آئینی ترامیم میں فوجی عدالتوں کو کسی صورت نہیں مان سکتے چاہے کوئی بھی ٹارگٹ ہو، جے یو آئی

  اسلام آباد: جے یو آئی نے کہا ہے کہ ‎ہم ایسی آئینی عدالت بالکل بھی نہیں چاہتے جو سپریم کورٹ سے اوپر ہو اور فوجی عدالتوں کا تو کسی صورت نہیں مان سکتے چاہے کوئی بھی ٹارگٹ ہو۔

اپنے بیان میں ترجمان جے یو آئی اسلم غوری نے کہا ہے کہ ‎ہم ایسی آئینی عدالت بالکل بھی نہیں چاہتے جو سپریم کورٹ سے اوپر ہو، ‎جمعیت علما اسلام کا حکومت سے کوئی معاملہ طے نہیں ہوا، ‎حکومت نے جے یو آئی کا غلط اندازہ لگایا اور سمجھا مولوی ہیں سادگی میں مان جائیں گے، ‎اگر حکومت سے معاملات طے ہوتے تو پھر ہم علیحدہ مسودہ کیوں بنا رہے ہوتے؟

ترجمان نے کہا کہ ‎اگر حکومت علیحدہ سے آئینی عدالت بناسکتی ہوتی تو اب تک بناچکی ہوتی، ‎آئینی ترامیم حکومت کا سردرد بن گئی ہے کہ 25 اکتوبر سے پہلے منظور کرانی ہے جب کہ ہماری ایسی کوئی ترجیح نہیں، اس وقت ہمارا 90 فیصد مسودہ تیار ہوگیا ہے جو پی ٹی آئی اور پی پی سے شئیر کریں گے، ‎ہم بار کونسلز، میڈیا اور عوام کے سامنے بھی اپنے مسودے کو رکھیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ‎کوئی بھی آئینی عہدہ یا کوئی ایسی چیز ہماری حکومت کے ساتھ طے نہیں ہوئی، ‎ہم اپنے اصولی موقف پر قائم ہیں کہ آئینی ترمیم ایسی ہونی چاہئیں جو سب کو قبول ہوں، ‎اب ہم بھی تھوڑا بہت قانون جان گئے ہیں اور ہم تو اس الیکشن کو ہی نہیں مانتے،  ‎اگر آئینی عدالت پر اتفاق نہیں تو مسودے میں تجویز دی ہے کہ سپریم کورٹ میں علیحدہ بنچ بنادیا جائے، ‎چار یا 5 ججز پر مشتمل آئینی بینچ ہو جو چیف جسٹس کے ماتحت ہی ہو، ‎علیحدہ بنچ پر ہماری تجویز حکومت کو ماننی چاہیے ‎جس طرح شریعت ایپلٹ کورٹ ہے اس طرح بھی ہوسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ‎ترامیم کا سلسلہ طویل عرصے سے چل رہا ہے اور پہلے ہمیں بھی نہیں پتا تھا کہ کیا چیز ہے، ‎عجیب صورتحال تھی کہ ہمیں زبانی کہا گیا کہ بس آپ نے ہمارے ساتھ تعاون کرنا ہے، ‎پھر جمعہ کی رات 12 بجے بلاول صاحب آئے اور کہا کہ ہفتہ اتوار کو ہم نے بل پاس کرنا ہے، ‎ہم نے کہا مسودہ کہاں ہے تو پھر کامران مرتضیٰ کو مسودہ دیا گیا اور بلاول صاحب نے کہا انہیں بھی ابھی ملا ہے۔

ترجمان کے مطابق ‎جب مسودہ دیکھا تو ہمیں دیا گیا مسودہ بلاول صاحب کے مسودے سے مختلف تھا، ‎ہمیں اعظم نذیرتارڑ نے مسودہ دیا تھا لیکن بلاول صاحب پریشان ہوئے کہ انہیں دوسرا مسودہ دیاگیا، ‎آئینی ترمیم 25 کروڑ عوام کے لیے ہوتی ہے نا کہ کسی شخص یا حکومت کے لیے، ‎جو ہمیں دیا گیا اس سے عوام کے بنیادی حقوق متاثر ہو رہے تھے اور پھر ججز کی عمر اور ٹرانسفر وغیرہ تھی،  ‎17ویں ترمیم میں ہم نے ججوں کی عمر بڑھانے کا کہا تو سب سے زیادہ ذیادہ پی پی نے مخالفت کی تھی، ‎ہم نے پیپلزپارٹی کو کہا کہ پہلے آپ مخالف تھے تو اب اچانک ججز کی عمر بڑھانے کے حق میں کیسے ہوگئے؟

ترجمان نے مزید کہا کہ ‎ہم نے کہا فوجی عدالتوں کا تو کسی صورت نہیں مان سکتے چاہے کوئی بھی ٹارگٹ ہو، ‎پھر حکومتی اتحادیوں نے کہا اس میں سے جو ہوسکتا ہے اتنی ترامیم کرلیتے ہیں، ‎ہم نے کہا جو ہوسکتا والا کام کریں گے تو کھچڑی پک جائے گی اس لیے ہم نے مسودے کو مسترد کردیا۔