سندھ ہائیکورٹ نے ایم ڈی کیٹ کے نتائج کی فہرست جاری کرنے سے روک دیا
عدالت عالیہ کا ایف آئی اے کو اس معاملے میں تحقیقات کے لیے ٹیم نامزد کرنے کا حکم
سندھ ہائیکورٹ نے ایم ڈی کیٹ کے نتائج کی فہرست جاری کرنے سے روکتے ہوئے بنائی گئی کمیٹی کو تمام اداروں سے ریکارڈ اکھٹا کرکے رپورٹ تیار کرنے اور ایف آئی اے کو اس معاملے میں تحقیقات کے لیے ٹیم نامزد کرنے کا حکم دے دیا۔
جسٹس صلاح الدین پہنور کی سربراہی میں دو رکنی بینچ کے روبرو ایم ڈی کیٹ کے نتائج میں مبینہ بے قاعدگیوں کے خلاف درخواست کی سماعت ہوئی۔ چیف سیکریٹری سندھ، جامعات کے وائس چانسلرز اور دیگر فریقین عدالت میں پیش ہوئے۔
جسٹس صلاح الدین پنہور نے ریمارکس دیے کہ کتنے بچے ایسے ہیں جن کے مارکس 195 سے زیادہ ہیں، یہاں ہم سندھ کے بچوں کے رزلٹ کو پنجاب اور کے پی کے بچوں سے موازنہ کرنا چاہتے ہیں۔ جسٹس امجد سہتو نے ریمارکس دیے کہ پی ایم ڈی سی کا اس حوالے سے معاملہ ختم ہوگیا کہ پیپر لیک ہوا یا نہیں۔
درخواست گزار کے وکیل نے موقف دیا کہ اگر امتحان میں کوئی خامی ہے تو یہ بھی بتایا جائے، 187 مارکس حاصل کرنے والے بچوں کی تعداد 1100 سے زیادہ تھی۔چیف سیکریٹری آصف حیدر شاہ نے کہا کہ کے پی اور پنجاب کے طلبہ کے نمبرز کی تفصیل آجائیں تو سندھ سے میچ کیا جائے گا۔
جسٹس امجد علی سہتو نے ریمارکس دیے کہ اگر پیپر کسی ایک سینٹر کا لیک ہوا تو اس ڈویژن کا پیپرز روکا جائے، پورے سندھ کے نہیں۔ جسٹس صلاح الدین پہنور نے ریمارکس دیے کہ سندھ میں ایم ڈی کیٹ کے جو 190 پلس والے طلبہ کہاں جائیں گے۔ پنجاب میں 58 ہزار، کے پی میں 42 ہزار اور سندھ میں 38 ہزار طلبہ نے امتحان دیا ہے۔
وائس چانسلر نے بتایا کہ محکمہ صحت نے ایک کمیٹی بنائی جس میں لگائے گئے الزامات کا ثبوت نہیں ملا۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ کہیں نہ کہیں پر یہ چیز ضرور ہوئی اس لیے الزامات لگتے ہیں۔
جسٹس صلاح الدین پہنور نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ میڈیا یہ چیزیں غلط چلا رہا ہے اور وہ بلیک میلنگ کر رہے ہیں، باقی انتظامیہ دودھ کی دھلی ہوئی ہے۔ پیپر لیک ہونے والی بات ٹھیک ہے یا نہیں ہے۔ آپ کہتے ہیں کہ میرا گھر مجھے بنانے دیں میں اچھا بناؤں گا۔
سیکریٹری صحت ریحان بلوچ نے کہا کہ محکمہ صحت کا رول یہ تھا کہ کریکیولم میں تبدیلی کریں، مجھے بھی 12 بجے میسیجز آئے۔
جسٹس صلاح الدین پہنور نے ریمارکس دیے کہ جب شکایتیں آئیں تو آپ پیپر منگواتے، کسی ادارے نے زحمت نہ کی پیپر لیک ہوا کہ کینسل کریں۔ اس معاملے پر جو کام کیا ہے وہ سیکریٹری صحت نے بھی نہیں کیا۔ محکمہ صحت اور پی ایم ڈی سی مکمل ملے ہوئے ہیں۔ ہمارے پاس کیس آیا ہے تو انصاف تو کرنا ہے۔
