کہاں تک پہنچے گی داستان

شہلا اعجاز  اتوار 13 اکتوبر 2024

وہ بڑی تندہی سے سڑک کے کنارے بڑی سی جھاڑو تھامے جتی ہوئی تھی اس سے کچھ فاصلے پر پیلے سے رنگ کا ایک بڑا سا ڈبہ نما پہیوں پر سرکاتا ایک نوجوان چلا آ رہا تھا۔ بظاہر یوں لگتا تھا کہ لڑکی کوڑا جمع کرے گی اور اس ڈبے میں ڈال دے گی جیسا کہ اسے کرنا ہی تھا لیکن اس نے کوڑا جمع کرکے سڑک کے ساتھ ٹوٹے ہوئے نالے میں پھینکنا شروع کردیا پیچھے ہی وہ نوجوان اپنا ڈبہ سرکاتا چلا آ رہا تھا۔ یہ ایک حیران کن عمل تھا کہ جس مصرف کے لیے کام کیا جا رہا ہے، اسے ہی غرق کرنے کی تیاریاں جاری تھیں۔سامنے ہی دکانوں کے باہر ناجائز تجاوزات ہٹانے کے لیے عملہ مستعد تھا ان کا ٹرک نالے کے ساتھ ہی کھڑا تھا۔

’’بات سنو! تم یہ کوڑا نالے میں کیوں ڈال رہی ہو؟‘‘

اس نے چونک کر سراٹھایا جیسے سوال ہی غلط ہو۔

’’اس کوڑے کو نالے میں پھینک رہی ہو، اس طرح یہ نالہ بند ہو جائے گا، یہ نالہ کوڑا پھینکنے کے لیے نہیں ہے۔‘‘

’’ادھر کتنا کوڑا پڑا ہے یہ تو دیکھیں۔‘‘ وہ اپنے کرتوت پر ذرا بھی شرمندہ نہ تھی الٹا بحث کر رہی تھی۔

’’تو تم اور کوڑا ڈال کر اسے بھر دو، اس طرح کوڑا ڈالتی رہیں تو یہ پورا بھر جائے گا اسے اگر دوبارہ ڈالا نا تو یہ سامنے محکمے والے کھڑے ہیں یہ دیکھو ان کا ٹرک بھی کھڑا ہے ابھی تمہاری کمپلین ان سے کرتی ہوں۔‘‘

اس نے ایک نظر اینٹی انکروچمنٹ کے دور کھڑے عملے پر ڈالی اور مستعدی سے جھاڑو دینے لگی، کوڑا اس نے اس پیلے ڈبے میں ڈالنا شروع کر دیا تھا۔

ہم میں سے کتنے لوگ سڑک پر چلتے پھرتے ایسے لوگوں کو دیکھتے ہیں جو بظاہر کام ہی کر رہے ہوتے ہیں لیکن ان کی لاپرواہی اور غفلت ایک کام کرتی ہے تو دوسرا کھڑا کر دیتی ہے۔ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ اسی طرح کے مسائل کے حل کے لیے کام تو کرتی ہے لیکن افسوس کے ساتھ اس پر عمل جس طرح کیا جاتا ہے وہ تشویش کا باعث ہے۔

سالڈ ویسٹ مینجمنٹ ایک ایسا مکمل عمل ہے جس کے ذریعے سالڈ ویسٹ یعنی کوڑا کرکٹ کو جمع کرنا، اس کو تلف کرنا اور مختلف مدارج کے بعد جانچ پڑتال کرکے ری سائیکل یعنی دوبارہ قابل استعمال بنانا، جلانا وغیرہ شامل ہے، مختلف ممالک میں اس ادارے کو منہ بنا کر بڑے بڑے کام کیے جا رہے ہیں۔ اس کے ذریعے وہ تمام مفید کوڑا کرکٹ جسے ایک آگ کا شعلہ تباہ کر دیتا ہے مناسب توجہ اور دیکھ بھال سے ہمارے بہت کام آ سکتا ہے۔

