وزیراعلیٰ سندھ جامعہ کراچی کے تحقیقاتی ادارے میں سرمایہ داروں کی مداخلت کا نوٹس لیں ایکشن کمیٹی
آئی سی سی بی ایس کے ڈائریکٹر کی تعیناتی یونیورسٹی ایکٹ اور کوڈ کے تحت کی جائے، اراکین کا مطالبہ
جامعہ کراچی کے تحقیقاتی ادارے آئی سی سی بی ایس کے ملازمین کی ایکشن کمیٹی نے وزیرِ اعلیٰ سندھ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ جامعہ کراچی کے سب سے بڑے تحقیقی ادارے انٹر نیشنل سینٹر فار کیمیکل اینڈ بائیو لوجیکل سائنسز (ICCBS) کے انتظامی معاملات میں دو سرمایہ داروں اور سابق ڈائریکٹر ڈاکٹر اقبال چوہدری کی بےجا مداخلت کا سختی سے نوٹس لیں۔
آئی سی سی بی ایس میں نئے ڈائریکٹر کی تعیناتی کے عمل میں جلد بازی کرکے اشتہار کے ذریعے سندھ کے باہر سے کسی من پسند آدمی کو بطور ڈائریکٹر لانے کی کوشش کی جا رہی ہے جو جامعہ کراچی کے ایکٹ اور کوڈ کے خلاف ہے، جامعہ کراچی کے مروجہ قوانین کے مطابق سینٹر کے تین حاضر سروس سینیئر پروفیسروں میں سے کسی ایک کو ادارے کا ڈائریکٹر مقرر کیا جائے، آئی سی سی بی ایس سمیت یونیورسٹی کے تمام سینٹروں پر ماڈل اسٹیچوٹس کے نفاذ کو یقینی بنایا جائے۔
یہ بات جامعہ کراچی ICCBS کی پروفیسر ڈاکٹر عصمت سلیم، ICCBS ایکشن کمیٹی کے ڈپٹی کنوینئر محمد علی کاظمی اور سفیر محمد نے جمعرات کو کراچی پریس کلب میں منعقدہ پریس کانفرنس میں اپنے خطاب کے دوران کہی۔ اس موقع پر ڈاکٹر شاہ حسن اور دیگر اساتذہ بھی موجود تھے۔
مقررین نے کہا کہ گزشتہ سال 4ستمبر 2023ء کو ادارے کے ایگزیکٹو بورڈ نے ڈاکٹر اقبال چوہدری کو 4 سال کی مدت پوری ہونے پر توسیع نہ دیتے ہوئے ڈائریکٹر کے عہدے سے فارغ کر دیا تھا، ان کے عہدے سے ہٹنے کے بعد ادارے میں تعلیمی و تحقیقی سرگرمیوں میں نمایاں اضافہ ہوا جس کی دلیل یہ ہے کہ ایک سال کی قلیل مدت میں 100سے زیادہ طالبِ علموں کو ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں تفویض ہوئیں جبکہ ادارے کے ماحول میں غیر ضروری تناؤ کا خاتمہ بھی ہوا۔
انھوں نے کہا کہ ڈاکٹر اقبال چوہدری 2019 ء میں ریٹائر ہو چکے ہیں لیکن اس کے باوجود غیر قانونی طور پر مزید چار سال ادارے کے ڈائریکٹر تعینات رہے اور صرف یہی نہیں بلکہ جامعہ کراچی کے ایکٹ اور کوڈ کے برخلاف کسی مجاز اتھارٹی کی منظوری کے بغیر اقبال چوہدری 22 سال ICCBS جامعہ کراچی میں بطور ڈائریکٹر تعینات رہے اور اس 22 سالہ غیر قانونی ڈائریکٹر شپ میں اساتذہ، ملازمین اور افسران کا مسلسل استحصال کرتے رہے۔
انھوں نے کہا کہ جامعہ کراچی سینیٹ کے 135 اراکین کو بشمول وائس چانسلر اور آئی سی سی بی ایس کے 150 تدریسی و غیر تدریسی اسٹاف کو نادرہ پنجوانی کے وکیل کی جانب سے لیگل نوٹس کا اجراء کوئی معمولی بات نہیں تھی لیکن نادرہ پنجوانی کے اس توہین آمیز رویے کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔
