اسموگ کے تباہ کُن اثرات سے کیسے نمٹا جائے
پاکستان میں اسموگ سے پیدا ہونے والے مسائل سے آگاہی اور ان سے نمٹنے کے لیے رہنما تحریر
اسموگ ایک ایسا مسئلہ ہے جس سے دنیا کے بیشتر ممالک نبرد آزما ہیں، مگر پاکستان گزشتہ کئی سالوں سے دنیا میں اسموگ کی فہرست میں سرفہرست رہا ہے۔
اسموگ کا موسم پاکستان میں عام طور پر 15 اکتوبر سے شروع ہوتا ہے اور 15 فروری تک جاری رہتا ہے، جس کی وجہ سے عوام کو شدید طبی مسائل اور ماحولیاتی نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔یہ نہ صرف ماحولیاتی عدم تحفظ پیدا کرتا ہے بلکہ انسانی صحت، معیشت اور سماجی زندگی پر بھی تباہ کن اثرات مرتب کرتا ہے۔ پاکستان کے شہر خاص طور پر لاہور، فیصل آباد کراچی اور گوجرانوالہ اسموگ سے شدید متاثر ہوتے ہیں، جہاں فضائی آلودگی کی شرح خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ یہ صورت حال نہ صرف پاکستان کے شہریوں بلکہ عالمی سطح پر ماحولیاتی ماہرین کے لیے بھی باعث تشویش ہے۔
اسموگ کیا ہے؟
اسموگ ایک فضائی آلودگی کا مرکب ہے جو دھوئیں اور دھند سے تشکیل پاتا ہے۔ یہ ایک بظاہر دھند کی طرح کی فضا ہوتی ہے جو کہ انسانی آنکھ سے دیکھی جا سکتی ہے، اور اس کے صحت پر مضر اثرات واضح ہوتے ہیں۔ اسموگ کی تشکیل کا عمل عموماً اُس وقت ہوتا ہے جب ہوا میں موجود آلودہ ذرات (پولوشن) زمین کی سطح کے قریب جمع ہوتے ہیں، خاص طور پر سردیوں کے موسم میں جب ہوا کا دباؤ کم ہوتا ہے اور دھواں اور دیگر زہریلے مادے فضا میں ٹھہر جاتے ہیں۔ پاکستان میں اسموگ کے اسباب کو سمجھنا اور ان کے حل کے لیے کوششیں کرنا نہایت اہم ہے، تاکہ اس بڑھتے ہوئے بحران کو روکا جا سکے۔
پاکستان میں اسموگ کی صورتحال
جیسا اوپر بیان کیا گیا ہے کہ پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں فضائی آلودگی خطرناک حدوں کو چھو رہی ہے، اور اس کا سب سے بڑا سبب اسموگ ہے۔ عالمی ادارہ صحت (WHO) اور دیگر بین الاقوامی اداروں کی رپورٹوں کے مطابق، پاکستان کے کئی شہر دنیا کے آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں شامل ہیں۔ خاص طور پر لاہور، جو کہ ملک کا دوسرا بڑا شہر ہے، اسموگ کی شدید لپیٹ میں ہے۔ ہر سال اسموگ کا موسم 15 اکتوبر سے 15 فروری تک جاری رہتا ہے، اس دوران فضائی آلودگی کی شرح خطرناک حد تک بڑھ جاتی ہے۔
پاکستان میں اسموگ کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اسموگ کے باعث اسکول بند کرنا پڑتے ہیں، ٹریفک حادثات میں اضافہ ہوتا ہے اور ہسپتالوں میں سانس کی بیماریوں کے مریضوں کی تعداد بڑھ جاتی ہے۔ شہری علاقوں میں سانس لینا دشوار ہو جاتا ہے اور عام زندگی بری طرح متاثر ہوتی ہے۔
اسموگ کے اسباب
پاکستان میں اسموگ کے کئی اسباب ہیں جو مل کر اس مسئلے کو جنم دیتے ہیں۔ یہ اسباب صنعتی سرگرمیوں، ٹریفک کے بڑھتے ہوئے مسائل، زرعی باقیات کو جلانے اور موسمیاتی تبدیلیوں سے جڑے ہوئے ہیں۔ یہاں اسموگ کے کچھ اہم اسباب کا جائزہ پیش کیا جا رہا ہے:
-1 صنعتی آلودگی
پاکستان میں صنعتی ترقی کے ساتھ ساتھ فضائی آلودگی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ فیکٹریوں اور کارخانوں سے نکلنے والا دھواں اور زہریلے مادے فضائی آلودگی کی بڑی وجوہات میں شامل ہیں۔ ان صنعتی سرگرمیوں کے دوران خارج ہونے والی گیسیں جیسے نائٹروجن آکسائیڈ، سلفر ڈائی آکسائیڈ اور کاربن مونو آکسائیڈ اسموگ کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
-2 گاڑیوں سے خارج ہونے والا دھواں
پاکستان میں گاڑیوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، خاص طور پر پرانی گاڑیوں سے نکلنے والا دھواں فضائی آلودگی کو بڑھا رہا ہے۔ زیادہ تر گاڑیاں ڈیزل یا پٹرول پر چلتی ہیں جو کہ نائٹروجن آکسائیڈ اور دیگر زہریلی گیسیں فضا میں چھوڑتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں اسموگ کی شدت بڑھ جاتی ہے اور شہری علاقوں میں سانس لینا مشکل ہو جاتا ہے۔
