موت کسی بھی لمحے آن دبوچے سکستھ جنریشن وارفئیر کا آغاز
اسرائیلی ماہرین الیکٹرونک اشیا کو بم کی شکل دینے کا پچاس سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔
مورخین لکھتے ہیں کہ ساڑھے تین ہزار سال پہلے کنعان کے مقام میگدو (شمالی اسرائیل) میں لڑی گئی جنگ(Battle of Megiddo)انسانی تاریخ کی وہ پہلی جنگ ہے جسے دستاویزی طور پہ ریکارڈ کیا گیا۔
یہ مصر اور کنعانی ریاستوں کے مابین ہوئی تھی جس میں مصریوں کو کامیابی نصیب ہوئی۔ اسے تلواروں، نیزوں اور تیروں کی مدد سے لڑا گیا تھا۔ ماہرین اس جنگ کو ''حربی علوم وفنون کی پہلی نسل'' یا ''فرسٹ جنریشن وار'' کے زمرے میں رکھتے ہیں۔ پھر جوں جوں انسانی تہذیب وتمدن نے ترقی کی، نت نئے جنگی علوم وفنون بھی وجود میں آتے رہے۔
بیسویں صدی میں ٹینک، توپیں اور جنگی ہوائی جہاز متعارف ہوئے۔ پھر راکٹوں اور میزائیلوں کا دور آیا۔ اکیسویں صدی میں ڈرون اہم اسلحہ بن گئے۔ ساتھ ساتھ پروپیگنڈہ اور جھوٹ پھیلانے کی منظم کوششیں بھی جنگی حکمت عملی کا حصہ بن گئیں۔ مدعا یہ تھا کہ دشمن کی سیاست اور معیشت کو نشانہ بنایا جا سکے ۔ سیاسی اور معاشی شعبوں میں بگاڑ اور زوال کسی بھی ملک کو کمزور کر سکتا ہے۔ یہ مطلب پورا کرنے کے لیے سوشل میڈیا کو بھی ہتھیار بنا لیا گیا۔ اسی جنگی پالیسی کو ''ففتھ جنریشن وار فیئر'' کا نام دیا گیا جو بالعموم اسلحہ چلائے بغیر جھوٹ اور الزامات لگا کر انجام پاتی ہے۔
چھٹی نسل کی جنگ
پچھلے دنوں اسرائیل نے اپنے اقدامات سے ''سکستھ جنریشن وار وئیر''کا آغاز کر دیا جو بنیادی طور پر کمیونیکیشن آلات ، انٹرنیٹ اور مصنوعی ذہانت کی مدد سے لڑی جاتی ہے۔ اسرائیلیوں نے اپنی جدید ترین سائنس وٹکنالوجی کی مدد سے بظاہر انسان دوست اور مفید ہر الیکٹرونک شے کو چلتے پھرتے بم میں تبدیل کر دیا ہے۔ گویا اب نظریاتی طور پہ اسرائیلی دنیا بھر میں کوئی بھی الیکٹرونک شے استعمال کرتے انسان کو ٹارگٹ کر سکتے ہیں کیونکہ وہ ایسی ٹکنالوجی بنانے میں کامیاب ہو چکے جو کسی بھی برقی چیز کو بم میں بدل سکتی ہے۔ سکستھ جریشن واروئیر کا خوفناک روپ حالیہ وسط ستمبر میں سب سے پہلے اہل لبنان و شام نے دیکھا۔
وسط ستمبر کی سہ پہر اہل لبنان و شام پر قیامت ٹوٹ پڑی جب ہزارہا لوگوں کی جیبوں میں رکھے یا ہاتھوں میں پکڑے پیجر اور واکی ٹاکی دھماکے سے پھٹ گئے۔ دھماکوں کی زد میں آ کر 37 بچے، بوڑھے اور مرد شہید جبکہ پینتیس سو سے زائد زخمی ہوئے۔ سیکڑوں لوگوں کی آنکھیں ضائع ہو گئیں یا چہرے اور پہلو شدید متاثر ہوئے۔یہ انسانی تاریخ میں اپنی نوعیت کا پہلا انوکھا حملہ تھا جس نے اہل لبنان و شام کو نہایت خوفزدہ کر دیا کیونکہ مقامی میڈیا کی رو سے بعض مقامات پر سمارٹ فون، سولر پینل، ریڈیو اور کار بیٹریاں بھی دہماکے سے پھٹ گئیں۔ گویا اہل لبنان کے دشمن اب گھر و دفتر و بازار میں استعمال ہوتی ہر عام ،بے ضرر الیکٹرونک شے میں بارود بھر کر اسے ہتھیار کا روپ دے سکتے ہیں۔
کاغذی (شیل )کمپنیوں کا جال
اسرائیل کی حکومت دعوی کرتی ہے کہ ان حملوں میں اس کا ہاتھ نہیں مگر عالمی میڈیا نے اسی کی طرف انگلی اٹھائی۔امریکی میڈیا کے مطابق پھٹ جانے والے پیجر اور واکی ٹاکی اسرائیلی فوج اور اسرائیل کی خفیہ ایجنسی، موساد نے مل کر تیار کیے۔
ویسے یہ دونوں آلات تائیوان اور جاپان کی کمپنیاں بناتی ہیں مگر اسرائیلی خفیہ ایجنسیوں نے نہایت عیّاری سے مختلف یورپی ممالک مثلاً ہنگری، بلغاریہ، ناروے میں کاغذی (شیل )کمپنیوں کا جال بچھایا اور ان کے ذریعے اپنے تیار کردہ جعلی آلات مخالف لبنانی مسلح تنظیم، حزب اللہ کو فروخت کرنے میں کامیاب رہیں۔ یہ حزب اللہ کے رہنماؤں کی ناکامی ہے کہ وہ اسرائیل ساختہ آلات کا حقیقی منبع شناخت نہیں کر سکے ، نتیجہ ً تنظیم کے کئی ارکان اپنی جیبوں یا بیگوں میں رکھے ان ننھے ہتھیاروں کا نشانہ بن گئے۔
ذرائع کے مطابق اسرائیلی ماہرین نے پھٹ جانے والے آلات میں ایک خصوصی چپ بورڈ نصب کیا جو جدید ترین ہارڈوئیر اور سافٹ وئیر کا مرکب تھا۔اس میں بارودی مواد رکھا اور اسے پھوڑنے کے لیے ایک سوئچ بنایا۔ یہ سوئچ ایک پیغام بھجوانے سے چلنا تھا۔ سترہ اور اٹھارہ ستمبر کو اسرائیلیوں نے پیجروں اور واکی ٹاکیوں پر وہی پیغام بھیجا جس نے سوئچ چلا دیا۔اس کے چلتے ہی بارودی مواد دہماکے سے پھٹ گیا۔ پیغام کو 'لبلبی' اس لیے بنایا گیا تاکہ ٹارگٹ شدہ شخص اپنا پیجر یا واکی ٹاکی پیغام پڑھنے کے لیے چہرے کے قریب لے آئے۔ یہی وجہ ہے، بیشتر مضروبوں کی آنکھوں کو نقصان پہنچا۔
پچاس سالہ تجربہ
