جھکاؤ
تقریباً ستر سالہ سید محمد یوسف شاہ عرف سید صلاح الدین مقبوضہ کشمیر کے معروف مجاہد لیڈر ہیں۔
تقریباً ستر سالہ سید محمد یوسف شاہ عرف سید صلاح الدین مقبوضہ کشمیر کے معروف مجاہد لیڈر ہیں۔ وہ کشمیری جہادی تنظیم ''حزب المجاہدین'' کے سربراہ بھی ہیں اور ''متحدہ جہاد کونسل'' کے رہنما بھی۔ مقبوضہ کشمیر کے مشہور علاقے ''بڈگام'' سے ان کا تعلق ہے۔
ان کے والد محکمہ ڈاک کے ملازم تھے اور وہ خود سول سروس میں جانا چاہتے تھے لیکن یونیورسٹی کے دنوں میں وہ جماعتِ اسلامی کو دل دے بیٹھے اور جہادِ کشمیر سے اتنے متاثر ہوئے کہ پھر ساری زندگی اسی مقصد کے لیے وقف ہو کر رہ گئے۔ مقبوضہ کشمیر کی سیاست میں عملی حصہ بھی لیا لیکن بھارت نواز فراڈیوں سے اتنے دل برداشتہ ہوئے کہ نہ صرف مروجہ سیاست سے ناتہ توڑ لیا بلکہ مقبوضہ کشمیر سے ہجرت کرکے آزاد کشمیر آبسے کہ یہاں بیٹھ کر مقبوضہ کشمیر کو بھارتی پنجہ استبداد سے نجات دلائیں گے۔ ان کے سات بچے مقبوضہ کشمیر میں جیسے تیسے زندگی گزار رہے ہیں۔
سید صلاح الدین کی مجاہدانہ زندگی کی بہرحال کشمیر پر قابض قوتوں پر دھاک بیٹھی ہوئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم (مقبوضہ) کشمیر میں پاکستان کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ پاکستان میں کوئی سیاسی جماعت یا حکمران اگر مسئلہ کشمیر سے سرِ مُو بھی انحراف کرتا ہو تو صلاح الدین صاحب اس کی فوری خبر لینا اپنا فرضِ اولین سمجھتے ہیں۔ چند روز قبل جب پاکستان بھر میں ''یوم شہدائے کشمیر'' منایا جارہا تھا، مجاہد صفت سید صلاح الدین صاحب نے آزاد کشمیرمیں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ''وزیراعظم نواز شریف کو کشمیریوں کی قربانیوں اور ان کے جذبات پر توجہ دینی چاہیے۔ ان کا نریندر مودی کی جانب یک طرفہ جھکائو کشمیریوں کو تکلیف اور ان کے مقاصد کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔''
متحدہ جہاد کونسل، جو مقبوضہ کشمیر میں بھارتی قبضے کے خلاف برسرِ پیکار ایک درجن سے زائد جہادی تنظیموں کا اتحاد ہے، کے سربراہ جناب سید صلاح الدین کو اس امر کا بھی شدید رنج ہے کہ وزیراعظم نواز شریف بھارتی دورے پر گئے تو انھوں نے کشمیری رہنمائوں سے ملنا گوارا نہ کیا؛ چنانچہ وہ نواز شریف کی کشمیر کے حوالے سے مبہم پالیسیوں کے سخت ناقدبن گئے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ وزیراعظم پاکستان کا بھارت کی طرف جھکائو کشمیر کے حل کے لیے نہ صرف نقصان دہ ثابت ہوگا بلکہ انھیں اس امر کا بھی رنج ہے کہ حکومت کی پالیسیاں نریندر مودی کو مقبوضہ کشمیر پر مزید مضبوط گرفت بنانے میں بھی معاون ثابت ہوں گی۔
