اسرائیل اور مسلم امہ
دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا دین ہو جس کے ماننے والے اتنے ممالک میں موجود ہوں، صرف یہی نہیں
دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا دین ہو جس کے ماننے والے اتنے ممالک میں موجود ہوں، صرف یہی نہیں بلکہ مذہب کے نام یعنی اسلام کے نام پر اتنے ممالک ہوں اور مزید نئے اسلامی ممالک بنانے کی سعی جاری ہے۔ جب کہ دوسری جانب اسرائیل ایک چھوٹا سا ملک جس کی آبادی کروڑوں میں نہیں بلکہ نصف کروڑ بھی نہیں وہ تمام مسلم ممالک پر حاوی ہے۔
اس کی اصل وجہ محض قائداعظم کا یہ جملہ ''اتحاد، تنظیم، یقین محکم'' پر عمل، پوری یہودی قوم متحد ہے، تنظیم ان کے ہر عمل پر حاوی، منظم روش اور منزل پر یقین ہے، نہ صرف یقین بلکہ اہداف پر یقین محکم یعنی پختہ یقین جب کہ مسلم امہ میں تیونس، الجزائر، مصر، لیبیا، شام، کویت، بحرین ہر جگہ بے چینی اور اب حالیہ دنوں میں عراق میں خلفشار ایک عالمی انتشار اور مسلم امہ میں بڑے انتشار کا پیش خیمہ ہے۔ اب تک تو اسرائیل براہ راست مسلم ممالک کے معاملات میں مداخلت نہ کرتا تھا مگر حالیہ دنوں میں اسرائیل نے ایک نئے سیاسی خیال کو جنم دیا ہے، وہ ہے عراق کی تقسیم۔
شیعہ، سنی اور کرد علاقے ذرا غور فرمائیں پہلے دو حصے شیعہ، سنی اور پھر کرد، پہلی تقسیم مسلمان ممالک کے مابین اور پھر دوسری نسلی بنیاد پر یعنی تفریق برائے تفریق اس میں کوئی شک نہیں کہ کردوں کو ان کی صوبائی یا نسلی بنیاد پر حقوق ملنے چاہئیں مگر یہ ان کا آپسی ملکی معاملہ ہے نہ یہ کہ اسرائیل ان کے درمیان ایک فریق بن کر ایک قوت کا مددگار بن جائے اور دوسرے کا مخالف۔ عربوں میں پہلے 70 کی دہائی تک آپس میں اتنی غیرت موجود تھی کہ وہ اسرائیل کو اپنا ثالث یا اپنا ہمنوا نہیں بناتے تھے مگر اب مسلمانوں کی آپسی چپقلش اتنی بڑھ چکی ہے کہ وہ اسرائیل کو اپنا آقا بنانے کے لیے تیار ہیں، اور بہت سے اسلامی ممالک خفیہ طور پر اسرائیل کی مشاورت میں شامل ہیں۔
اس کی واضح مثال یہ ہے کہ کسی بھی انتہا پسند تنظیم نے اسرائیل کو اپنا ہدف نہیں بنایا بلکہ اسلامی ممالک میں انتشار پھیلانا اور ان کی سرزمین پر نفاق برپا کرنا ان کے مقاصد ہیں۔ اس کا عملی ثبوت یہ ہے کہ لیبیا کے سابق مرد آہن کرنل معمر قذافی کی حکومت کے خاتمے کے بعد آج بھی لیبیا میں امن قائم نہ ہوسکا۔
کرنل قذافی کا پاکستانی عوام جس قدر ممنون ہوں کم ہے کیونکہ پاکستان کو ایٹمی ٹیکنالوجی کے راستے پر لے جانے کے لیے ذوالفقار علی بھٹو کی مدد کی، اور ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی پارٹی کے جھنڈے کو لیبیا کے قومی پرچم کے طرز پر بنایا اور اسلامی کانفرنس کا انعقاد کرایا مگر نظام مصطفیٰ کے نام پر بھٹو کو راستے سے ہٹا دیا گیا اور لیبیا میں یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ افسوس کا مقام ہے کہ آج کے دور میں سرزمین فلسطین پر ایک نوعمر نوجوان فلسطینی کو اسرائیلیوں نے زندہ جلا کے دفن کردیا اور اس کے بعد غزہ کے علاقے میں نیتن یاہو نے ہوائی حملوں کا حکم دے دیا اور ان حملوں میں اسپتال بھی محفوظ نہیں ہیں۔
