ن لیگ کے مسودے میں وفاقی آئینی عدالت ہے جبکہ پی پی صوبوں میں بھی چاہتی ہے، بلاول بھٹو

  اسلام آباد: پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ وفاق کے ساتھ صوبائی سطح پر بھی معاملات چلانے کیلیے آئینی عدالت قائم کی جائے جبکہ یہ چیز ن لیگ کے مسودے میں شامل نہیں ہے۔

ایکسپریس نیوز کے پروگرام ’’ سینٹر اسٹیج ‘‘ میں میزبان رحمان اظہر کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ امید رکھنی چاہیے کہ آئینی ترامیم پر اتفاق رائے پیدا ہو جائے گا، سیاسی جماعتوں کا کام یہی ہے کہ اتفاق رائے سے مسائل کا حل نکالیں۔ مولانا فضل الرحمان اتفاق رائے پیدا کرنے لیے تیار ہیں ۔ پیپلز پارٹی کی اصل تجویز یہ تھی کہ آئینی عدالت وفاقی سطح پر بھی ہو اور صوبائی سطح پر بھی ہو،  آرٹیکل 63 اے سے متعلق نظر ثانی فیصلہ آنے کے بعد حکومت کی ضرور سوچ ہو گی کہ جلد نمبرز پورے ہوں لیکن میں حکومت کو قائل کرنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ اتفاق رائے سے قانون سازی کی جائے۔۔ہم کوئی سپریم عدالت بنانے کی بات نہیں کر رہے ہم چاہتے ہیں کہ آئین سپریم ہو ، اورآئین کی تشریح دینے والے بھی اپنی ذمہ داری نبھائیں۔ کہتے ہیں کہ نواز شریف سے میری ملاقات اچھی رہی،جو کام ہم سے ماضی میں رہ گیا وہ اب ہو سکتا ہے ۔

انہوں نے مزید کہا کہ  میں پر امید ہوں کہ اتفاق رائے سے آئینی ترامیم ست متعلق مسودہ بنا سکیں گے، جہاں تک جے یو آئی ف اور پیپلز پارٹی کے ڈرافٹس ہیں ان میں کوئی بڑا فاصلہ نہیں ہے، ان شاء اللہ ہم آگے بڑھ کر سیاسی جماعتوں میں اتفاق رائے پیدا کر سکیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ امید رکھنی چاہیے کہ آئینی ترامیم پر اتفاق رائے پیدا ہو جائے گا ،سیاسی جماعتوں کا کام یہی ہے کہ اتفاق رائے سے مسائل کا حل نکالیں۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے مسودہ تو بہت پہلے بنایا تھا ،ہم نے یہ ڈرافٹ حکومت اور مولانا فضل الرحمان سے شیئر بھی کیا تھا۔ مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کے بعد پر امید ہوں اتفاق رائے سے قانون بنا سکیں گے ،مولانا اور پیپلز پارٹی کی جماعت نے تو ملک کو آئین دیا ہے،  مولانا فضل الرحمان اتفاق رائے پیدا کرنے لیے تیار ہیں ، ہم محنت کر رہے ہیں اس محنت کا پھل نکلے گا۔

آج ہونے والے کمیٹی اجلاس سے متعلق بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اجلاس میں پیپلز پارٹی نے اپنا مسودہ پیش کیا، پیپلز پارٹی کی اصل تجویز یہ تھی کہ آئینی عدالت صوبائی سطح پر بھی ہو ۔ ہمارا پہلے دن سے موقف رہا کہ صوبائی سطح پر آئینی معاملات کے لیے باقاعدہ عدالت بنے، ن لیگ کے مسودے میں وفاق کی سطح پر آئینی عدالت کا ذکر ہے صوبائی سطح پر نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جیسے ہی اتفاق رائے ہو آئینی ترمیم ہو جانی چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 63 اے کا غیر آئینی فیصلہ دیا گیا تھا اور اُس غلط فیصلے کی وجہ سے حکومت کو مشکلات کا سامنا تھا لیکن اب سپریم کورٹ کا نظر ثانی فیصلہ آنے کے بعد اور وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کی بات سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت کے پاس نمبر پورے ہوں گے ، لیکن ہمارا موقف ہے اتفاق رائے سے ایسی قانون سازی کرنی چاہیے۔  ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی ضرور سوچ ہو گی کہ جلد نمبرز پورے ہوں لیکن میں حکومت کو قائل کرنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ اتفاق رائے سے قانون سازی کی جائے ۔

چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ہم کوئی سپریم عدالت بنانے کی بات نہیں کر رہے ۔ عوام کو مقدمات میں انصاف دلانا ہمارا مقصد ہے ہم چاہتے ہیں کہ آئین سپریم ہو ، اورتشریح دینے والے بھی اپنی ذمہ داری نبھائیں۔ ہم چاہ رہے ہیں کہ کریمنل کیسز دوسری عدالتیں دیکھیں تاکہ فوری انصاف کی فراہمی ممکن ہو۔ میں نہیں سمجھتا 2006 میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ عدالتی اصلاحات لائیں گے ۔ کوئی یہ نہیں کہتا کہ آپ نے دو دو ادارے کھڑے کر دیے ، اس عدالت کا کام ہو گا کہ وہ آئینی معاملات کو دیکھے ۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ سب کا حق ہے کہ انہیں انصاف ملے ۔ اگر سپریم کورٹ کہہ دے کہ ہم نے کریمنل معاملات نہیں دیکھنے تو بتا دیں ، عوام کو تحفظ دینے کی بجائے وزرائے اعظم کو ہٹانے کے لیے اختیارات استعمال ہوئے ۔ ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ججز تو سپریم ہیں وہ تو وزرائے اعظم کو گھر بھیج سکتے ہیں، ہم تو مار کھانے کے لیے بیٹھے ہیں۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ آئین توڑا جائے اور ہم خاموش رہیں۔

چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی کا کہنا تھا کہ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف سے میری ملاقات اچھی رہی، نواز شریف کافی تجربہ کار ہیں وہ کئی اہم عہدوں پر رہے ہیں، جو کام ہم سے ماضی میں رہ گیا وہ اب ہو سکتا ہے ۔