معیشت کے خوفناک حقائق

بجلی کے نرخ پاکستان میں اپنے ہمسایہ ممالک سے تین گنا زیادہ ہیں جس کی وجہ سے پاکستانی عوام کی زندگی انتہائی تکلیف دہ ہو گئی ہے کیونکہ اسی حساب سے تمام اشیاء کی پیداواری لاگت بھی بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ چنانچہ غیر ملکی تاجر پاکستانی اشیاء عالمی منڈی میں لاگت زیادہ ہونے کی وجہ سے بھارت اور بنگلہ دیش کی سستی اشیاء خرید رہے ہیں۔ کیونکہ وہاں حکومتوں کی طرف سے توانائی سستے داموں دستیاب ہے لہٰذا ان کی ایکسپورٹ مسلسل بڑھ رہی ہیں زر مبادلہ میں اضافہ ہو رہا ہے معیشتیں ترقی کر رہی ہیں، غربت میں کمی اور خوشحالی میں اضافہ ہو رہا ہے اور ملک مستحکم ہو رہے ہیں۔ جب تک پاکستان میں توانائی کے نرخ کم نہیں ہوں گے ایکسپورٹ میں اضافہ نہیں ہو گا ۔ اس وقت ہماری جی ڈی پی انتہائی کم ہے دوسرے ملکوں سے مقابلہ کرنے کے لیے شرح ترقی کم از کم 6فیصد یا اس سے زائد ہونی چاہیے۔

پاکستانی معیشت کو بہت سی آفتیں چمٹی ہوئی ہیں، بے پناہ کرپشن ، ٹیکس چوری اپنی انتہا پر ہے بالائی سطح کو تو چھوڑیں صرف لوکل گورنمنٹ کی سطح پر کرپشن کا حجم 50 سے 100 ارب پر پہنچ رہا ہے، جو لاکھوں کی کرپشن کرتا ہے اس کا لوگ مذاق اڑاتے ہیں۔ اب تو بات کروڑوں سے اوپر چلی گئی ہے ۔ یہی حال ٹیکس چوری کا ہے۔ یہ چوری سالانہ سیکڑوں ارب سے لے کر ہزاروں ارب پر پہنچ گئی ہے۔ کرپٹ مافیا پاکستان کو بُری طرح لوٹ رہا ہے۔ بے دردی سے اس کا خون کئی دہائیوں سے مسلسل پی رہا ہے۔

اس خوفناک کرپشن کا آغاز سن 1980کی دہائی سے ہوتا ہے۔ یہ نہیں کہ اس سے پہلے کرپشن نہیں تھی۔ لیکن چوری چھپے۔ رشوت لینے والا اپنا منہ چھپاتا پھرتا تھا، اب تو اخلاقی پستی اس انتہا کو پہنچ گئی ہے کہ جو جتنا بڑا کرپٹ ہے اُتنا ہی اُس کا معاشرے میں مقام و مرتبہ ہے۔ 1990کی دہائی سے کرپشن میں بے پناہ اضافہ ہو گیا، جب آئی پی پیز وجود میں آئیں۔ اس دہائی کی حکومتوں سے ان کے معاہدوں کے نتیجے میں آج کل لوگ بجلی بلوں کی ادائیگی کے لیے اپنے زیورات اور گھر کی قیمتی چیزیں بیچ رہے ہیں۔

گھروں میں کام کرنے والی ماسی کا ایک کمرے کے گھر کا کرایہ دس ہزار جب کہ بجلی کا بل پندرہ ہزار روپے ہے اب گنجی نہائے گی کیا نچوڑے گی کیا؟ یعنی وہ اور اس کے بچے کہاں سے کھائیں گے۔جب کہ مرغی کا ریٹ 640 روپے ہو صرف ایک کلو کا۔ صفائی کے بعد یہی ایک کلو مرغی 750 روپے کی پڑتی ہے اگر دکان دار ایماندار ہو۔ بیف بڑا گوشت 1200 سے 1500 روپے کلو ۔ بکرے کا گوشت ڈھائی سے تین ہزار روپے کا صرف ایک کلو ۔ چاول درمیانہ تین سو روپے اور اچھا چار سو روپے کلو۔ کوئی بھی عام دال چار سو روپے کلو سے کم نہیں ۔ خاص دالیں سات سو روپے کلو۔ سبزیاں دو سو سے چار سو روپے کلو۔ ادرک اور لہسن پچھلے کئی سالوں سے آٹھ سو روپے کلو بک رہا ہے۔

پچاس ، سو ، پانچ سو تو کیا ہزار کے نوٹ مہنگائی کے سیلاب میں بہہ گئے ہیں۔ پورے مہینے کا جو سودا پہلے پانچ ہزار روپے میں آجاتا تھا۔ اب پچیس ہزار روپے بھی کم پڑتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ یہ عجیب لگے کہ اشیاء کے نرخ اتنی تفصیل سے یہاں بیان کیے گئے ہیں۔پچھلے کئی ہفتوں سے میڈیا کے ذریعے یہ بات بتائی جا رہی ہے کہ مہنگائی سنگل ڈیجٹ پر آگئی ہے۔

اب تازہ ترین انکشاف یہ سامنے آیا ہے کہ پاکستان میں مہنگائی 6.9 فیصد پر آگئی ہے۔ اور ہم نے اس معاملہ میں بنگلادیش کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے جب کہ بازار جائیں تو قیمتیں پوچھ کر کرنٹ لگتا ہے۔ تعلیم عام تو کیا خاص لوگوں کی پہنچ سے بھی دور ہو گئی ہے۔ عوام نے اپنے بچوں کو اسکول سے تو کیا کالج اور یونیورسٹی سے بھی اُٹھانا شروع کر دیا ہے۔ حالیہ اضافے سے ادویات کی قیمتیں جو پہلے ہی بڑھی ہوئی تھیں ان میں دوگنا اضافہ ہو گیا ہے۔ مہنگائی کہاں کم ہوئی ہے صرف میڈیا میں کم ہوئی ہے۔

پاکستان کو جو آفتیں چمٹی ہوئی ہیں۔ ان میں سے ایک سب سے بڑی آفت آبادی میں اضافہ ہے۔ آبادی کا بم کبھی کا پھٹ چکا جب کہ پوری قوم خواب غفلت میں ہے۔ انتہائی ترقی یافتہ امیر ملکوں کی آبادی بڑھنا تو درکنار ، گھٹتے گھٹتے زیرو یہاں تک کہ منفی ہو گئی ہے۔اگر ترقی کی بنیاد آبادی ہوتی تو سب سے زیادہ آبادی دنیا میں ان ملکوں کی ہوتی۔ آیندہ پانچ برسوں میں پاکستان کی آبادی تیس کروڑ تک پہنچ جائے گی، ذرا سوچیں اس وقت ہمارا کیا حشر ہو گا۔ انتہائی کم شرح ترقی اور اس کا مقابلہ کرتی ہوئی شرح آبادی۔ نتیجہ اس کا یہ نکلے گا عوام کی فلاح و بہبود کے لیے حکومت کے پاس وسائل ہی نہیں رہیں گے۔

جس ملک پر ہزاروں ارب روپے اندرونی بیرونی قرضے چڑھیں ہوں اور وہ ان پر صرف سود ادا کرنے کے لیے بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے قرض لینے پر مجبور ہو جب کہ اصل زر اپنی جگہ پر ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اب رائٹ سائزنگ ہو رہی ہے۔

اس کی وجہ سے لاکھوں لوگوں کو ملازمتوں سے فارغ کیا جا رہا ہے۔ کیونکہ حکومت کے پاس ان کو تنخواہیں دینے کے لیے پیسے ہی نہیں۔ اور تو اور سرکاری ملازمین کو قرض لے کر تنخواہیں ادا کی جا رہی ہیں۔ صرف فیصل آباد میں ٹیکسٹائل سیکٹر کی 40 فیصد لیبر کو ملازمتوں سے نکال دیا گیا ہے۔ نصف کے قریب فیکٹریاں بند ہو چکی ہیں۔ ایک بے روزگاری کا طوفان ہے جس نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ 14 ہزار سرکاری اسکولز صرف پنجاب میں نجی شعبے کے حوالے کیے جا رہے ہیں یعنی مزید بے روزگاری۔ یہ ہیں پاکستانی معیشت کے خوفناک حقائق۔