پچھلے سال 3 ہزار100 ارب کا سیلزٹیکس اکٹھا ہوا، شہباز رانا

تجزیہ کار شہباز رانا نے کہا کہ وزیر خزانہ نے بڑے کاروباری اداروں کی جانب سے بڑے ٹیکس فراڈ کا دعویٰ کیا ہے، جب تک یہ غلط ثابت نہ ہوجائے تو ہم اس کو درست ہی مانیں گے۔

ایکسپریس نیوز کے پروگرام دی ریویو میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ وزیر خزانہ کی جانب سے تین ہزار 400 ارب کے ٹیکس فراڈ کا جو دعویٰ کیا گیا ہے، اس دعوے کی بنیاد پر ایف بی آر کی ورکنگ ہے کہ پاکستان میں 6 ہزار 500 ارب روپے سیلز ٹیکس اکٹھا ہو سکتا ہے، پچھلے سال سیلز ٹیکس کی مد میں3ہزار 100ارب اکٹھے ہوئے جو باقی 3400 ارب روپے کا فراڈ ہو رہا ہے۔

ٹیکس فراڈ کا حجم پاکستان کے سالانہ دفاعی بجٹ سے بھی زیادہ ہے، فراڈ کے بجائے اس کو ایک ٹیکس گیپ پلس فراڈ کہا جا سکتا تھا، انھوں نے پانچ صنعتوں کے جو نمبر شیئر کیے ہیں، اگر فراڈ ہوتا بھی ہے تو وہ 227 ارب روپے کا ہے، اب 227 ارب اور 3400 ارب روپے کے سیلز ٹیکس فراڈ میںبہت فرق ہے، جب اتنی اعلیٰ سطح پر یہ کہا جائے کہ یہ فراڈ ہے تو پھر حکومت کو اسے ثابت بھی کرنا پڑے گا۔

تجزیہ کار کامران یوسف نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں ستمبر کے آخر اور اکتوبر کے شروع میں تین مرحلوں میں ریاستی اسمبلی کے جو انتخابات ہوئے اس کے نتائج ہمارے سامنے آ گئے ہیں، یہ دس سال میں مقبوضہ کشمیر میں پہلا الیکشن تھا، یہ بات بتانا ضروری ہے کہ پاکستان ان الیکشن کو ایک ڈرامہ سمجھتا ہے اور ان کو تسلیم نہیں کرتا، 5 اگست 2019 کو مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد یہ پہلا الیکشن تھا۔

یہ الیکشن ایک لحاظ سے ریفرنڈم بھی تھا کہ کیامقبوضہ کشمیرکے عوام بی جے پی اور نریندر مودی کی پالیسیوں کی حمایت کرتے ہیں، نتائج بی جے پی کی توقع کے مطابق نہیں آئے، اہم بات یہ ہے کہ عوام نے نریندر مودی کے بیانیے کو مسترد کردیا ہے۔ صنعتکار ہارون اختر خان نے کہا کہ اس بات کو ذہن میں رکھیں کہ پہلے اندازوں کی بنیاد پر کھپت کا اندازہ لگایا جاتا تھا، اب اس کے ٹھوس اعدادوشمار ہیں۔

حکومت کو تین ماہ پہلے درست اعدادوشمار دینے چاہیے تھے، اب پانچ لاکھ میٹرک ٹن چینی کی برآمد کی اجازت اب دی ہے وہ چھ مہینے دینی چاہیے تھی، ایک سوال پر انھوں نے کہا کہ بیوروکریسی چھ مہینے زیادہ کھپت بتاتی رہی ہے، اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ اندازوں کے بنیاد پر بنائے گئے اعدادوشمار اصل اعدادوشمار سے رپلیس ہوئے ہیں تو اچانک پتہ چلا ہے کہ چینی تو بہت زیادہ ہے، اب ہمارے سامنے حقیقی فاضل ذخائر ہیں اور ان کو ٹھکانے لگانا ہے، جب نئی فصل آ جائے گی تو اس چینی کو کوئی نہیں خریدے گا۔