اسرائیلی ماہرین الیکٹرونک اشیا کو بم کی شکل دینے کا پچاس سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔ جنوری 1973 ء میں موساد ایجنٹ فرانس میں تنظیم آزادی فلسطین کے نمائندے، محمود المھشری کے گھر واقع پیرس میں چوری چھپے داخل ہوئے اور ان کے ٹیلی فون میں بم چھپا دیا۔ بم کے ساتھ ہی ریموٹ کنٹرول آلہ بھی لگایا گیا جس نے ایک کال کے ذریعے اپنا کام کرنا تھا۔ صبح جب المھشری نے گھنٹی سن کر ریسیور اٹھایا تو ان کی آواز سنتے ہی ریموٹ کنٹرول آلے کی مدد سے بم پھاڑ دیا گیا۔وہ شدید زخمی ہوئے اور بعد ازاں چل بسے۔
پچھلی نصف صدی کے دوران اسرائیلی ماہرین مسلسل تجربات و تحقیق سے اپنی اس جنگی ٹکنالوجی کو درجہ کمال تک پہنچا چکے جو مفید الیکٹرونک اشیا کو بم کا روپ دے کر خوفناک شکل دے ڈالتی ہے۔ اس ٹکنالوجی کی مکمل تفصیل سے آج بھی دنیا والے بے خبر ہیں مگر وہ اسرائیلیوں کی کارروائیوں کے سبب بتدریج آشکارا ہو رہی ہے۔یحیی عیاش کا معاملہ دیکھیے جو حماس کے اہم رہنما تھے۔ اکتوبر 1995ء میں اسرائیلی خفیہ ایجنسی،شین بیت(Shin Bet) نے ڈالروں کا لالچ دے کر ان کے ایک واقف کار کو اپنا ایجنٹ بنا لیا۔ اس کے توسط سے شین بیت نے بارود سے بھرا موبائل یحیی تک پہنچایا ، ریموٹ کنٹرول سے اسے پھاڑا اور جنوری 1996ء میں انھیں شہید کر دیا۔
اسی طرح 2010 ء سے ریموٹ کنٹرول آلات کی مدد سے اسرائیلی خفیہ ایجنسیاں ایران کے پانچ ایٹمی سائنس دانوں کو شہید کر چکیں۔ مقصد یہ ہے کہ ایرانی ایٹمی منصوبے کو زک پہنچائی جائے۔2020ء میں چیف ایٹمی سائنس داں ، محسن فخری زادہ ریموٹ کنٹرول مشین گن چلا کر مار دئیے گئے تھے۔ 2010 ء ہی میں اسرائیل نے ایک خطرناک کمپیوٹری وائرس،سٹکس نیٹ (Stuxnet) بنا کر اْن مشینوں کو نشانہ بنایا تھا جو ایرانی ایٹم بم کے لیے یورینیم تیار کر رہی تھیں۔
وسیع پیمانے پر تجربات
اسرائیل میں جدید ٹکنالوجیوں مثلاً کمپیوٹر سائنس، مصنوعی ذہانت اور الیکٹرونک وار فیئرکے سلسلے میں وسیع پیمانے پر تحقیق وتجربات ہوتے ہیں۔یہ چھوٹا سا ملک دشمنوں سے گھرا ہوا ہے۔اسی لیے ابتدا سے دفاع پر سالانہ اربوں ڈالر خرچ کر رہا ہے۔ اس باعث اسرائیلی ماہرین نت نئی جنگی ٹکنالوجیاں ایجاد کرنے میں زبردست ترقی کر گئے۔ اس معاملے میں شاید سپرپاورز ، امریکا، چین اور روس بھی اسرائیل سے پیچھے ہیں۔ اسرائیلی ماہرین کی دسترس اور رسائی کا اندازہ اس امر سے لگائیے کہ ماہرین کو یقین ہے، انھوں نے ہی اپنی جدید ٹکنالوجی بروئے کار لاتے ہوئے ایرانی صدر ، ابراہیم رئیسی کا ہیلی کاپٹر گرا کر انھیں شہید کر دیا۔ نیز حماس کے سیاسی چیف ، اسماعیل ہنیہ کو گھر میں گھس کر مار ڈالا۔
اب کوئی محفوظ نہیں
اب لبنان و شام میں بیک وقت ہزارہا پیجروں، واکی ٹاکیوں ، موبائلوں وغیرہ میں پوشیدہ بم پھوڑ کر اسرائیل نے اپنے معاصرین کو یہ واضح پیغام دیا :''ہم تمھیں دنیا بھر میں کسی بھی جگہ ، کسی بھی وقت، اپنی مرضی سے نشانہ بنا سکتے ہیں اور تم کچھ نہیں کر پاؤ گے۔''یہ دعوی سچ ثابت ہوا جب اسرائیلی بمبوں نے بیروت میں حزب اللہ کا زیرزمین واقع ہیڈکوارٹر تباہ کر دیا۔اس حملے میں تنظیم کے سیکرٹری جنرل، حسن نصر اللہ شہید ہو گئے۔ تنظیم کے کسی رکن کو اسرائیلی حملے کی خبر تک نہ ہو سکی۔
سچ یہ ہے کہ اب ہر مسلمان اسرائیلی خفیہ ایجنسیوں کے ریڈار میں آچکا۔ وہ عام اشیا... موبائل، کاربیٹری، ریڈیو، سولر سیل، ڈیسک ٹاپ کمپیوٹر، ٹی وی، ریڈیو وغیرہ کو بم میں بدل کر اسے ٹارگٹ کرنے کے قابل ہو چکیں۔
اسرائیل کی اعلانیہ مخالفت کرنے والا ہر مسلمان اب خود کو غیر محفوظ سمجھ رہا ہے۔یہی نہیں دیگر ممالک اسرائیل سے یہ ٹکنالوجی خرید کر عام استعمال کی اشیا کو چلتا پھرتا بم بنا سکتے ہیں۔ گویا اسرائیلی اقدامات سے دنیا میں'' سکستھ جنریشن وارفیئر'' جنم لے چکی جس میں موت اچانک دبوچ لیتی ہے اور انسان کچھ نہیں کر پاتا۔یہ امر قابل ذکر ہے کہ سابق امریکی وزیر دفاع، لیون پانیٹا نے اسرائیل کے پیجر دھماکوں کو ''دہشت گردی ''قرار دیا۔ یہ امریکی حکمران طبقے کی صفوں میں سامنے آنے والی اہم تبدیلی ہے کیونکہ وہ عموماً اسرائیل پہ تنقید کرنے سے کتراتا ہے۔
مقامی زومبی
کہتے ہیں بعض اوقات شر کے بطن سے خیر جنم لیتا ہے۔ یہ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ ممکن ہے کہ اب پاکستان اور اسلامی ممالک میں جان جانے کا خوف موبائل ، ٹیبلٹ وغیرہ کا استعمال کم کر دے۔ ان آلات کے ذریعے غیرملکی طاقتوں نے ہماری نئی نسل کا دماغ اپنے قبضے میں کر لیا ہے۔کئی لڑکے لڑکیاں سمجھ بوجھ سے عاری ایسے 'زومبی' بن چکے جنھیں جو کہا جائے وہی کرتے ہیں۔یہ طاقتیں نہ صرف ان آلات کی مدد سے عالم اسلام میں اپنی مادہ پرستانہ تہذیب وثقافت پھیلا رہی ہیں، بلکہ اسلامی عقائد کے خلاف پروپیگنڈا بھی کرتی ہیں۔ نیز جھوٹی خبریں پھیلا کر مسلم فرقوں کو باہم لڑانے کی کوششیں بھی ہوتی ہیں۔
