شنگھائی تعاون تنظیم اور ملکی برآمدات

محمد ابراہیم خلیل  ہفتہ 12 اکتوبر 2024

2011 میں روس، چین اورکئی وسط ایشیائی ممالک کرغزستان، قازقستان، تاجکستان نے مل کر ایک بین الحکومتی، بین الاقوامی تنظیم کی بنیاد رکھی۔ ابھی اسے دنیا کی سب سے بڑی آبادی کے لحاظ سے اور رقبے کے لحاظ سے بھی علاقائی تنظیم بننے میں کچھ وقت درکار تھا، لیکن جلد ہی بھارت اور پاکستان بھی اس کے ممبر بن گئے، بعد میں ایران بھی ممبر بن گیا۔

بس پھر کیا تھا ذرا نظر تو ڈالیے روس رقبے کے لحاظ سے اور چین اور بھارت آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پہلا اور دوسرا ملک ان سب کی شمولیت سے اب اس اعتبار سے اس کا کوئی ثانی نہیں۔ یوں تمام ممبر ممالک کی مجموعی آبادی ملا کر دنیا کی 42 فی صد مجموعی آبادی ان ملکوں کی بنتی ہے۔ یعنی 100 میں سے 42 افراد کہہ سکتے ہیں کہ ہم ایس سی او کے ممبر ممالک میں سے فلاں ملک کے باشندے ہیں اور دنیا میں ہمارا مستقبل بھی تابناک ہے اور مزید بن سکتا ہے۔ اس وقت تو دنیا کی معیشت کا 20 فی صد GDP اس خطے سے آتا ہے، لہٰذا اس کی اہمیت انتہائی واضح ہے۔

اس کی انتہائی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے بھارت نے بھی شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس جوکہ 15 اور 16 اکتوبر 2024 کو اسلام آباد میں منعقد ہو رہا ہے۔ بھارتی وزیر خارجہ کی شرکت سے واضح ہے کہ بھارت اس تنظیم کی اہمیت سے خوب واقف ہے۔ پاکستان سی پیک کی تکمیل کے ساتھ ساتھ اس تنظیم میں انتہائی اہمیت کا حامل بنتا چلا جا رہا ہے۔

اب ہم اس جانب رخ کرتے ہیں کہ کن ملکوں کے ساتھ ہماری باہمی تجارت نسبتاً بہتر ہے۔ ظاہر ہے ان میں ہمارے پڑوسی دوست ملک چین کا نام صف اول پر نظر آتا ہے۔ برصغیر اور چین کے ساتھ تجارتی تعلقات کو ہزاروں سال پرانا کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ ان دنوں چین کے ساتھ تجارت کے لیے شاہراہ ریشم کا روٹ استعمال کیا جاتا تھا۔ چینی تاجر برصغیر کے مختلف علاقوں میں جا کر تجارت کرتے تھے۔ خلافت عباسیہ کے قیام کے بعد بغداد تک ان تاجروں کی آمد و رفت تھی جس کے لیے ظاہر ہے وہ پاکستانی علاقوں سے ہی گزر کر جاتے تھے۔ کئی عالمی شہرت یافتہ سیاح بھی ہمارے علاقوں سے گزر کر چین تک جا پہنچے تھے۔ قصہ مختصر اگر برآمدات کے لحاظ سے دیکھیں تو چین کے لیے ہماری برآمدات تجارت خارجہ کے ذیل میں دوسرے نمبر پر ہے۔

اعداد و شمار کے لحاظ سے چین کے لیے ہماری برآمدات مالی سال 2023-24 کے لیے 7 کھرب 27 ارب 90 کروڑ روپے ہونے کے باعث کل برآمدات میں اس کا شیئر 8.39 فی صد بنتا ہے لیکن برآمدات کے بڑے حجم کو دیکھ کر یہ نہیں کہہ سکتے کہ برآمدات زیادہ یا مناسب یا اطمینان بخش ہے۔ قطعاً نہیں بلکہ درآمدات پر نظر ڈالیں گے تو یہ کم دکھائی دے گا کیونکہ درآمدات میں چین کا حصہ27 فی صد بنتا ہے۔ لہٰذا ہم اس بات پر توجہ دیں کہ چین کے لیے ہماری برآمدات کا حجم زیادہ سے زیادہ ہو۔

اب ایران کا تذکرہ جو برادر اسلامی ملک اور پڑوسی ملک بھی ہے۔ ہزاروں سال سے ایران اور ہمارے خطے کے درمیان بھائی چارہ قائم ہے۔ ایران کے لیے ہماری برآمدات قابل ذکر نہیں ہے، البتہ ہم بڑے پیمانے پر ایران سے درآمدات کرتے رہتے ہیں۔اسلامی جمہوریہ ایران سے ہم نے سال 2023-24 کے دوران 2 کھرب 94 ارب 60 کروڑ روپے کی برآمدات کر چکے ہیں اور کل درآمدات میں اس کا حصہ 1.90 فی صد بنتا ہے۔ اسی سال 22 اپریل کی بات ہے جب پاکستان اور ایران نے اس بات پر اتفاق کیا کہ دونوں ممالک کے درمیان تجارتی حجم 10 ارب ڈالر تک بڑھایا جائے گا اور دونوں ملکوں کے درمیان 8 شعبوں میں مفاہمتی یاد داشتوں پر دستخط بھی ہوئے۔

ہمارا سب سے اہم ترین مسئلہ گیس کا ہے۔ گیس فراہمی کے سلسلے میں ایران ہر طرح سے تعاون کے لیے تیار ہے، لہٰذا حکومت اس مسئلے کو ترجیح دے کر اسے حل کرنے کی کوشش کرے۔ پاک روس تجارت کے سلسلے میں بارٹر ٹریڈ کو اہمیت دی جا رہی ہے۔ پاکستان کو دیگر ملکوں کے ساتھ بھی اس قسم کی تجارت کو لے کر چلنا چاہیے،کیونکہ اس سے زرمبادلہ کی قلت کے باعث ہمارے کنٹینرز بندرگاہوں پر کھڑے رہتے ہیں اس میں کمی آجائے گی۔ گزشتہ دنوں ماسکو میں ایک معاہدہ طے پایا جس کے تحت ایک پاکستانی کمپنی روسی کمپنی کو 20 ہزار ٹن چاول فراہم کرے گی اور بدلے میں روسی کمپنی پاکستانی کمپنی کو 20 ہزار ٹن چنے فراہم کرے گی۔ اس سے ہمارے لیے ڈالرز کی بچت ہوگی۔

پاکستان اپنی ضرورت کا تیل روس سے بھی خریدتا ہے جس پر بھاری زرمبادلہ خرچ کیا جاتا ہے۔ یوکرین جنگ کے باعث روس کا رجحان بارٹر ٹریڈ کی جانب ہوا ہے۔ پاکستان اس موقع سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ روس میں ٹیکسٹائل مصنوعات کی بڑی طلب ہے۔

اسی طرح سرد ملک ہونے کے باعث لیدر جیکٹ اور چمڑے کی دیگر مصنوعات کی بڑی مقدار میں طلب کو پورا کرنے کے لیے پاکستان تیل کے بدلے بارٹر ٹریڈ کا سہارا لے جس سے پاکستان کو بڑی مقدار میں اربوں ڈالرز کی بچت کا بھرپور موقع مل سکتا ہے۔ دیگر ممالک کے ساتھ ہم اپنی تجارت کو بڑھا سکتے ہیں جوکہ فی الحال بہت ہی کم مقدار میں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