مشرق وسطیٰ کا سنگین بحران

ایران اور اسرائیل میں کشیدگی بدستور جاری ہے، ادھر اسرائیل غزہ اور لبنان میں بھی مسلسل کارروائیاں کر رہا ہے، گزشتہ روز کی اطلاعات کے مطابق اسرائیل نے غزہ میں مہاجر کیمپ پر بمباری کی، اطلاعات کے مطابق اس بمباری کے نتیجے میں 22 فلسطینی شہید ہوگئے۔ عرب میڈیا کے مطابق اسرائیلی جنگی طیاروں نے شمالی غزہ میں جبالیہ کیمپ پرشدید بمباری کی ہے، اس بمباری کی زد میں آ کر خواتین اور بچوں سمیت 22 فلسطینی شہید ہوئے ہیں، متعدد فلسطینی زخمیوں کی حالت تشویشناک ہے۔ میڈیا کے مطابق بمباری اتنی شدید تھی کہ زلزلہ بھی محسوس کیا گیا۔ اس کا واضح مطلب ہے کہ خاصے ہیوی بم استعمال کیے گئے ہیں۔ اسرائیلی فضائیہ نے بیروت کے وسطی علاقوں میں حزب اللہ کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ہے جس میں ٹینک شکن میزائل یونٹ کے سربراہ کی شہادت کا دعویٰ کیا ہے۔ اسرائیلی فوج کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ حملے میں حزب اللہ کی ایلیٹ رضوان فورسز کے ٹینک شکن میزائل یونٹ کے کمانڈر غریب الشجاع کو نشانہ بنایا۔

اسرائیلی فوج لبنان میں اقوام متحدہ کی امن فوج کو بھی نشانہ بنا چکی ہے۔ امن فوج میں تعینات غیرملکی فوجیوں کی بھی پرواہ نہیں کی گئی۔ اسرائیل نے 24 گھنٹوں کے دوران لبنان میں متعدد حملے کیے ہیں۔ بتایا جا رہا ہے کہ دو تین روز سے جاری ان حملوں میں 60 افراد جاں بحق اور 168 زخمی ہو چکے ہیں۔ لبنان کرائسز رسپانس کے مطابق دو روز کے دوران اسرائیل نے 57 فضائی حملے کیے، ان میں زیادہ تر جنوبی لبنان میں کیے گئے ہیں۔ لبنان میں تعینات عالمی امن فوج میں شامل ممالک جن میں انڈونیشیا، اٹلی، فرانس اور اسپین شامل ہیں، انھوں نے اسرائیلی حملے کی شدید مذمت کی ہے، امریکا نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق امن فوج پر حملوں سے بھارتی فوجی بھی خطرے میں پڑگئے ہیں۔

ایران اور اسرائیل میں کشیدگی اب نئی صورت حال اختیار کر چکی ہے۔ اسرائیل ایران کی تیل کی تنصیبات کو نشانہ بنانا چاہتا ہے۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر اور اردن نے امریکا سے مطالبہ کیا ہے کہ اسرائیل کو ایران کی تیل تنصیبات پر بمباری سے روکا جائے۔ ان ممالک نے امریکا کو آگاہ کیا ہے کہ ایران کے خلاف اسرائیل کی جوابی کارروائی کے لیے ان ممالک کی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت بھی نہیں دی جائے گی۔ ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نے کہا ہے کہ ان کا ملک اسرائیل کی کسی بھی کارروائی کا اتنی ہی طاقت سے جواب دے گا جتنی طاقت سے کارروائی کی جائے گی۔