-3 فصلوں کے بھوسے کو جلانا
پنجاب اور سندھ کے زرعی علاقوں میں فصلوں کی باقیات کو جلانے کا عمل اسموگ کی شدت میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ کاشتکار فصلوں کی کٹائی کے بعد بچ جانے والے بھوسے اور پودوں کی باقیات کو آگ لگا دیتے ہیں تاکہ زمین کو صاف کیا جا سکے۔ اس عمل سے دھواں اور زہریلے مادے فضا میں شامل ہو کر اسموگ کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
-4 کوئلے کا استعمال
پاکستان میں توانائی کی پیداوار کے لیے کوئلے کا استعمال بھی اسموگ کا ایک بڑا سبب ہے۔ کوئلے کے پاور پلانٹس سے نکلنے والا دھواں فضائی آلودگی کا باعث بنتا ہے۔ یہ پاور پلانٹس ناصرف گرین ہاؤس گیسیں خارج کرتے ہیں بلکہ اسموگ کے ذرات بھی فضا میں شامل کرتے ہیں جو انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہیں۔
-1 موسمیاتی حالات
پاکستان میں اسموگ کے بننے میں موسمیاتی حالات بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ سردیوں کے موسم میں جب درجہ حرارت کم ہوتا ہے، ہوا کی رفتار کم ہو جاتی ہے اور فضا میں موجود آلودگی کے ذرات نیچے کی جانب آ کر زمین کے قریب جمع ہو جاتے ہیں۔ ان حالات میں اسموگ کی شدت میں اضافہ ہوتا ہے اور ہوا کی صفائی مشکل ہو جاتی ہے۔
اسموگ کے اثرات
اسموگ کے اثرات انتہائی تباہ کن ہوتے ہیں اور یہ انسانی صحت، ماحول اور معیشت پر شدید منفی اثرات ڈالتے ہیں۔ پاکستان میں ہر سال ہزاروں افراد اسموگ کی وجہ سے مختلف بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں اور ہسپتالوں میں سانس کی بیماریوں کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہاں اسموگ کے کچھ اہم اثرات کا ذکر کیا جا رہا ہے:
-1 انسانی صحت پر اثرات
اسموگ کے صحت پر شدید منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس میں موجود زہریلے ذرات سانس کے ذریعے جسم میں داخل ہو کر مختلف بیماریوں کا سبب بنتے ہیں۔ اسموگ سے ہونے والی بیماریوں میں سب سے زیادہ پھیپھڑوں کے امراض شامل ہیں۔ دمہ، برونکائٹس، اور دیگر سانس کی بیماریاں اسموگ کی وجہ سے بڑھتی ہیں۔ اس کے علاوہ دل کے امراض، آنکھوں میں جلن اور گلے کی خرابی بھی اسموگ کے باعث پیدا ہوتی ہیں۔
-2 بچوں اور بوڑھوں پر اثرات
اسموگ کا سب سے زیادہ اثر بچوں اور بوڑھوں پر ہوتا ہے۔ بچوں کے پھیپھڑے ابھی مکمل پر نشو و نما کے مراحل سے گذر رہے ہوتے ہیں اس لئے ان میں آلودگی کو سہ پانے کی صلاحیت کم ہوتی ہے جس بنا پر بچے اسموگ سے جلدی متاثر ہو جاتے ہیں۔ بوڑھے افراد پہلے سے موجود بیماریوں اور کمزور قوت مدافعت کے باعث زیادہ خطرے میں ہوتے ہیں۔ اسموگ کے باعث بچوں میں سانس کی بیماریاں بڑھ جاتی ہیں اور ان کی نشوونما میں کمی واقع ہوتی ہے۔
-3 ماحولیاتی اثرات
۱سموگ نہ صرف انسانی صحت بلکہ ماحول پر بھی منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔ یہ پودوں اور درختوں کے لیے نقصان دہ ہے کیونکہ ۱سموگ کی وجہ سے ضیائی تالیف (photosynthesis) کا عمل متاثر ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ اسموگ پانی اور مٹی کو بھی آلودہ کرتی ہے جس سے زراعت پر بھی برا اثر پڑتا ہے۔
-4 اقتصادی اثرات
۱سموگ کے اقتصادی اثرات بھی قابل غور ہیں۔ فضائی آلودگی کی وجہ سے ہسپتالوں میں مریضوں کی تعداد بڑھ جاتی ہے جس سے صحت کے اخراجات میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ۱سموگ کے باعث ٹریفک حادثات میں اضافہ ہوتا ہے جس سے جانی و مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اقتصادی سرگرمیاں بھی ۱سموگ کے دوران متاثر ہوتی ہیں، خاص طور پر تعمیرات اور زراعت کے شعبے میں کام کرنے والوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
پاکستان میں ۱سموگ کےخاتمے کے لیے اقدامات