کمزور عالم اسلام
افسوس کہ عالم اسلام کے ماہرین و سائنس داں مغرب کی چھیڑی نظریاتی ففتھ جنریشن وارفیئر کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ اب تو اسرائیل نے اپنی جنگی ٹکنالوجی برت کر چھٹی نسل کی عملی جنگ چھیڑ دی ہے۔ اسرائیل نے غزہ ، لبنان، یمن اور شام میں مسلمانوں پر مسلسل بم باری کر کے یہ بھی ثابت کر دیا کہ اسلامی حکمرانوں میں اتنا بوتا نہیں، وہ اس کی راہ روک لیں۔ اس خوفناک زوال اور سے نکلنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ اسلامی ممالک اتحاد سے کام لیں اور مل کر مسلم دشمن قوتوں کے سامنے صف آرا ہوں۔ امت مسلمہ باہمی اشتراک سے خصوصاً جنگی سائنس و ٹکنالوجی کو فروغ دے تاکہ دشمنوں کے سفلی عزائم کا مقابلہ کیا جا سکے۔
وقت کی ضرورت: باہمی اتحاد
یہ تبدیلی خوش آئند ہے کہ ہمارے خطّے میں بھارت اور بنگلہ دیش کے عوام نے مسلم مخالف رہنماؤں کو مسترد کر دیا۔حالیہ الیکشن میں انتہا پسند نریندر مودی کی پارٹی کو کم نشستیں ملیں ، جبکہ بھارتی حزب اختلاف موثر طاقت بن کر نمایاں ہوئی۔
بنگلہ دیش میں طلبہ تحریک نے بھارت نواز بیگم حسینہ واجد کو ملک سے مار بھگایا۔ یوں نہ صرف منفی قوتوں کا زور کم ہوا بلکہ جنوبی ایشیا کی مسلم طاقتیں قریب آرہی ہیں۔نیویارک میں اقوام متحدہ کے دوران اجلاس بنگلہ دیشی عبوری حکمران، محمد یونس اوروزیراعظم پاکستان کی ملاقات ہو ئی۔ یہ چرچا بھی ہے کہ دونوں ممالک فضائی مشقیں کریں گے۔ برادر اسلامی ممالک کا قریب آنا خوش کن پیشرفت ہے۔ اب اہل پاکستان کو اندرونی طور پر بھی متحد ہونا پڑے گا۔
اس کے سوا چارہ نہیں کیونکہ مقامی اور عالمی طور پر سیاسی و معاشی حالات بہت گھمبیر ہو چکے۔ اتحاد و یک جہتی کی بدولت پاکستان اور عالم اسلام تمام کڑے چیلنجوں کا بخوبی مقابلہ کر سکے گا۔ فی الوقت تو پاکستان سمیت اکثر مسلم ممالک میں سیاسی و معاشرتی جھگڑے زوروں پر ہیں۔ عالم اسلام میں فرقہ وارانہ اختلافات بھی کم نہیں ہو پاتے۔ اُدھر امت کے دشمن آپس میں اتحاد اور سائنس وٹکنالوجی میں زبردست ترقی کر کے مسلسل طاقتور ہو رہے ہیں۔
اکلوتا حمایتی و پشت پناہ
دنیا کی اکلوتی سپرپاور، امریکا جس طرح اسرائیل کا حمایتی و پشت پناہ بنا ہوا ہے، یہ امر بڑا تشویش ناک ہے۔ اس نے اسرائیل کو کھلی چھٹی دے دی کہ وہ نہتے و معصوم مسلم بچے بچیوں ، عورتوں ، بوڑھوں اور مردوں کو نشانہ بنائے، کوئی اسے پوچھنے والا نہیں۔ پاکستانی دانشور خبردار کر رہے ہیں کہ امریکا اسرائیل کی طرح رفتہ رفتہ بھارت کا بھی پشت پناہ بن رہا ہے۔ لہذا مستقبل میں بھارتی افواج کو بھی یہ کھلی چھٹی مل سکتی ہے کہ وہ جب چاہے اور جس علاقے میں چاہے، حملہ کر دے۔ اور اس حملے میں شہری آبادی شہید ہوتی ہے تو بھارتی حکمران طبقے کو کوئی پروا نہیں ہو گی کیونکہ اہل دنیا اسرائیل کے خوفناک مظالم نہیں روک سکے، بس زبانی کلامی احتجاج کر کے بیٹھ رہے۔
خوفناک حقائق
امریکا اسرائیل کا قریب ترین اور سب سے بڑا اتحادی ہے۔ اسرائیل 1948 ء میں اپنے قیام کے بعد سے سیاسی، اقتصادی اور عسکری طور پر امریکا پہ بہت زیادہ انحصار کرتا ہے۔ اسرائیل کو امریکی ہتھیاروں کی سپلائی کئی سرکاری منصوبوں مثلاً یو ایس فارن ملٹری فنانسنگ (FMF)، ملٹری اسسٹنس پروگرام (MAP) اور ایکسیس ڈیفنس آرٹیکلز (Excess Defense Articles) کے ذریعے زیادہ تر مفت ہوتی ہے۔
کانگریشنل ریسرچ سروس (CRS) کے مطابق امریکا نے دوسری جنگ عظیم کے بعد اسرائیل کو کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں زیادہ غیر ملکی امداد فراہم کی ہے۔سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (SIPRI) کی دستاویز بتاتی ہیں ، اسرائیل کو 2018 ء سے 2022 ء تک بیرون ملک سے جو ہتھیار ملے، ان کا 79 فیصد حصہ امریکا ہی نے فراہم کیا۔ اگلے قریب ترین سپلائرز 20 فیصد کے ساتھ جرمنی اور صرف 0.2 فیصد کے ساتھ اٹلی تھے۔
امریکی صدر، ہیری ایس ٹرومین کی صدارت کے بعد سے اسرائیل کی سلامتی کے لیے ثابت قدم حمایت ہر امریکی انتظامیہ کے لیے امریکی خارجہ پالیسی کا سنگ بنیاد رہی ہے۔ 1948 ء میں اسرائیل کے قیام کے بعد سے امریکا نے اب تک اسرائیل کو 300 بلین ڈالر سے زیادہ کی دوطرفہ امداد فراہم کی ہے ۔مقصد یہی تھا کہ اسرائیل عسکری طور پہ زیادہ سے زیادہ طاقتور ہو جائے۔ اپنا دفاع مضوط بنا لے۔ اسرائیلی اور امریکی فوجی مل کر اکثر جنگی مشقیں کرتے ہیں تاکہ اسرائیل کی افواج کو جدید ترین حربی علوم وفنون حاصل رہیں۔
سب سے زیادہ قابل اور موثر فوج
امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا ہے کہ امریکا کی جنگی امداد نے اسرائیل ڈیفنس فورسز (IDF) کو ''دنیا کی سب سے زیادہ قابل اور موثر فوج میں تبدیل کرنے میں مدد کی ہے۔ اور اسرائیلی عسکری صنعت اور ٹیکنالوجی کے شعبے کو دنیا بھر میں فوجی صلاحیتوں کے سب سے بڑے برآمد کنندگان میں سے ایک میں تبدیل کر دیا ہے۔'' یہ یاد رہے کہ زیادہ تر امریکا کے فراہم کردہ ہتھیاروں کے ذریعے ہی اسرائیل نے غزہ اور پھر لبنان میں بے گناہ شہریوں کا قتل عام کیا اور کئی انسانی آبادیاں تباہ و برباد کر دیں۔
امریکی ڈیوک یونیورسٹی کے سانفورڈ سکول آف پبلک پالیسی میں پریکٹس کی وزٹنگ پروفیسر ڈاکٹر نٹالی جے گولڈرنگ کہتی ہیں کہ 7 اکتوبر کو حماس کے حملے متنازع تھے ، مگر جواب میں اسرائیل نے اہل فلسطین پر بلا امتیاز حملہ کر دیا۔ جنگجوؤں کے ساتھ ساتھ شہریوں ، حتی کہ بچوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ اسرائیلی حکمران طبقے نے جان بوجھ کر ایسا کیا۔ حماس کے حملوں کے دو دن بعد اسرائیلی وزیر دفاع یوو گیلنٹ نے اعلان کیا کہ اسرائیل غزہ کا مکمل محاصرہ کرے گا، جس میں پانی، خوراک اور ایندھن کی سپلائی بند کرنے کے ساتھ ساتھ بجلی کی سپلائی بھی روک دی جائے گی۔ اور اسرائیلی افواج نے ایسا کیا ہے۔''
ڈاکٹر گولڈرنگ نے مزید کہا ''امریکی حکومت مسلسل اسرائیلی حملوں کی خصوصی ذمہ داری لیتی ہے۔ اس نے اسرائیل کو بھاری مقدار میں فوجی امداد اور ہتھیار فراہم کیے ہیں اور اسرائیل نے ان ہتھیاروں کے استعمال پر امریکی پابندیوں کو نظر انداز کر دیا ۔ہتھیاروں اور گولہ بارود کی اسی فراہمی نے اسرائیلی فوج کو غزہ میں اپنے اندھا دھند حملے جاری رکھنے کی اجازت دے ڈالی۔'' ڈاکٹر صاحبہ اقوام متحدہ کے ادارے ایکرونائم انسٹی ٹیوٹ(Acronym Institute) کی بھی نمائندہ ہیں جو روایتی ہتھیاروں اور ہتھیاروں کی تجارت کے مسائل سے متعلق ہے۔
1983ء کے بعد سے امریکا اور اسرائیل باہمی پالیسیوں کو فروغ دینے، مشترکہ خطرات اور خدشات دور کرنے اور سیکورٹی تعاون کے لیے نئے شعبوں کی نشاندہی کرنے کے لیے مشترکہ سیاسی و فوجی گروپ (JPMG) کے ذریعے باقاعدگی سے ملاقاتیں کرتے رہے ہیں۔ امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے مطابق اسرائیل فارن ملٹری فنانسنگ (ایف ایم ایف) پروگرام کے تحت ٹائٹل 22 امریکی سیکیورٹی امداد کا اہم وصول کنندہ ہے۔ اس عمل کو دس سالہ (2019ء -2028ء ) مفاہمت کی یادداشت (MOU) کے ذریعے باضابطہ شکل دی گئی ہے۔
ایم او یو کے مطابق امریکا سالانہ 3.3 بلین فارن ملٹری فنانسنگ کے تحت اور 500 ملین ڈالر میزائل دفاع کے تعاون پر مبنی پروگراموں کے لیے فراہم کرتا ہے۔ مالی سال 2009ء سے امریکا نے اسرائیل کو میزائل دفاع کے لیے 3.4 بلین ڈالر کی فنڈنگ فراہم کی ہے، جس میں مالی سال 2011 ء سے شروع ہونے والے آئرن ڈوم سپورٹ کے لیے 1.3 بلین ڈالر بھی شامل ہیں۔ فارن ملٹری فنانسنگ کے ذریعے، امریکہ اسرائیل کو دنیا کے جدید ترین فوجی ساز و سامان تک رسائی فراہم کرتا ہے، جس میں F-35 اسٹیلتھ لڑاکا طیارے بھی شامل ہیں۔
1992 ء سے امریکہ نے اسرائیل کو ایکسیس ڈیفنس آرٹیکلز پروگرام کے تحت 6.6 بلین ڈالر مالیت کا سامان فراہم کیا ہے جس میں ہتھیار، اسپیئر پارٹس، ہتھیار اور سمیلیٹر شامل ہیں۔ امریکی فوج کی یو ایس یورپی کمانڈ(U.S. European Command) اسرائیل میں جدید ترین ہتھیاروں کا ذخیرہ بھی رکھتی ہے جسے کسی اہم فوجی ایمرجنسی کی صورت میں اسرائیلی دفاع مضبوط کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
سیکورٹی امداد اور ہتھیاروں کی فروخت کے علاوہ امریکا اسرائیل کے ساتھ مختلف قسم کے تبادلوں میں حصہ لیتا ہے، جن میں جونیپر اوک(Juniper Oak) اور جونیپر فالکن (Juniper Falcon)جیسی فوجی مشقیں، نیز مشترکہ تحقیق اور نت نئے ہتھیاروں کی تیاری شامل ہیں۔امریکا اور اسرائیل نے متعدد دو طرفہ دفاعی تعاون کے معاہدوں پر دستخط کیے ہیں جن میں نمایاں یہ ہیں: باہمی دفاعی معاونت کا معاہدہ (1952ء )؛ معلومات کا عمومی تحفظ معاہدہ (1982ء )؛ باہمی لاجسٹک سپورٹ معاہدہ (1991ء )؛ اور اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے مطابق فورسز کا معاہدہ (1994ء )۔
2011 ء سے ریاست ہائے متحدہ امریکا نے مغربی کنارے میں روایتی ہتھیاروں کی تباہی کے پروگراموں (onventional Weapons Destruction programs)میں 8ملین ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کی ہے تاکہ بارودی سرنگوں کی کلیئرنس کے ذریعے علاقائی اور انسانی سلامتی کو بہتر بنایا جا سکے۔
فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے ساتھ برسوں کے مذاکرات کے بعد انسانی بنیادوں پر بارودی سرنگیں صاٖف کرنے کی سرگرمیاں اپریل 2014 ء میں شروع ہوئیں ۔ اسرائیل کو امریکی قانون کے تحت ''امریکی میجر نان نیٹو اتحادی'' کے طور پر بھی نامزد کیا گیا ہے۔ یہ حیثیت غیر ملکی شراکت داروں کو دفاعی تجارت اور سیکورٹی تعاون کے شعبوں میں کچھ فوائد فراہم کرتی ہے اور یہ امریکا کے ساتھ ان کے قریبی تعلقات کی ایک طاقتور علامت بھی ہے۔
یہ مصر اور کنعانی ریاستوں کے مابین ہوئی تھی جس میں مصریوں کو کامیابی نصیب ہوئی۔ اسے تلواروں، نیزوں اور تیروں کی مدد سے لڑا گیا تھا۔ ماہرین اس جنگ کو ''حربی علوم وفنون کی پہلی نسل'' یا ''فرسٹ جنریشن وار'' کے زمرے میں رکھتے ہیں۔ پھر جوں جوں انسانی تہذیب وتمدن نے ترقی کی، نت نئے جنگی علوم وفنون بھی وجود میں آتے رہے۔
بیسویں صدی میں ٹینک، توپیں اور جنگی ہوائی جہاز متعارف ہوئے۔ پھر راکٹوں اور میزائیلوں کا دور آیا۔ اکیسویں صدی میں ڈرون اہم اسلحہ بن گئے۔ ساتھ ساتھ پروپیگنڈہ اور جھوٹ پھیلانے کی منظم کوششیں بھی جنگی حکمت عملی کا حصہ بن گئیں۔ مدعا یہ تھا کہ دشمن کی سیاست اور معیشت کو نشانہ بنایا جا سکے ۔ سیاسی اور معاشی شعبوں میں بگاڑ اور زوال کسی بھی ملک کو کمزور کر سکتا ہے۔ یہ مطلب پورا کرنے کے لیے سوشل میڈیا کو بھی ہتھیار بنا لیا گیا۔ اسی جنگی پالیسی کو ''ففتھ جنریشن وار فیئر'' کا نام دیا گیا جو بالعموم اسلحہ چلائے بغیر جھوٹ اور الزامات لگا کر انجام پاتی ہے۔
چھٹی نسل کی جنگ
پچھلے دنوں اسرائیل نے اپنے اقدامات سے ''سکستھ جنریشن وار وئیر''کا آغاز کر دیا جو بنیادی طور پر کمیونیکیشن آلات ، انٹرنیٹ اور مصنوعی ذہانت کی مدد سے لڑی جاتی ہے۔ اسرائیلیوں نے اپنی جدید ترین سائنس وٹکنالوجی کی مدد سے بظاہر انسان دوست اور مفید ہر الیکٹرونک شے کو چلتے پھرتے بم میں تبدیل کر دیا ہے۔ گویا اب نظریاتی طور پہ اسرائیلی دنیا بھر میں کوئی بھی الیکٹرونک شے استعمال کرتے انسان کو ٹارگٹ کر سکتے ہیں کیونکہ وہ ایسی ٹکنالوجی بنانے میں کامیاب ہو چکے جو کسی بھی برقی چیز کو بم میں بدل سکتی ہے۔ سکستھ جریشن واروئیر کا خوفناک روپ حالیہ وسط ستمبر میں سب سے پہلے اہل لبنان و شام نے دیکھا۔
وسط ستمبر کی سہ پہر اہل لبنان و شام پر قیامت ٹوٹ پڑی جب ہزارہا لوگوں کی جیبوں میں رکھے یا ہاتھوں میں پکڑے پیجر اور واکی ٹاکی دھماکے سے پھٹ گئے۔ دھماکوں کی زد میں آ کر 37 بچے، بوڑھے اور مرد شہید جبکہ پینتیس سو سے زائد زخمی ہوئے۔ سیکڑوں لوگوں کی آنکھیں ضائع ہو گئیں یا چہرے اور پہلو شدید متاثر ہوئے۔یہ انسانی تاریخ میں اپنی نوعیت کا پہلا انوکھا حملہ تھا جس نے اہل لبنان و شام کو نہایت خوفزدہ کر دیا کیونکہ مقامی میڈیا کی رو سے بعض مقامات پر سمارٹ فون، سولر پینل، ریڈیو اور کار بیٹریاں بھی دہماکے سے پھٹ گئیں۔ گویا اہل لبنان کے دشمن اب گھر و دفتر و بازار میں استعمال ہوتی ہر عام ،بے ضرر الیکٹرونک شے میں بارود بھر کر اسے ہتھیار کا روپ دے سکتے ہیں۔
کاغذی (شیل )کمپنیوں کا جال
اسرائیل کی حکومت دعوی کرتی ہے کہ ان حملوں میں اس کا ہاتھ نہیں مگر عالمی میڈیا نے اسی کی طرف انگلی اٹھائی۔امریکی میڈیا کے مطابق پھٹ جانے والے پیجر اور واکی ٹاکی اسرائیلی فوج اور اسرائیل کی خفیہ ایجنسی، موساد نے مل کر تیار کیے۔
ویسے یہ دونوں آلات تائیوان اور جاپان کی کمپنیاں بناتی ہیں مگر اسرائیلی خفیہ ایجنسیوں نے نہایت عیّاری سے مختلف یورپی ممالک مثلاً ہنگری، بلغاریہ، ناروے میں کاغذی (شیل )کمپنیوں کا جال بچھایا اور ان کے ذریعے اپنے تیار کردہ جعلی آلات مخالف لبنانی مسلح تنظیم، حزب اللہ کو فروخت کرنے میں کامیاب رہیں۔ یہ حزب اللہ کے رہنماؤں کی ناکامی ہے کہ وہ اسرائیل ساختہ آلات کا حقیقی منبع شناخت نہیں کر سکے ، نتیجہ ً تنظیم کے کئی ارکان اپنی جیبوں یا بیگوں میں رکھے ان ننھے ہتھیاروں کا نشانہ بن گئے۔
ذرائع کے مطابق اسرائیلی ماہرین نے پھٹ جانے والے آلات میں ایک خصوصی چپ بورڈ نصب کیا جو جدید ترین ہارڈوئیر اور سافٹ وئیر کا مرکب تھا۔اس میں بارودی مواد رکھا اور اسے پھوڑنے کے لیے ایک سوئچ بنایا۔ یہ سوئچ ایک پیغام بھجوانے سے چلنا تھا۔ سترہ اور اٹھارہ ستمبر کو اسرائیلیوں نے پیجروں اور واکی ٹاکیوں پر وہی پیغام بھیجا جس نے سوئچ چلا دیا۔اس کے چلتے ہی بارودی مواد دہماکے سے پھٹ گیا۔ پیغام کو 'لبلبی' اس لیے بنایا گیا تاکہ ٹارگٹ شدہ شخص اپنا پیجر یا واکی ٹاکی پیغام پڑھنے کے لیے چہرے کے قریب لے آئے۔ یہی وجہ ہے، بیشتر مضروبوں کی آنکھوں کو نقصان پہنچا۔