وہ مزید للکارتے ہوئے سنائی دیتے ہیں: ''ہندوستان ہمارے جہاد کے نتیجے میں ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے گا۔'' دراصل کشمیر پر بھارتی قبضے اور زیادتیوں نے انھیں شدید ہیجان میں مبتلا کررکھا ہے۔ کشمیریوں پر بھارتی مظالم میں کوئی کمی بھی تو نہیں آئی ہے۔ سری نگر میں بروئے کار انسانی حقوق کے تحفظ کی تنظیم Voice of Victums نے ایک ہفتہ قبل ہی مستند دستاویزات کی شکل میں ایک حقائق نامہ جاری کیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج نے اب بھی کشمیری نوجوانوں کو سبق سکھانے کے لیے 471 کی تعداد میں خفیہ ٹارچر سیلز قائم کررکھے ہیں۔ جس طرح جماعتِ اسلامی کے افکار سے متاثرہ سید صلاح الدین صاحب وزیراعظم جناب نواز شریف کے بارے میں یہ سمجھتے ہیں کہ وہ بھارت کی طرف گہرا جھکائو رکھتے ہیں، بعینہ جماعت اسلامی پاکستان کی سینئر قیادت بھی ایسے ہی خیالات لیے ہوئے ہے۔
اس کا عملی اظہار جماعت اسلامی کے سینئر ترین اور بزرگ رہنما پروفیسر خورشید احمد صاحب نے کیا ہے۔ پروفیسر صاحب نے جماعت اسلامی کے ترجمان جریدے ماہنامہ ''ترجمان القرآن'' (شمارہ جولائی 2014ء) میں اسی حوالے سے تبصرہ آرائی کرتے ہوئے یوں لکھا ہے:''پاکستان بھارت سمیت اپنے تمام ہمسایوں سے دوستی چاہتا ہے لیکن بھارت سے جو خطرات ہماری قومی سلامتی کو درپیش ہیں، ان سے صرف نظر کرنا بدترین تباہی کو دعوت دینے کے مترادف ہوگا۔ بھارت میں جس نئی قیادت نے زمامِ کار سنبھالی ہے، اس کے عزائم، تاریخ اور ترجیحات کا بھی گہری نظر سے مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان اور بھارت میں دوستانہ تعلقات دونوں ممالک کی ضرورت ہے، لیکن یہ مقصد یک طرفہ طور پر حاصل نہیں ہوسکتا۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ جو بنیادی تنازعات موجود ہیں، ان کو حق و انصاف کے مطابق طے کیاجائے اور محض طاقت اور معیشت کے حجم کی بنیاد پر یا جزوی اور شخصی مفادات کو اولیت دے کر لیپا پوتی کے ذریعے حالات کو نارمل بنانے یا سمجھنے کی حماقت نہ کی جائے۔'' پروفیسر خورشید احمد مزید لکھتے ہیں: '' ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ وزیراعظم نواز شریف کو بھارت سے خطرات کا صحیح ادراک نہیں اور جناب نریندر مودی، بی جے پی اور آر ایس ایس کی حکومت کے بارے میں وہ شدید غلط فہمیوں کا شکار ہیں۔
ہمارا خیال ہے کہ اس سلسلے میں وزارتِ خارجہ اور ہماری عسکری قیادت کو حالات کا بہتر ادراک ہے۔ اس سلسلے میں پوری سوچ بچار اور تمام پہلوئوں پر گہرے غور و فکر کے ساتھ کسی تاخیر کے بغیر ایک دیر پا پالیسی مرتب کرنے کی ضرورت ہے''۔ میاں نواز شریف پاکستان کے منتخب وزیراعظم ہیں۔ عوام نے انھیں بھاری مینڈیٹ سے نواز رکھا ہے، چنانچہ آئینی اعتبار سے انھیں اس امر کا اختیار حاصل ہے کہ وہ بھارت سے بہتر تعلقات استوار کریں لیکن ایسا کرتے ہوئے بہرحال انھیں یہ احتیاط بھی ملحوظِ خاطر رکھنا ہوگی کہ بھارت سے معانقہ اور مصافحہ کرتے ہوئے کوئی انھیں ''بھارت نواز'' ہونے کا طعنہ نہ دے سکے۔
بلاشبہ وزیراعظم چاہیں گے کہ پاکستان آگے بڑھ کر بھارت سے تجارتی تعلقات کو مستحکم کرے۔ یہ خواہش قومی امنگوں سے متصادم نہیں ہے لیکن انھیں بھارت کی طرف سے پاکستان پر لگائے جانے والے تازہ الزامات بھی پیشِ نگاہ رکھنا ہوں گے۔ بھارتی فوج اور بھارتی وزیرِ داخلہ نے پاکستان پر تازہ تہمت لگائی ہے کہ اس نے ایل او سی پر بھارت کے خلاف بلا اشتعال فائرنگ کی ہے جب کہ افواجِ پاکستان نے اس کا صاف انکار کیا ہے۔ کیا بھارت کی طرف سے پاکستان کے خلاف اس نئے الزام کی موجودگی میں بھارت سے دوستی ہوسکتی ہے؟