مصر سے حسنی مبارک کی روانگی کے بعد جب محمد مرسی مصر کے حکمراں بنے تو انھوں نے غزہ میں بسنے والوں کو کرب سے نکالا مگر تھوڑا ہی عرصہ ان کی حکومت چلی کہ ایک فوجی انقلاب نے ان کو معزول کردیا اور السیسی نے اقتدار سنبھال لیا۔ اس طرح غزہ کی پٹی اسرائیلیوں کے لیے محفوظ ہوگئی جب کہ مسلمانوں میں اب نت نئی اسلامی تحریکیں مسلمانوں میں بٹوارے کیسوا اور کچھ نہیں۔ مسلمانوں میں معاملات اس قدر نازک، کشیدہ اور سنجیدہ ہیں کہ اگر مسلم رہنماؤں نے حقیقت کو نہ سمجھا تو مسلم امہ کا شیرازہ مزید بکھر جائے گا اور ان ہی ملکوں میں سے کئی اور ممالک جنم لیں یا کمزور ہوں گے اور ایک مستقل کشیدگی کا پیش خیمہ ثابت ہوں گے۔
حالات اس قدر سنگین ہیں کہ اگر مشرق وسطیٰ میں کوئی تحریک اٹھتی ہے یا عراق یا شام کے کسی شہر میں یا کویت اور بحرین میں کوئی سیاسی چپقلش یا بدمزگی پیدا ہوتی ہے تو اس کے اثرات کراچی میں محسوس ہوتے ہیں، ورنہ کراچی اس قسم کے اثرات سے کافی دور تھا اور ہر قسم کی رواداری کا شہر تھا، مختلف نسلیں، قومیں اور زبانیں بولنے والوں کا معتدل موسم اور معتدل مزاج رکھنے والے بندگان خدا کا یہ شہر ہر ایک پر سائبان رہا ہے۔ مسلمانوں کے ممالک خلفشار کا شکار رہے ہیں اور ان دنوں کشیدگی میں ضرورت سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔
افغانستان میں خانہ جنگی، پھر امریکی فوج کی جنگ و جدل، روانگی کا شیڈول اس سے قبل انتخابات اور انتخابات پر کوئی فیصلہ نہ ہوسکا جس کا نتیجہ پھر بندوق کی نوک سے فیصلہ یعنی خانہ جنگی۔ اتفاق کی بات یہ ہے کہ ایک سال بعد پاکستان میں بھی انتخاب کا فیصلہ نہ ہوسکا کہ کون جیتا اور کون ہارا، گویا ہمارا ملک بھی افغانستان کی طرح پسماندہ ہے اور یوم آزادی پر سیاسی دنگل سجایا جا رہا ہے، اس سے قبل اس ملک کے لیڈران طالبان سے امن کی باتیں کر رہے تھے مگر جوں ہی عندیہ ملا کہ اقتدار کا موسم بدل رہا ہے ان کا انداز گفتگو بھی بدل گیا، لیڈران وقت کے ساتھ بدل رہے ہیں اور اب تو انقلاب کی باتیں ہو رہی ہیں۔
1968 میں جب ایوب خان کے خلاف تحریک چل رہی تھی مجھے یاد ہے کہ بعض مزدور انجمنیں یہ نعرہ لگاتی تھیں ''انتخاب و انقلاب، انقلاب انقلاب'' مگر تمام تر تبدیلیوں کے بعد کیا ہوا، ڈھاک کے تین پات۔ اور آج تو ملک کے چوہدریوں کی جانب سے بھی انقلاب کی آواز آرہی ہے۔ نہ تو معلوم ہے کہ یہ انقلاب کون سا ہوگا، نظام معیشت کیا ہوگا؟ جن لوگوں نے ملک کو مفلس بنایا ہے ان کا کیا ہوگا؟ صنعتی پروگرام کیا ہوگا؟ ملک میں سیاسی تبدیلی کیا آئے گی؟ خارجہ پالیسی کیا ہوگی ملک میں کون سا اقتصادی نظام نافذ ہوگا؟ آزادی صحافت آزادی اظہار و گفتار کا کیا ہوگا؟
اس وقت پاکستان چونکہ مسلم ریاستوں میں کلیدی مقام رکھتا ہے اور جغرافیائی اعتبار سے اہم محل وقوع رکھتا ہے، ایک طرف خلیجی ریاستوں کی گزرگاہ تو دوسری جانب وسطی ایشیائی ریاستوں کا راستہ تو اس کی مشکلات کا سامنا ہے۔ ان حالات کا سامنا صرف دوست اور دشمن دونوں اٹھا رہے ہیں اور پاکستان کے حکمراں اور وہ جو حکومت میں نہ آسکے دونوں فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ پاکستان میں پیپلز پارٹی نے کوشش کی کہ ایک بار ہم (پی پی پی) اور دوسری بار (ن) لیگ مرکزی حکومت میں رہے مگر لگتا ہے کہ (ن) لیگ کی گاڑی ڈی ریل ہونے کو ہے اور دوسری بار پیپلز پارٹی کا انجن بھی بوگیاں نہ کھینچ سکے گا۔
اس خلا کو پر کرنے کی صلاحیت پیپلز پارٹی کھو چکی ہے کیونکہ سندھ کا ثقافتی میلہ جو بلاول بھٹو نے لگایا تھا وہ بری طرح ناکام ہوا، خصوصاً جب مٹھی کی مٹی سے قحط کا دھواں اٹھا اور سندھ کا مطلع آلودہ کرگیا۔ عمران خان بھی سونامی نہ لاسکیں گے کیونکہ وہ کے پی کے کی قیادت میں کئی بار قلابازیاں کھا چکے ہیں، البتہ اس بات کی توقع کی جا رہی ہے کہ طاہر القادری مختلف دھڑوں کو ملانے میں اگر کامیاب ہوگئے تو مرکزی حکومت کو شدید مشکلات کا سامنا پیش آئے گا۔
غرض عراق سے لے کر افغانستان تک ایک بے چینی کی لہر ہے، افغانستان میں انتخابی نتائج اور پاکستان کے انتخابی نتائج بے مقصد رہے، افغانستان کا مسئلہ تو امریکا حل کرائے گا مگر پاکستان کا مسئلہ کون حل کرائے گا؟ مسلمان ریاستوں کی زبوں حالی جس قدر بڑھے گی اسرائیل کا دباؤ مسلمانوں پر اسی قدر بڑھے گا۔ آنے والا وقت مسلم ریاستوں کے لیے اور کٹھن ہوگا کیونکہ وہ اپنے عوام سے پرخلوص ہونے کے بجائے وہ عوام دشمن پالیسیوں پر گامزن ہیں انھیں اپنی حکومت چلانی مشکل ہے اور اپنے بجٹ کو سنبھالنا مشکل ہے، کہاں بھلا یہ فلسطین کے مسئلے میں الجھیں گے غزہ کے علاقے پر زبردست اسرائیلی بمباری ہے اور مسلم امہ آپس میں دست و گریباں ہے۔
اس کی اصل وجہ محض قائداعظم کا یہ جملہ ''اتحاد، تنظیم، یقین محکم'' پر عمل، پوری یہودی قوم متحد ہے، تنظیم ان کے ہر عمل پر حاوی، منظم روش اور منزل پر یقین ہے، نہ صرف یقین بلکہ اہداف پر یقین محکم یعنی پختہ یقین جب کہ مسلم امہ میں تیونس، الجزائر، مصر، لیبیا، شام، کویت، بحرین ہر جگہ بے چینی اور اب حالیہ دنوں میں عراق میں خلفشار ایک عالمی انتشار اور مسلم امہ میں بڑے انتشار کا پیش خیمہ ہے۔ اب تک تو اسرائیل براہ راست مسلم ممالک کے معاملات میں مداخلت نہ کرتا تھا مگر حالیہ دنوں میں اسرائیل نے ایک نئے سیاسی خیال کو جنم دیا ہے، وہ ہے عراق کی تقسیم۔
شیعہ، سنی اور کرد علاقے ذرا غور فرمائیں پہلے دو حصے شیعہ، سنی اور پھر کرد، پہلی تقسیم مسلمان ممالک کے مابین اور پھر دوسری نسلی بنیاد پر یعنی تفریق برائے تفریق اس میں کوئی شک نہیں کہ کردوں کو ان کی صوبائی یا نسلی بنیاد پر حقوق ملنے چاہئیں مگر یہ ان کا آپسی ملکی معاملہ ہے نہ یہ کہ اسرائیل ان کے درمیان ایک فریق بن کر ایک قوت کا مددگار بن جائے اور دوسرے کا مخالف۔ عربوں میں پہلے 70 کی دہائی تک آپس میں اتنی غیرت موجود تھی کہ وہ اسرائیل کو اپنا ثالث یا اپنا ہمنوا نہیں بناتے تھے مگر اب مسلمانوں کی آپسی چپقلش اتنی بڑھ چکی ہے کہ وہ اسرائیل کو اپنا آقا بنانے کے لیے تیار ہیں، اور بہت سے اسلامی ممالک خفیہ طور پر اسرائیل کی مشاورت میں شامل ہیں۔