پچاس سالہ تجربہ
اسرائیلی ماہرین الیکٹرونک اشیا کو بم کی شکل دینے کا پچاس سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔ جنوری 1973 ء میں موساد ایجنٹ فرانس میں تنظیم آزادی فلسطین کے نمائندے، محمود المھشری کے گھر واقع پیرس میں چوری چھپے داخل ہوئے اور ان کے ٹیلی فون میں بم چھپا دیا۔ بم کے ساتھ ہی ریموٹ کنٹرول آلہ بھی لگایا گیا جس نے ایک کال کے ذریعے اپنا کام کرنا تھا۔ صبح جب المھشری نے گھنٹی سن کر ریسیور اٹھایا تو ان کی آواز سنتے ہی ریموٹ کنٹرول آلے کی مدد سے بم پھاڑ دیا گیا۔وہ شدید زخمی ہوئے اور بعد ازاں چل بسے۔
پچھلی نصف صدی کے دوران اسرائیلی ماہرین مسلسل تجربات و تحقیق سے اپنی اس جنگی ٹکنالوجی کو درجہ کمال تک پہنچا چکے جو مفید الیکٹرونک اشیا کو بم کا روپ دے کر خوفناک شکل دے ڈالتی ہے۔ اس ٹکنالوجی کی مکمل تفصیل سے آج بھی دنیا والے بے خبر ہیں مگر وہ اسرائیلیوں کی کارروائیوں کے سبب بتدریج آشکارا ہو رہی ہے۔یحیی عیاش کا معاملہ دیکھیے جو حماس کے اہم رہنما تھے۔ اکتوبر 1995ء میں اسرائیلی خفیہ ایجنسی،شین بیت(Shin Bet) نے ڈالروں کا لالچ دے کر ان کے ایک واقف کار کو اپنا ایجنٹ بنا لیا۔ اس کے توسط سے شین بیت نے بارود سے بھرا موبائل یحیی تک پہنچایا ، ریموٹ کنٹرول سے اسے پھاڑا اور جنوری 1996ء میں انھیں شہید کر دیا۔
اسی طرح 2010 ء سے ریموٹ کنٹرول آلات کی مدد سے اسرائیلی خفیہ ایجنسیاں ایران کے پانچ ایٹمی سائنس دانوں کو شہید کر چکیں۔ مقصد یہ ہے کہ ایرانی ایٹمی منصوبے کو زک پہنچائی جائے۔2020ء میں چیف ایٹمی سائنس داں ، محسن فخری زادہ ریموٹ کنٹرول مشین گن چلا کر مار دئیے گئے تھے۔ 2010 ء ہی میں اسرائیل نے ایک خطرناک کمپیوٹری وائرس،سٹکس نیٹ (Stuxnet) بنا کر اْن مشینوں کو نشانہ بنایا تھا جو ایرانی ایٹم بم کے لیے یورینیم تیار کر رہی تھیں۔
وسیع پیمانے پر تجربات
اسرائیل میں جدید ٹکنالوجیوں مثلاً کمپیوٹر سائنس، مصنوعی ذہانت اور الیکٹرونک وار فیئرکے سلسلے میں وسیع پیمانے پر تحقیق وتجربات ہوتے ہیں۔یہ چھوٹا سا ملک دشمنوں سے گھرا ہوا ہے۔اسی لیے ابتدا سے دفاع پر سالانہ اربوں ڈالر خرچ کر رہا ہے۔ اس باعث اسرائیلی ماہرین نت نئی جنگی ٹکنالوجیاں ایجاد کرنے میں زبردست ترقی کر گئے۔ اس معاملے میں شاید سپرپاورز ، امریکا، چین اور روس بھی اسرائیل سے پیچھے ہیں۔ اسرائیلی ماہرین کی دسترس اور رسائی کا اندازہ اس امر سے لگائیے کہ ماہرین کو یقین ہے، انھوں نے ہی اپنی جدید ٹکنالوجی بروئے کار لاتے ہوئے ایرانی صدر ، ابراہیم رئیسی کا ہیلی کاپٹر گرا کر انھیں شہید کر دیا۔ نیز حماس کے سیاسی چیف ، اسماعیل ہنیہ کو گھر میں گھس کر مار ڈالا۔
اب کوئی محفوظ نہیں
اب لبنان و شام میں بیک وقت ہزارہا پیجروں، واکی ٹاکیوں ، موبائلوں وغیرہ میں پوشیدہ بم پھوڑ کر اسرائیل نے اپنے معاصرین کو یہ واضح پیغام دیا :''ہم تمھیں دنیا بھر میں کسی بھی جگہ ، کسی بھی وقت، اپنی مرضی سے نشانہ بنا سکتے ہیں اور تم کچھ نہیں کر پاؤ گے۔''یہ دعوی سچ ثابت ہوا جب اسرائیلی بمبوں نے بیروت میں حزب اللہ کا زیرزمین واقع ہیڈکوارٹر تباہ کر دیا۔اس حملے میں تنظیم کے سیکرٹری جنرل، حسن نصر اللہ شہید ہو گئے۔ تنظیم کے کسی رکن کو اسرائیلی حملے کی خبر تک نہ ہو سکی۔
سچ یہ ہے کہ اب ہر مسلمان اسرائیلی خفیہ ایجنسیوں کے ریڈار میں آچکا۔ وہ عام اشیا... موبائل، کاربیٹری، ریڈیو، سولر سیل، ڈیسک ٹاپ کمپیوٹر، ٹی وی، ریڈیو وغیرہ کو بم میں بدل کر اسے ٹارگٹ کرنے کے قابل ہو چکیں۔
اسرائیل کی اعلانیہ مخالفت کرنے والا ہر مسلمان اب خود کو غیر محفوظ سمجھ رہا ہے۔یہی نہیں دیگر ممالک اسرائیل سے یہ ٹکنالوجی خرید کر عام استعمال کی اشیا کو چلتا پھرتا بم بنا سکتے ہیں۔ گویا اسرائیلی اقدامات سے دنیا میں'' سکستھ جنریشن وارفیئر'' جنم لے چکی جس میں موت اچانک دبوچ لیتی ہے اور انسان کچھ نہیں کر پاتا۔یہ امر قابل ذکر ہے کہ سابق امریکی وزیر دفاع، لیون پانیٹا نے اسرائیل کے پیجر دھماکوں کو ''دہشت گردی ''قرار دیا۔ یہ امریکی حکمران طبقے کی صفوں میں سامنے آنے والی اہم تبدیلی ہے کیونکہ وہ عموماً اسرائیل پہ تنقید کرنے سے کتراتا ہے۔
مقامی زومبی
