یونانی دیومالائی کہانیوں میں زیوس سب سے طاقتور دیوتا ہے، باقی دیگر کاموں کےلیے الگ الگ دیوتا ہیں۔ دو دیوتاؤں کی شادی میں جب ایریز کو مدعو نہیں کیا جاتا جو کہ ناچاقی اور اختلاف کی دیوی ہوتی ہے تو ایریز ایک سنہری سیب لاتی ہے جس پر لکھا ہوتا ہے to the fairest one ''سب سے خوبصورت اور سمجھدار کےلیے''۔ اور اس سیب کو وہ اس تقریب میں پھینک کر چلی جاتی ہے۔
یہ سیب جب ہیرا، ایتھنا اور ایفروڈائٹ دیکھتی ہیں تو ان میں سے ہر کوئی یہ چاہتا ہے کہ یہ سیب اس کو ملے۔ تینوں جب یہ سیب لے کر زیوس کے پاس جاتی ہیں کہ وہ فیصلہ کرے کہ یہ سیب کس کو ملنا چاہیے تو زیوس ان سب کے اختلاف سے بچنے کےلیے یہ کہتا ہے کہ ٹرائے (Troy) کا شہزادہ پیرس جو فیصلہ کرے گا وہی اس کا بھی فیصلہ ہوگا۔
اب تینوں دیویاں پیرس سے اپنے حق میں فیصلہ لینے کےلیے اس کو الگ الگ رشوت کی ترغیب دیتی ہیں۔ پیرس کا فیصلہ آپ کو بادشاہوں یا حکمرانوں کی سوچ سمجھنے میں مدد دے گا۔
ہیرا اسے لالچ دیتی ہے کہ میں تمھیں سب سے عظیم سلطنت کا بادشاہ بنادوں گی۔ ایتھنا اسے لالچ دیتی ہے کہ وہ اسے سب سے عقلمند اور سمجھدار بنادے گی اور ایفروڈائٹ اسے لالچ دیتی ہے کہ وہ دنیا کی سب سے خوبصورت عورت کو اس کے عشق میں مبتلا کردے گی، یوں اسے دنیا کی سب سے خوبصورت عورت حاصل ہوجائے گی۔ پیرس سوچتا ہے کہ ٹرائے تو ویسے بھی میرا ہے اور بڑا ملک لے کر میں کیا کروں گا۔ بادشاہ کو سمجھدار ہونے کی کیا ضرورت ہے، بس اس کے وزیر اور مشیر کو سمجھدار ہونا چاہیے اور یوں وہ فیصلہ ایفروڈائٹ کے حق میں دے دیتا ہے اور اسے ہیلن حاصل ہوتی ہے جو کہ اس وقت دنیا کی خوبصورت ترین عورت ہوتی ہے۔
ہیلن اس وقت 'مینی لاؤز' کی بیوی ہوتی ہے جو کہ 'اسپارٹا' کا بادشاہ ہوتا ہے اور پیرس اس کی بیوی کو بھگا کر اپنے ساتھ اپنے ملک ٹرائے لے آتا ہے اور اس کے نتیجے میں ٹروجن جنگ ہوتی ہے کہ جس کو فلم Troy میں دکھایا گیا ہے۔ اس سے آپ کو یہ اندازہ تو ہوگیا ہوگا کہ کسی دوسرے کی بیوی کو ورغلانے اور بھگانے کی ریت کوئی نئی نہیں اور یہ صدیوں سے جاری ہے۔ مغلوں نے بھی اس میں حصہ ڈالا اور موجودہ سیاستدان بھی اس میں تاریک باب رکھتے ہیں۔ تاریک باب اس لیے کہ روشن باب تو اس میں ہو ہی نہیں سکتا۔
اقتدار بھی ایک سنہری سیب ہی کی طرح ہوتا ہے یا پھر ہیلن کی طرح ہوتا ہے اور ہر کوئی اس کو حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اگر ہم پاکستان کی ابتدائی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہمیں پتہ چلے گا کہ ابتدا میں مسلم لیگ کے ٹکڑے بھی کسی نہ کسی ہیلن ہی کی وجہ سے ہوئے تھے اور بعد میں ہیلن کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر ان کی وجہ سے سیاسی جماعتوں کی قربانی دینا تو متروک ہوگیا تاہم ہیلن کا کردار دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کرتا رہا۔
یہ واحد موقع ہے کہ دن دوگنی اور رات چوگنی والی مثال حسب موقع، حسب حال بھی ہے اور تکنیکی لحاظ سے درست بھی۔ اگر آپ کو اس پر یقین نہ آئے تو یحییٰ خان کے دور کی کہانیاں پڑھ لیجیے، آپ ہیرالڈ روبن اور سعادت حسن منٹو کو بھول جائیں گے۔ یحییٰ خان کے قریبی ساتھی ابوبکر عثمان مٹھا کی کتاب 'بمبئی سے جی ایچ کیو تک' خاصی چشم کشا ہے۔ دور تو اور بھی بہت آئے، ایک غریب جنرل رانی ہی بدنام ہوئی ورنہ ''ملکہ'' تو بہت تھیں، نور بھی بہت تھا اور جہاں بھی بہت۔ باقی نام لکھے نہیں جاسکتے کیونکہ زیادہ تر 'حیات' ہیں، پر حیات جاوداں تو کسی نے نہیں پیا تو کامل یقین ہے کہ وہ سب تاریخ میں اپنا اپنا حصہ ضرور پائیں گی۔
پاکستان کی سیاست سمجھنے کےلیے آپ کو کوئی ارسطو یا افلاطون ہونے کی ضرورت نہیں، بس صرف آنکھوں کا کھلا ہونا ضروری ہے مگر بدقسمتی سے ہماری قوم کی آنکھیں گذشتہ ستتر برسوں سے بند ہیں اور اب بھی ان کا اسے کھولنے کا کوئی ارادہ یا خواہش نظر نہیں آتی۔ ہمیشہ چناؤ کے موقعے پر نقارے بجائے جاتے ہیں، مگر عوام ہیں کہ غفلت کی نیند سے بیدار ہونے کو تیار ہی نہیں۔ ویسے تو اگر کوئی پاکستانی سیاست اور اس میں خاندانی اثر و رسوخ کو سمجھنا چایے تو اس کےلیے یہ کہانی کافی ہے۔
کہانی کچھ یوں ہے کہ ایک 'کمی کمین' کا بیٹا باپ سے پوچھتا ہے کہ چوہدری کے بعد کون چوہدری بنے گا؟ باپ جواب دیتا ہے کہ اس کا بیٹا یا بیٹی، تو اس کا بیٹا پھر سوال کرتا ہے کہ اگر وہ بھی مرجائے تو کون چوہدری بنے گا؟ اس دفعہ باپ سوال سمجھ کر جواب دیتا ہے کہ چاہے سارا گاؤں مرجائے پر تو چوہدری نہیں بن سکتا اور اب تو بیٹے کو بھی یقین ہوگیا ہے کہ چاہے میں ساری عمر محنت کرتا رہوں میں وزیر شذیر تو شاید بن سکتا ہوں پر چوہدری کبھی نہیں بن سکتا۔ نیا چوہدری ہمیشہ کی طرح چوہدری ہی کے خاندان سے آئے گا یا آئے گی اور یہی پاکستان میں اقتدار یا موروثی جمہوریت کی حقیقی کہانی ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