فائز عیسیٰ کے فیصلوں میں پارلیمانی بالادستی کی جھلک نمایاں

  اسلام آباد: چیف جسٹس سپریم کورٹ کی رٹائرمنٹ میں دو ہفتے باقی،25 اکتوبر کو ریٹائرہو رہے ہیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلوں میں پارلیمنٹ کی بالادستی کی نمایاں جھلک رہی، عدلیہ میں خوداحتسابی کا عمل تیز ہوا اور عدالتی کارروائی میں شفافیت بھی لائی گئی۔

تفصیلات کے مطابق قاضی فائز عیسیٰ نے 29 ویں چیف جسٹس پاکستان کے طور پر 17 ستمبر 2023 کو عہدے کا حلف اٹھایا جس کے فوری بعد انھوں نے انتظامی سائیڈ پر چار سال بعد فل کورٹ اجلاس بلایا،ا پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس پر سماعت کیلئے تمام ججز پر مشتمل فل کورٹ تشکیل دیا گیا۔

عدالتی تاریخ میں پہلی مرتبہ عدالتی کارروائی کی براہ راست نشریات دکھائی گئی، پہلی مرتبہ چیف جسٹس کے اختیارات دو سینئر ججوں میں تقسیم ہوئے جس سے پارلیمنٹ کی بالادستی کو برقرار رکھا گیا۔ ملک میں عام انتخابات کے انعقاد کا معاملہ بھی  فائز عیسیٰ کی سربراہی میں قائم بنچ نے ممکن بنایا۔

سیاست دانوں کی تاحیات نااہلی کے فیصلے کے خلاف پارلیمنٹ کے بنائے گئے قانون کو بھی درست قرار دیا یوں آرٹیکل 62ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی ختم ہوئی، آرٹیکل 63 اے نظر ثانی اپیل پر فیصلہ جاری کرتے ہوئے فیصلہ دیا کہ منحرف رکن کا ووٹ شمار ہوگا، عوامی فنڈز سپریم کورٹ کے بنک اکاونٹس میں رکھنے کا سلسلہ بند کیا گیا، 190 ملین پاونڈ وفاقی حکومت کے حوالے کیے۔

فائز عیسیٰ کے دور میں دو فل کورٹ تشکیل دیئے گئے،مظاہر نقوی کیخلاف شکایات سنی گئیں  خواتین کو وراثتی حقوق دینے کیلئے نہ صرف لینڈ مارک فیصلے دیئے بلکہ خواتین کو وراثتی جائیداد سے محروم رکھنے والوں کو بھاری جرمانے عائد کیے۔پرویز مشرف کی سزائے موت کا فیصلہ برقرار رکھا،بھٹو ریفرنس بارہ سال بعد سماعت کیلئے مقرر ہوا اور عدالت نے کہا ذوالفقار علی بھٹو کو شفاف ٹرائل سے محروم رکھا گیا تھا،ٹاپ سٹی کیس پر سماعت کی، سابق ڈی آئی جی آئی ایس آئی فیض حمید کو کورٹ مارشل کا سامنا کرنا پڑا۔

پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن پرالیکشن کمیشن اور پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا، وکلا تنظیموں کے مطالبے پر ایک ماہ قبل مجوزہ کاز لسٹ جاری کرنا یقینی بنایا،پہلے چیف جسٹس ہیں جن کے اپنے اور اہل خانہ کے اثاثوں کی تفصیلات سپریم کورٹ کی ویب سائیٹ پر موجود ہیں،انہوں نے بطور جج کبھی کسی سرکاری سکیم سے پلاٹ نہیں لیا۔