کہتے ہیں بعض اوقات شر کے بطن سے خیر جنم لیتا ہے۔ یہ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ ممکن ہے کہ اب پاکستان اور اسلامی ممالک میں جان جانے کا خوف موبائل ، ٹیبلٹ وغیرہ کا استعمال کم کر دے۔ ان آلات کے ذریعے غیرملکی طاقتوں نے ہماری نئی نسل کا دماغ اپنے قبضے میں کر لیا ہے۔کئی لڑکے لڑکیاں سمجھ بوجھ سے عاری ایسے 'زومبی' بن چکے جنھیں جو کہا جائے وہی کرتے ہیں۔یہ طاقتیں نہ صرف ان آلات کی مدد سے عالم اسلام میں اپنی مادہ پرستانہ تہذیب وثقافت پھیلا رہی ہیں، بلکہ اسلامی عقائد کے خلاف پروپیگنڈا بھی کرتی ہیں۔ نیز جھوٹی خبریں پھیلا کر مسلم فرقوں کو باہم لڑانے کی کوششیں بھی ہوتی ہیں۔
کمزور عالم اسلام
افسوس کہ عالم اسلام کے ماہرین و سائنس داں مغرب کی چھیڑی نظریاتی ففتھ جنریشن وارفیئر کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ اب تو اسرائیل نے اپنی جنگی ٹکنالوجی برت کر چھٹی نسل کی عملی جنگ چھیڑ دی ہے۔ اسرائیل نے غزہ ، لبنان، یمن اور شام میں مسلمانوں پر مسلسل بم باری کر کے یہ بھی ثابت کر دیا کہ اسلامی حکمرانوں میں اتنا بوتا نہیں، وہ اس کی راہ روک لیں۔ اس خوفناک زوال اور سے نکلنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ اسلامی ممالک اتحاد سے کام لیں اور مل کر مسلم دشمن قوتوں کے سامنے صف آرا ہوں۔ امت مسلمہ باہمی اشتراک سے خصوصاً جنگی سائنس و ٹکنالوجی کو فروغ دے تاکہ دشمنوں کے سفلی عزائم کا مقابلہ کیا جا سکے۔
وقت کی ضرورت: باہمی اتحاد
یہ تبدیلی خوش آئند ہے کہ ہمارے خطّے میں بھارت اور بنگلہ دیش کے عوام نے مسلم مخالف رہنماؤں کو مسترد کر دیا۔حالیہ الیکشن میں انتہا پسند نریندر مودی کی پارٹی کو کم نشستیں ملیں ، جبکہ بھارتی حزب اختلاف موثر طاقت بن کر نمایاں ہوئی۔
بنگلہ دیش میں طلبہ تحریک نے بھارت نواز بیگم حسینہ واجد کو ملک سے مار بھگایا۔ یوں نہ صرف منفی قوتوں کا زور کم ہوا بلکہ جنوبی ایشیا کی مسلم طاقتیں قریب آرہی ہیں۔نیویارک میں اقوام متحدہ کے دوران اجلاس بنگلہ دیشی عبوری حکمران، محمد یونس اوروزیراعظم پاکستان کی ملاقات ہو ئی۔ یہ چرچا بھی ہے کہ دونوں ممالک فضائی مشقیں کریں گے۔ برادر اسلامی ممالک کا قریب آنا خوش کن پیشرفت ہے۔ اب اہل پاکستان کو اندرونی طور پر بھی متحد ہونا پڑے گا۔
اس کے سوا چارہ نہیں کیونکہ مقامی اور عالمی طور پر سیاسی و معاشی حالات بہت گھمبیر ہو چکے۔ اتحاد و یک جہتی کی بدولت پاکستان اور عالم اسلام تمام کڑے چیلنجوں کا بخوبی مقابلہ کر سکے گا۔ فی الوقت تو پاکستان سمیت اکثر مسلم ممالک میں سیاسی و معاشرتی جھگڑے زوروں پر ہیں۔ عالم اسلام میں فرقہ وارانہ اختلافات بھی کم نہیں ہو پاتے۔ اُدھر امت کے دشمن آپس میں اتحاد اور سائنس وٹکنالوجی میں زبردست ترقی کر کے مسلسل طاقتور ہو رہے ہیں۔
اکلوتا حمایتی و پشت پناہ
دنیا کی اکلوتی سپرپاور، امریکا جس طرح اسرائیل کا حمایتی و پشت پناہ بنا ہوا ہے، یہ امر بڑا تشویش ناک ہے۔ اس نے اسرائیل کو کھلی چھٹی دے دی کہ وہ نہتے و معصوم مسلم بچے بچیوں ، عورتوں ، بوڑھوں اور مردوں کو نشانہ بنائے، کوئی اسے پوچھنے والا نہیں۔ پاکستانی دانشور خبردار کر رہے ہیں کہ امریکا اسرائیل کی طرح رفتہ رفتہ بھارت کا بھی پشت پناہ بن رہا ہے۔ لہذا مستقبل میں بھارتی افواج کو بھی یہ کھلی چھٹی مل سکتی ہے کہ وہ جب چاہے اور جس علاقے میں چاہے، حملہ کر دے۔ اور اس حملے میں شہری آبادی شہید ہوتی ہے تو بھارتی حکمران طبقے کو کوئی پروا نہیں ہو گی کیونکہ اہل دنیا اسرائیل کے خوفناک مظالم نہیں روک سکے، بس زبانی کلامی احتجاج کر کے بیٹھ رہے۔
خوفناک حقائق
امریکا اسرائیل کا قریب ترین اور سب سے بڑا اتحادی ہے۔ اسرائیل 1948 ء میں اپنے قیام کے بعد سے سیاسی، اقتصادی اور عسکری طور پر امریکا پہ بہت زیادہ انحصار کرتا ہے۔ اسرائیل کو امریکی ہتھیاروں کی سپلائی کئی سرکاری منصوبوں مثلاً یو ایس فارن ملٹری فنانسنگ (FMF)، ملٹری اسسٹنس پروگرام (MAP) اور ایکسیس ڈیفنس آرٹیکلز (Excess Defense Articles) کے ذریعے زیادہ تر مفت ہوتی ہے۔
کانگریشنل ریسرچ سروس (CRS) کے مطابق امریکا نے دوسری جنگ عظیم کے بعد اسرائیل کو کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں زیادہ غیر ملکی امداد فراہم کی ہے۔سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (SIPRI) کی دستاویز بتاتی ہیں ، اسرائیل کو 2018 ء سے 2022 ء تک بیرون ملک سے جو ہتھیار ملے، ان کا 79 فیصد حصہ امریکا ہی نے فراہم کیا۔ اگلے قریب ترین سپلائرز 20 فیصد کے ساتھ جرمنی اور صرف 0.2 فیصد کے ساتھ اٹلی تھے۔
