الیکشن ٹریبونل تبدیل کرنیکا کیس فیصل چوہدری اور چیف الیکشن کمشنر کے درمیان تکرار
رکن قومی اسمبلی انجم عقیل کا ایک بار پھر ٹربیونل جج پر عدم اعتماد کا اظہار
اسلام آباد کے تینوں حلقوں کا الیکشن ٹریبونل تبدیل کرنے کے کیس میں وکیل فیصل چوہدری اور چیف الیکشن کمشنر کے درمیان تکرار ہوگئی۔
چیف الیکشن کمشنر کی سربراہی میں 4 رکنی بینچ نے سماعت کی، فیصل چوہدری ایڈووکیٹ اور انجم عقیل خان کے وکیل عدالت میں پیش ہوئے۔ کمیشن نے اسٹاف کو گزشتہ سماعت کا حکم نامہ پڑھنے کی ہدایت کی۔
چیف الیکشن کمشنر نے سوال کیا کہ آپ کیا چاہتے ہیں؟ وکیل انجم عقیل خان نے کہا کہ ہم نے ترمیم شدہ درخواستیں جمع کروائیں، دو سماعتیں ہوگئی ہیں لیکن جواب نہیں آیا۔
چیف الیکشن کمشنر نے فیصل چوہدری سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ ہمیں ڈکٹیٹ کرنے کوشش نہ کریں، جس پر فیصل چوہدری نے کہا کہ آپ اپنی آواز نیچی رکھ کر بات کریں، آپ ہماری درخواست کا فیصلہ کر دیں۔
دوران سماعت، فیصل چوہدری اور چیف الیکشن کمشنر کے درمیان تکرار ہوگئی۔ فیصل چوہدری نے کہا کہ ہم یہاں اپنی بے عزتی کروانے نہیں آتے۔
کمرہ عدالت میں فواد چوہدری، فیصل چوہدری کو الیکشن کمیشن سے معافی مانگنے پر آمادہ کرتے رہے لیکن فیصل چوہدری نے کہا کہ میں الیکشن کمیشن سے معافی نہیں مانگوں گا۔
عامر مغل کی طرف سے الیکشن کمیشن میں پیش ہوکر فیصل چوہدری نے کہا کہ عامر مغل کے بیٹے نے بتایا ہے کہ انکا رابطہ والد سے نہیں ہو پا رہا۔
الیکشن کمیشن نے ہدایت کی کہ آپ ساڑھے گیارہ بجے تک کیس میں جواب جمع کرائیں، جس پر فیصل چوہدری نے جواب دیا کہ ساڑھے گیارہ تک جواب جمع کرانا ممکن نہیں، عامر مغل سے رابطہ کیے بغیر جواب نہیں دے سکتا۔
فواد چوہدری نے چیف الیکشن کمشنر سے معافی کی درخواست کی لیکن چیف الیکشن کمشنر اٹھ کر چلے گئے۔
دوبارہ سماعت
چیف الیکشن کمشنر کی سربراہی میں دوبارہ سماعت ہوئی تو رکن قومی اسمبلی انجم عقیل نے ایک بار پھر ٹربیونل جج پر عدم اعتماد کا اظہار کر دیا۔
رکن قومی اسمبلی کے وکیل نے دلائل دیے کہ میں اگر ٹربیونل جج پر طرف داری کا لفظ استعمال نہ کروں تو بھی مجھ اعتماد نہیں، ٹربیونل جج پر اعتماد نہ ہونا ہی جج کو تبدیل کرنے کی ایک بڑی وجہ ہے، کسی بھی عوامی نمائندے کو ہٹانے کیلئے ہمیشہ ہائی لیول پیمانہ رکھا جاتا ہے، ایک عوامی نمائندہ لاکھوں ووٹ لیکر منتخب ہوتا ہے۔
وکیل انجم عقیل نے کہا کہ ٹربیونل کسی جماعت یا شخص کو نہیں کہہ سکتا کے اگلی سماعت پر لازمی آئیں، سپریم کورٹ کا فیصلہ موجود ہے کہ کیس میں کسی پارٹی کو زبردستی حاضر نہیں کروا سکتا۔
عامر مغل کے وکیل فیصل چوہدری نے دلائل میں کہا کہ ہم جواب جمع کروا دیتے ہیں، اگلی تاریخ دے دیں۔
انجم عقیل کے وکیل نے مزید دلائل دیے کہ الیکشن پٹیشن کے حوالے سے قانون کی بہت سخت رکاوٹ ہے، کامیاب امیدوار کو لاکھوں لوگ منتخب کرتے ہیں، ان کے الیکشن کو چیلنج کرنا ہے اور ہٹانا اتنا آسان نہیں، ٹربیونل پر عدم اعتماد پر الیکشن ٹربیونل منتقلی ایک جائز مطالبہ ہے اور اس حوالے سے پہلے بھی فیصلے آ چکے ہیں۔ اعتماد کے فقدان پر ٹربیونل منتقلی کا جائز جواز ہے۔
وکیل نے مزید کہا کہ آئین میں ہائی کورٹ پر قدغن ہے کہ وہ مداخلت نہیں کریں گے، کامیاب امیدوار کو نوٹس نہیں دیا جا سکتا اور یہاں ٹربیونل مجھے دستاویزات دینے کا کہہ رہا ہے، بات نہیں ہوئی کہ پٹیشن قابل سماعت ہے یا نہیں لیکن ہمیں کہا گیا دستاویزات بیان حلفی کے ساتھ جمع کرائیں۔ منتخب امیدوار کو آئین و قانون کہتا ہے کہ نوٹس نہیں دے سکتے، آئین و قانون کہتا ہے کہ پہلے درخواست گزار سے سوال پوچھو لیکن مجھے کہا جا رہا ہے کہ ایک ہفتے میں فارمز جمع کرائیں۔
ممبر کمیشن نے سوال کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں ٹربیونل نے پروسیجر فالو نہیں کیا؟ وکیل انجم عقیل نے کہا کہ قانون جو مجھے تحفظ دے رہا ہے وہ چھین لیا گیا ہے، جوابدہ نے کہا کہ اعتماد کی کمی ٹربیونل منتقلی کا جواز نہیں، سپریم کورٹ کہتا ہے کہ آپ کا اس ٹربیونل پر اعتبار ہونا چاہیے جو کیس سنے اور ٹربیونل منتقلی پر کیس وہیں سے شروع ہوگا جہاں سے پہلے سنا جا رہا تھا، اس لیے تاخیر کا کوئی جواز نہیں۔
ممبر نے سوال کیا کہ کمیشن کا اختیار ہے ٹربیونل منتقلی کا، کس بنیاد پر منتقل کیا جا سکتا ہے آپ یہ بتائیں؟
وکیل انجم عقیل نے کہا کہ جوابدہ بہت کمزور گراونڈ پر ہیں کہ کیس منتقل نہیں ہو سکتا کہ ٹربیونل پر اعتماد کھو گیا ہے، سپریم کورٹ نے کہا کہ اعتماد کھو جائے تو کیس منتقل ہو سکتا ہے، فیئر ٹرائل ہونے کی یقین دہانی ہونی چاہیے۔
ممبر کمیشن نے سوال کیا کہ آپ کہہ رہے کہ تمام مراحل پورے کیے بغیر ٹربیونل ااپ سے دستاویزات مانگ رہا ہے؟ وکیل انجم عقیل نے کہا کہ ہائی کورٹ کے مطابق الیکشن ٹربیونل کے جج پریزائڈنگ افسر ہیں وہ جج نہیں ہیں، ایسا نہیں کہ ہمارے دل میں پریزائڈنگ افسر کے لیے عزت نہیں ہے بلکہ عوام کا اعتماد بحال کرنے کے لیے الیکشن کمیشن کیس منتقل کر دے، ہم ابھی ابتدائی مراحل میں ہیں جہاں کیس منتقل کر دینا مناسب ہوگا اور کامیاب امیدوار ٹربیونل میں موجود رہے۔
وکیل انجم عقیل نے کہا کہ تیز انصاف کا نعرہ لگا کر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ہم کامیاب امیدوار کا پروسیجرل تحفظ ختم کر دیں، اس سے میرا آئینی حق متاثر ہوتا ہے، کسی پریزائڈنگ افسر کی ذات پر سوال اٹھانا مقصد نہیں، قانون کے مطابق کامیاب امیدوار کو کوئی چیلنج کرے گا تو وہ دستاویزات پہلے جمع کرائے گا۔
