شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس…کیا کچھ حاصل ہوا ؟

سرور منیر راؤ  اتوار 13 اکتوبر 2024
msmrao786@hotmail.com

[email protected]

شنگھائی تعاون تنظیم کا دو روزہ سربراہ اجلاس 14 اور 15 اکتوبر کو اسلام آباد میں ہو رہا ہے۔اس اجلاس میں شنگھائی تعاون تنظیم کے 10 ممبر ممالک شریک ہو رہے ہیں جن میں چین، روس، قازقستان، کرغزستان، تاجکستان، ازبکستان، بھارت، پاکستان، ایران اور بیلا روس شامل ہیں۔پاکستان میں ہونے والے اس اجلاس میں دو ویٹو پاورز اور بڑی معاشی قوتیں روس اور چین کے وزرائے اعظم اپنے ملک کی نمایندگی کریں گے جب کہ بھارت کے وزیراعظم نریندرمودی کی نمایندگی وزیر خارجہ جے شنکر کریں گے۔

بھارت بھی ایک بڑی عالمی معاشی اور فوجی قوت ہے۔ ان کے علاوہ باقی ممبر ممالک کے صدر اور وزرائے اعظم بھی اس اجلاس میں شرکت کے لیے 14 اکتوبر سے پہلے پاکستان پہنچ جائیں گے۔اس کانفرنس کے باضابطہ 10 ممبران کے علاوہ دو آبزرورز بھی ہیں جن میں افغانستان اور منگولیا شامل ہیں، اس کے علاوہ 14 ممالک کو ڈائیلاگ پارٹنرز کا درجہ دیا گیا ہے ۔

شنگھائی تعاون تنظیم نے1996 میں اپنے قیام سے لے کر اب تک کیا کچھ پایا ہے! یہ ہے وہ سوال جس کا تجزیہ بین الاقوامی امور کے ماہرین کر رہے ہیں۔ بلاشبہ یہ تنظیم علاقائی تعاون کی ایک اچھی مثال ہے۔ روس اور چین نے مشرقی ایشیا اور یوریشیا کے لینڈ لاک ممالک کے ساتھ مل کر اس تنظیم کی بنیاد چین کے شہر شنگھائی میں رکھی۔ اس نسبت سے اس تنظیم کا نام شنگھائی تعاون تنظیم قرار پایا۔ اس تنظیم کا مرکزی مقصد اس خطے سے امریکی اقتصادی برتری کو ختم کرنا اور مشترکہ دفاع کی صلاحیت کا حصول ہے۔

ابتدا میں اس تنظیم کے پانچ ممبر روس، چین، کرغزستان، قزاقستان اور تاجکستان تھے۔2001 میں ازبکستان کو بھی اس کا باقاعدہ ممبر بنا لیا گیا۔ 2002 میں اس تنظیم کا چارٹر منظور کیا گیا، جون 2017 میں پاکستان اور بھارت کو بھی باقاعدہ ممبر بنایا گیا،اس طرح اس تنظیم کے ممبران کی تعداداب 8 ہوگئی ہے۔ ایران ، بیلاروس کی شمولیت نے اس تنظیم کو آبادی کے اعتبار سے اقوام متحدہ کے بعد سب سے بڑی تنظیم بنا دیا۔

شنگھائی تعاون تنظیم کا دائرہ اثر بتدریج بڑھ رہا ہے۔ شنگھائی تنظیم کے تعاون سے خطے کے ممالک نے اپنے مالیاتی نظام کو مستحکم کرنے کے لیے ’’ برکس بینک‘‘ بھی بنایا ہے۔ ایس سی او اور برکس بینک اگر مستقبل قریب میں اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے سنجیدگی سے آگے بڑھتے رہے تو اس خطے سے امریکا اور یورپ کے اقتصادی اثر کو ختم کرنے میں مدد مل سکتی ھے۔ شنگھائی تعاون تنظیم اور برکس بینک کے قیام نے عالمی مالیاتی اداروں، مغربی دنیا اور بالخصوص امریکا کی بالادستی کو چیلنج کردیا ہے۔ اس اقتصادی بلاک کے رکن ممالک کی آبادی دنیا کی کل آبادی کا چالیس فیصد ہے جب کہ ان ممالک کی مجموعی قومی پیداوار دنیا کی کل پیداوار کا 25 فیصد ہے۔ بریس بینک کا ہیڈکوارٹر چین کے شہر شنگھائی میں قائم کیا گیا ہے جب کہ ایک علاقائی دفتر جنوبی افریقہ میں ہے۔

شنگھائی تنظیم کے دو مستقل ادارے بھی ہیں ایک تنظیم کا سیکریٹریٹ ہے جو چین کے دارالحکومت بیجنگ میں ہے۔ دوسری انتظامی کمیٹی ہے جس کا ہیڈ کوارٹر ازبکستان کے شہر تاشقند میں قائم کیا گیا ہے۔اس تنظیم کے تحت باہمی تنازعات کے حل کے لیے بھی آواز اٹھائی جا سکتی ہے۔ اس پلیٹ فارم پر چین جیسا قابل اعتماد دوست پہلے ہی موجود ہے۔ چین پاک بھارت تنازعات بالخصوص مسئلہ کشمیر پر ہمارے موقف کاحامی رہا ہے۔

ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اس تنظیم کی مکمل کامیابی کا انحصار پاکستان اور بھارت کے درمیان بہتر تعلقات پر بھی ہے۔جب تک ان دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد کا فقدان رہے گا اور وہ بقائے باہمی اور امن کا راستہ اختیار نہیں کرتے ، اس وقت تک اس خطے میں امریکا کے جارحانہ اقتصادی اور سیاسی عزائم کا توڑ کرنا ممکن نہیں۔ شنگھائی تعاون تنظیم ہو یا کوئی اور علاقائی اور بین الاقوامی تنظیم اس کی بطور ایک تنظیم کے اہمیت بدستور ہوتی ہے لیکن عالمی منظرنامے کے تناظر میں سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ مسلم ممالک معیشت کی بنیاد کوئی اتحاد کیوں قائم نہیں کرسکے ہیں۔

عرب ممالک اگر تیل اور سونے کی دولت سے مالا مال ہیں تو دوسرے مسلم ممالک کے پاس قدرت کی اہم معدنیات اور ایسے قدرتی وسائل ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک انھیں للچائی ہوئی نظروں سے دیکھتے ہیں۔ پاکستان، ملائشیا، انڈونیشیا اور بنگلہ دیش کے پاس جس قسم کی افرادی قوت اور ذہانت موجود ہے ، وہ دنیا کے بہت کم ممالک کو حاصل ہے۔ پھربھی ہم مغربی ممالک کے دست نگر ہیں۔ یہی نہیں بلکہ ہم اہم بین الاقوامی معاملات میں بھی مسلم امہ کو متحد نہیں کر سکے۔

او آئی سی ممالک کے حکمران چاہیں تو برکس کے طرز پر ایک ’’عالمی بینک‘‘ بنانے بنا سکتے یہں اور یہ بینک تقابلی طور پر غریب اور کمزور مسلم ملکوں کو بلا سود قرضے دے کر ان کی معیشت کو بہتر بنا سکتا ہے ۔ ورلڈ بینک کی طرز پر ایسا ممکنہ بینک ملت اسلامیہ کے ممالک میں معاشی انقلاب لا نے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ لیکن صد افسوس کہ ملت اسلامیہ عالمی منظر نامے میں نہ تو یکجا ہے اور نہ ہی مستقبل قریب ایسی کوئی امید کے نظر آتی ہے۔

شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