کراچی میں اس کام کے لیے کے ایم سی کی جانب سے اورنج (لوڈر رکشہ) فراہم کیے گئے ہیں جنھیں گھروں سے سالڈ ویسٹ وصول کرنے کے لیے استعمال کیا جانا تھا لیکن ان گاڑیوں کا استعمال دوسرے مصارف میں دیکھا گیا۔ خاص قسم کے کوڑا اٹھانے والے نوجوان دروازے بجا کرکوڑا وصول کرتے اور ہر مہینے ایک معقول رقم وصولتے، ساتھ ساتھ کچرے سے کاغذ، گتہ، پلاسٹک بوتلیں وغیرہ الگ الگ چھانٹتے رہتے ایک طویل عرصہ اس عمل کو دیکھتے، ان کے نخرے اٹھاتے،کبھی آتے کبھی نہیں، پھر اپنی مرضی کا کوڑا اٹھانے کے ساتھ ساتھ گلیوں، سڑکوں اور چوراہوں پر کوڑا گراتے یا گر جاتا پھر اٹھاتے۔ بہرحال گھوڑے کی جگہ اب پٹرول نے لے لی، اب چمکتے دمکتے اورنج رکشے اور ساتھ میں خوش خبری بھی کہ اب کوڑے والے آپ سے پیسے وصول نہیں کریں گے۔ کے ایم سی والوں کو خوب دعائیں ملیں پر یہ کیا۔۔۔ پہیہ پھر سے گھوم گیا۔ خالی اورنج رکشے دوڑتے بھاگتے پٹرول ضایع کرتے نظر آتے تو ہیں۔

بات ہو رہی تھی سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کی جو یقیناً ایک فعال ادارہ ہے اور توجہ سے کام کیا جائے تو عوام کی دعاؤں کے ساتھ سرکار کے لیے بہت کارآمد ثابت ہو سکتا ہے۔ فی الحال تو اس کی فعالیت پر سوال ہی اٹھتے ہیں۔ نالے کوڑے سے بھرے ہیں جہاں نشئی بیٹھ کر اپنے شغل کرتے ہیں اور وقت ضرورت وہاں سے اپنی کام کی اشیا بھی چنتے ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق کراچی جیسے شہر سے ہر ہفتے 87 ہزار ٹن سالڈ ویسٹ پیدا ہوتا ہے جبکہ روزانہ کی بنیاد پر 16 ہزار ٹن سے زائد کوڑا کچرا پیدا ہوتا ہے جس میں سب سے زیادہ کچرا کھانے پینے کی اشیا کا ہوتا ہے۔ اس تحقیق میں پڑتے جائیے اور سر دھنتے جائیے کہ لفظوں کی ہیرا پھیری سے عملی کارکردگی تک کا سفر خواب ہے۔

ان دنوں ہم روز گیارہ بارہ بجے جب سڑکوں پر دن کی چمکتی روشنی میں ٹریفک رواں دواں ہوتا ہے۔ بڑے بڑے ٹرکوں کے ذریعے سڑکوں کی جھاڑو دیتے، کوڑا جمع کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ یہ وقت خدا جانے کس طرح صفائی ستھرائی کے لیے مناسب ہے۔ ویسے بھی ہم لوگوں کو شہر کو گندا دیکھنے کی ایسی عادت پڑی ہوئی ہے کہ اب ایسی چیزیں حیران کن لگتی ہیں، دل میں احساس پیدا ہوتا ہے کہ اس قدر پٹرول خرچ ہو رہا ہے پھر ذرا برسوں پہلے اس منظرنامے کو سوچیے جب اس طرح کی ایجادات نہ تھیں اور خاکروب سائیکل پر گھومتے سڑکوں کی صفائی ستھرائی کرتے، عام سی بڑی جھاڑو ایک بڑا سا کوڑے کا ٹوکرا اور جناب صبح ہوئی نہیں کہ جھاڑو کی آواز سے آنکھ کھل جاتی۔ بڑی توجہ اور محنت سے کام ہوتا، سنا ہے کہ کسی زمانے میں تو سڑکیں پانی سے دھلا بھی کرتی تھیں پر اب وہ زمانے خواب ہو گئے۔

ہم ذہنی بیماریوں میں الجھ کر اپنی ذمے داریاں اٹھانے سے قاصر ہیں، کام چوری کو ہم نے اپنا شعار بنا لیا، کام میں ڈنڈی نہ ماریں تو دل کو سکون ہی نہیں ملتا، بس ہمیں تو بڑے برے منصوبے، بڑے بڑے ٹرک، مشینیں چاہئیں اور شہر کی صفائی کا حال دیکھنا ہو تو خود ہی ایک چکر لگا کر دیکھ لیں ویسے شہر میں دیوانے بھی بہت ہیں جو اب بھی اسے پیرس بنانے کا سوچتے ہیں۔

عمل سے زندگی بنتی ہے، جنت بھی جہنم بھی

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