انجم عقیل کے وکیل کے دلائل مکمل ہوگئے۔
چیف الیکشن کمشنر کی سربراہی میں 4 رکنی بینچ نے سماعت کی، فیصل چوہدری ایڈووکیٹ اور انجم عقیل خان کے وکیل عدالت میں پیش ہوئے۔ کمیشن نے اسٹاف کو گزشتہ سماعت کا حکم نامہ پڑھنے کی ہدایت کی۔
چیف الیکشن کمشنر نے سوال کیا کہ آپ کیا چاہتے ہیں؟ وکیل انجم عقیل خان نے کہا کہ ہم نے ترمیم شدہ درخواستیں جمع کروائیں، دو سماعتیں ہوگئی ہیں لیکن جواب نہیں آیا۔
چیف الیکشن کمشنر نے فیصل چوہدری سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ ہمیں ڈکٹیٹ کرنے کوشش نہ کریں، جس پر فیصل چوہدری نے کہا کہ آپ اپنی آواز نیچی رکھ کر بات کریں، آپ ہماری درخواست کا فیصلہ کر دیں۔
دوران سماعت، فیصل چوہدری اور چیف الیکشن کمشنر کے درمیان تکرار ہوگئی۔ فیصل چوہدری نے کہا کہ ہم یہاں اپنی بے عزتی کروانے نہیں آتے۔
کمرہ عدالت میں فواد چوہدری، فیصل چوہدری کو الیکشن کمیشن سے معافی مانگنے پر آمادہ کرتے رہے لیکن فیصل چوہدری نے کہا کہ میں الیکشن کمیشن سے معافی نہیں مانگوں گا۔
عامر مغل کی طرف سے الیکشن کمیشن میں پیش ہوکر فیصل چوہدری نے کہا کہ عامر مغل کے بیٹے نے بتایا ہے کہ انکا رابطہ والد سے نہیں ہو پا رہا۔
الیکشن کمیشن نے ہدایت کی کہ آپ ساڑھے گیارہ بجے تک کیس میں جواب جمع کرائیں، جس پر فیصل چوہدری نے جواب دیا کہ ساڑھے گیارہ تک جواب جمع کرانا ممکن نہیں، عامر مغل سے رابطہ کیے بغیر جواب نہیں دے سکتا۔
فواد چوہدری نے چیف الیکشن کمشنر سے معافی کی درخواست کی لیکن چیف الیکشن کمشنر اٹھ کر چلے گئے۔
دوبارہ سماعت
چیف الیکشن کمشنر کی سربراہی میں دوبارہ سماعت ہوئی تو رکن قومی اسمبلی انجم عقیل نے ایک بار پھر ٹربیونل جج پر عدم اعتماد کا اظہار کر دیا۔
رکن قومی اسمبلی کے وکیل نے دلائل دیے کہ میں اگر ٹربیونل جج پر طرف داری کا لفظ استعمال نہ کروں تو بھی مجھ اعتماد نہیں، ٹربیونل جج پر اعتماد نہ ہونا ہی جج کو تبدیل کرنے کی ایک بڑی وجہ ہے، کسی بھی عوامی نمائندے کو ہٹانے کیلئے ہمیشہ ہائی لیول پیمانہ رکھا جاتا ہے، ایک عوامی نمائندہ لاکھوں ووٹ لیکر منتخب ہوتا ہے۔
وکیل انجم عقیل نے کہا کہ ٹربیونل کسی جماعت یا شخص کو نہیں کہہ سکتا کے اگلی سماعت پر لازمی آئیں، سپریم کورٹ کا فیصلہ موجود ہے کہ کیس میں کسی پارٹی کو زبردستی حاضر نہیں کروا سکتا۔
عامر مغل کے وکیل فیصل چوہدری نے دلائل میں کہا کہ ہم جواب جمع کروا دیتے ہیں، اگلی تاریخ دے دیں۔