پاکستان میں اسموگ کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے حکومت اور ماحولیاتی ادارے مختلف اقدامات کر رہے ہیں۔ لیکن ابھی تک ان اقدامات سے مکمل طور پر قابو نہیں پایا جا سکا۔ ۱سموگ کے مسئلے کا حل صرف حکومتی کوششوں میں نہیں بلکہ عوامی شعور کی بیداری اور انفرادی سطح پر بھی اقدامات ضروری ہیں۔
-1 صنعتی آلودگی پر قابو
پاکستان میں صنعتی آلودگی کو کم کرنے کے لیے حکومت نے مختلف قوانین متعارف کرائے ہیں جن کے تحت صنعتی فضلے کو بہتر طریقے سے تلف کیا جا سکے اور فیکٹریوں سے نکلنے والے دھوئیں کو فلٹر کیا جا سکے۔ اس کے علاوہ ماحول دوست ٹیکنالوجی کا استعمال بھی فروغ دیا جا رہا ہے تاکہ فضائی آلودگی میں کمی لائی جا سکے۔
-2 الیکٹرک گاڑیوں کا فروغ
پاکستان میں گاڑیوں سے خارج ہونے والے دھوئیں کو کم کرنے کے لیے الیکٹرک گاڑیوں کے استعمال کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ الیکٹرک گاڑیاں نہ صرف ماحول دوست ہوتی ہیں بلکہ یہ روایتی پٹرول اور ڈیزل پر چلنے والی گاڑیوں کے مقابلے میں فضائی آلودگی کو بہت حد تک کم کرتی ہیں۔ حکومت پاکستان نے الیکٹرک گاڑیوں کی حوصلہ افزائی کے لیے ٹیکسوں میں کمی اور دیگر مراعات کا اعلان کیا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ الیکٹرک گاڑیاں استعمال کریں۔
-3 فصلوں کی باقیات کو جلانے پر پابندی
پاکستان میں ہر سال فصلوں کی کٹائی کے بعد بھوسے اور دیگر باقیات کو جلانا ایک عام عمل ہے، جو ۱سموگ کی شدت میں اضافہ کرتا ہے۔ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے حکومت کو کاشتکاروں کے لیے ایسی پالیسیز متعارف کرانی ہوں گی جو بھوسے کو جلانے کے بجائے اس کو ری سائیکل کرنے یا زمین میں شامل کرنے کی ترغیب دیں۔ اس کے لیے زرعی مشینری فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ عوامی آگاہی کی بھی ضرورت ہے تاکہ کاشتکار اس عمل کے مضر اثرات سے واقف ہوں۔
-4 شجرکاری مہمات
درخت زمین کی ''فطری فلٹر'' ہوتے ہیں جو ہوا میں موجود آلودگی کو جذب کرتے ہیں اور آکسیجن فراہم کرتے ہیں۔ پاکستان میں ۱سموگ کی روک تھام کے لیے بڑے پیمانے پر شجرکاری کی مہمات کا آغاز کیا جانا ضروری ہے۔ حکومت نے ''بلین ٹری سونامی'' اور دیگر شجرکاری پروگراموں کا آغاز کیا ہے، لیکن ان کو مزید وسعت دینا اور موثر بنانا ضروری ہے تاکہ فضائی آلودگی کو کم کیا جا سکے۔
-5 کوئلے سے پیدا ہونے والی توانائی کا متبادل
پاکستان میں بجلی کی پیداوار کے لیے کوئلے کا استعمال بھی فضائی آلودگی کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔ کوئلے سے چلنے والے پاور پلانٹس سے نکلنے والا دھواں ۱سموگ کے ذرات کو فضا میں شامل کرتا ہے۔ حکومت کو کوئلے کے پاور پلانٹس کے بجائے صاف توانائی کے ذرائع جیسے شمسی توانائی، ہوا سے پیدا ہونے والی بجلی اور ہائیڈرو پاور پر زیادہ توجہ دینی چاہیے تاکہ ۱سموگ اور فضائی آلودگی کو کم کیا جا
-6 عوامی آگاہی کی مہمات
۱سموگ کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے عوام کو بھی متحرک کرنے کی ضرورت ہے۔ عوامی آگاہی کی مہمات کے ذریعے شہریوں کو بتایا جانا چاہیے کہ فضائی آلودگی کو کیسے روکا جا سکتا ہے اور روزمرہ کی زندگی میں وہ کن اقدامات کے ذریعے ۱سموگ کے اثرات کو کم کر سکتے ہیں۔ اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں اس حوالے سے خصوصی تربیت اور آگاہی سیشنز منعقد کیے جا سکتے ہیں تاکہ نئی نسل کو ماحولیاتی مسائل کا احساس ہو اور وہ مستقبل میں اس حوالے سے بہتر اقدامات اٹھا سکیں۔
بین الاقوامی تجربات سے سبق حاصل کرنا
پاکستان میں ۱سموگ کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے بین الاقوامی ماڈلز کا مطالعہ اور ان سے سبق حاصل کرنا نہایت ضروری ہے۔ دنیا کے کئی ممالک نے ۱سموگ اور فضائی آلودگی پر قابو پانے کے لیے مؤثر حکمت عملی اپنائی ہے جن سے پاکستان بھی سیکھ سکتا ہے۔
-1 چین کا ماڈل