سندھ ہائیکورٹ نے ایم ڈی کیٹ کے نتائج کی فہرست جاری کرنے سے روک دیا۔ عدالت نے حکم دیا کہ جب تک اس پروسیس پر عمل نہیں ہو جاتا ایم ڈی کیٹ ایڈمیشن کے رزلٹ کو ہولڈ کریں۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ صدر پی ایم ڈی سی نے بتایا ہے کہ 38 بچوں نے سندھ میں 190 سے زیادہ مارکس لیے ہیں۔ چیف سیکریٹری سندھ نے تمام فریقین کو اس حوالے سے نوٹیفائی بھی کر دیا ہے۔ عدالت نے سیکریٹری اوقاف پر مشتمل 3 رکنی کمیٹی کو اس حوالے سے تحقیقات کرنے کا حکم دے دیا۔
چیف سیکریٹری نے بتایا کہ سیکریٹری اوقاف اس سے قبل بورڈز کے سیکریٹری بھی رہ چکے ہیں۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ کمیٹی تمام اداروں سے ریکارڈ اکھٹا کرکے رپورٹ تیار کریں اور ذمہ داروں کا تعین کرے۔ عدالت نے کہا کہ ایف آئی اے کو بھی حکم دیا جاتا ہے اس معاملے میں تحقیقات کے لیے اپنی ٹیم نامزد کرے۔ عدالت کی جانب سے درخواستوں کی سماعت 2 ہفتوں تک کے لیے ملتوی کر دی گئی۔
سماعت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ایم کیو ایم رہنما خواجہ اظہار الحسن نے کہا کہ کراچی میں سیکڑوں بچوں نے ہم سے رابطہ کیا، سیکڑوں بچوں کے ساتھ ظلم ہوا ہے، 8 ہزار پر بچہ لے کر 10 کروڑ روپے ڈاؤ یونیورسٹی کو ملے ہیں اور 7 کروڑ روپے سے زیادہ میڈیکل ٹیسٹ کیلیے لیے گئے۔ بچوں کی جانب سے میں ایوان سے شدید مذمت کرتا ہوں، عدالت کے بڑے شکر گزار ہیں جنہوں نے بچوں کی فریاد پر دو کمیٹیاں بنا دی ہیں۔
خواجہ اظہار الحسن نے کہا کہ عدالت نے تحقیقات کرکے 15 دن میں جواب طلب کیا ہے۔ کمیٹیوں میں ایف آئی اے اور ایم آئی ٹی پر مشتمل کمیٹی بنائی ہے۔ پورے سندھ میں 199 مارکس مختلف طلباء نے حاصل کیے، اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ پیپر لیک ہوا تھا۔ آدھے سے زیادہ طلباء بیرون بورڈ سے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ آخر کار پیپر لیک کرنے والا مافیا ہے کون؟ پچھلے 4 سے 5 سالوں میں میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے پیپر لیک ہو رہے ہیں۔ پیپر فوٹو اسٹیٹ دکانوں پر سو روپے میں بیچے جا رہے ہوتے ہیں۔ اب ظلم یہ ہے کہ میڈیکل بورڈز کے بھی پرچے لیک ہو رہے ہیں۔