اس کی واضح مثال یہ ہے کہ کسی بھی انتہا پسند تنظیم نے اسرائیل کو اپنا ہدف نہیں بنایا بلکہ اسلامی ممالک میں انتشار پھیلانا اور ان کی سرزمین پر نفاق برپا کرنا ان کے مقاصد ہیں۔ اس کا عملی ثبوت یہ ہے کہ لیبیا کے سابق مرد آہن کرنل معمر قذافی کی حکومت کے خاتمے کے بعد آج بھی لیبیا میں امن قائم نہ ہوسکا۔
کرنل قذافی کا پاکستانی عوام جس قدر ممنون ہوں کم ہے کیونکہ پاکستان کو ایٹمی ٹیکنالوجی کے راستے پر لے جانے کے لیے ذوالفقار علی بھٹو کی مدد کی، اور ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی پارٹی کے جھنڈے کو لیبیا کے قومی پرچم کے طرز پر بنایا اور اسلامی کانفرنس کا انعقاد کرایا مگر نظام مصطفیٰ کے نام پر بھٹو کو راستے سے ہٹا دیا گیا اور لیبیا میں یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ افسوس کا مقام ہے کہ آج کے دور میں سرزمین فلسطین پر ایک نوعمر نوجوان فلسطینی کو اسرائیلیوں نے زندہ جلا کے دفن کردیا اور اس کے بعد غزہ کے علاقے میں نیتن یاہو نے ہوائی حملوں کا حکم دے دیا اور ان حملوں میں اسپتال بھی محفوظ نہیں ہیں۔
مصر سے حسنی مبارک کی روانگی کے بعد جب محمد مرسی مصر کے حکمراں بنے تو انھوں نے غزہ میں بسنے والوں کو کرب سے نکالا مگر تھوڑا ہی عرصہ ان کی حکومت چلی کہ ایک فوجی انقلاب نے ان کو معزول کردیا اور السیسی نے اقتدار سنبھال لیا۔ اس طرح غزہ کی پٹی اسرائیلیوں کے لیے محفوظ ہوگئی جب کہ مسلمانوں میں اب نت نئی اسلامی تحریکیں مسلمانوں میں بٹوارے کیسوا اور کچھ نہیں۔ مسلمانوں میں معاملات اس قدر نازک، کشیدہ اور سنجیدہ ہیں کہ اگر مسلم رہنماؤں نے حقیقت کو نہ سمجھا تو مسلم امہ کا شیرازہ مزید بکھر جائے گا اور ان ہی ملکوں میں سے کئی اور ممالک جنم لیں یا کمزور ہوں گے اور ایک مستقل کشیدگی کا پیش خیمہ ثابت ہوں گے۔
حالات اس قدر سنگین ہیں کہ اگر مشرق وسطیٰ میں کوئی تحریک اٹھتی ہے یا عراق یا شام کے کسی شہر میں یا کویت اور بحرین میں کوئی سیاسی چپقلش یا بدمزگی پیدا ہوتی ہے تو اس کے اثرات کراچی میں محسوس ہوتے ہیں، ورنہ کراچی اس قسم کے اثرات سے کافی دور تھا اور ہر قسم کی رواداری کا شہر تھا، مختلف نسلیں، قومیں اور زبانیں بولنے والوں کا معتدل موسم اور معتدل مزاج رکھنے والے بندگان خدا کا یہ شہر ہر ایک پر سائبان رہا ہے۔ مسلمانوں کے ممالک خلفشار کا شکار رہے ہیں اور ان دنوں کشیدگی میں ضرورت سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔
افغانستان میں خانہ جنگی، پھر امریکی فوج کی جنگ و جدل، روانگی کا شیڈول اس سے قبل انتخابات اور انتخابات پر کوئی فیصلہ نہ ہوسکا جس کا نتیجہ پھر بندوق کی نوک سے فیصلہ یعنی خانہ جنگی۔ اتفاق کی بات یہ ہے کہ ایک سال بعد پاکستان میں بھی انتخاب کا فیصلہ نہ ہوسکا کہ کون جیتا اور کون ہارا، گویا ہمارا ملک بھی افغانستان کی طرح پسماندہ ہے اور یوم آزادی پر سیاسی دنگل سجایا جا رہا ہے، اس سے قبل اس ملک کے لیڈران طالبان سے امن کی باتیں کر رہے تھے مگر جوں ہی عندیہ ملا کہ اقتدار کا موسم بدل رہا ہے ان کا انداز گفتگو بھی بدل گیا، لیڈران وقت کے ساتھ بدل رہے ہیں اور اب تو انقلاب کی باتیں ہو رہی ہیں۔
1968 میں جب ایوب خان کے خلاف تحریک چل رہی تھی مجھے یاد ہے کہ بعض مزدور انجمنیں یہ نعرہ لگاتی تھیں ''انتخاب و انقلاب، انقلاب انقلاب'' مگر تمام تر تبدیلیوں کے بعد کیا ہوا، ڈھاک کے تین پات۔ اور آج تو ملک کے چوہدریوں کی جانب سے بھی انقلاب کی آواز آرہی ہے۔ نہ تو معلوم ہے کہ یہ انقلاب کون سا ہوگا، نظام معیشت کیا ہوگا؟ جن لوگوں نے ملک کو مفلس بنایا ہے ان کا کیا ہوگا؟ صنعتی پروگرام کیا ہوگا؟ ملک میں سیاسی تبدیلی کیا آئے گی؟ خارجہ پالیسی کیا ہوگی ملک میں کون سا اقتصادی نظام نافذ ہوگا؟ آزادی صحافت آزادی اظہار و گفتار کا کیا ہوگا؟
اس وقت پاکستان چونکہ مسلم ریاستوں میں کلیدی مقام رکھتا ہے اور جغرافیائی اعتبار سے اہم محل وقوع رکھتا ہے، ایک طرف خلیجی ریاستوں کی گزرگاہ تو دوسری جانب وسطی ایشیائی ریاستوں کا راستہ تو اس کی مشکلات کا سامنا ہے۔ ان حالات کا سامنا صرف دوست اور دشمن دونوں اٹھا رہے ہیں اور پاکستان کے حکمراں اور وہ جو حکومت میں نہ آسکے دونوں فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ پاکستان میں پیپلز پارٹی نے کوشش کی کہ ایک بار ہم (پی پی پی) اور دوسری بار (ن) لیگ مرکزی حکومت میں رہے مگر لگتا ہے کہ (ن) لیگ کی گاڑی ڈی ریل ہونے کو ہے اور دوسری بار پیپلز پارٹی کا انجن بھی بوگیاں نہ کھینچ سکے گا۔
اس خلا کو پر کرنے کی صلاحیت پیپلز پارٹی کھو چکی ہے کیونکہ سندھ کا ثقافتی میلہ جو بلاول بھٹو نے لگایا تھا وہ بری طرح ناکام ہوا، خصوصاً جب مٹھی کی مٹی سے قحط کا دھواں اٹھا اور سندھ کا مطلع آلودہ کرگیا۔ عمران خان بھی سونامی نہ لاسکیں گے کیونکہ وہ کے پی کے کی قیادت میں کئی بار قلابازیاں کھا چکے ہیں، البتہ اس بات کی توقع کی جا رہی ہے کہ طاہر القادری مختلف دھڑوں کو ملانے میں اگر کامیاب ہوگئے تو مرکزی حکومت کو شدید مشکلات کا سامنا پیش آئے گا۔
غرض عراق سے لے کر افغانستان تک ایک بے چینی کی لہر ہے، افغانستان میں انتخابی نتائج اور پاکستان کے انتخابی نتائج بے مقصد رہے، افغانستان کا مسئلہ تو امریکا حل کرائے گا مگر پاکستان کا مسئلہ کون حل کرائے گا؟ مسلمان ریاستوں کی زبوں حالی جس قدر بڑھے گی اسرائیل کا دباؤ مسلمانوں پر اسی قدر بڑھے گا۔ آنے والا وقت مسلم ریاستوں کے لیے اور کٹھن ہوگا کیونکہ وہ اپنے عوام سے پرخلوص ہونے کے بجائے وہ عوام دشمن پالیسیوں پر گامزن ہیں انھیں اپنی حکومت چلانی مشکل ہے اور اپنے بجٹ کو سنبھالنا مشکل ہے، کہاں بھلا یہ فلسطین کے مسئلے میں الجھیں گے غزہ کے علاقے پر زبردست اسرائیلی بمباری ہے اور مسلم امہ آپس میں دست و گریباں ہے۔