مقررین نے کہا اساتذہ، افسران اور ملازمین اب کسی با اثر شخص کو یہ اجازت نہیں دیں گے کہ وہ ادارے میں اپنے مفادات کے لیے قوانین کی دھجیاں بکھیر ے، اب کسی غیر قانونی اشتہار کے ذریعے من پسند ڈائریکٹر کی تقرری نہیں ہونے دی جائے گی۔
انہوں نے کہا خلافِ قانون بات یہ ہے کہ نئے ڈائریکٹر کی تقرری کے لیے مشتہر ہونے والے اشتہار کو تیار کرنے والے ایگزیکٹو بورڈ کی کارروائی میں comsats ایبٹ آباد کے ڈاکٹر جمشید اقبال بحیثیت رکن شامل تھے مگر ڈاکٹر جمشید اقبال ایگزیکٹو بورڈ کی کارروائی میں شرکت کے باوجود ڈائریکٹر کے عہدے کے لیے درخواست گزاروں میں شامل ہوگئے، دوسری جانب اس ایگزیکٹو بورڈ کی کارروائی کے منٹس کی تحریر بھی غیرقانونی طور پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن نے کی۔
مقررین نے یونیورسٹی کے انتظامی معاملات میں ریٹائر پروفیسروں اور سرمایہ داروں کی بے جا مداخلت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس مداخلت سے ریسرچ سینٹر کی تعلیمی و تحقیقی سرگرمیوں کو نقصان پہنچ رہا ہے، اقبال چوہدری سرمایہ داروں کے ساتھ مل کر ایک کٹھ پُتلی ڈائریکٹر لانا چاہتے ہیں کیونکہ ڈاکٹر اقبال چوہدری کی بے ایمانی پر اسپیشل آڈٹ کے 111 تحریری اعتراضات ڈیپارٹمنٹل آڈٹ کمیٹی میں موجود ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ہمیں اقبال چوہدری کی اپنے غیرقانونی تسلط کو دوبارہ بحال کرنے کی کسی قسم کی کوشش قبول نہیں، یونیورسٹی کے قوانین کو بالائے طاق رکھ کر من پسند ڈائریکٹر کی تقرری کسی بھی صورت میں یونیورسٹی کے مفاد میں نہیں۔
آئی سی سی بی ایس میں نئے ڈائریکٹر کی تعیناتی کے عمل میں جلد بازی کرکے اشتہار کے ذریعے سندھ کے باہر سے کسی من پسند آدمی کو بطور ڈائریکٹر لانے کی کوشش کی جا رہی ہے جو جامعہ کراچی کے ایکٹ اور کوڈ کے خلاف ہے، جامعہ کراچی کے مروجہ قوانین کے مطابق سینٹر کے تین حاضر سروس سینیئر پروفیسروں میں سے کسی ایک کو ادارے کا ڈائریکٹر مقرر کیا جائے، آئی سی سی بی ایس سمیت یونیورسٹی کے تمام سینٹروں پر ماڈل اسٹیچوٹس کے نفاذ کو یقینی بنایا جائے۔
یہ بات جامعہ کراچی ICCBS کی پروفیسر ڈاکٹر عصمت سلیم، ICCBS ایکشن کمیٹی کے ڈپٹی کنوینئر محمد علی کاظمی اور سفیر محمد نے جمعرات کو کراچی پریس کلب میں منعقدہ پریس کانفرنس میں اپنے خطاب کے دوران کہی۔ اس موقع پر ڈاکٹر شاہ حسن اور دیگر اساتذہ بھی موجود تھے۔
