رتن ٹاٹا… ٹاٹا گڈ بائی ہو تو ایسا

خالد محمود رسول  ہفتہ 12 اکتوبر 2024

بھارت اور دنیا بھر میں معروف بزنس مین رتن ٹاٹا رواں ہفتے 86 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔ وہ ٹاٹا گروپ کے سابق چیئرمین اور چیئرمین ایمرائٹس تھے۔ٹاٹا گروپ بھارت کے چند پرانے کاروباری گروپس میں سے ایک ہے جس کا کاروباری دورانیہ 158 سال کا ہو چکا ہے۔گزشتہ 30 سالوں میں ٹاٹا گروپ نے حیرت انگیز ترقی سے ملک کے اندر اور بیرون ملک دنیا میں اپنی شناخت بنائی اور منوائی۔ یہی وجہ ہے کہ رتن ٹاٹا کی وفات پر بھارت میں وزیر اعظم اور کاروباری حلقوں سے لے کر عام آدمی نے اپنے بھارتی سپوت کو خراج عقیدت پیش کیا۔

رتن ٹاٹا 1937میں سورت شہر میں پیدا ہوئے۔ امریکا کی معروف کورنیل یونیورسٹی سے آرکیٹیکچر میں تعلیم حاصل کی۔ واپس آئے تو 1962میں ٹاٹا گروپ کی ایک کمپنی میں پہلے بطور ٹرینی اور بعد ازاں اسسٹنٹ کے طور پہ کچھ عرصہ کام کیا۔ اس کے بعد انھوں نے مختلف گروپ کمپنیز میں کام کیا۔نام کے ساتھ ٹاٹا کی نسبت اپنی جگہ بنائی لیکن انھوں نے اپنی صلاحیتوں، ویژن، دھیمے اور با اعتماد انداز سے اپنی منفرد شناخت بنائی۔

70/ 80 کی دہائی کے دوران بھارت میں کاروبار ریگولیشنز کے جال میں شدید الجھا رہا۔ ان حالات میں گروپ کے پھیلاؤ اور سرمایہ کاری میں مسلسل اضافہ اور نئے سیکٹرز میں حصہ لینا ہمیشہ ایک چیلنج رہا۔رتن ٹاٹا نے اس مشکل کاروباری ماحول میں گروپ کی سینئر مینجمنٹ تک ترقی کی اور پھر وہ تاریخی لمحہ آیا جب 60 سال تک گروپ چیئرمین جے آر ڈی ٹاٹا کو اپنے جانشین کا فیصلہ کرنا تھا۔گروپ میں کم از کم چار لوگ انتہائی باصلاحیت اور عمدہ کارکردگی کی بنا پر امیدوار تھے۔

تاہم جے آر ڈی ٹاٹا نے رتن ٹاٹا کا انتخاب کیا۔ وقت نے دیکھا کہ رتن ٹاٹا نے اپنے انتخاب کو بہترین انداز میں صحیح ثابت کر دیا۔ رتن ٹاٹا نے1991میں ٹاٹا گروپ کے چیئرمین کا عہدہ سنبھالا تو گروپ کا سالانہ ریونیو چار ارب ڈالر تھا۔ 2012میں چیئرمین شپ سے رتن ٹاٹا کے ریٹائر ہونے پر گروپ کا ریونیو ایک سو ارب ڈالر کراس کر چکا تھا۔گزشتہ سال ٹاٹا گروپ کا سالانہ ریوینیو 165ارب ڈالر تھا۔

بطور چیئرمین رتن ٹاٹا نے گروپ کی کمان سنبھالی تو جے آر ڈی ٹاٹا کی 60سالہ گورننس کے بعد اپنا مقام بنانا آسان نہ تھا۔ 90 کی دہائی سے بھارت میں ریفارمز کا عہد شروع ہوا جس کے نتیجے میں کاروبار اور سرمایہ کاری کے نئے مواقع پیدا ہوئے۔ان اصلاحات کے نتیجے میں بھارت کے نجی سیکٹر نے حیرت انگیز ترقی کی یہاں تک کہ گزشتہ کئی سالوں سے بھارت دنیا کی چند بڑی معیشتوں میں سے ایک بن گیا ہے۔