ان کے والد محکمہ ڈاک کے ملازم تھے اور وہ خود سول سروس میں جانا چاہتے تھے لیکن یونیورسٹی کے دنوں میں وہ جماعتِ اسلامی کو دل دے بیٹھے اور جہادِ کشمیر سے اتنے متاثر ہوئے کہ پھر ساری زندگی اسی مقصد کے لیے وقف ہو کر رہ گئے۔ مقبوضہ کشمیر کی سیاست میں عملی حصہ بھی لیا لیکن بھارت نواز فراڈیوں سے اتنے دل برداشتہ ہوئے کہ نہ صرف مروجہ سیاست سے ناتہ توڑ لیا بلکہ مقبوضہ کشمیر سے ہجرت کرکے آزاد کشمیر آبسے کہ یہاں بیٹھ کر مقبوضہ کشمیر کو بھارتی پنجہ استبداد سے نجات دلائیں گے۔ ان کے سات بچے مقبوضہ کشمیر میں جیسے تیسے زندگی گزار رہے ہیں۔
سید صلاح الدین کی مجاہدانہ زندگی کی بہرحال کشمیر پر قابض قوتوں پر دھاک بیٹھی ہوئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم (مقبوضہ) کشمیر میں پاکستان کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ پاکستان میں کوئی سیاسی جماعت یا حکمران اگر مسئلہ کشمیر سے سرِ مُو بھی انحراف کرتا ہو تو صلاح الدین صاحب اس کی فوری خبر لینا اپنا فرضِ اولین سمجھتے ہیں۔ چند روز قبل جب پاکستان بھر میں ''یوم شہدائے کشمیر'' منایا جارہا تھا، مجاہد صفت سید صلاح الدین صاحب نے آزاد کشمیرمیں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ''وزیراعظم نواز شریف کو کشمیریوں کی قربانیوں اور ان کے جذبات پر توجہ دینی چاہیے۔ ان کا نریندر مودی کی جانب یک طرفہ جھکائو کشمیریوں کو تکلیف اور ان کے مقاصد کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔''
متحدہ جہاد کونسل، جو مقبوضہ کشمیر میں بھارتی قبضے کے خلاف برسرِ پیکار ایک درجن سے زائد جہادی تنظیموں کا اتحاد ہے، کے سربراہ جناب سید صلاح الدین کو اس امر کا بھی شدید رنج ہے کہ وزیراعظم نواز شریف بھارتی دورے پر گئے تو انھوں نے کشمیری رہنمائوں سے ملنا گوارا نہ کیا؛ چنانچہ وہ نواز شریف کی کشمیر کے حوالے سے مبہم پالیسیوں کے سخت ناقدبن گئے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ وزیراعظم پاکستان کا بھارت کی طرف جھکائو کشمیر کے حل کے لیے نہ صرف نقصان دہ ثابت ہوگا بلکہ انھیں اس امر کا بھی رنج ہے کہ حکومت کی پالیسیاں نریندر مودی کو مقبوضہ کشمیر پر مزید مضبوط گرفت بنانے میں بھی معاون ثابت ہوں گی۔
وہ مزید للکارتے ہوئے سنائی دیتے ہیں: ''ہندوستان ہمارے جہاد کے نتیجے میں ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے گا۔'' دراصل کشمیر پر بھارتی قبضے اور زیادتیوں نے انھیں شدید ہیجان میں مبتلا کررکھا ہے۔ کشمیریوں پر بھارتی مظالم میں کوئی کمی بھی تو نہیں آئی ہے۔ سری نگر میں بروئے کار انسانی حقوق کے تحفظ کی تنظیم Voice of Victums نے ایک ہفتہ قبل ہی مستند دستاویزات کی شکل میں ایک حقائق نامہ جاری کیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج نے اب بھی کشمیری نوجوانوں کو سبق سکھانے کے لیے 471 کی تعداد میں خفیہ ٹارچر سیلز قائم کررکھے ہیں۔ جس طرح جماعتِ اسلامی کے افکار سے متاثرہ سید صلاح الدین صاحب وزیراعظم جناب نواز شریف کے بارے میں یہ سمجھتے ہیں کہ وہ بھارت کی طرف گہرا جھکائو رکھتے ہیں، بعینہ جماعت اسلامی پاکستان کی سینئر قیادت بھی ایسے ہی خیالات لیے ہوئے ہے۔
