پاکستان ایک نظر میں ’’احساس‘‘

کیا ہم اتنے بےحس ہو چکے ہیں کہ ہمیں کسی چیز کا ’’احساس‘‘ نہیں، یا ہم کرنا ہی نہیں چاہتے.

کیا ہم اتنے بےحس ہو چکے ہیں کہ ہمیں کسی چیز کا ‘‘ احساس’’ نہیں، یا ہم کرنا ہی نہیں چاہتے. فوتو فائل

KARACHI:

تمہیں کسی بات کا احساس ہے؟۔


آخر تمہیں احساس کب ہو گا؟۔


تم کس احساس کی بات کر رہے ہو؟۔


یہ وہ سوال ہے جو اکثر و بیشتر ہم بولتے ہیں لیکن کبھی ان جملوں پر غور نہیں کرتے کہ آخریہ ''احساس'' ہے کیا ؟۔ ہم اس کی اتنی بات کیوں کرتے ہیں؟۔ کیا ہم میں احساس پایا جاتا ہے؟۔ کیا یہ ہمارے معاشرے کہ لئے ضروری ہے؟۔ اور اگر ہے تو کیسے؟۔


احساس ایک ایسی چیز ہے جس کا مطلب ہے کہ آپ اپنے علاوہ دوسرے کی بھلائی کا سوچتے ہو لیکن آج کے جدید دور میں وقت کی کمی کے باعث کسی کے پاس احساس کا ٹائم ہی نہیں ہے۔ اگلا بندہ جہنم واصل ہوتو ہوتا رہے ہماری بلا سے، ہمارے پاس ٹائم نہیں ہے، اور بھی کام ہیں زمانے میں کرنے کو جیسے شاپنگ، چیٹنگ، میوزک وغیرہ لیکن احساس کا ''ٹائم'' نہیں ہے!


آج ہم رزق کے ضیائع کو '' فیشن'' یا '' ٹرینڈ'' کا نام دیتے ہیں لیکن ہمیں احساس نہیں کسی غریب کا جس کے لئے یہ رزق کسی بیش قیمت چیز سے کم نہیں۔ اسی کے حصول کے لئے وہ دن رات کے دھکے کھاتا ہے لیکن پھر بھی دو وقت کی روٹی نصیب نہیں۔ لیکن ہمیں کیا ہمارے پاس احساس کا ''ٹائم'' نہیں۔

سڑک پر راستے کے لئے ایمبولینس کتنے ہی سائرن کیوں نہ بجاتی رہے لیکن ہم کیوں ہٹیں بھئی۔ ہمارا پہنچنا زیادہ ضروری ہے اب اگر مریض مرتا ہے تو مر جائے۔ ہمیں کیا؟

فضول تقریبات میں پیسے کا ضیائع ہو تو ہو ہمیں کیا۔آخر کو شوشل سرکل بھی کسی چڑیا کا نام ہے جنابِ محترم!


سارا سارا دن سماجی رابطے کی سائیٹس پہ نوجوان اپنا وقت ضائع کریں یا ساری ساری رات موبائل پر لمبی گفتگو کریں۔ ہمیں پرواہ نہیں آخر کو مستقبل کے معمار ہیں انہیں بھی تو رابطے بنانے ہیں، اس میں حرج ہی کیا ہے؟؟؟ چاہے تعلیم و تربیت ہو نہ ہو لیکن رابطے ضروری ہیں بھیا!

ہمارے ہاں ہر سطح پہ احساس کا فقدان ہے۔ چاہے وہ عوامی سطح ہو یا حکومتی ۔ عوام چاہے مہنگائی سے مریں یا دہشتگردی سے، بے روزگاری کے باعث خود کشی میں اضافہ ہو، بیٹییوں کے سروں میں چاندنی اترے یا مائیں اپنے لختِ جگر کو فروخت کریں۔ ہمیں کیا؟۔

آئی ڈی پیز کے مسائل ہوں یا ٹارگٹ کلنگ کے مارے کراچی کے بےبس عوام کی الجھنیں، ہمیں کیا؟ ہم تو اپنے ائیرکنڈ یشن کمروں میں بیٹھ کر فیفا سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ ہمیں کیا اندازہ ان لوگوں کے رنج و الم کا، ہمارے پاس تو ٹائم ہی نہیں ہے !

بین الاقوامی سطح پر دیکھیں تو آپ کو احساس کے کئی آثار نظر نہیں آئیں گے۔ پاکستان کے عوام دہشتگردی اور ڈرون حملوں سے مریں، برما کے بےقصور مسلمان وحشی بدھ مت کے ہاتھوں برباد ہوں یا پھر غزہ لہولہان ہو، کسی بین الاقوامی ادارے کے سر پہ جوں نہیں رینگتی ۔ آخر کہاں گئی وہ انسانیت۔۔۔ وہ احساس۔۔۔۔ سب اس مادیت کی چادر تلے دب گیا اور ہم خالی نگاہوں سے د یکھتے رہ گئے۔


آخر میں بس اتنا کہنا چاہوں گی کہ احساس ایک ایسی شے ہے جس کی آج کے دور میں کمی لڑائی جھگڑوں، جنگوں اور انتہا پسندی کا سبب بن رہی ہے۔ لیکن کسی کو بھی اس چیز کا ادراک نہیں۔


کیا ہم اتنے بےحس ہو چکے ہیں کہ ہمیں کسی چیز کا ''احساس'' نہیں، یا ہم کرنا ہی نہیں چاہتے، کیوں کہ ہمارے پاس تو احساس کا ٹائم ہی نہیں ہے۔


نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
Load Next Story