چین نے اپنے بڑے شہروں میں فضائی آلودگی پر قابو پانے کے لیے سخت قوانین اور پالیسیز متعارف کرائی ہیں۔ چین نے فیکٹریوں سے دھویں کے اخراج پر سخت پابندیاں عائد کی ہیں، کوئلے کے استعمال کو محدود کیا ہے اور بڑے پیمانے پر شجرکاری مہمات کا آغاز کیا ہے۔ پاکستان بھی اسی طرز پر فضائی آلودگی کو کم کرنے کے لیے موثر اقدامات اٹھا سکتا ہے۔
-2 بھارت کی حکمت عملی
بھارت بھی اسموگ سے شدید متاثرہ ممالک میں شامل ہے، خاص طور پر نئی دہلی جیسے شہروں میں فضائی آلودگی کی صورتحال سنگین رہی ہے۔ بھارت نے فصلوں کی باقیات کو جلانے پر پابندی عائد کی ہے اور فضائی آلودگی کی نگرانی کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ پاکستان بھی فصلوں کی باقیات کو جلانے کی پالیسیوں کو بہتر بنا سکتا ہے اور جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے فضائی آلودگی کی مسلسل نگرانی کر سکتا ہے۔
-3یورپی ممالک کا طریقہ کار
یورپ کے کئی ممالک نے صاف توانائی کے استعمال کو فروغ دیا ہے اور فضائی آلودگی پر قابو پانے کے لیے ٹرانسپورٹ کے متبادل ذرائع جیسے الیکٹرک گاڑیاں اور پبلک ٹرانسپورٹ کو فروغ دیا ہے۔ پاکستان بھی ان ممالک سے سیکھ کر اپنی ٹرانسپورٹ اور انرجی پالیسیز میں بہتری لا سکتا ہے۔
پاکستان میں ۱سموگ کے تدارک کے لیے طویل المدتی اقدامات
۱سموگ ایک طویل المدتی مسئلہ ہے جس کا حل صرف عارضی اقدامات میں نہیں بلکہ مستقل اور جامع پالیسیز میں مضمر ہے۔ پاکستان میں فضائی آلودگی اور ۱سموگ کے تدارک کے لیے طویل المدتی اقدامات درج ذیل ہیں:
-1 فضائی آلودگی کے قوانین کی مؤثر عملداری
پاکستان میں فضائی آلودگی کے حوالے سے قوانین موجود ہیں، لیکن ان پر عملدرآمد میں کمزوری ہے۔ حکومت کو فضائی آلودگی کے قوانین پر سختی سے عمل کروانا ہو گا اور فیکٹریوں، پاور پلانٹس اور دیگر صنعتی سرگرمیوں کی مسلسل نگرانی کرنی ہو گی تاکہ فضائی آلودگی کو کم کیا جا سکے۔
-2 تحقیق اور جدید ٹیکنالوجی کا فروغ
۱سموگ کے مسئلے کا مستقل حل تحقیق اور جدید ٹیکنالوجی میں پوشیدہ ہے۔ پاکستان کو ماحولیاتی تحقیق کے لیے فنڈز مختص کرنے چاہئیں تاکہ ۱سموگ کے اسباب کو بہتر طریقے سے سمجھا جا سکے اور ان کے حل کے لیے جدید ٹیکنالوجی کو فروغ دیا جا سکے۔ صنعتی شعبے میں ایسے فلٹرز اور ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جانا چاہیے جو کہ فیکٹریوں کے اخراج کو کم کر سکے۔
-3 صاف توانائی کے ذرائع
پاکستان میں توانائی کی پیداوار کے لیے صاف اور ماحول دوست ذرائع کو فروغ دینا ہو گا تاکہ کوئلے اور فوسل فیولز کے استعمال کو کم کیا جا سکے۔ شمسی توانائی، ہوا سے پیدا ہونے والی بجلی اور ہائیڈرو پاور جیسے صاف ذرائع کے استعمال سے نہ صرف فضائی آلودگی کم ہو گی بلکہ توانائی کے بحران کا بھی بہتر حل ممکن ہو سکے گا۔
-4 پبلک ٹرانسپورٹ کی بہتری
پاکستان میں پبلک ٹرانسپورٹ کے نظام کو بہتر بنا کر بھی فضائی آلودگی کو کم کیا جا سکتا ہے۔ حکومت کو بسوں، ٹرینوں اور میٹرو سسٹمز کو فروغ دینا ہو گا تاکہ لوگ ذاتی گاڑیوں کے بجائے پبلک ٹرانسپورٹ کو استعمال کریں۔ اس سے نہ صرف ٹریفک کا دباؤ کم ہو گا بلکہ گاڑیوں سے خارج ہونے والی آلودگی بھی کم ہو گی۔
پاکستان میں اسموگ ایک سنگین ماحولیاتی بحران بن چکا ہے جو کہ ہر سال شدید تر ہوتا جا رہا ہے۔ اس کے اسباب میں صنعتی آلودگی، گاڑیوں سے نکلنے والا دھواں، فصلوں کی باقیات کو جلانا، کوئلے کا استعمال اور موسمیاتی حالات شامل ہیں۔ اسموگ کے صحت، ماحول اور معیشت پر تباہ کن اثرات مرتب ہوتے ہیں، جن سے بچنے کے لیے حکومت اور عوام دونوں کو متحرک ہونا پڑے گا۔
اسموگ کے مسئلے کا حل عارضی اقدامات سے ممکن نہیں بلکہ اس کے لیے جامع اور طویل المدتی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ حکومت کو صنعتی آلودگی پر قابو، الیکٹرک گاڑیوں کا فروغ، شجرکاری مہمات اور عوامی آگاہی کی مہمات کو موثر بنانا ہو گا تاکہ فضائی آلودگی کو کم کیا جا سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ صاف توانائی کے ذرائع کا استعمال اور بین الاقوامی تجربات سے سیکھنا بھی پاکستان میں اسموگ کے خاتمے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔
اسموگ کا موسم پاکستان میں عام طور پر 15 اکتوبر سے شروع ہوتا ہے اور 15 فروری تک جاری رہتا ہے، جس کی وجہ سے عوام کو شدید طبی مسائل اور ماحولیاتی نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔یہ نہ صرف ماحولیاتی عدم تحفظ پیدا کرتا ہے بلکہ انسانی صحت، معیشت اور سماجی زندگی پر بھی تباہ کن اثرات مرتب کرتا ہے۔ پاکستان کے شہر خاص طور پر لاہور، فیصل آباد کراچی اور گوجرانوالہ اسموگ سے شدید متاثر ہوتے ہیں، جہاں فضائی آلودگی کی شرح خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ یہ صورت حال نہ صرف پاکستان کے شہریوں بلکہ عالمی سطح پر ماحولیاتی ماہرین کے لیے بھی باعث تشویش ہے۔
اسموگ کیا ہے؟
اسموگ ایک فضائی آلودگی کا مرکب ہے جو دھوئیں اور دھند سے تشکیل پاتا ہے۔ یہ ایک بظاہر دھند کی طرح کی فضا ہوتی ہے جو کہ انسانی آنکھ سے دیکھی جا سکتی ہے، اور اس کے صحت پر مضر اثرات واضح ہوتے ہیں۔ اسموگ کی تشکیل کا عمل عموماً اُس وقت ہوتا ہے جب ہوا میں موجود آلودہ ذرات (پولوشن) زمین کی سطح کے قریب جمع ہوتے ہیں، خاص طور پر سردیوں کے موسم میں جب ہوا کا دباؤ کم ہوتا ہے اور دھواں اور دیگر زہریلے مادے فضا میں ٹھہر جاتے ہیں۔ پاکستان میں اسموگ کے اسباب کو سمجھنا اور ان کے حل کے لیے کوششیں کرنا نہایت اہم ہے، تاکہ اس بڑھتے ہوئے بحران کو روکا جا سکے۔
پاکستان میں اسموگ کی صورتحال
جیسا اوپر بیان کیا گیا ہے کہ پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں فضائی آلودگی خطرناک حدوں کو چھو رہی ہے، اور اس کا سب سے بڑا سبب اسموگ ہے۔ عالمی ادارہ صحت (WHO) اور دیگر بین الاقوامی اداروں کی رپورٹوں کے مطابق، پاکستان کے کئی شہر دنیا کے آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں شامل ہیں۔ خاص طور پر لاہور، جو کہ ملک کا دوسرا بڑا شہر ہے، اسموگ کی شدید لپیٹ میں ہے۔ ہر سال اسموگ کا موسم 15 اکتوبر سے 15 فروری تک جاری رہتا ہے، اس دوران فضائی آلودگی کی شرح خطرناک حد تک بڑھ جاتی ہے۔
پاکستان میں اسموگ کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اسموگ کے باعث اسکول بند کرنا پڑتے ہیں، ٹریفک حادثات میں اضافہ ہوتا ہے اور ہسپتالوں میں سانس کی بیماریوں کے مریضوں کی تعداد بڑھ جاتی ہے۔ شہری علاقوں میں سانس لینا دشوار ہو جاتا ہے اور عام زندگی بری طرح متاثر ہوتی ہے۔
اسموگ کے اسباب
پاکستان میں اسموگ کے کئی اسباب ہیں جو مل کر اس مسئلے کو جنم دیتے ہیں۔ یہ اسباب صنعتی سرگرمیوں، ٹریفک کے بڑھتے ہوئے مسائل، زرعی باقیات کو جلانے اور موسمیاتی تبدیلیوں سے جڑے ہوئے ہیں۔ یہاں اسموگ کے کچھ اہم اسباب کا جائزہ پیش کیا جا رہا ہے:
-1 صنعتی آلودگی
پاکستان میں صنعتی ترقی کے ساتھ ساتھ فضائی آلودگی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ فیکٹریوں اور کارخانوں سے نکلنے والا دھواں اور زہریلے مادے فضائی آلودگی کی بڑی وجوہات میں شامل ہیں۔ ان صنعتی سرگرمیوں کے دوران خارج ہونے والی گیسیں جیسے نائٹروجن آکسائیڈ، سلفر ڈائی آکسائیڈ اور کاربن مونو آکسائیڈ اسموگ کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
-2 گاڑیوں سے خارج ہونے والا دھواں
پاکستان میں گاڑیوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، خاص طور پر پرانی گاڑیوں سے نکلنے والا دھواں فضائی آلودگی کو بڑھا رہا ہے۔ زیادہ تر گاڑیاں ڈیزل یا پٹرول پر چلتی ہیں جو کہ نائٹروجن آکسائیڈ اور دیگر زہریلی گیسیں فضا میں چھوڑتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں اسموگ کی شدت بڑھ جاتی ہے اور شہری علاقوں میں سانس لینا مشکل ہو جاتا ہے۔
-3 فصلوں کے بھوسے کو جلانا
پنجاب اور سندھ کے زرعی علاقوں میں فصلوں کی باقیات کو جلانے کا عمل اسموگ کی شدت میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ کاشتکار فصلوں کی کٹائی کے بعد بچ جانے والے بھوسے اور پودوں کی باقیات کو آگ لگا دیتے ہیں تاکہ زمین کو صاف کیا جا سکے۔ اس عمل سے دھواں اور زہریلے مادے فضا میں شامل ہو کر اسموگ کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
-4 کوئلے کا استعمال
پاکستان میں توانائی کی پیداوار کے لیے کوئلے کا استعمال بھی اسموگ کا ایک بڑا سبب ہے۔ کوئلے کے پاور پلانٹس سے نکلنے والا دھواں فضائی آلودگی کا باعث بنتا ہے۔ یہ پاور پلانٹس ناصرف گرین ہاؤس گیسیں خارج کرتے ہیں بلکہ اسموگ کے ذرات بھی فضا میں شامل کرتے ہیں جو انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہیں۔
-1 موسمیاتی حالات
پاکستان میں اسموگ کے بننے میں موسمیاتی حالات بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ سردیوں کے موسم میں جب درجہ حرارت کم ہوتا ہے، ہوا کی رفتار کم ہو جاتی ہے اور فضا میں موجود آلودگی کے ذرات نیچے کی جانب آ کر زمین کے قریب جمع ہو جاتے ہیں۔ ان حالات میں اسموگ کی شدت میں اضافہ ہوتا ہے اور ہوا کی صفائی مشکل ہو جاتی ہے۔
اسموگ کے اثرات
اسموگ کے اثرات انتہائی تباہ کن ہوتے ہیں اور یہ انسانی صحت، ماحول اور معیشت پر شدید منفی اثرات ڈالتے ہیں۔ پاکستان میں ہر سال ہزاروں افراد اسموگ کی وجہ سے مختلف بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں اور ہسپتالوں میں سانس کی بیماریوں کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہاں اسموگ کے کچھ اہم اثرات کا ذکر کیا جا رہا ہے:
-1 انسانی صحت پر اثرات
اسموگ کے صحت پر شدید منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس میں موجود زہریلے ذرات سانس کے ذریعے جسم میں داخل ہو کر مختلف بیماریوں کا سبب بنتے ہیں۔ اسموگ سے ہونے والی بیماریوں میں سب سے زیادہ پھیپھڑوں کے امراض شامل ہیں۔ دمہ، برونکائٹس، اور دیگر سانس کی بیماریاں اسموگ کی وجہ سے بڑھتی ہیں۔ اس کے علاوہ دل کے امراض، آنکھوں میں جلن اور گلے کی خرابی بھی اسموگ کے باعث پیدا ہوتی ہیں۔
-2 بچوں اور بوڑھوں پر اثرات
اسموگ کا سب سے زیادہ اثر بچوں اور بوڑھوں پر ہوتا ہے۔ بچوں کے پھیپھڑے ابھی مکمل پر نشو و نما کے مراحل سے گذر رہے ہوتے ہیں اس لئے ان میں آلودگی کو سہ پانے کی صلاحیت کم ہوتی ہے جس بنا پر بچے اسموگ سے جلدی متاثر ہو جاتے ہیں۔ بوڑھے افراد پہلے سے موجود بیماریوں اور کمزور قوت مدافعت کے باعث زیادہ خطرے میں ہوتے ہیں۔ اسموگ کے باعث بچوں میں سانس کی بیماریاں بڑھ جاتی ہیں اور ان کی نشوونما میں کمی واقع ہوتی ہے۔
-3 ماحولیاتی اثرات
۱سموگ نہ صرف انسانی صحت بلکہ ماحول پر بھی منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔ یہ پودوں اور درختوں کے لیے نقصان دہ ہے کیونکہ ۱سموگ کی وجہ سے ضیائی تالیف (photosynthesis) کا عمل متاثر ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ اسموگ پانی اور مٹی کو بھی آلودہ کرتی ہے جس سے زراعت پر بھی برا اثر پڑتا ہے۔
-4 اقتصادی اثرات
۱سموگ کے اقتصادی اثرات بھی قابل غور ہیں۔ فضائی آلودگی کی وجہ سے ہسپتالوں میں مریضوں کی تعداد بڑھ جاتی ہے جس سے صحت کے اخراجات میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ۱سموگ کے باعث ٹریفک حادثات میں اضافہ ہوتا ہے جس سے جانی و مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اقتصادی سرگرمیاں بھی ۱سموگ کے دوران متاثر ہوتی ہیں، خاص طور پر تعمیرات اور زراعت کے شعبے میں کام کرنے والوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
پاکستان میں ۱سموگ کےخاتمے کے لیے اقدامات
پاکستان میں اسموگ کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے حکومت اور ماحولیاتی ادارے مختلف اقدامات کر رہے ہیں۔ لیکن ابھی تک ان اقدامات سے مکمل طور پر قابو نہیں پایا جا سکا۔ ۱سموگ کے مسئلے کا حل صرف حکومتی کوششوں میں نہیں بلکہ عوامی شعور کی بیداری اور انفرادی سطح پر بھی اقدامات ضروری ہیں۔
-1 صنعتی آلودگی پر قابو
پاکستان میں صنعتی آلودگی کو کم کرنے کے لیے حکومت نے مختلف قوانین متعارف کرائے ہیں جن کے تحت صنعتی فضلے کو بہتر طریقے سے تلف کیا جا سکے اور فیکٹریوں سے نکلنے والے دھوئیں کو فلٹر کیا جا سکے۔ اس کے علاوہ ماحول دوست ٹیکنالوجی کا استعمال بھی فروغ دیا جا رہا ہے تاکہ فضائی آلودگی میں کمی لائی جا سکے۔
-2 الیکٹرک گاڑیوں کا فروغ
پاکستان میں گاڑیوں سے خارج ہونے والے دھوئیں کو کم کرنے کے لیے الیکٹرک گاڑیوں کے استعمال کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ الیکٹرک گاڑیاں نہ صرف ماحول دوست ہوتی ہیں بلکہ یہ روایتی پٹرول اور ڈیزل پر چلنے والی گاڑیوں کے مقابلے میں فضائی آلودگی کو بہت حد تک کم کرتی ہیں۔ حکومت پاکستان نے الیکٹرک گاڑیوں کی حوصلہ افزائی کے لیے ٹیکسوں میں کمی اور دیگر مراعات کا اعلان کیا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ الیکٹرک گاڑیاں استعمال کریں۔
-3 فصلوں کی باقیات کو جلانے پر پابندی
پاکستان میں ہر سال فصلوں کی کٹائی کے بعد بھوسے اور دیگر باقیات کو جلانا ایک عام عمل ہے، جو ۱سموگ کی شدت میں اضافہ کرتا ہے۔ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے حکومت کو کاشتکاروں کے لیے ایسی پالیسیز متعارف کرانی ہوں گی جو بھوسے کو جلانے کے بجائے اس کو ری سائیکل کرنے یا زمین میں شامل کرنے کی ترغیب دیں۔ اس کے لیے زرعی مشینری فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ عوامی آگاہی کی بھی ضرورت ہے تاکہ کاشتکار اس عمل کے مضر اثرات سے واقف ہوں۔
-4 شجرکاری مہمات
درخت زمین کی ''فطری فلٹر'' ہوتے ہیں جو ہوا میں موجود آلودگی کو جذب کرتے ہیں اور آکسیجن فراہم کرتے ہیں۔ پاکستان میں ۱سموگ کی روک تھام کے لیے بڑے پیمانے پر شجرکاری کی مہمات کا آغاز کیا جانا ضروری ہے۔ حکومت نے ''بلین ٹری سونامی'' اور دیگر شجرکاری پروگراموں کا آغاز کیا ہے، لیکن ان کو مزید وسعت دینا اور موثر بنانا ضروری ہے تاکہ فضائی آلودگی کو کم کیا جا سکے۔
-5 کوئلے سے پیدا ہونے والی توانائی کا متبادل
پاکستان میں بجلی کی پیداوار کے لیے کوئلے کا استعمال بھی فضائی آلودگی کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔ کوئلے سے چلنے والے پاور پلانٹس سے نکلنے والا دھواں ۱سموگ کے ذرات کو فضا میں شامل کرتا ہے۔ حکومت کو کوئلے کے پاور پلانٹس کے بجائے صاف توانائی کے ذرائع جیسے شمسی توانائی، ہوا سے پیدا ہونے والی بجلی اور ہائیڈرو پاور پر زیادہ توجہ دینی چاہیے تاکہ ۱سموگ اور فضائی آلودگی کو کم کیا جا
-6 عوامی آگاہی کی مہمات
۱سموگ کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے عوام کو بھی متحرک کرنے کی ضرورت ہے۔ عوامی آگاہی کی مہمات کے ذریعے شہریوں کو بتایا جانا چاہیے کہ فضائی آلودگی کو کیسے روکا جا سکتا ہے اور روزمرہ کی زندگی میں وہ کن اقدامات کے ذریعے ۱سموگ کے اثرات کو کم کر سکتے ہیں۔ اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں اس حوالے سے خصوصی تربیت اور آگاہی سیشنز منعقد کیے جا سکتے ہیں تاکہ نئی نسل کو ماحولیاتی مسائل کا احساس ہو اور وہ مستقبل میں اس حوالے سے بہتر اقدامات اٹھا سکیں۔
بین الاقوامی تجربات سے سبق حاصل کرنا
پاکستان میں ۱سموگ کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے بین الاقوامی ماڈلز کا مطالعہ اور ان سے سبق حاصل کرنا نہایت ضروری ہے۔ دنیا کے کئی ممالک نے ۱سموگ اور فضائی آلودگی پر قابو پانے کے لیے مؤثر حکمت عملی اپنائی ہے جن سے پاکستان بھی سیکھ سکتا ہے۔
-1 چین کا ماڈل
چین نے اپنے بڑے شہروں میں فضائی آلودگی پر قابو پانے کے لیے سخت قوانین اور پالیسیز متعارف کرائی ہیں۔ چین نے فیکٹریوں سے دھویں کے اخراج پر سخت پابندیاں عائد کی ہیں، کوئلے کے استعمال کو محدود کیا ہے اور بڑے پیمانے پر شجرکاری مہمات کا آغاز کیا ہے۔ پاکستان بھی اسی طرز پر فضائی آلودگی کو کم کرنے کے لیے موثر اقدامات اٹھا سکتا ہے۔
