ترمیم کا منظر نامہ
حکومت نے خود ہی آئینی ترمیم کو اپنے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ بنا لیا ہے۔
یہ درست ہے کہ بانی پی ٹی آئی نے وزیر اعلیٰ کے پی علی امین گنڈا پور کے ذریعے اسلام آباد چڑھائی کا جو منصوبہ تیار کیا تھا' اس کا پہلا راؤنڈ کسی نہ کسی طرح حکومت نے جیت لیا ہے۔ گنڈا پور بہت وضاحتیں دے رہے ہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ انھوں نے ایک جیتی ہوئی بازی ہاری ہے۔
اب وضاحتیں دینے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں وفاقی حکومت کو سکون آگیا ہے۔ ابھی تحریک انصاف نے دوبارہ اسلام آباد پر چڑھائی کی کال نہیں دی ہے۔ باقی شہروں میں احتجاج کی وہ اہمیت نہیں جو اسلام آباد پر چڑھائی کی ہے۔ گنڈا پور کی وضاحتوں اور نئی بڑھکوں کا وفاقی حکومت کو برا نہیں منانا چاہیے۔ بلکہ گنڈا پور نے وفاقی حکومت کی جتنی مدد کی ہے'لہٰذا حکومت کو ان کی ساکھ بہتر کرنے میں مدد کرنی چاہیے۔
تاہم سیاست کا کھیل اب بھی دلچسپ راؤنڈ میں ہے۔آئینی ترمیم حکومت کے گلی کی ہڈی بن چکی ہے۔ حکومت نے خود ہی آئینی ترمیم کو اپنے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ بنا لیا ہے۔ ایک ایسا ماحول بن گیا ہے کہ اگر ترمیم منظور نہ ہوئی تو حکومت کو بہت بڑی شکست ہو جائے گی جب کہ ترمیم کا حکومت کی بقا سے کوئی تعلق نہیں۔ حکومت کے پاس اکثریت موجود ہے۔ ترمیم منظور ہو نہ ہو وہ اکثریت تو موجود رہے گی۔ لیکن فی الحال سیاسی ماحول یہی بن گیا ہے کہ ترمیم میں ہی حکومت کی بقا ہے۔ اب اگر ترمیم نہ ہوئی تو یہ سیاسی طور پر حکومت کی شکست مانی جائے گی۔ ہر کوئی یہی کہے گا کہ حکومت نے بہت کوشش کی لیکن ترمیم کرنے میں ناکام ہو گئی۔
اسی طرح 25اکتوبر کی ڈیڈ لائن بھی حکومت نے خود ہی طے کی ہے۔ یہ چیلنج بھی حکومت نے خود کو خود ہی دیا ہے کہ اگر 25 اکتوبر تک ترمیم نہ ہوئی تو پھر کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس لیے اب اس ڈیڈ لائن کے مطابق ترمیم کرنا حکومت کی ذمے داری ہے۔
یہ کہنا بھی غلط ہو گا کہ اگر مقررہ تاریخ تک ترامیم نہ ہوئیں تو یہ حکومت کی ایک بڑی شکست سمجھی جائے گی۔ یہ سمجھا جائے گا کہ حکومت شکست کھا گئی ہے، اپوزیشن جیت گئی ہے۔ سیاسی میدان میں کئی دفعہ معمولی شکست کے بھی بڑے نقصانات ہو جاتے ہیں۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ اگر اب حکومت مقررہ تاریخ تک ترمیم نہ کر سکی تو اس کے نقصانات زیادہ ہونگے۔ سیاسی طور پر حکومت بہت کمزور ہو جائے گی۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ گنڈا پور نے حکومت کی جتنی بھی مدد کی و ہ سب ضایع ہو جائے گی۔