اس کا عملی اظہار جماعت اسلامی کے سینئر ترین اور بزرگ رہنما پروفیسر خورشید احمد صاحب نے کیا ہے۔ پروفیسر صاحب نے جماعت اسلامی کے ترجمان جریدے ماہنامہ ''ترجمان القرآن'' (شمارہ جولائی 2014ء) میں اسی حوالے سے تبصرہ آرائی کرتے ہوئے یوں لکھا ہے:''پاکستان بھارت سمیت اپنے تمام ہمسایوں سے دوستی چاہتا ہے لیکن بھارت سے جو خطرات ہماری قومی سلامتی کو درپیش ہیں، ان سے صرف نظر کرنا بدترین تباہی کو دعوت دینے کے مترادف ہوگا۔ بھارت میں جس نئی قیادت نے زمامِ کار سنبھالی ہے، اس کے عزائم، تاریخ اور ترجیحات کا بھی گہری نظر سے مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان اور بھارت میں دوستانہ تعلقات دونوں ممالک کی ضرورت ہے، لیکن یہ مقصد یک طرفہ طور پر حاصل نہیں ہوسکتا۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ جو بنیادی تنازعات موجود ہیں، ان کو حق و انصاف کے مطابق طے کیاجائے اور محض طاقت اور معیشت کے حجم کی بنیاد پر یا جزوی اور شخصی مفادات کو اولیت دے کر لیپا پوتی کے ذریعے حالات کو نارمل بنانے یا سمجھنے کی حماقت نہ کی جائے۔'' پروفیسر خورشید احمد مزید لکھتے ہیں: '' ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ وزیراعظم نواز شریف کو بھارت سے خطرات کا صحیح ادراک نہیں اور جناب نریندر مودی، بی جے پی اور آر ایس ایس کی حکومت کے بارے میں وہ شدید غلط فہمیوں کا شکار ہیں۔
ہمارا خیال ہے کہ اس سلسلے میں وزارتِ خارجہ اور ہماری عسکری قیادت کو حالات کا بہتر ادراک ہے۔ اس سلسلے میں پوری سوچ بچار اور تمام پہلوئوں پر گہرے غور و فکر کے ساتھ کسی تاخیر کے بغیر ایک دیر پا پالیسی مرتب کرنے کی ضرورت ہے''۔ میاں نواز شریف پاکستان کے منتخب وزیراعظم ہیں۔ عوام نے انھیں بھاری مینڈیٹ سے نواز رکھا ہے، چنانچہ آئینی اعتبار سے انھیں اس امر کا اختیار حاصل ہے کہ وہ بھارت سے بہتر تعلقات استوار کریں لیکن ایسا کرتے ہوئے بہرحال انھیں یہ احتیاط بھی ملحوظِ خاطر رکھنا ہوگی کہ بھارت سے معانقہ اور مصافحہ کرتے ہوئے کوئی انھیں ''بھارت نواز'' ہونے کا طعنہ نہ دے سکے۔
بلاشبہ وزیراعظم چاہیں گے کہ پاکستان آگے بڑھ کر بھارت سے تجارتی تعلقات کو مستحکم کرے۔ یہ خواہش قومی امنگوں سے متصادم نہیں ہے لیکن انھیں بھارت کی طرف سے پاکستان پر لگائے جانے والے تازہ الزامات بھی پیشِ نگاہ رکھنا ہوں گے۔ بھارتی فوج اور بھارتی وزیرِ داخلہ نے پاکستان پر تازہ تہمت لگائی ہے کہ اس نے ایل او سی پر بھارت کے خلاف بلا اشتعال فائرنگ کی ہے جب کہ افواجِ پاکستان نے اس کا صاف انکار کیا ہے۔ کیا بھارت کی طرف سے پاکستان کے خلاف اس نئے الزام کی موجودگی میں بھارت سے دوستی ہوسکتی ہے؟