کیا یہ سب ٹھیک ہے

ہرکوئی حب الوطنی کا دم بھرتا نظر آتا ہے۔ اور جو کچھ وہ کر رہا ہے وہ قوم و ملک کی بہتری میں ہی کر رہا ہے


نجمہ عالم July 18, 2014
[email protected]

ہرکوئی حب الوطنی کا دم بھرتا نظر آتا ہے۔ اور جو کچھ وہ کر رہا ہے وہ قوم و ملک کی بہتری میں ہی کر رہا ہے ہمارے سارے بزعم خود رہنماؤں کے پیٹ میں درد صرف اور صرف عوام کی مشکلات کا ہی اٹھتا ہے۔ وہ سخت گرمی اور کڑاکے کی سردی میں اگر دھرنا دیتے ہیں یا مارچ کرتے ہیں تو صرف عوام کی خاطر ورنہ انھیں کیا کہ کئی کئی کروڑ روپے (ڈالر) ان مارچ یا دھرنوں پر خرچ کریں اور خود اپنا سکھ چین گرمی سردی میں برباد کرتے پھریں۔

ہم نے پہلے بھی ایک بار لکھا تھا کہ جس جوش و خروش سے ہم کسی کو منتخب کرتے ہیں اسی جوش و خروش سے سال چھ ماہ بعد اس کے خلاف ہوجاتے ہیں انتخابات سے قبل جو فرشتے ہوتے ہیں وہ منتخب ہوتے ہی شیطان سے بدتر نظر آنے لگتے ہیں۔ ہمارے سیاستدان نہ صرف انتخابات منعقد کرانے کے لیے سرگرم رہتے ہیں بلکہ ان میں بڑھ چڑھ کر حصہ بھی لیتے ہیں اور صرف انتخابی جلسے جلوس، تشہیر حتیٰ کہ دھاندلی پر بھی زر کثیر خرچ کرتے ہیں۔

غربت، مہنگائی اور بے روزگاری کے مارے عوام اس سب کو برداشت کرکے جب کسی بھی جماعت کو خوشی خوشی یا زبردستی منتخب کرتے ہیں تو کامیاب نہ ہونے والی جماعتیں اور کچھ طالع آزما سیاستدان ان ہی معصوم عوام کو دوبارہ سڑکوں پر لاکر منتخب شدہ افراد کے خلاف ان کو ناکام کرنے کے لیے سرگرم ہوجاتے ہیں۔ وہ حکومت کو ناکام بنانے میں کامیاب ہوں یا نہ ہوں مگر پورے ملک کو تو تلپٹ کرکے رکھ ہی دیتے ہیں۔ ایسی کوششوں میں کئی بے گناہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، کئی گرفتار ہوتے ہیں، لاٹھیاں کھاتے ہیں مگر دونوں صورتوں میں ان کو ملتا ملاتا کچھ نہیں۔ ان کے دن تو نہ کبھی بدلے ہیں نہ کبھی بدلیں گے۔

کہاوت ہے کہ ''جس تھالی میں کھاؤ اسی میں چھید نہ کرو'' ہمارے عظیم رہنما مگر جس وطن کے عشق میں اپنی جان گھلاتے رہتے ہیں اس کی موجودہ اور تازہ ترین صورت حال سے یا تو بے خبر ہیں یا جان بوجھ کر آنکھیں چرا رہے ہیں۔ ملین مارچ، انقلاب مارچ وغیرہ اگر جمہوری حق ہے تو اس کے لیے اپنے ملکی حالات کو مد نظر رکھنا بھی تو ضروری ہے۔ جب ملک حالت جنگ میں ہو، افواج پاکستان ایک مشکل اور اہم آپریشن میں مصروف ہوں۔ دنیا خاص کر عالم اسلام پر نظر ڈالیے تو ہمارے آس پاس کیا کچھ ہو رہا ہے۔

طاغوتی طاقتیں کس طرح اسلامی ممالک کا جغرافیہ تبدیل کرنے میں مصروف ہیں۔ اس کا میدان وہ ہمارے اردگرد تک پھیلانے پر آمادہ ہیں۔ پاکستان پہلے ہی کئی دہائیوں سے دہشت گردی کی لپیٹ میں آیا ہوا ہے۔ نہ ہمارے شہر محفوظ ہیں نہ ادارے حتیٰ کہ ایئرپورٹس تک دہشت گردی کی لہر پہنچ چکی ہے۔ ایسے حالات میں محض انتخابی دھاندلی چار حلقوں یا دس حلقوں کے نتائج کو جواز بناکر پورے ملک کو تلپٹ کرنا، عوام رمضان المبارک میں بھی لوڈشیڈنگ، کمر توڑ مہنگائی، دہشت گردی، رشوت خوری سے پریشان ہیں اور آپ ہیں کہ کچھ عرصے کے لیے اپنے لائحہ عمل کو روبہ عمل لانے سے رک نہیں سکتے۔ ایک محب وطن تو انقلاب اور انتخاب کا ازخود اعلان فرمانے جا رہے ہیں کہ میں جب اور جس طرح چاہوں گا اسی وقت اور اسی طرح اگلے انتخاب ہوں گے۔