اطالوی چینل کو انٹرویو میں وزیر خارجہ عباس عراقچی نے یورپی ممالک سے یورپی ممالک سے جنگ بندی کے لیے کردار ادا کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ایران جنگ سے خوف زدہ نہیں ہے مگر ہم جنگ نہیں چاہتے۔ ایرانی وزیر خارجہ نے امید ظاہر کی کہ خطے میں جنگ روکنے کے لیے یورپ زیادہ فعال کر دار ادا کرسکتا ہے تاہم وہ کہتے ہیں کہ ان کے پاس زیادہ اختیارات نہیں۔ وزیر خارجہ عباس عراقچی نے کہا کہ میں نہیں سمجھتا کہ یورپی ممالک کا غزہ میں جنگ بندی کے لیے اختیارات کا نہ ہونے کا بہانہ درست ہے۔ اسرائیل کی جانب سے ایران پر کی تیل اور بجلی کی تنصیبات سمیت جوہری تنصیبات پر حملے کے عندیے پر ایران نے سفارتی سطح پر روابط بڑھا دیے ہیں۔

روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے اسرائیل کا نام لیے بغیر خبردار کیا ہے کہ ایرانی جوہری تنصیبات پر کوئی بھی حملہ خطرناک اشتعال انگیزی ہو گا۔ عرب میڈیا کے مطابق روسی وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے جائزوں پر گہری نظر ہے تاہم اس میں ایسے کوئی اشارے نظر نہیں آتے کہ ایران اپنے پرامن جوہری پروگرام کو فوجی چینل پر منتقل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ روسی وزیر خارجہ نے ایران کے ملٹری استعمال کے لیے جوہری توانائی پر کہا کہ ہم حقائق سے رہ نمائی حاصل کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ پروپیگنڈے اور الزامات پر کان نہیں دھرتے۔ وزیر خارجہ سرگئی لاورون نے کہا کہ بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی باقاعدگی سے اس قسم کی رپورٹیں اپنے بورڈ آف گورنرز کو پیش کرتی ہے۔ جن میں ایسا کچھ نہیں ہے۔ روسی وزیر خارجہ نے خبردار کیا کہ اگر ایران کے پرامن جوہری تنصیبات پر حملہ کیا گیا تو یہ ایک انتہائی خطرناک اقدام اور اشتعال انگیزی ہوگا۔ روسی وزیر خارجہ کا یہ بیان اس قت سامنے آیا ہے جن اسرائیل نے ایران کی ایٹمی تنصیبات کو نشانہ بنانے کا عندیہ دیا ہے۔

وسطی امریکا کے ملک نکارا گوا نے اسرائیل کو فاشسٹ ریاست قرار دے کر سفارتی تعلقات ختم کرنے کا اعلان کردیا۔ نکاراگوا کی حکومت کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل کی فاشسٹ حکومت فلسطین میں نسل کشی کررہی ہے۔ فلسطینی علاقوں پر اسرائیل کے حملوں کے باعث اسرائیل سے سفارتی تعلقات منقطع کرنے کا اعلان کرتے ہیں۔ نکارا گوا کی حکومت نے فلسطین اور لبنان پر اسرائیلی حملوں کی شدید مذمت بھی کی۔ اس سے قبل نکاراگوا کی کانگریس غزہ میں ایک سال سے جاری اسرائیلی جارحیت کے خلاف ایکشن لینے کی قرار داد بھی منظور کر چکی ہے۔ قرارداد میں کہا گیا تھا کہ اسرائیل کے جارحانہ اقدامات لبنان تک پہنچ چکے ہیں۔ اس کے علاوہ شام، یمن اور ایران کے لیے بھی خطرات بڑھ گئے ہیں۔ کولمبیا اور ترکیہ بھی اسرائیل سے سفارتی تعلقات ختم کر چکے ہیں۔

پاکستان میں بھی گزشتہ دنوں حکومتی سرپرستی میں آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کیا گیا تھا۔ اس کانفرنس کے مشترکہ اعلامیے میں آزاد فلسطینی ریاست کے قیام اور القدس کو دارالحکومت بنانے کا مطالبہ کیا گیا تھا جب کہ غزہ میں فوری غیرمشروط جنگ بندی، فلسطینی عوام پر مظالم کے خاتمے، اسرائیل کو جنگی جرائم کی کارروائیوں پر جوابدہ ٹھہرانے کا مطالبہ کیا گیا۔