انجم عقیل کے وکیل نے مزید دلائل دیے کہ الیکشن پٹیشن کے حوالے سے قانون کی بہت سخت رکاوٹ ہے، کامیاب امیدوار کو لاکھوں لوگ منتخب کرتے ہیں، ان کے الیکشن کو چیلنج کرنا ہے اور ہٹانا اتنا آسان نہیں، ٹربیونل پر عدم اعتماد پر الیکشن ٹربیونل منتقلی ایک جائز مطالبہ ہے اور اس حوالے سے پہلے بھی فیصلے آ چکے ہیں۔ اعتماد کے فقدان پر ٹربیونل منتقلی کا جائز جواز ہے۔
وکیل نے مزید کہا کہ آئین میں ہائی کورٹ پر قدغن ہے کہ وہ مداخلت نہیں کریں گے، کامیاب امیدوار کو نوٹس نہیں دیا جا سکتا اور یہاں ٹربیونل مجھے دستاویزات دینے کا کہہ رہا ہے، بات نہیں ہوئی کہ پٹیشن قابل سماعت ہے یا نہیں لیکن ہمیں کہا گیا دستاویزات بیان حلفی کے ساتھ جمع کرائیں۔ منتخب امیدوار کو آئین و قانون کہتا ہے کہ نوٹس نہیں دے سکتے، آئین و قانون کہتا ہے کہ پہلے درخواست گزار سے سوال پوچھو لیکن مجھے کہا جا رہا ہے کہ ایک ہفتے میں فارمز جمع کرائیں۔
ممبر کمیشن نے سوال کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں ٹربیونل نے پروسیجر فالو نہیں کیا؟ وکیل انجم عقیل نے کہا کہ قانون جو مجھے تحفظ دے رہا ہے وہ چھین لیا گیا ہے، جوابدہ نے کہا کہ اعتماد کی کمی ٹربیونل منتقلی کا جواز نہیں، سپریم کورٹ کہتا ہے کہ آپ کا اس ٹربیونل پر اعتبار ہونا چاہیے جو کیس سنے اور ٹربیونل منتقلی پر کیس وہیں سے شروع ہوگا جہاں سے پہلے سنا جا رہا تھا، اس لیے تاخیر کا کوئی جواز نہیں۔
ممبر نے سوال کیا کہ کمیشن کا اختیار ہے ٹربیونل منتقلی کا، کس بنیاد پر منتقل کیا جا سکتا ہے آپ یہ بتائیں؟
وکیل انجم عقیل نے کہا کہ جوابدہ بہت کمزور گراونڈ پر ہیں کہ کیس منتقل نہیں ہو سکتا کہ ٹربیونل پر اعتماد کھو گیا ہے، سپریم کورٹ نے کہا کہ اعتماد کھو جائے تو کیس منتقل ہو سکتا ہے، فیئر ٹرائل ہونے کی یقین دہانی ہونی چاہیے۔
ممبر کمیشن نے سوال کیا کہ آپ کہہ رہے کہ تمام مراحل پورے کیے بغیر ٹربیونل ااپ سے دستاویزات مانگ رہا ہے؟ وکیل انجم عقیل نے کہا کہ ہائی کورٹ کے مطابق الیکشن ٹربیونل کے جج پریزائڈنگ افسر ہیں وہ جج نہیں ہیں، ایسا نہیں کہ ہمارے دل میں پریزائڈنگ افسر کے لیے عزت نہیں ہے بلکہ عوام کا اعتماد بحال کرنے کے لیے الیکشن کمیشن کیس منتقل کر دے، ہم ابھی ابتدائی مراحل میں ہیں جہاں کیس منتقل کر دینا مناسب ہوگا اور کامیاب امیدوار ٹربیونل میں موجود رہے۔
وکیل انجم عقیل نے کہا کہ تیز انصاف کا نعرہ لگا کر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ہم کامیاب امیدوار کا پروسیجرل تحفظ ختم کر دیں، اس سے میرا آئینی حق متاثر ہوتا ہے، کسی پریزائڈنگ افسر کی ذات پر سوال اٹھانا مقصد نہیں، قانون کے مطابق کامیاب امیدوار کو کوئی چیلنج کرے گا تو وہ دستاویزات پہلے جمع کرائے گا۔
انجم عقیل کے وکیل کے دلائل مکمل ہوگئے۔