہ بھی کہا گیا کہ گزشتہ 3 برسوں کے دوران شہید ذوالفقار علی بھٹو میڈیکل یونیورسٹی کے امتحانی پرچے یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز لاہور کے تیار کردہ پرچوں کے مقابلے میں آسان تھے۔

یہ بھی کہا گیا کہ پنجاب کے کالجوں میں بیشتر نشستیں یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنس کے طلبہ نے حاصل کی ہیں اور ذوالفقار علی بھٹو شہید میڈیکل یونیورسٹی کے طلبہ خاصے پیچھے ہیں مگر پی ایم ڈی سی کا کہنا ہے کہ پرچہ آؤٹ ہونے کا کسی شہر سے کوئی ثبوت نہیں ملا مگر پی ایم ڈی سی اور کراچی میں محکمہ صحت کے حکام نے حیدرآباد کے کسی فارم ہاؤس میں 17 لاکھ روپے لے کر امتحان میں بیٹھنے کے الزام کی تردید کی زحمت گوارہ نہ کی۔


گزشتہ سال جب پشاور میں اس نوعیت کے امتحانات منعقد ہوئے تو پولیس نے انٹری ٹیسٹ میں جدید ٹیکنالوجی Bluetooth کے ذریعے نقل کرانے والے ایک گروہ کے ارکان کوگرفتار کیا تھا اور انتظامیہ نے پشاور میں امتحانی نتائج منسوخ کر کے دوبارہ امتحان لینے کا فیصلہ کیا تھا، یوں شفاف امتحانات کا ایک ماڈل سامنے آیا تھا۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ذریعے امتحانات میں نقل کرنے کے طریقے بھی آسان ہوگئے ہیں اور اسی ٹیکنالوجی کے ذریعہ نقل روکنے کے طریقے بھی واضح ہوگئے ہیں۔ تعلیمی امور سے دلچسپی رکھنے والے اساتذہ کا کہنا ہے کہ ضروری نہیں جہاں امتحانی پرچہ تیار ہوا ہے، وہاں سے پرچہ آؤٹ ہوجائے۔ یہ پرچہ امتحانی مرکز میں تقسیم کے وقت بھی آؤٹ ہوسکتا ہے۔ امتحانی ٹیم کا کوئی اہلکار اپنے اسمارٹ موبائل فون سے امتحانی پرچہ کی تصویر وائرل کردیتا ہے۔ پھر یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ پرچہ واقعی کسی اہلکار نے آؤٹ کیا ہو۔

بعض اوقات اساتذہ ڈمی پرچہ بنانے کے ماہر ہوتے ہیں۔ وہ رات گئے ایسا پرچہ سوشل میڈیا پر وائرل کرکے امتحانی عمل کی شفافیت پر ضرب لگا سکتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر تو خبرکی معروضیت کو یقینی بنانے کا کوئی طریقہ کار موجود نہیں ہے۔ اسی طرح بعض ٹی وی چینلز کے ناتجربہ کار رپورٹر تصدیق کیے بغیرکہ انھیں ملنے والا پرچہ واقعی حقیقی پرچہ ہے چینل پر خبر نشرکر دیتے ہیں کہ یہ پرچہ آؤٹ ہوگیا۔ بدقسمتی سے کسی چینل میں احتساب کا ایسا نظام نہیں ہے کہ جب حقیقی پرچہ امتحانی مراکز میں تقسیم ہو تو تصدیق کی جائے کہ واقعی آؤٹ ہوا بھی تھا کہ نہیں۔

اس صورتحال کے تدارک کا ایک طریقہ بہت واضح ہے کہ ہر طالب علم کو ملنے والا امتحانی پرچہ دوسرے طالب علم سے مختلف ہو، اگر حکومت ہر شہر میں امتحانی مرکز میں کلاس میں ہر نشست پر لیپ ٹاپ مہیا کرے، اور آخری وقت میں پرچہ لیپ ٹاپ پر نمودار ہوا اور طالب علم لیپ ٹاپ پر پرچہ حل کرے اور واپس کردے اور ہر کلاس کی کلوز ڈور کیمروں سے نگرانی کی جائے تو ہر سال کا یہ تنازع حل ہوسکتا ہے۔

2024 میں ملک بھر میں 22000 طالب علموں نے اس ٹیسٹ کے لیے رجسٹریشن کروائی تھی۔ اس سال پاکستانی طالب علموں کے لیے یہ فیس 8000 روپے جب کہ غیر ملکی طالب علموں کے لیے 12000 روپے مقررکی گئی تھی، یوں اس سال ایم ڈی کیٹ کے ٹیسٹ کے انعقاد کے لیے 17 کروڑ 60 لاکھ روپے سے زائد کی رقم جمع ہوئی ہوگی۔ دنیا بھر میں عالمی سطح پر بہت سے ٹیسٹ منعقد کیے جاتے ہیں جن میں اس قسم کے بنیاد ی مسائل پیدا نہیں ہوتے۔ GRE, TOEFL, IELTS, GMAT, SAT اور ACT اس قسم کے ٹیسٹوں کی کامیاب مثالیں تصور کی جاتی ہیں۔ ان ٹیسٹوں میں طالب علموں کے رجحان، زبان اور تنقیدی صلاحیتوں کی جانچ کرنے کے لیے ماہرین تعلیم کی سفارشات کی روشنی میں شفاف ترین نظام میں، سائنسی بنیادوں پر تیارکروائے گئے سوالات، طالبعلموں کی ذہنی استعداد کے مطابق ترتیب دیے جاتے ہیں، AIکے استعمال سے طالب علموں کے رجحان اور دیگر بنیادی صلاحیتوں کی جانچ ممکن ہوجاتی ہے۔

اس طرح ہر طالب عالم کو اس کے فطری رجحان سے قریب تر سوالات پوچھے جاتے ہیں اور ان کی ذہنی استعداد کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ ہر طالب علم سے پوچھے گئے سوالات نہ صرف مختلف ہوتے ہیں بلکہ ان کی نوعیت طالب علموں کے فطری ذہنی استعداد سے قریب تر ہوتی ہے۔ اس طرح طالب علموں میں رٹا لگانے، نقل کرنے یا دیگر ذرایع استعمال کرنے کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ عالمی سطح پر منعقد ہونے والے ٹیسٹوں میں تمام طالب علموں کو ایک ہی سوال نامہ نہیں دیا جاتا۔ پاکستان میں ایم ڈی کیٹ کے لیے جمع ہونے والی رقم کم نہیں ہے۔ اس رقم میں دنیا کے معروف ٹیسٹنگ اداروں کی خدمات حاصل کی جاسکتی ہیں جو طالب علموں کے لیے نہ صرف مناسب ترین ٹیسٹ ترتیب دے سکتے ہیں بلکہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے استعمال سے اس قسم کے ٹیسٹ کے انعقاد میں پیش آنے والے مختلف مسائل کو بھی باآسانی حل کیا جاسکتا ہے۔

ساتھ ساتھ پاکستانی اساتذہ کو اس طرح کے ٹیسٹوں کی تیاری اور انعقاد کے مختلف مراحل میں شامل کر کے اس کی تربیت بھی دی جانی چاہیے۔ ایم ڈی کیٹ کے ٹیسٹ کا انعقاد کرنے والی ٹیم کو ٹیسٹ کے روایتی طریقوں کو ترک کر دینا چاہیے۔ حکومت اگر آئی ٹی کے ماہرین پر میڈیکل کی تعلیم دینے والے اساتذہ کی کانفرنس منعقد کرے تو اس تجویز سے زیادہ بہتر تجاویز مل سکتی ہیں۔ یوں ایک خطیر رقم خرچ کر کے ایک شفاف نظام کا یقینی بنانا کوئی مہنگا سودا نہیں ہے۔ میڈیکل میں داخلہ لینے والے طلبہ مستقبل کے ڈاکٹر ہوتے ہیں۔ اگر میرٹ پر منتخب ہونے والے طلبہ ڈاکٹرکی سند حاصل کریں گے تو نہ صرف شعبہ صحت کا معیار بلند ہوگا بلکہ پھر دنیا بھر میں ملک کا امیج بھی بہتر ہوگا، اگر ہمارے ملک میں شفاف امتحانات کا انعقاد بھی نہ ہوسکے تو پھر ترقی کے تمام دعوے باطل ثابت ہونگے۔
Load Next Story