اس کا مطلب تو یہ ہے کہ پاکستان کے اٹھارہ کروڑ عوام میں سے ہر فرد کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی مرضی سے جب چاہے انتخاب کرا سکتا ہے؟ اس طرح کی باتوں پر سنجیدہ ہی نہیں بلکہ غیر سنجیدہ حلقے بھی حیران ہیں کہ ان اقدام میں حب الوطنی اور عوام دوستی کا کون سا پہلو پایا جاتا ہے۔ ہر کوئی یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ یہ سب تو ذاتی اغراض و شہرت حاصل کرنے کا انداز ہے۔ عوام اور اداروں کو حکومت کے احکامات نہ ماننے پر اکسانے کا مطلب تو ملک کی رہی سہی صورت حال کو بگاڑ کر انارکی پھیلانے کے مترادف ہے۔

حب الوطنی کا تقاضا تو یہ ہے کہ واقعی حکومتی خامیوں کی نشاندہی کی جائے وہ بھی مخالفت برائے مخالفت نہیں بلکہ مخالفت برائے اصلاح کے پیش نظر اور ان خامیوں کو دور کرنے کے لیے پرامن اور مہذب انداز اختیار کیا جائے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ موجودہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے کوئی خوش اور مطمئن نہیں۔ ہمارے انتخابی نظام میں بھی کئی ایسے سقم موجود ہیں کہ جس میں ہر سطح پر دھاندلی کے امکانات پائے جاتے ہیں اس سلسلے میں ہونا یہ چاہیے کہ ان خامیوں کو دور کرنے کے لیے آئینی طریقہ اختیار کیا جائے۔ پارلیمنٹ کو بااختیار ادارہ بنایا جائے۔

اسمبلی میں اکثریت ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ من مانی کی جائے حزب مخالف چاہے دو چار افراد ہی پر مشتمل ہو اس کی رائے کا احترام اور تنقید کو برداشت کیا جائے۔ فرینڈلی اپوزیشن کی اصلاح ایک بے معنی اصلاح ہے اپوزیشن (حزب مخالف) ہے تو وہ اختیارات کے بے جا استعمال پر حقیقتاً مخالف ہی ثابت ہوئے کہ ہر اچھی بری بات پر آمنا صدقنا کا مظاہرہ کیا جائے۔ حکومت کے ہر اچھے اقدام کی تعریف اور حمایت اور غلطیوں کی نشاندہی کے ساتھ مخالفت کرنا اور ڈٹ کر کرنا ہی اچھی اپوزیشن کا کام ہے۔

ہمارے سیاسی نظام میں مانا کہ یہ سب خامیاں عرصہ دراز سے موجود ہیں۔ لیکن موجودہ صورت حال یہ ہے کہ حکومت سے گزشتہ دنوں جو کوتاہیاں ہوئیں وہ تو ہوئیں مگر فی الحال حکومت کی جانب سے دونوں عناصر کو مذاکرات کی پیش کش کی خبر سامنے آئی ہے تو ملکی و بین الاقوامی حالات کو مدنظر رکھ کر اس پیشکش پر ٹھنڈے دل و دماغ سے غور کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اگر تصادم ہی کا ارادہ کرلیا جائے تو یہ صرف اور صرف ذاتی انا کے علاوہ غیر مدبرانہ انداز فکر ہی ہوگا۔ ایسی صورت میں جب دہشت گردی سے ملک کو پاک کیا جا رہا ہو۔

اس آپریشن کے باعث متاثرین کو عارضی رہائش کے علاوہ ضروریات زندگی علاج معالجہ فراہم کرنا جیسا اہم ایشو موجود ہو ایسے وقت میں ''میں نہ مانو'' کی رٹ لگانا کسی بھی صورت حب الوطنی نہیں کہی جا سکتی اور نہ ہی اس کو قومی خدمت قرار دیا جاسکتا ہے بلکہ اس کو صرف ذاتی انا اور مفاد باالفاظ دیگر وقت کی نزاکت سے فائدہ اٹھانا قرار دیا جائے گا۔ خاص کر یوم آزادی کو متنازعہ بنانا کوئی بھی پاکستانی پسند نہیں کرے گا۔

اگر افہام و تفہیم کی صورت اختیار نہ کی گئی۔ احتجاج و انقلاب کو تو جو نقصان پہنچے گا وہ تو پہنچے گا ملک و قوم کو بھی ناقابل تلافی نقصان کا امکان موجود ہے۔ تو اس صورت حال کا کون ذمے دار ہوگا؟ ضد اور انا یوں ہی برقرار رہی تو ذمے داران سے یہ تو پوچھا جاسکتا ہے کہ کیا وہ آپریشن ضرب عضب کو ناکام (خدا نا خواستہ) کرنا چاہیے؟ ہیں یا اس کے مخالف ہیں؟ اور یہ بھی کہ:

کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں