پاکستان ایک نظر میں صوبائی نفرت کے بجائے ملک کا سوچنا چاہیے

جو کچھ ن لیگ کی صوبائی حکومت نے پی پی پی کے ساتھ کیا تھا اب وہی کچھ تحریک انصاف کی صوبائی حکومت ن لیگ کے ساتھ کررہی ہے


چاہیں شہباز شریف ہوں یا پھر پرویز خٹک ، دونوں کو اپنے اپنے صوبوں کے بجائے پورے ملک کا سوچنا چاہیے تاکہ نفرتوں کے بیچ نہ بوئے جاسکیں۔ فوٹو: ایکسپریس

مشہور حکایت ہے کہ جیسا کرو گے تو ویسا ہی بھرو گے ۔ اب اگر ماضی کے جھڑکوں میں جھانکا جائے اور غور کیا جائے تو بخوبی اندازہ ہو جا تا ہے کہ وزیر اعلٰی خیبر پختونخواہ اور انکی جماعت پاکستان تحریک انصاف اب پاکستان مسلم لیگ ن کے خلاف وہی سارے کا م اور ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے جو ماضی میں وزیر اعلٰی پنجاب اوراُن کی جماعت ماضی میں پاکستان پیپلز پاڑٹی کی حکومت کے خلاف کرتی رہی تھی۔

ن لیگ نے ایک صوبے میں حکومت کے با وجود احتجاجی سیاست کو تر جیح دی، ایک صوبے کے وزیر اعلٰی میرا مطلب جناب شہباز شریف نے اپنے ہی ملک کے صدر کو برا بھلا کہا، پھر لوڈشیڈنگ کے خلاف احتجاجی کیمپ لگایا ۔محسوس تو یوں ہو رہا ہے کہ انہوں نے جس سیاست کی روایت شروع کی تھی وہ وقت کے ساتھ ان کے خود ہی گلے پڑ گئی کیونکہ اب وہی کچھ جنا ب پرویز خٹک صاحب کر رہے ہیں اور ایسی ہی کچھ دھمکیاں دے رہے ہیں جو شہباز شریف نے کچھ عرصہ پہلے نیلا گنبد لاہور میں لوڈشیڈنگ کے خلاف ایک منعقدہ ریلی سے خطاب کرتے ہوئے پی پی پی کی وفاقی حکومت کو لگائیں تھیں ۔ ساتھ ہی ساتھ ججز کو بحال کرنے کے لیے جو لانگ مارچ ن لیگ نے پی پی پی کی حکومت کے خلاف کیا تھا ، اب ویسا ہی مارچ پاکستان تحریک انصاف ووٹوں کی دوبارہ گنتی کرنے کےلیے ن لیگ کی حکومت کے خلاف14 اگست کو کرنے جا رہی ہے۔بس فرق صرف یہ ہے کہ پی پی پی پر الزام کرپشن اور بدعنوانی کا تھا اور ن لیگ پر الزام انتخابی دھاندلی کا ہے ۔

یہ با ت پرویز خٹک صاحب کی اپنی جگہ ٹھیک ہے کہ ان کے صوبے میں بجلی کی پیدا وار زیادہ ہے اور کھپت کم ہے اور پھر بھی ان کا مقرر کیا ہوا بجلی کا کوٹہ نہیں دیا جا رہا ہے اور اگر معاملہ اِسی طرح جاری رہا تو ردعمل کے طور وہ پنجاب کی بجلی بند بند کردیں گے۔ بے شک ان کا موقف بالکل ٹھیک اور درست ہے مگر اس طریقہ کا ر کی حمایت نہیں کی جا سکتی کیونکہ اس سے بین الا صوبائی تعصب کو ہوا ملے گی اور صوبوں کے درمیان نفرت کی دیوار مزید مضبوط ہو گی اور جس کا یہ ملک بالکل متحمل نہیں ہو سکتا۔

دراصل حقیقت یہ ہے کہ جب لوگ حکومت سے باہر ہوتے ہیں تو تنقید کرنا آسان ہوتا ہے اور ان کی ساری کوشش حکومت برا بھلا کہنے میں صرف ہوتی ہے اور منفی سیاست کوتر جیح دیتے ہیں کیونکہ وہ کسی نہ کسی طرح اقتدار میں آنا چاہتے ہیں چاہے ان کو کوئی بھی رستہ اختیا رکرنا پڑے مگر اقتدار میں آتے ہی ان کو اپنی قابلیت معلوم ہو جا تی ہے اور کچھ ہی عرصہ میں وہ بے بس نظر آنے لگتے ہیں اور ان کے سیاسی نعرے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں ۔

بس قصور ان کا نہیں بلکہ اس منفی اور بچگانہ سوچ کا ہے جو اقتدار کی حوص کے بھینت چڑھ جا تی ہے ۔ ۔ حالانکہ ہو نا تو یہ چاہیے کہ محض سیاسی نعرے لگانے کی بجائے اس ملک کے گھمبیر مسائل کو سمجھنا چاہیے اور اپنا اپنا کردار ادا کرنا چاہیے، چا ہے ہم اپوزیشن میں ہوں یا حکومت میں ۔ اور ہم سب کو فیصلے جذبات سے نہیں بلکہ سوچ سمجھ کر اس ملک کے مفاد میں کرنے چاہیے ۔ جو سیاست میں غلط روش اختیا ر کی ہوئی اس کو ترک کرنا چاہیے اور اُسی وقت یہ ملک ترقی اور خوشحالی کی راہ پر رواں دواں ہو سکتا ہے ۔ میرا تو ذاتی خیال یہی ہے کہ چاہیں شہباز شریف ہوں یا پھر پرویز خٹک ، دونوں کو اپنے اپنے صوبوں کے بجائے پورے ملک کا سوچنا چاہیے تاکہ نفرتوں کے بیچ بھی نہ بوئے جاسکیں اور پاکستان بھر میں بسنے والے لوگوں کے مسائل حل ہوسکیں۔ خدا کرے ہمیں اس بات کی سمجھ آجائے ۔ نہیں تو جو کرو گے و ہی بھرو گے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں