کسی بھی معاشرے کو ''اسلامائز'' یا اسلامی معاشرہ بنانے کےلیے ایمان اور اخلاق سے لوگوں کو مزین کیا جاتا ہے۔ معاشرے میں بسنے والے افراد کی ذہنی و فکری سطح کو بلند کرنے کےلیے سب سے پہلے ان کی سماجی سرگرمیوں کو اخلاقی حدود کا پابند بنانا لازم ہوگا، کیونکہ شریعت کا مقصد ہی ایمان کی مضبوطی اور اخلاقی تزکیہ ہے۔ ذات واحد پر کامل یقین اور بہترین اخلاق سے مزین افراد ہی اسلامی معاشرے کے مکمل عکاس ہیں۔
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے، اس سے مراد یہی ہے کہ اسلام ایمان و اخلاق کا ایک وسیع تر نظام ہے۔ ایمان خدائے برتر کی واحد اور اعلیٰ ذات پر، اور کوئی اس کا معبود اور ہمسر نہیں ہے۔ وہ تنہا ہر چیز کا خالق و مالک ہے، کوئی اس قابل نہیں کہ اس کی صفات میں بھی شریک بنایا جاسکے۔ ساری مخلوق اس خالق واحد کی ہی محتاج ہے۔
فرمان باری تعالیٰ ہے:
''لوگو! ایک مثال بیان کی جارہی ہے ذرا کان لگا کر سن لو! اللہ کے سوا جن جن کو تم پکارتے رہے ہو وہ ایک مکھی بھی تو پیدا نہیں کرسکتے، گو سارے کے سارے ہی جمع ہوجائیں بلکہ اگر مکھی ان سے کوئی چیز لے بھاگے تو یہ تو اسے بھی اس سے چھین نہیں سکتے، بڑا کمزورہے طلب کرنے والا اور بڑا کمزور ہے وہ جس سے طلب کیا جارہا ہے'' (الحج)
پھر فرمان ہے:
''اور تمہارے رب نے فرمایا ہے مجھے پکارو میں تمہاری دعا قبول کروں گا، بے شک جو لوگ میری عبادت سے سرکشی کرتے ہیں عنقریب وہ ذلیل ہوکر دوزخ میں داخل ہوں گے'' (غافر )
اور اس آیت مبارکہ میں دو ٹوک الفاظ کے ساتھ شرک کی ضرب کاری لگاتے ہوئے فرمایا ہے کہ ''واقعی تم اللہ کو چھوڑ کر جن کی عبادت کرتے ہو وہ بھی تم ہی جیسے بندے ہیں، سو تم ان کو پکارو پھر ان کو چاہیے کہ تمہیں جواب دیں اگر تم سچے ہو۔'' (الاعراف)
یہ ہے وہ خالص توحید، جس کا بار بار قرآن میں ذکر ہے۔ بار بار مختلف مثالوں کے ذریعے سے مسلمانوں کو متنبہ کیا جارہا ہے کہ شرک کی ہر قسم کی ڈگر سے ہٹ جائیں وگرنہ انجام سوائے رسوائی کے کچھ نہ ہوگا۔ لیکن ہمارا انحصار زیادہ تر سنے سنائے دین پر ہے۔ نہ ہم نے قرآن و سنہ کو پڑھنا ہے اور نہ ہی ہمیں صحیح دین کی سمجھ آنی ہے۔
پھر ایمان کے دائرہ میں انبیا پر ایمان، خدا کی برگزیدہ ہستیاں جو اللہ کے حکم کے پابند اور اس کا پیغام پہنچانے کےلیے وقتاً فوقتاً حالات و واقعات کی مناسبت سے دنیا میں بھیجے جاتے رہے، حضرت آدمؑ سے انبیا کا سلسلہ چلا اور آخری نبی حضرت محمدؐ کے ذریعے پایۂ تکمیل کو پہنچا۔ رسول اللہؐ کی کامل تعلیمات پر ایمان لاتے ہوئے آپؐ کی سنت پر عمل ہم پر فرض ہے۔ اللہ کی طرف سے رسول اللہؐ پر اتارے گئے اوامر و نواہی کا ایک مکمل سسٹم، جس کا دائرہ کار، عقائد، عبادات، قوانین و جزا و سزا، معاملات پر مشتمل ہے، یہ سب ایمان کے دائرے میں آتے ہیں، جن پر ایمان اور مکمل عمل ہی ہمارے مسلمان ہونے کی دلیل ہے۔