خواجہ اظہار الحسن نے کہا کہ ایک انسٹیٹیوٹ کے 132 بچوں نے 199 نمبرز حاصل کیے ہیں، ان بچوں کے مستقبل کے لیے ہم کوشش کریں گے۔ ہم ڈاؤ اور پی ایم ڈی سی کو ان کے اس جرم کی سزا دلوائیں گے۔ جب ٹیسٹ کے لیے آئی بی اے موجود ہے تو ڈاؤ کیوں لے رہا ہے۔ عدالت میں سارا معاملہ رکھا ہے انشاء اللہ بچوں کے مستقبل سے متعلق سے نہیں کھیلا جائے گا۔
جسٹس صلاح الدین پہنور کی سربراہی میں دو رکنی بینچ کے روبرو ایم ڈی کیٹ کے نتائج میں مبینہ بے قاعدگیوں کے خلاف درخواست کی سماعت ہوئی۔ چیف سیکریٹری سندھ، جامعات کے وائس چانسلرز اور دیگر فریقین عدالت میں پیش ہوئے۔
جسٹس صلاح الدین پنہور نے ریمارکس دیے کہ کتنے بچے ایسے ہیں جن کے مارکس 195 سے زیادہ ہیں، یہاں ہم سندھ کے بچوں کے رزلٹ کو پنجاب اور کے پی کے بچوں سے موازنہ کرنا چاہتے ہیں۔ جسٹس امجد سہتو نے ریمارکس دیے کہ پی ایم ڈی سی کا اس حوالے سے معاملہ ختم ہوگیا کہ پیپر لیک ہوا یا نہیں۔
درخواست گزار کے وکیل نے موقف دیا کہ اگر امتحان میں کوئی خامی ہے تو یہ بھی بتایا جائے، 187 مارکس حاصل کرنے والے بچوں کی تعداد 1100 سے زیادہ تھی۔چیف سیکریٹری آصف حیدر شاہ نے کہا کہ کے پی اور پنجاب کے طلبہ کے نمبرز کی تفصیل آجائیں تو سندھ سے میچ کیا جائے گا۔
جسٹس امجد علی سہتو نے ریمارکس دیے کہ اگر پیپر کسی ایک سینٹر کا لیک ہوا تو اس ڈویژن کا پیپرز روکا جائے، پورے سندھ کے نہیں۔ جسٹس صلاح الدین پہنور نے ریمارکس دیے کہ سندھ میں ایم ڈی کیٹ کے جو 190 پلس والے طلبہ کہاں جائیں گے۔ پنجاب میں 58 ہزار، کے پی میں 42 ہزار اور سندھ میں 38 ہزار طلبہ نے امتحان دیا ہے۔
وائس چانسلر نے بتایا کہ محکمہ صحت نے ایک کمیٹی بنائی جس میں لگائے گئے الزامات کا ثبوت نہیں ملا۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ کہیں نہ کہیں پر یہ چیز ضرور ہوئی اس لیے الزامات لگتے ہیں۔
جسٹس صلاح الدین پہنور نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ میڈیا یہ چیزیں غلط چلا رہا ہے اور وہ بلیک میلنگ کر رہے ہیں، باقی انتظامیہ دودھ کی دھلی ہوئی ہے۔ پیپر لیک ہونے والی بات ٹھیک ہے یا نہیں ہے۔ آپ کہتے ہیں کہ میرا گھر مجھے بنانے دیں میں اچھا بناؤں گا۔
سیکریٹری صحت ریحان بلوچ نے کہا کہ محکمہ صحت کا رول یہ تھا کہ کریکیولم میں تبدیلی کریں، مجھے بھی 12 بجے میسیجز آئے۔
جسٹس صلاح الدین پہنور نے ریمارکس دیے کہ جب شکایتیں آئیں تو آپ پیپر منگواتے، کسی ادارے نے زحمت نہ کی پیپر لیک ہوا کہ کینسل کریں۔ اس معاملے پر جو کام کیا ہے وہ سیکریٹری صحت نے بھی نہیں کیا۔ محکمہ صحت اور پی ایم ڈی سی مکمل ملے ہوئے ہیں۔ ہمارے پاس کیس آیا ہے تو انصاف تو کرنا ہے۔
سندھ ہائیکورٹ نے ایم ڈی کیٹ کے نتائج کی فہرست جاری کرنے سے روک دیا۔ عدالت نے حکم دیا کہ جب تک اس پروسیس پر عمل نہیں ہو جاتا ایم ڈی کیٹ ایڈمیشن کے رزلٹ کو ہولڈ کریں۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ صدر پی ایم ڈی سی نے بتایا ہے کہ 38 بچوں نے سندھ میں 190 سے زیادہ مارکس لیے ہیں۔ چیف سیکریٹری سندھ نے تمام فریقین کو اس حوالے سے نوٹیفائی بھی کر دیا ہے۔ عدالت نے سیکریٹری اوقاف پر مشتمل 3 رکنی کمیٹی کو اس حوالے سے تحقیقات کرنے کا حکم دے دیا۔
چیف سیکریٹری نے بتایا کہ سیکریٹری اوقاف اس سے قبل بورڈز کے سیکریٹری بھی رہ چکے ہیں۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ کمیٹی تمام اداروں سے ریکارڈ اکھٹا کرکے رپورٹ تیار کریں اور ذمہ داروں کا تعین کرے۔ عدالت نے کہا کہ ایف آئی اے کو بھی حکم دیا جاتا ہے اس معاملے میں تحقیقات کے لیے اپنی ٹیم نامزد کرے۔ عدالت کی جانب سے درخواستوں کی سماعت 2 ہفتوں تک کے لیے ملتوی کر دی گئی۔
سماعت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ایم کیو ایم رہنما خواجہ اظہار الحسن نے کہا کہ کراچی میں سیکڑوں بچوں نے ہم سے رابطہ کیا، سیکڑوں بچوں کے ساتھ ظلم ہوا ہے، 8 ہزار پر بچہ لے کر 10 کروڑ روپے ڈاؤ یونیورسٹی کو ملے ہیں اور 7 کروڑ روپے سے زیادہ میڈیکل ٹیسٹ کیلیے لیے گئے۔ بچوں کی جانب سے میں ایوان سے شدید مذمت کرتا ہوں، عدالت کے بڑے شکر گزار ہیں جنہوں نے بچوں کی فریاد پر دو کمیٹیاں بنا دی ہیں۔
خواجہ اظہار الحسن نے کہا کہ عدالت نے تحقیقات کرکے 15 دن میں جواب طلب کیا ہے۔ کمیٹیوں میں ایف آئی اے اور ایم آئی ٹی پر مشتمل کمیٹی بنائی ہے۔ پورے سندھ میں 199 مارکس مختلف طلباء نے حاصل کیے، اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ پیپر لیک ہوا تھا۔ آدھے سے زیادہ طلباء بیرون بورڈ سے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ آخر کار پیپر لیک کرنے والا مافیا ہے کون؟ پچھلے 4 سے 5 سالوں میں میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے پیپر لیک ہو رہے ہیں۔ پیپر فوٹو اسٹیٹ دکانوں پر سو روپے میں بیچے جا رہے ہوتے ہیں۔ اب ظلم یہ ہے کہ میڈیکل بورڈز کے بھی پرچے لیک ہو رہے ہیں۔
خواجہ اظہار الحسن نے کہا کہ ایک انسٹیٹیوٹ کے 132 بچوں نے 199 نمبرز حاصل کیے ہیں، ان بچوں کے مستقبل کے لیے ہم کوشش کریں گے۔ ہم ڈاؤ اور پی ایم ڈی سی کو ان کے اس جرم کی سزا دلوائیں گے۔ جب ٹیسٹ کے لیے آئی بی اے موجود ہے تو ڈاؤ کیوں لے رہا ہے۔ عدالت میں سارا معاملہ رکھا ہے انشاء اللہ بچوں کے مستقبل سے متعلق سے نہیں کھیلا جائے گا۔