رتن ٹاٹا نے عہدہ سنبھالا تو گروپ میں بہت حد تک خود مختار ڈویژنز اپنے اپنے فیلڈز میں کام کرتے تھے تاہم رتن ٹاٹا نے خود مختار اور نیم خود مختار گورننس اسٹرکچر کو ایک مربوط مرکزی نظم میں تبدیل کیا۔اس کے ساتھ ہی سیمنٹ ٹیکسٹائلز اور فارما سیوٹیکل سمیت بہت سے کاروبار بیچ دیے جو نقصان کا باعث تھے یا ان میں گروتھ کے چانسز بہت کم تھے۔ سافٹ ویئر اور اسٹیل بزنس کے ساتھ ساتھ نئے بزنسز کی طرف فوکس ہوا جن میں ٹیلی کمیونیکیشنز، کار سازی، ایوی ایشن، انشورنس، فنانس اور ریٹیل انڈسٹریز شامل ہیں۔

بھارت سے باہر کئی بڑے کاروبار خریدے جس کے نتیجے میں ٹاٹا گروپ کا نام دنیا کے تمام بڑے ممالک اور براعظموں میں نمایاں ہوا۔رتن ٹاٹا کی ان کامیابیوں کے ساتھ ساتھ ان کی ناکامیاں بھی قابل ذکر ہیں کہ کامیابی اور ناکامی دھوپ چھاؤں کا لازمی کھیل ہے۔ کارسازی میں قدم رکھا تو کار ڈویژن کو 90کی دہائی کے وسط میں پانچ سو کروڑ کا نقصان ہوا۔ شیئر ہولڈرز نے خاصا ہنگامہ برپا کیا جس پر رتن ٹاٹا نے مستعفی ہونے کی پیشکش بھی کر دی۔ 2005 میں رتن ٹاٹا نے دنیا کی سستی ترین کار بنانے کا اعلان کیا۔تاہم مختلف وجوہات کی بنا پر یہ پروجیکٹ لانچ ہونے کے بعد کامیابی سے ہمکنار نہ ہو سکا اور اپنے پیچھے ٹھیک ٹھاک نقصان چھوڑ گیا۔

2001 میں ایک گروپ کمپنی میں 500 کروڑ کا فراڈ سامنے آیا جو ایک بہت بڑا جھٹکا تھا۔ 2011 ء میں ایک پرانے کاروباری رفیق کے بیٹے کو اپنا جاننشین بنایا، تاہم چار سال بعد اسے بزور برخاست کیا گیا۔ جس کے بعد ان کے جانشین مستری اور ان میں ایک طویل قانونی جنگ کا آغاز ہوا۔اس سے قبل 2008ء کے لگ بھگ ٹو جی لائسنس کے سلسلے میں انھیں ایک پبلک ریلیشن فرم کی ریکارڈ کی گئی ٹیپس میں مبینہ بے ضابطگیوں کے لیے ملوث بتایا گیا۔

گزشتہ 30 سالوں کے دوران ایشیاء کے بہت سے ممالک میں نجی سرمایہ کاروں نے ملکی معیشت کا رخ بدلنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ جنوبی کوریا میں بڑے گروپس ،ہانگ کانگ میں لی کا شنگ سمیت انڈونیشیا ،سنگاپور اور ملائشیا میں ایسے درجنوں سرمایہ کار اور کاروباری شخصیات ہیں جنھوں نے اپنے اپنے ملک کی معیشت کی کایا پلٹنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ پاکستان اس اعتبار سے خسارے میں رہا۔ انٹرپنیور شپ یا کاروباری ادارے قائم کرنے کی صلاحیت خداداد بھی ہے اور بہت حد تک اس کے لیے حکومتی پالیسیاں، کاروبار دوست ماحول ،موافق حالات اور دیگر اسباب بھی اہم ہوتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