پابندی کے باوجود پنجاب میں کتوں کی لڑائی کے مقابلوں کا آغاز

 لاہور: سردیوں کا آغاز ہوتے ہی پنجاب کے مختلف اضلاع میں کتوں کی لڑائی کے مقابلوں کا آغاز ہوگیا ہے جبکہ بڑے مقابلے 29 دسمبر کو ہوں گے جس کی تشہیر سوشل میڈیا کے ذریعے کی جا رہی ہے لیکن یہ مقابلے کہاں ہوں گے اس مقام کو خفیہ رکھا جا رہا ہے۔

سوشل میڈیا پر کتوں کی خونخوار لڑائی کی ویڈیوز اور کن گروپوں کے مابین مقابلے ہوں گے یہ تفصیلات شیئر کی جارہی ہیں۔ پاک اعوان گروپ کے نام سے بنائے گئے فیس بک پیکج پر کتوں کی لڑائی کی تازہ ویڈیوز بھی شیئر ہوئی ہیں جن کے بارے امکان ہے کہ وہ اوکاڑہ اور پتوکی کے علاقوں کی ہیں۔

کتوں کی لڑائی کے مقابلے کروانے والے ایک گروپ ممبر نے اپنا نام ظاہر نہ کرتے ہوئے ایکسپریس نیوز کو بتایا کہ ’’پنجاب میں اس وقت 100 کی قریب ایسے گروپ ہیں جو کتوں کی لڑائی کے مقابلے کرواتے ہیں۔ تاہم جن کے پاس بہترین لڑاکا کتے ہیں ایسے گروپوں کی تعداد 30 سے 35 ہوگی۔

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ کتوں کی لڑائی کا بڑا ٹورنامنٹ 29 دسمبر کو ہوگا جس میں کئی گروپ شریک ہوتے ہیں۔ ایک گروپ میں 13 سے 14 لڑاکا کتے ہوتے ہیں۔ یہ مقابلے ناک آؤٹ کی بنیاد پر ہوتے ہیں جو کتا ہار گیا وہ مقابلے سے باہر ہوجاتا ہے۔ مقابلے کے دوران جس گروپ کے کتے زیادہ پوائنٹ حاصل کرتے ہیں وہ کامیاب قرار پاتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ابھی جو مقابلے مختلف علاقوں میں ہو رہے ہیں یہ دراصل دسمبر میں ہونے والے ٹورنامنٹ کی تیاری کا حصہ بھی ہیں۔ ان مقابلوں سے کتے کی بہادری اور مہارت کا پتہ چلتا ہے اور بہترین کتوں کو دسمبر میں ہونے والے مقابلے کے لیے منتخب کیا جاتا ہے۔

واضع رہے کہ پاکستان میں کتوں کی لڑائی کروانے پر پابندی عائد ہے لیکن اس کے باوجود سردیوں میں یہ مقابلے کروائے جاتے ہیں۔ جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی غیرسرکاری تنظیمیں اس میں حکومت کو قصور وار ٹھہراتی ہیں۔

دوردراز قصبوں اور دیہات میں ہونے والی کتوں کی لڑائیوں کے مقابلے دیکھنے کے لیے سیکڑوں لوگ جمع ہوتے ہیں بلکہ میلے سجتے ہیں۔ ان مقابلوں میں زیادہ تر بااثر مقامی زمیندار اور کتے پالنے کے شوقین افراد اپنے جانور لیکر جاتے ہیں۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ ایسے مقابلوں کے انعقاد کے لیے مقامی پولیس کو رشوت دی جاتی ہے۔

جانوروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم این جی او کی سربراہ عنیزہ خان عمرزئی کا کہنا ہے کہ ایسی لڑائیوں ميں شامل کتوں کے مالکان اکثر بہت مالدار کاروباری افراد، زمیندار، سیاسی اور ديگر سرکردہ شخصيات ہوتے ہيں۔ يہ عناصر پوليس پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہيں اور یوں پوليس بے بس ہو جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ کتوں کی ان خونخوار لڑائیوں اور ان کے ساتھ ہونے والے ظالمانہ سلوک کو روکنے کی ذمہ داری سوسائٹی فار دی پریونشن آف کرولٹی ٹو اینیملز (ایس پی سی اے)، پولیس اور اب پنجاب اینیمل ریسکیو سینٹر کی ہے لیکن بدقسمتی سے ان میں ہم آہنگی اور رابطوں کا فقدان ہے۔

عنیزہ خان عمرزئی نے کہا ایسا ممکن نہیں کہ کسی علاقے میں کتوں کی لڑائی کے مقابلے کروائے جائیں اور وہاں کی مقامی پولیس کو اس کا علم نہ ہو۔ بعض اوقات پولیس خود اس میں ملوث ہوتی ہے اور وہ  مقابلے کروانے والوں کو  پیشگی اطلاع دیتی ہے تاکہ وہ کتوں کی لڑائی کی جگہ تبدیل کر سکیں۔ اس کے علاوہ، پولیس کتوں کی لڑائی کروانے والوں کے خلاف اکثر جوا آرڈیننس/ ایکٹ کے تحت نمٹنے کی کوشش کرتی ہے۔ لیکن وہ یہ نہیں سمجھتے کہ یہ جانوروں کے حقوق کا بھی بہت اہم مسئلہ ہے۔

دوسری طرف ایس پی سی اے کے سیکریٹری ڈاکٹر مسعود ربانی کا کہنا ہے کہ ادارہ برائے انسداد بے رحمی حیوانات ہر سال کتوں کی خونخوار لڑائیاں کروانے والوں کے خلاف کارروائی کرتا ہے۔ مختلف ذرائع سے جیسے ہی ہمیں کسی علاقے میں ایسے مقابلوں کی اطلاع ملتی ہے تو ہم پولیس اور وہاں کی ضلعی انتطامیہ کوآگاہ کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر عام شہری اس بارے اپنا کردار ادا کریں اور ایسے مقابلوں کے انعقاد سے متعلق بروقت اطلاع دیں تو  ایسے مقابلوں کو مکمل طور پر روکا جا سکتا ہے۔

پنجاب پولیس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ پولیس اس سلسلے میں کارروائیاں کرتی ہیں اور ملزمان کو گرفتار بھی کیا جاتا ہے لیکن وہ ضمانت کروا لیتے اور جرمانہ ادا کرکے چھوٹ جاتے ہیں۔ ایسے مقدمات میں چند ہزار روپے جرمانہ یا پھر زیادہ سے زیادہ سزا 6 ماہ تک سزا ہو سکتی ہے۔