اب اسلامی نظام حیات کا دوسرے پہلو 'اخلاق' ہے۔ ایک مسلمان سے یہ مکمل تقاضا کیا جاتا ہے کہ ایمان کے شعبے میں کامل ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین اخلاق سے مزین بھی ہو، کیونکہ یہی تو اسلام کی روح ہے۔ رسول اللہؐ اخلاق کے بلند ترین مقام پر فائز تھے۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے لوگوں نے پوچھا تھا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا خلق کیا تھا جس کی حق تعالیٰ نے قرآن شریف میں تعریف کی ہے؟ حضرت صدیقہ رضی رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ: ''آپ کا خلق قرآن تھا'' یعنی جس چیز کو حق تعالیٰ نے اچھا فرمایا ہے وہی آپ کی طبیعت چاہتی تھی اور جس چیز کو حق تعالیٰ نے قرآن شریف میں برائی سے یاد کیا ہے اس سے آپ کی طبیعت کو نفرت تھی''۔
آپؐ اخلاق کے بلند ترین مقام پر فائز تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دستور یوں تھا کہ جب آپ فجر کی نماز سے فراغت پاتے تھے تو اس وقت لونڈیاں اور غلام مدینے والوں کے برتن میں پانی لے کر آتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس پانی کو اپنے دستِ مبارک سے چھولیں، تاکہ وہ پانی متبرک ہوجائے اور اس کو اپنے کھانے اور پینے کی چیزوں میں ڈالیں اور کبھی سردی کا موسم بھی ہوتا تھا اور برتن بہت سے ہوتے تھے، سب میں ہاتھ ڈالنے سے آپ کو تکلیف بھی ہوتی، لیکن باوجود اس رنج اور تکلیف کے آپ کسی کی دل شکنی نہیں کرتے تھے اور سب برتنوں میں اپنا دست مبارک ڈالتے تھے۔ یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم اخلاق کی ایک جھلک ہے، جس پر ہمیں بھی عمل کرکے اپنی زندگی بسر کرنی چاہیے۔
لیکن ہم مسلمان جیسے جیسے زندگی میں آگے گزر رہے ہیں اخلاقی طور پر پستی کا شکار ہوتے جارہے ہیں۔ بعض اوقات بہت ناپسندیدہ کام قانون کے دائرہ کار میں نہیں آتے لیکن اخلاقی حدود میں وہی چیزیں بے حد نفرت انگیز محسوس ہوتی ہیں۔ جب تک معاشرہ اخلاق سے مزین نہیں ہوگا، رسول اللہؐ کی تعلیمات پر مکمل طور پر عمل نہیں ہوسکتا۔
رسول اللہ کے امتی ہونے کے ناتے ہم پر پر ٖفرض ہے کہ اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کیا جائے اور یہ وہ سنت موکدہ ہے جس پر رسول اللہؐ بعثت سے پہلے بھی سختی سے کاربند تھے اور بعد میں اعلیٰ ترین مقام پر فائز ہوئے۔ سنت موکدہ رسول اللہؐ کے ایسے عمل کو کہتے ہیں جس پر حضورؐ نے اپنی پوری زندگی عمل کیا ہو، لہٰذا سنت موکدہ ایک طرح سے فرض کے دائرہ میں ہی آجاتی ہے۔
آج ہم مغربی ممالک کی مثالیں دیتے نہیں تھکتے۔ حقیقت میں انہوں نے اخلاقی اقدار کی پاسداری کی ہے، اور اسی اخلاقی برتری کی وجہ سے اپنے ممالک کو بے مثال معاشرہ بنالیا ہے۔ ہم بحیثیت مسلمان اس بات کے زیادہ متقاضی ہیں کہ رسول اللہؐ کی سنت مبارکہ کے اس پہلو کو زیادہ سے زیادہ اجاگر کریں اور اپنائیں، اور اخلاقی امور کو بھی عبادات کی طرح اپنے اوپر لازم کریں، تب ہی ہمارا معاشرہ صحیح معنوں میں اسلامی معاشرہ کہلانے کا حقدار ہوگا۔