اسرائیل دنیا کا وہ واحد ملک ہے جس کے خلاف اقوامِ متحدہ میں سب سے زیادہ قراردادیں پیش ہوئیں اور سب سے زیادہ قراردادیں منظور بھی ہوئی ہیں لیکن سلامتی کونسل کی منظور کردہ قراردادوں پر آج تک عمل درآمد نہیں کرایا جا سکا۔ یہ سب اس لیے ہے کہ امریکا اور اتحادی ممالک اسرائیل کے ساتھ ہیں۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ اسرائیل کی غزہ میں حماس کے ساتھ جنگ جاری ہے تو دوسری طرف لبنان میں حزب اللہ کے خلاف جارحانہ کارروائیاں کر رہا ہے جب کہ ایران کے ساتھ بھی مسلسل کشیدگی بڑھا رہا ہے۔

اسرائیلی وزیر نے گزشتہ دنوں فرانس کے دارالحکومت پیرس میں ایک تقریر کے دوران گریٹر اسرائیل کا ایک نقشہ بھی پیش کیا تھا۔ یہ سراسر عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے لیکن اسرائیل کو روکا نہیں جا رہا۔ اسرائیلی جارحیت کی وجہ سے پورا مشرقِ وسطیٰ جنگ کی لپیٹ میں ہے۔ مڈل ایسٹ میں تیزی سے بدلتی صورت حال بارے سرِدست کوئی پیش گوئی تو ممکن نہیں تاہم قرائن ظاہر کرتے ہیں کہ اسرائیل کی حکومت کے عزائم ٹھیک نہیں ہیں۔ اسرائیلی جارحیت علاقائی طاقت کی حرکیات میں تبدیلیوں کا باعث بن رہی ہے۔ لبنان، شام اور اردن اسرائیل کے لیے کوئی خطرہ نہیں ہیں، حماس میں بھی اتنا زیادہ دم خم نہیں ہے۔

یمن بھی اس قابل نہیں ہے کہ وہ اسرائیل کا مقابلہ کر سکے۔ آ جا کے ایران ہی ایک ایسی قوت بچتی ہے جس سے اسرائیل خوف زدہ ہے۔ اگرچہ امریکی حکام نے اسرائیل کو مشرق وسطیٰ میں بڑھتے تنازعہ میں کمی لانے کا کہا، تاہم نیتن یاہو حکومت اپنے عزائم کی تکمیل کے لیے مسلسل کوشاں ہے اور خطے میں جارحیت کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ اب نئی پیش رفت کے تحت ایرانی تیل کی تنصیبات اور ایران کی ایٹمی تنصیبات کو اسرائیلی جارحیت کا خطرہ ہے۔

اسرائیل اس وقت کچھ بھی کر سکتا ہے۔ امریکا میں چونکہ صدارتی انتخابات ہونے والے ہیں، صدر جوبائیڈن انتظامیہ کا کنٹرول محض برائے نام ہے اور صدر جوبائیڈن انتظامیہ کی حیثیت نگران حکومت سے زیادہ نہیں ہے۔ اسرائیلی حکام اس خلاء کو اپنے عزائم کی تکمیل کے لیے اچھا سمجھ رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل مسلسل جارحانہ کارروائیاں کر کے حماس اور حزب اللہ کی قیادت کا خاتمہ کرتا چلا جا رہا ہے۔ جب تک امریکا کے عام انتخابات کا انعقاد ہو گا اور نیا صدر اقتدار سنبھالے گا، اس وقت تک اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو اور ان کے ساتھیوں کی پوری کوشش ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ میں اپنے اہداف حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے۔ اس سلسلے میں ایران اسرائیلی جارحیت کی زد میں ہے۔ عرب لیگ اور دیگر مسلم ممالک کی حکومتوں کے لیے بھی کئی قسم کی مشکلات حائل ہیں۔ فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس بھی مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں۔ ایسی صورت میں مشرق وسطیٰ میں اسرائیل بڑی کارروائی کر سکتا ہے۔