مقررین نے کہا کہ گزشتہ سال 4ستمبر 2023ء کو ادارے کے ایگزیکٹو بورڈ نے ڈاکٹر اقبال چوہدری کو 4 سال کی مدت پوری ہونے پر توسیع نہ دیتے ہوئے ڈائریکٹر کے عہدے سے فارغ کر دیا تھا، ان کے عہدے سے ہٹنے کے بعد ادارے میں تعلیمی و تحقیقی سرگرمیوں میں نمایاں اضافہ ہوا جس کی دلیل یہ ہے کہ ایک سال کی قلیل مدت میں 100سے زیادہ طالبِ علموں کو ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں تفویض ہوئیں جبکہ ادارے کے ماحول میں غیر ضروری تناؤ کا خاتمہ بھی ہوا۔
انھوں نے کہا کہ ڈاکٹر اقبال چوہدری 2019 ء میں ریٹائر ہو چکے ہیں لیکن اس کے باوجود غیر قانونی طور پر مزید چار سال ادارے کے ڈائریکٹر تعینات رہے اور صرف یہی نہیں بلکہ جامعہ کراچی کے ایکٹ اور کوڈ کے برخلاف کسی مجاز اتھارٹی کی منظوری کے بغیر اقبال چوہدری 22 سال ICCBS جامعہ کراچی میں بطور ڈائریکٹر تعینات رہے اور اس 22 سالہ غیر قانونی ڈائریکٹر شپ میں اساتذہ، ملازمین اور افسران کا مسلسل استحصال کرتے رہے۔
انھوں نے کہا کہ جامعہ کراچی سینیٹ کے 135 اراکین کو بشمول وائس چانسلر اور آئی سی سی بی ایس کے 150 تدریسی و غیر تدریسی اسٹاف کو نادرہ پنجوانی کے وکیل کی جانب سے لیگل نوٹس کا اجراء کوئی معمولی بات نہیں تھی لیکن نادرہ پنجوانی کے اس توہین آمیز رویے کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔
مقررین نے کہا اساتذہ، افسران اور ملازمین اب کسی با اثر شخص کو یہ اجازت نہیں دیں گے کہ وہ ادارے میں اپنے مفادات کے لیے قوانین کی دھجیاں بکھیر ے، اب کسی غیر قانونی اشتہار کے ذریعے من پسند ڈائریکٹر کی تقرری نہیں ہونے دی جائے گی۔
انہوں نے کہا خلافِ قانون بات یہ ہے کہ نئے ڈائریکٹر کی تقرری کے لیے مشتہر ہونے والے اشتہار کو تیار کرنے والے ایگزیکٹو بورڈ کی کارروائی میں comsats ایبٹ آباد کے ڈاکٹر جمشید اقبال بحیثیت رکن شامل تھے مگر ڈاکٹر جمشید اقبال ایگزیکٹو بورڈ کی کارروائی میں شرکت کے باوجود ڈائریکٹر کے عہدے کے لیے درخواست گزاروں میں شامل ہوگئے، دوسری جانب اس ایگزیکٹو بورڈ کی کارروائی کے منٹس کی تحریر بھی غیرقانونی طور پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن نے کی۔
مقررین نے یونیورسٹی کے انتظامی معاملات میں ریٹائر پروفیسروں اور سرمایہ داروں کی بے جا مداخلت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس مداخلت سے ریسرچ سینٹر کی تعلیمی و تحقیقی سرگرمیوں کو نقصان پہنچ رہا ہے، اقبال چوہدری سرمایہ داروں کے ساتھ مل کر ایک کٹھ پُتلی ڈائریکٹر لانا چاہتے ہیں کیونکہ ڈاکٹر اقبال چوہدری کی بے ایمانی پر اسپیشل آڈٹ کے 111 تحریری اعتراضات ڈیپارٹمنٹل آڈٹ کمیٹی میں موجود ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ہمیں اقبال چوہدری کی اپنے غیرقانونی تسلط کو دوبارہ بحال کرنے کی کسی قسم کی کوشش قبول نہیں، یونیورسٹی کے قوانین کو بالائے طاق رکھ کر من پسند ڈائریکٹر کی تقرری کسی بھی صورت میں یونیورسٹی کے مفاد میں نہیں۔