ایک ایسا ماحول بھی بنا ہوا ہے کہ کسی کو سمجھ نہیں آرہی کہ مولانا حکومت کے ساتھ ہیں یا حکومت کے خلاف ہیں۔ وہ ترمیم کے حق میں ووٹ دیں گے یا ترمیم کے خلاف ووٹ دیں گے۔ ایک دن خبر آتی ہے کہ حکومت اور مولانا کے درمیان فارمولہ طے ہو گیا ہے۔ ساتھ ہی تردید آجاتی ہے کہ کوئی بات طے نہیں ہوئی ہے۔ ایک دن خبر آتی ہے کہ مسودہ بن گیا ہے۔ دوسرے دن خبر آتی ہے کہ کسی بھی مسودہ کا کوئی وجود نہیں ہے۔ ایک دن آئینی عدالت بننے کی خبر آتی ہے دوسرے دن نہ بننے کی خبر آجاتی ہے۔ پھر آئینی عدالت کے بجائے آئینی بنچ کی خبر آجاتی ہے پھر اس کے بھی مسترد ہونے کی خبر آجاتی ہے۔ اس لیے اگر عام عوام کی نظر سے دیکھا جائے تو ابھی تک کسی کو کچھ سمجھ نہیں آرہی۔ سب حیران ہیں کہ کیا تماشہ ہو رہا ہے۔
بلاول بھٹو سب سے زیادہ بات کر رہے ہیں ورنہ حکومت تو خاموش ہے۔ بلاول کی گفتگو سے لوگ اندازے لگانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کی گفتگو تو بتا رہی ہے کہ ترمیم آرہی ہے۔ 25 کی ڈیڈ لائن کا ماحول بھی بلاول نے ہی بنایا ہے۔ اس لیے اس وقت تمام اندازے بلاول کی گفتگو سے ہی لگائے جا رہے ہیں۔ پہلے وہ جسٹس منصور علی شاہ کے حق میں بات کر رہے تھے۔ لیکن اب اس میں بھی کمی نظر آئی ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ نئے چیف جسٹس کا نوٹیفکیشن ابھی تک نہیں ہوا ہے۔ ماضی میں ایسی مثالیں موجود ہیں جب کافی دن پہلے بلکہ کئی ماہ پہلے بھی نوٹیفکیشن جاری ہوئے ہیں۔ اس بار نوٹیفکیشن جاری نہ ہونے کو بھی ترمیم کے ساتھ دیکھا جا رہا ہے۔ ایسی شنید ہے کہ اور کچھ ہو یا نہ ہو لیکن چیف جسٹس بنانے کا طریقہ ضرور تبدیل ہو جائے گا۔ میں سمجھتا ہوں اگر باقی سب اتفاق نہ بھی ہو اور اگر مولانا اور حکومت کے درمیان چیف جسٹس لگانے کے طریقہ کارکو تبدیل کرنے پر اتفاق ہوجائے تو یہ بھی حکومت کے لیے کافی ہوگا۔کم از کم اس پر اتفاق حکومت کے لیے کافی مسائل حل کر دے گا۔ماضی میں تحریک انصاف نے موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو بھی روکنے کی کوشش کی تھی لیکن وہ ناکام ہو گئے تھے۔ اور اس کوشش کے منفی نتائج آج تک سامنے آرہے ہیں۔
بہر حال پاکستان کا سیاسی منظر نامہ اس وقت ترمیم کے گرد گھوم رہا ہے۔ ترمیم ہی مرکز نگاہ ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اس وقت اسٹبلشمنٹ کا وزن بھی ترمیم کے حق میں ہے۔ وہاں سے بھی زور لگ رہا ہے۔ لیکن خاموش زور ہے۔ کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ اسٹبلشمنت دباؤ ڈال رہی ہے۔ ورنہ ماضی میں تو اسٹبلشمنٹ کے دباؤ کا شور مچ جاتا تھا۔ اس لیے اس بار ایسا نہیں ہے۔ مولانا سے بھی سیاسی لوگ ہی بات کر رہے ہیں۔ وہ یہ نہیں کہہ رہے کہ اسٹبلشمنٹ کا دباؤ ہے لیکن اسٹبلشمنٹ کی خاموش حمایت بھی کام دکھا رہی ہے اور اس کے نتائج بھی سامنے آرہے ہیں۔
