حسن نصراللہ کی شہادت مزاحمت کی نئی تحریک
یہ وقت فیصلہ کرنے کا ہے، امت مسلمہ کس کے ساتھ کھڑی ہے۔ اب غیر جانب دار رہنا جرم ہے
سید حسن نصراللہ کی شہادت ایک جذبے کا نام ہے، ایک طوفان کا نام ہے اور ایک فکر کا نام ہے، وہ امام خمینی کی فکر اور پیغام کا عکس ہے۔ فکر امام خمینی نے دنیا کے اندر مزاحمت کا درس دیا اور وحدت کا درس دیا۔ حسن نصراللہ نے انقلاب کی لہروں کو اور اپنی شہادت سے بھڑکا دیا ہے۔ اس وقت اور اس دنیا میں، مزاحمت کا ہیرو سید حسن نصراللہ اور اسماعیل ہنیہ ہے، یہ امت کے ہیرو ہیں، حقیقت یہ ہے کہ سید حسن نصراللہ پوری دنیا میں ظالموں کے خلاف للکار بن گئے ہیں جو مظلوم کی مدد کے لئے اپنی طاقت، اپنی قوت نہیں دیکھتا، بلکہ ظالموں کا مقابلہ کرنے کے لئے میدان میں اتر جاتا ہے۔
ظالم کے خلاف ڈٹ جاتا ہے۔ نوجوان سید حسن نصراللہ نے اپنی لازوال جدوجہد اور انتھک محنت سے حزب اللہ کو کہاں سے اُٹھایا اور آج کس مقام پر پہنچا دیا ہے کہ اسرائیل، امریکہ اور اس کے اتحادی مل کر بھی حزب اللہ کے قربانیوں، جذبوں اور شہادتوں کو شکست نہیں دے سکے۔ اس مخلص، ذہین، دلیر اور عالی قدر سید حسن نصراللہ پر اللہ تعالیٰ کی رحمتیں نازل ہوں اس عظیم شہید اور اس کے مظلوم ساتھیوں کا خون ناحق غاصب صیہونیوں کے خلاف لبنان اور فلسطین کے عوام کی حق طلبی کی جدوجہد میں شدت اور وسعت لائے گا۔ حسن نصراللہ اسلام کے دفاع اور ظلم و جارحیت کے مقابلے کی راہ میں درجہ شہادت پر فائز ہوئے اور ابدی سعادت حاصل کی۔
سید حسن نصراللہ اور اسماعیل ہنیہ کے خون کے ایک ایک قطرے سے مزاحمت کی وہ تحریک اٹھے گی جو اسرائیل اور تالوت کو بہا کر لے جائے گی۔ حالات یہ ہیں کہ جیو پولیٹیکل صورتحال تیزی سے بدل رہی ہے۔کل تک مغربی دنیا یہ سوچ رہی تھی کیا کوئی مسلم ملک اسرائیل پر حملہ کر بھی سکتا ہے مگر ایران نے اسرائیل پر حملہ کرکے دنیا کو یہ بتا دیا ہے کہ دنیا میں ایک ملک ہے جو اسرائیل اور صیہونی طاقتوں کے اوپر وار کرنے کی صلاحیت، لیاقت اور جرات رکھتا ہے۔
انسانی حقوق کی بات کرنے والے ممالک، اقوام متحدہ اور بین الاقوامی اداروں کو یہ بھی بتا دیا ہے کہ ایران جنگ اور امن دونوں صورتوں میں بین الاقوامی قوانین اور انسانیت کا احترام کرنا جانتا ہے۔ اس حملے میں ایرانی قیادت نے سویلین آبادی کو نشان نہیں بنایا۔ ایران کی قیادت نے حالت جنگ میں بھی انسانیت کا معیار اپنے سامنے رکھا، اس نے موساد کے ہیڈ کوارٹر اور ائیر بیس پر حملے کیے ہیں۔ ایرانی میڈیا کا کہنا ہے کہ تل ابیب کے نواح میں 3 فوجی اڈے نشانہ بنے ہیں، اسرائیل کے نیواتم فوجی اڈے پر 20 ایف 35 طیارے تباہ ہوئے ہیں۔ بحیرہ روم میں اسرائیلی گیس پلیٹ فارم پر بھی حملہ کیا گیا، پاسداران انقلاب نے 90 فیصد میزائلوں کا کامیابی سے اہداف کو نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا ہے۔
اسرائیل نے حملے کے بعد ایران کو سنگین نتائج کی دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایران کو حملے کی بھاری قیمت چکانا ہوگی، جوابی حملے کے وقت اور جگہ کا تعین ہم کریں گے۔ ایران کے جوابی حملے کے بعد اسرائیل لازمی طور پر ایران پر حملہ کرے گا کیونکہ وہ اس جنگ میں ایران کو گھسیٹنا چاہتا ہے۔ یہ حملہ کب اور کہاں کیا جائے گا اور کس نوعیت کا ہوگا اس بارے میں ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے مگر یہ یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ سید حسن نصراللہ کی شہادت کے بعد جنگ کا دائرہ مزید وسیع ہوگیا ہے۔ یہ طویل اور نتیجہ خیز جنگ کا آغاز ہے، اگر مسلم ممالک نے اب بھی اپنا کردار ادا نہ کیا اور ہ مصلحت کی چادر اوڑ کر خواب غفلت میں سوتے رہے تو انجام پھر سب کا کچھ اچھا نہ ہوگا۔ عراق، شام، لبنان اور فلسطین کا انجام ہمارے سامنے ہے۔
اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے اقوام متحدہ میں تقریر کرتے ہوئے ایک جانب طویل جنگ کی بات کی ہے تو دوسری طرف دو مختلف نقشے دکھائے ہیں، ایک نقشہ میں اس نے انڈیا، سعودی عرب، سوڈان، مصر اور دوسرے ممالک کو شامل کیا جسے اس نے خوشحالی کا راستہ بتایا ہے جب کہ دوسرے نقشے میں اس نے ایران، لبنان اور یمن کو دکھا یا اور انہیں دنیا کے لئے خطرہ قرار دیا ہے۔ یہ امت مسلمہ کو تقسیم کرنے کی ایک اور گھناؤنی اور مکروہ سازش ہے۔ دجال جب دنیا میں آئے گا تو وہ کہے گا کہ میرے ایک ہاتھ میں جنت ہے اور دوسرے ہاتھ میں جہنم۔
اس بارے میں جب حضرت محمد ﷺ سے پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا، جب ایسی صورت حال سامنے آئے تو تم دجال کے جہنم میں چلے جانا۔ وہ اللہ تعالیٰ کی جنت ہوگی۔ نیتن یاہو نے دو نقشے دکھا کر اس بات کا اعلان کردیا ہے اگر تم نے میرا ساتھ دیا، میری بیت کی تو دنیا کی تمام مراعات، سہولیات اور عیاشیاں ملیں گی اور اگر تم نے مجھ سے اختلاف کیا، امت مسلمہ کی بات کی، فلسطین، غزہ، لبنان اور یمن کی مدد کی، ان کے ساتھ کھڑے ہونے کی کوشش کی تو یہ دنیا تمہارے لئے جہنم بنا دی جائے گا۔ یہ وقت فیصلہ کرنے کا ہے، امت مسلمہ کس کے ساتھ کھڑی ہے۔ اب غیر جانب دار رہنا جرم ہے۔
حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد یہ امید کی جارہی تھی کہ ایران اسرائیل سے اس کا بدلہ لے گا، مگر ایران نے تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسرائیل کو متنبہ کیا کہ وہ ایران اور حزب اللہ کی قیادت کو نشانہ بانے سے باز رہے مگر جب اسرائیل نے اپنی جارحیت کے سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے حسن نصراللہ کو شہید کیا تو ایران نے حسن نصراللہ اور اسماعیل ہنیہ کی شہادت کا بدلہ لینے کے لیے اسرائیل پر 200 راکٹوں سے حملہ کیا۔ اسرائیل جو ایک عرصے سے فلسطینیوں کا قتل عام اور ان کا خون بہا رہا ہے، دنیا کے طاقتور ممالک بھی اسرائیل کو فلسطینیوں کا قاتل کہنے کی جرات و ہمت نہیں رکھتے، ایران نے اسرائیل پر حملہ کرکے ثابت کردیا ہے کہ وہ جنگ لڑنے کی طاقت، صلاحیت اور جذبہ ایمانی رکھتا ہے۔
صہیونی غاصب حکومت کے خلاف جہاد کے پر جلال علم دار، مجاہد، عالم، حزب اللہ کے رہنما اور عالم اسلام کے عظیم سردار، شہید القدس سید حسن نصراللہ اور شہید القدس جنرل حاج عباس نیلفروشان کی المناک شہادت کی مناسبت سے خانہ فرہنگ اسلامی جمہوریہ ایران کراچی میں مجلس ترحیم کا اہتمام کیا گیا جس میں مقررین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کے تمام باہمت انسان حزب اللہ، حماس اور غزہ کیساتھ کھڑے ہیں اور یہ پیغام عالمی سطح پر پھیل گیا ہے، آنے والے دنوں میں غیرت مند مسلم امہ اپنے اجتماعات، ریلیوں، اور جلوسوں کے ذریعے امریکہ اور اسرائیل کو اپنا پیغام پہنچا کر ثابت کر دینگے کہ امام خمینی کی آرزو کے مطابق اسرائیل کے مٹ جانے کا لمحہ آ گیا ہے۔
مقررین نے مزید کہا کہ مسلمانوں پر جہاد اور شہادتوں کا راستہ کھلا ہے۔ مسلم امہ کو اپنی غفلت کی تلافی کرنی چاہیے، امت اسلامیہ مذہب، نسل، یا فرقہ کی تفریق سے بالاتر ہو کر ذلت کا طوق گردن سے اتار کر پھینک دے اور حماس اور حزب اللہ کے شروع کردہ تحریک کا حصہ بن جائے۔ عظیم شہادت کے صدقے میں ظالم و جابراسرائیل جلد صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا۔ لاکھ شہادتوں کا بدلہ چند اسرائیلی فوجیوں کی ہلاکت سے نہیں لیا جا سکتا، بلکہ اصل جواب اسرائیل کا مکمل صفحہ ہستی سے مٹنا ہے، جیسا رہبر معظم امام خمینی نے فرمایا ہے کہ اس جنگ کا فیصلہ حزب اللہ نے کرنا ہے اور وہ حوصلہ اور جذبہ ان مجاہدین کے اندر اب پہلے سے زیادہ قوت و شدت سے موجود ہے۔