-2 بھارت کی حکمت عملی
بھارت بھی اسموگ سے شدید متاثرہ ممالک میں شامل ہے، خاص طور پر نئی دہلی جیسے شہروں میں فضائی آلودگی کی صورتحال سنگین رہی ہے۔ بھارت نے فصلوں کی باقیات کو جلانے پر پابندی عائد کی ہے اور فضائی آلودگی کی نگرانی کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ پاکستان بھی فصلوں کی باقیات کو جلانے کی پالیسیوں کو بہتر بنا سکتا ہے اور جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے فضائی آلودگی کی مسلسل نگرانی کر سکتا ہے۔
-3یورپی ممالک کا طریقہ کار
یورپ کے کئی ممالک نے صاف توانائی کے استعمال کو فروغ دیا ہے اور فضائی آلودگی پر قابو پانے کے لیے ٹرانسپورٹ کے متبادل ذرائع جیسے الیکٹرک گاڑیاں اور پبلک ٹرانسپورٹ کو فروغ دیا ہے۔ پاکستان بھی ان ممالک سے سیکھ کر اپنی ٹرانسپورٹ اور انرجی پالیسیز میں بہتری لا سکتا ہے۔
پاکستان میں ۱سموگ کے تدارک کے لیے طویل المدتی اقدامات
۱سموگ ایک طویل المدتی مسئلہ ہے جس کا حل صرف عارضی اقدامات میں نہیں بلکہ مستقل اور جامع پالیسیز میں مضمر ہے۔ پاکستان میں فضائی آلودگی اور ۱سموگ کے تدارک کے لیے طویل المدتی اقدامات درج ذیل ہیں:
-1 فضائی آلودگی کے قوانین کی مؤثر عملداری
پاکستان میں فضائی آلودگی کے حوالے سے قوانین موجود ہیں، لیکن ان پر عملدرآمد میں کمزوری ہے۔ حکومت کو فضائی آلودگی کے قوانین پر سختی سے عمل کروانا ہو گا اور فیکٹریوں، پاور پلانٹس اور دیگر صنعتی سرگرمیوں کی مسلسل نگرانی کرنی ہو گی تاکہ فضائی آلودگی کو کم کیا جا سکے۔
-2 تحقیق اور جدید ٹیکنالوجی کا فروغ
۱سموگ کے مسئلے کا مستقل حل تحقیق اور جدید ٹیکنالوجی میں پوشیدہ ہے۔ پاکستان کو ماحولیاتی تحقیق کے لیے فنڈز مختص کرنے چاہئیں تاکہ ۱سموگ کے اسباب کو بہتر طریقے سے سمجھا جا سکے اور ان کے حل کے لیے جدید ٹیکنالوجی کو فروغ دیا جا سکے۔ صنعتی شعبے میں ایسے فلٹرز اور ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جانا چاہیے جو کہ فیکٹریوں کے اخراج کو کم کر سکے۔
-3 صاف توانائی کے ذرائع
پاکستان میں توانائی کی پیداوار کے لیے صاف اور ماحول دوست ذرائع کو فروغ دینا ہو گا تاکہ کوئلے اور فوسل فیولز کے استعمال کو کم کیا جا سکے۔ شمسی توانائی، ہوا سے پیدا ہونے والی بجلی اور ہائیڈرو پاور جیسے صاف ذرائع کے استعمال سے نہ صرف فضائی آلودگی کم ہو گی بلکہ توانائی کے بحران کا بھی بہتر حل ممکن ہو سکے گا۔
-4 پبلک ٹرانسپورٹ کی بہتری
پاکستان میں پبلک ٹرانسپورٹ کے نظام کو بہتر بنا کر بھی فضائی آلودگی کو کم کیا جا سکتا ہے۔ حکومت کو بسوں، ٹرینوں اور میٹرو سسٹمز کو فروغ دینا ہو گا تاکہ لوگ ذاتی گاڑیوں کے بجائے پبلک ٹرانسپورٹ کو استعمال کریں۔ اس سے نہ صرف ٹریفک کا دباؤ کم ہو گا بلکہ گاڑیوں سے خارج ہونے والی آلودگی بھی کم ہو گی۔
پاکستان میں اسموگ ایک سنگین ماحولیاتی بحران بن چکا ہے جو کہ ہر سال شدید تر ہوتا جا رہا ہے۔ اس کے اسباب میں صنعتی آلودگی، گاڑیوں سے نکلنے والا دھواں، فصلوں کی باقیات کو جلانا، کوئلے کا استعمال اور موسمیاتی حالات شامل ہیں۔ اسموگ کے صحت، ماحول اور معیشت پر تباہ کن اثرات مرتب ہوتے ہیں، جن سے بچنے کے لیے حکومت اور عوام دونوں کو متحرک ہونا پڑے گا۔
اسموگ کے مسئلے کا حل عارضی اقدامات سے ممکن نہیں بلکہ اس کے لیے جامع اور طویل المدتی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ حکومت کو صنعتی آلودگی پر قابو، الیکٹرک گاڑیوں کا فروغ، شجرکاری مہمات اور عوامی آگاہی کی مہمات کو موثر بنانا ہو گا تاکہ فضائی آلودگی کو کم کیا جا سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ صاف توانائی کے ذرائع کا استعمال اور بین الاقوامی تجربات سے سیکھنا بھی پاکستان میں اسموگ کے خاتمے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