اب تواس بات پر بھی شرطیں لگ رہی ہیں کہ ترمیم ایس سی او کانفرنس سے پہلے ہو گی کہ بعد میں ہوگی۔ تاہم دوستوں کی رائے یہی ہے کہ بعد میں ہوگی۔ لیکن کوشش پہلے کی تھی جو ناکام ہو گئی ہے۔لیکن یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ حکومت کے پاس ٹائم بہت کم ہے۔ اس لیے ہر دن کی اپنی ایک قیمت اور اہمیت ہے۔ اس لیے ہر گزرتا دن جیت اور ہار کا فرق واضح کرتا جا رہا ہے۔
اب وضاحتیں دینے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں وفاقی حکومت کو سکون آگیا ہے۔ ابھی تحریک انصاف نے دوبارہ اسلام آباد پر چڑھائی کی کال نہیں دی ہے۔ باقی شہروں میں احتجاج کی وہ اہمیت نہیں جو اسلام آباد پر چڑھائی کی ہے۔ گنڈا پور کی وضاحتوں اور نئی بڑھکوں کا وفاقی حکومت کو برا نہیں منانا چاہیے۔ بلکہ گنڈا پور نے وفاقی حکومت کی جتنی مدد کی ہے'لہٰذا حکومت کو ان کی ساکھ بہتر کرنے میں مدد کرنی چاہیے۔
تاہم سیاست کا کھیل اب بھی دلچسپ راؤنڈ میں ہے۔آئینی ترمیم حکومت کے گلی کی ہڈی بن چکی ہے۔ حکومت نے خود ہی آئینی ترمیم کو اپنے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ بنا لیا ہے۔ ایک ایسا ماحول بن گیا ہے کہ اگر ترمیم منظور نہ ہوئی تو حکومت کو بہت بڑی شکست ہو جائے گی جب کہ ترمیم کا حکومت کی بقا سے کوئی تعلق نہیں۔ حکومت کے پاس اکثریت موجود ہے۔ ترمیم منظور ہو نہ ہو وہ اکثریت تو موجود رہے گی۔ لیکن فی الحال سیاسی ماحول یہی بن گیا ہے کہ ترمیم میں ہی حکومت کی بقا ہے۔ اب اگر ترمیم نہ ہوئی تو یہ سیاسی طور پر حکومت کی شکست مانی جائے گی۔ ہر کوئی یہی کہے گا کہ حکومت نے بہت کوشش کی لیکن ترمیم کرنے میں ناکام ہو گئی۔
اسی طرح 25اکتوبر کی ڈیڈ لائن بھی حکومت نے خود ہی طے کی ہے۔ یہ چیلنج بھی حکومت نے خود کو خود ہی دیا ہے کہ اگر 25 اکتوبر تک ترمیم نہ ہوئی تو پھر کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس لیے اب اس ڈیڈ لائن کے مطابق ترمیم کرنا حکومت کی ذمے داری ہے۔
یہ کہنا بھی غلط ہو گا کہ اگر مقررہ تاریخ تک ترامیم نہ ہوئیں تو یہ حکومت کی ایک بڑی شکست سمجھی جائے گی۔ یہ سمجھا جائے گا کہ حکومت شکست کھا گئی ہے، اپوزیشن جیت گئی ہے۔ سیاسی میدان میں کئی دفعہ معمولی شکست کے بھی بڑے نقصانات ہو جاتے ہیں۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ اگر اب حکومت مقررہ تاریخ تک ترمیم نہ کر سکی تو اس کے نقصانات زیادہ ہونگے۔ سیاسی طور پر حکومت بہت کمزور ہو جائے گی۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ گنڈا پور نے حکومت کی جتنی بھی مدد کی و ہ سب ضایع ہو جائے گی۔
ایک ایسا ماحول بھی بنا ہوا ہے کہ کسی کو سمجھ نہیں آرہی کہ مولانا حکومت کے ساتھ ہیں یا حکومت کے خلاف ہیں۔ وہ ترمیم کے حق میں ووٹ دیں گے یا ترمیم کے خلاف ووٹ دیں گے۔ ایک دن خبر آتی ہے کہ حکومت اور مولانا کے درمیان فارمولہ طے ہو گیا ہے۔ ساتھ ہی تردید آجاتی ہے کہ کوئی بات طے نہیں ہوئی ہے۔ ایک دن خبر آتی ہے کہ مسودہ بن گیا ہے۔ دوسرے دن خبر آتی ہے کہ کسی بھی مسودہ کا کوئی وجود نہیں ہے۔ ایک دن آئینی عدالت بننے کی خبر آتی ہے دوسرے دن نہ بننے کی خبر آجاتی ہے۔ پھر آئینی عدالت کے بجائے آئینی بنچ کی خبر آجاتی ہے پھر اس کے بھی مسترد ہونے کی خبر آجاتی ہے۔ اس لیے اگر عام عوام کی نظر سے دیکھا جائے تو ابھی تک کسی کو کچھ سمجھ نہیں آرہی۔ سب حیران ہیں کہ کیا تماشہ ہو رہا ہے۔
