وفاقی کابینہ نے 5 آئی پی پیز سے معاہدہ ختم کرنے کی منظوری دیدی

پہلے مرحلے میں تقریبا2400 میگاواٹ کی 5 آئی پی پیز بند کرنے کی تجویز منظور، بجلی سستی کرنے کیلیے ہرممکن کوششوں کا عزم


ویب ڈیسک October 10, 2024
(فوٹو: فائل)

وفاقی کابینہ نے 5 آئی پی پیز سے معاہدہ ختم کرنے کی منظوری دے دی۔


وزیراعظم شہباز شریف کی زیرصدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا، جس میں ارکان نے بڑا فیصلہ کرتے ہوئے 5 آئی پی پیز سے معاہدہ ختم کرنے کی منظوری دے دی۔ اجلاس میں بجلی کی قیمتوں میں کمی لانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنے کے عزم کا اظہار کیا گیا۔


آئی پی پیز سے مہنگی بجلی کی پیداوار کے معاملے پر وفاقی کابینہ نے بڑے فیصلے کیے ہیں۔ اس سلسلے میں پہلے مرحلے میں تقریبا2400 میگاواٹ صلاحیت کی 5 آئی پی پیز بند کرنے کی تجویز منظور کرلی گئی ہے، جس کے تحت آئی پی پیز میں1200میگاواٹ صلاحیت سے زیادہ کی حبکو کو بند کیا جائے گا۔


بجلی کے شعبے کی اصلاحات کے لیے قائم کردہ ٹاسک فورس اور ان آئی پیز کے مالکان کے مابین اتفاق اور ان معاہدوں کے اختتام کے عمل کی تفصیلات کابینہ کے سامنے پیش کی گئیں، بجلی خرید کے معاہدوں کے اختتام کی فہرست میں HUBCO, LALPIR, Saba Power, Rousch Power اور Atlas Power شامل ہیں۔


ان معاہدوں کو ختم کرنے سے بجلی صارفین کو 60 ارب روپے سالانہ کا فائدہ اور بجلی کے فی یونٹ نرخ میں خاطر خواہ کمی واقع ہوگی۔ مجموعی طور پر ملکی خزانے کو 411 ارب روپے کی بچت اور ان آئی پی پیز کو واجب الادا رقم پر کسی قسم کا سود نہیں دیا جائے گا۔


ذرائع کے مطابق 362میگاواٹ صلاحیت کی اے ای ایس لال کو بند کیا جائے گا ۔ 224 میگاواٹ کی اٹلس پاور کو بھی بند کردیا جائے گا۔ اسی طرح 136میگاواٹ کی صبا پاور بھی بند ہو ہوگا۔ ساتھ ہی 450 میگاواٹ کی روش پلانٹ کو بھی بند کردیا جائے گا۔


وفاقی کابینہ کی جانب سے منظوری کے بعد ان کمپنیوں کی بورڈ میٹنگز بلائی جائیں گی اور ان کمپنیوں کے بورڈز سے بھی کابینہ فیصلے پر عملدرآمد کروایا جائے گا۔


واضح رہے کہ ان آئی پی پیز میں سے Rousch Power بلڈ اون آپریٹ اینڈ ٹرانسفر معاہدے کے تحت قائم کیا گیا تھا، معاہدے کی رو سے اس کی ملکیت حکومت کو منتقل کرنے کے بعد اس کی پرائیویٹائزیشن کمیشن کے ذریعے نجکاری کی جائے گی۔ باقی ماندہ 4 آئی پی پیز کی ملکیت ان کے مالکان کے پاس رہے گی جبکہ حکومتی معاہدے کو ختم کرنے کے بعد حکومت کی جانب سے کسی قسم کی ادائیگی نہیں کی جائے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں