تیرا کیا بنے گا کالیا؟

سعد اللہ جان برق  ہفتہ 12 اکتوبر 2024
barq@email.com

[email protected]

ہم بنیادی طور پر کسان ہیں اور کسان جب قرض لیتا ہے۔تو کسی’’فصل‘‘ کے بھروسے پر لیتا ہے اس امید پر کہ آنے والی فصل میں چکا دوں گا لیکن کبھی کبھی ایسا ہوجاتا ہے کہ فصل پر کوئی آفت آجاتی ہے اور قرض کی ادائیگی بھی نہیں ہوجاتی اور گزارے کے لیے اسے مزید قرضہ لینا پڑتا ہے اور اگر قرضہ کسی سود خور ساہوکار کا ہو تو ’’سود‘‘ بھی بڑھتا جاتا ہے۔ہمارے گاؤں میں ہندوؤں کا صرف ایک ہی خاندان تھا جس کا سربراہ انوپ سنگھ عرف ’’نولے‘‘ تھا۔

نولے اپنے فن میں اتنا طاق تھا کہ آج بھی اگر کسی دکاندار کو بُرا کہنا ہو تو لوگ اسے ’’نُولے‘‘ کہتے۔ نولے اصل میں ایک’’سٹی وال‘‘  تھا ’’نُولے‘‘ کا طریقہ واردات یہ تھا کہ وہ کوئی نئی کھانے کی چیز مٹھائی یا میوہ لاتا تھا۔تو اپنے ساتھ بیٹھنے والوں سے کہتا’’نیکہ تلے کا‘‘ یعنی نائیک جی ہتھیلی کر۔پھر اس کی ہتھیلی پر وہ چیز تھوڑی سی رکھ دیتا تھا۔نائیک کو اس چیز کا چسکہ پڑجاتا تو ’’نُولے‘‘ اس کے نام قرض کا کھاتہ کھول دیتا تھا۔پھر اس آدمی کو پتہ بھی نہ چلتا اور قرضے کے عوض اس کی زمین’’نولے‘‘ کی ہوجاتی یعنی بات ہتھیلی سے شروع ہوکر ’’انگوٹھے‘‘ تک پہنچ جاتی۔لیکن اس سے بھی زیادہ کمال وہ سود پر قرض دے کر کرتا تھا لیکن اس نے یہ’’آئی ایم خانہ‘‘ طریقہ اختیار کیا تھا کہ جسے قرض دیتا تھا اسے دل کھول کر خرچ کرنے اور شادی غمی میں ’’نام‘‘ کرنے کے طریقے بھی بتادیتا ، کسی کا ارادہ دس’’دیگیں‘‘ پکانے کا ہوتا تو’’نولے‘‘ اسے بیس دیگیں پکانے اور نام کرنے کا مشورہ دیتا چونکہ سامان بھی نولے ہی مہیا کرتا اس طرف سے بھی قینچی چلا دیتا۔

اس کے لیے وہ خریدار کو چاول کے ایسے نرخ بتاتا جو بازار سے بہت کم ہوتے تھے۔لیکن دوسری باقی چھوٹی چیزوں مرچ مصالحوں اور چینی سوجی میں ڈنڈی مار دیتا تھا۔یہ بھی کہا جاتا تھا کہ وہ اپنے مقروضوں کی فصلوں کے ساتھ بھی کچھ ایسا کرتا کہ فصل تباہ ہوجاتی، کھیتوں میں بے وقت پانی چھوڑنا خاص طور پر آندھیوں کے موسم،تیار فصل کو یا کلبان میں آگ لگنا۔راتوں رات کسی کی فصل کو جانوروں کے ریوڑ چرجاتے تھے۔

جب بھی آئی ایم ایف کے قرضوں کے بارے میں سنتا ہوں تو مجھے ’’نُولے‘‘ یاد آجاتا ہے۔جس نے اپنا ’’امیج‘‘ ہمدرد کا بنایا ہوا تھا اور بے دردی سے لوگوں کی زمینیں ہتھیایا کرتا تھا۔لیکن ایک فرق جو ان دونوں کہانیوں کو ایک دوسرے سے الگ کرتا ہے، وہ یہ ہے کہ میرے گاؤں کے کسان تو کچھ’’بو‘‘ کر ’’فصل‘‘ کے بھروسے پر قرض لیتے تھے لیکن میرے اس بڑے’’کھیت‘‘ پاکستان کے کسان’’کس‘‘ بھروسے پر قرض لیتے ہیں بلکہ قرض کے اوپر قرض لے رہے ہیں، سود کی ادائیگی کے لیے بھی قرض لے رہے ہیں۔کس توقع اور کس بھروسے پر،کیا انھوں نے کچھ’’بویا‘‘ ہے۔ان کی کوئی قیمتی فصل آنے والی ہے کسی کٹائی کی امید ہے؟ایسا تو کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا کیونکہ کھیت کی فصل کو تو یہ پہلے ہی بیچ کر کھا پی چکے ہیں،یہ’’فصل‘‘ جسے ’’عوام کالانعام‘‘ بھی کہتے ہیں کھاد اور پانی یا گوڈی نلائی سے محروم اتنی ’’کمزور‘‘ ہوچکی ہے کہ بار آور ہونے کے لیے اس میں کچھ بچا ہی نہیں

رہی نہ طاقت گفتار اور اگر ہو بھی

تو کس امید پہ کہیئے کہ آرزو کیا ہے

کیا کسی ’’دفینے‘‘ کے ملنے کی امید ہے۔کسی رحمت کی بارش کی توقع ہے۔کیا کسی گڈریے کی طرح بھیڑوں کے بچوں کے جوان ہونے کی امید ہے۔ایسا کیا ہے ہمیں تو ایسا کچھ دکھائی نہیں دیتا جس سے ہم اچانک کوئی قارون کا خزانہ پالیں گے۔جہاں تک’’کالانعام‘‘ کا تعلق ہے تو ان کو تو پہلے ہی اتنا توڑا نچوڑا اور ککوڑا جاچکا ہے کہ زندہ رہنے کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔مہنگائی،بے روزگاری،کرپشن اور بے انصافی کے خنجروں سے اتنا گھائل کیا چکا ہے کہ جاں بلب ہوچکے ہیں آخر اس’’مردے‘‘ کو’’شامدار‘‘ کب تک کہاں تک اور کتنا مارے گا؟

دنیا کا مستند اصول ہے کہ جب کسی شخص کسی خاندان یا کسی ملک پر ایسی ادبار کی حالت آتی ہے تو اس کا واحد علاج’’بچت‘‘ ہوتا ہے پشتو میں ایک کہاوت بلکہ دو کہاوتیں ہیں۔ایک یہ کہ،سو کمانے والوں میں ’’ایک‘‘ بچانے والا اچھا ہوتا ہے۔دوسری کہاوت ہے کہ اگر تم کما نہیں سکتے تو جو کچھ بچاؤگے وہی تمہاری کمائی ہے۔لیکن یہاں ایسا کچھ نہیں ہے اس نحیف ونزار ملک پر انکم سپورٹ،کارڈز،خیراتوں کے بوجھ مزید بھاری کیے جارہے اس کی پیٹھ پر وزیروں مشیروں معاونوں اور نہ جانے کیا کیا کچھ لادا جارہا ہے پکڑ پکڑ کر سواریاں بٹھائی جارہی ہیں۔

محکمے اور ادارے جو پہلے ہی زیادہ’’بھرتی‘‘ کے باعث خسارے میں چل رہے ہیں ان میں منتخب نمایندے مزید اپنے نکھٹو گھسا رہے، طرح طرح کی اسٹینڈنگ، سپلنگ،اور رننگ کمیٹیاں بنائی جا رہی ہیں۔سمجھ میں نہیں آتا کہ اس پر رویا جائے یا ہنسا جائے۔حالانکہ ایک دنیا جانتی ہے ستتر سال سے کسی’’وزیر‘‘ سے کسی بھی محکمے کا ’’بھلا‘‘ نہیں ہوپایا۔ ہمیشہ بُرا ہی بُرا ہوتا ہے کہ وہ اپنے پورے خاندان اور ٹیم کے ساتھ اس محکمے پر یوں پل پڑتا ہے جیسے کوئی فاتح کسی مفتوح شہر پر پل پڑتا ہے لیکن اب وزیروں کے ساتھ مشیروں اور معاونوں کے ’’دم چھلے‘‘ بھی لگائے جا رہے ہیں۔

مشیر برائے اطلاعات،معاون برائے جنگلات،برائے صحت، برائے مالیات، برائے تعلیم، برائے یہ، برائے وہ، اس کا ایک مطلب تو یہ بھی ہے کہ ’’متعلقہ‘‘ وزیر فضول نکمے اور نکھٹو نا اہل ہیں تب ہی تو مشیروں اور معاونوں کی ضرورت پڑگئی تو پھر ایسا ہی کیوں نہیں کرتے کہ اس محکمے یا ادارے کو یا وزیر، وزیراعلیٰ یا وزیراعظم ہی کوفارغ کر دیا جائے جو اضافی مشیروں کے بغیر چل نہیں پارہا ہے۔حرف آخر یہ کہ آئی ایم ایف قرضے کی مزید قسطیں دینے کے لیے’’راضی‘‘ ہوگیا کیونکہ اس کی ’’شرائط‘‘ پوری کردی گئیں

’’آمدنی چونی اور خرچ اٹھنی‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