بلاول بھٹو سب سے زیادہ بات کر رہے ہیں ورنہ حکومت تو خاموش ہے۔ بلاول کی گفتگو سے لوگ اندازے لگانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کی گفتگو تو بتا رہی ہے کہ ترمیم آرہی ہے۔ 25 کی ڈیڈ لائن کا ماحول بھی بلاول نے ہی بنایا ہے۔ اس لیے اس وقت تمام اندازے بلاول کی گفتگو سے ہی لگائے جا رہے ہیں۔ پہلے وہ جسٹس منصور علی شاہ کے حق میں بات کر رہے تھے۔ لیکن اب اس میں بھی کمی نظر آئی ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ نئے چیف جسٹس کا نوٹیفکیشن ابھی تک نہیں ہوا ہے۔ ماضی میں ایسی مثالیں موجود ہیں جب کافی دن پہلے بلکہ کئی ماہ پہلے بھی نوٹیفکیشن جاری ہوئے ہیں۔ اس بار نوٹیفکیشن جاری نہ ہونے کو بھی ترمیم کے ساتھ دیکھا جا رہا ہے۔ ایسی شنید ہے کہ اور کچھ ہو یا نہ ہو لیکن چیف جسٹس بنانے کا طریقہ ضرور تبدیل ہو جائے گا۔ میں سمجھتا ہوں اگر باقی سب اتفاق نہ بھی ہو اور اگر مولانا اور حکومت کے درمیان چیف جسٹس لگانے کے طریقہ کارکو تبدیل کرنے پر اتفاق ہوجائے تو یہ بھی حکومت کے لیے کافی ہوگا۔کم از کم اس پر اتفاق حکومت کے لیے کافی مسائل حل کر دے گا۔ماضی میں تحریک انصاف نے موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو بھی روکنے کی کوشش کی تھی لیکن وہ ناکام ہو گئے تھے۔ اور اس کوشش کے منفی نتائج آج تک سامنے آرہے ہیں۔
بہر حال پاکستان کا سیاسی منظر نامہ اس وقت ترمیم کے گرد گھوم رہا ہے۔ ترمیم ہی مرکز نگاہ ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اس وقت اسٹبلشمنٹ کا وزن بھی ترمیم کے حق میں ہے۔ وہاں سے بھی زور لگ رہا ہے۔ لیکن خاموش زور ہے۔ کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ اسٹبلشمنت دباؤ ڈال رہی ہے۔ ورنہ ماضی میں تو اسٹبلشمنٹ کے دباؤ کا شور مچ جاتا تھا۔ اس لیے اس بار ایسا نہیں ہے۔ مولانا سے بھی سیاسی لوگ ہی بات کر رہے ہیں۔ وہ یہ نہیں کہہ رہے کہ اسٹبلشمنٹ کا دباؤ ہے لیکن اسٹبلشمنٹ کی خاموش حمایت بھی کام دکھا رہی ہے اور اس کے نتائج بھی سامنے آرہے ہیں۔
اب تواس بات پر بھی شرطیں لگ رہی ہیں کہ ترمیم ایس سی او کانفرنس سے پہلے ہو گی کہ بعد میں ہوگی۔ تاہم دوستوں کی رائے یہی ہے کہ بعد میں ہوگی۔ لیکن کوشش پہلے کی تھی جو ناکام ہو گئی ہے۔لیکن یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ حکومت کے پاس ٹائم بہت کم ہے۔ اس لیے ہر دن کی اپنی ایک قیمت اور اہمیت ہے۔ اس لیے ہر گزرتا دن جیت اور ہار کا فرق واضح کرتا جا رہا ہے۔