امریکی صدر، ہیری ایس ٹرومین کی صدارت کے بعد سے اسرائیل کی سلامتی کے لیے ثابت قدم حمایت ہر امریکی انتظامیہ کے لیے امریکی خارجہ پالیسی کا سنگ بنیاد رہی ہے۔ 1948 ء میں اسرائیل کے قیام کے بعد سے امریکا نے اب تک اسرائیل کو 300 بلین ڈالر سے زیادہ کی دوطرفہ امداد فراہم کی ہے ۔مقصد یہی تھا کہ اسرائیل عسکری طور پہ زیادہ سے زیادہ طاقتور ہو جائے۔ اپنا دفاع مضوط بنا لے۔ اسرائیلی اور امریکی فوجی مل کر اکثر جنگی مشقیں کرتے ہیں تاکہ اسرائیل کی افواج کو جدید ترین حربی علوم وفنون حاصل رہیں۔
سب سے زیادہ قابل اور موثر فوج
امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا ہے کہ امریکا کی جنگی امداد نے اسرائیل ڈیفنس فورسز (IDF) کو ''دنیا کی سب سے زیادہ قابل اور موثر فوج میں تبدیل کرنے میں مدد کی ہے۔ اور اسرائیلی عسکری صنعت اور ٹیکنالوجی کے شعبے کو دنیا بھر میں فوجی صلاحیتوں کے سب سے بڑے برآمد کنندگان میں سے ایک میں تبدیل کر دیا ہے۔'' یہ یاد رہے کہ زیادہ تر امریکا کے فراہم کردہ ہتھیاروں کے ذریعے ہی اسرائیل نے غزہ اور پھر لبنان میں بے گناہ شہریوں کا قتل عام کیا اور کئی انسانی آبادیاں تباہ و برباد کر دیں۔
امریکی ڈیوک یونیورسٹی کے سانفورڈ سکول آف پبلک پالیسی میں پریکٹس کی وزٹنگ پروفیسر ڈاکٹر نٹالی جے گولڈرنگ کہتی ہیں کہ 7 اکتوبر کو حماس کے حملے متنازع تھے ، مگر جواب میں اسرائیل نے اہل فلسطین پر بلا امتیاز حملہ کر دیا۔ جنگجوؤں کے ساتھ ساتھ شہریوں ، حتی کہ بچوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ اسرائیلی حکمران طبقے نے جان بوجھ کر ایسا کیا۔ حماس کے حملوں کے دو دن بعد اسرائیلی وزیر دفاع یوو گیلنٹ نے اعلان کیا کہ اسرائیل غزہ کا مکمل محاصرہ کرے گا، جس میں پانی، خوراک اور ایندھن کی سپلائی بند کرنے کے ساتھ ساتھ بجلی کی سپلائی بھی روک دی جائے گی۔ اور اسرائیلی افواج نے ایسا کیا ہے۔''
ڈاکٹر گولڈرنگ نے مزید کہا ''امریکی حکومت مسلسل اسرائیلی حملوں کی خصوصی ذمہ داری لیتی ہے۔ اس نے اسرائیل کو بھاری مقدار میں فوجی امداد اور ہتھیار فراہم کیے ہیں اور اسرائیل نے ان ہتھیاروں کے استعمال پر امریکی پابندیوں کو نظر انداز کر دیا ۔ہتھیاروں اور گولہ بارود کی اسی فراہمی نے اسرائیلی فوج کو غزہ میں اپنے اندھا دھند حملے جاری رکھنے کی اجازت دے ڈالی۔'' ڈاکٹر صاحبہ اقوام متحدہ کے ادارے ایکرونائم انسٹی ٹیوٹ(Acronym Institute) کی بھی نمائندہ ہیں جو روایتی ہتھیاروں اور ہتھیاروں کی تجارت کے مسائل سے متعلق ہے۔
1983ء کے بعد سے امریکا اور اسرائیل باہمی پالیسیوں کو فروغ دینے، مشترکہ خطرات اور خدشات دور کرنے اور سیکورٹی تعاون کے لیے نئے شعبوں کی نشاندہی کرنے کے لیے مشترکہ سیاسی و فوجی گروپ (JPMG) کے ذریعے باقاعدگی سے ملاقاتیں کرتے رہے ہیں۔ امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے مطابق اسرائیل فارن ملٹری فنانسنگ (ایف ایم ایف) پروگرام کے تحت ٹائٹل 22 امریکی سیکیورٹی امداد کا اہم وصول کنندہ ہے۔ اس عمل کو دس سالہ (2019ء -2028ء ) مفاہمت کی یادداشت (MOU) کے ذریعے باضابطہ شکل دی گئی ہے۔
ایم او یو کے مطابق امریکا سالانہ 3.3 بلین فارن ملٹری فنانسنگ کے تحت اور 500 ملین ڈالر میزائل دفاع کے تعاون پر مبنی پروگراموں کے لیے فراہم کرتا ہے۔ مالی سال 2009ء سے امریکا نے اسرائیل کو میزائل دفاع کے لیے 3.4 بلین ڈالر کی فنڈنگ فراہم کی ہے، جس میں مالی سال 2011 ء سے شروع ہونے والے آئرن ڈوم سپورٹ کے لیے 1.3 بلین ڈالر بھی شامل ہیں۔ فارن ملٹری فنانسنگ کے ذریعے، امریکہ اسرائیل کو دنیا کے جدید ترین فوجی ساز و سامان تک رسائی فراہم کرتا ہے، جس میں F-35 اسٹیلتھ لڑاکا طیارے بھی شامل ہیں۔
1992 ء سے امریکہ نے اسرائیل کو ایکسیس ڈیفنس آرٹیکلز پروگرام کے تحت 6.6 بلین ڈالر مالیت کا سامان فراہم کیا ہے جس میں ہتھیار، اسپیئر پارٹس، ہتھیار اور سمیلیٹر شامل ہیں۔ امریکی فوج کی یو ایس یورپی کمانڈ(U.S. European Command) اسرائیل میں جدید ترین ہتھیاروں کا ذخیرہ بھی رکھتی ہے جسے کسی اہم فوجی ایمرجنسی کی صورت میں اسرائیلی دفاع مضبوط کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
سیکورٹی امداد اور ہتھیاروں کی فروخت کے علاوہ امریکا اسرائیل کے ساتھ مختلف قسم کے تبادلوں میں حصہ لیتا ہے، جن میں جونیپر اوک(Juniper Oak) اور جونیپر فالکن (Juniper Falcon)جیسی فوجی مشقیں، نیز مشترکہ تحقیق اور نت نئے ہتھیاروں کی تیاری شامل ہیں۔امریکا اور اسرائیل نے متعدد دو طرفہ دفاعی تعاون کے معاہدوں پر دستخط کیے ہیں جن میں نمایاں یہ ہیں: باہمی دفاعی معاونت کا معاہدہ (1952ء )؛ معلومات کا عمومی تحفظ معاہدہ (1982ء )؛ باہمی لاجسٹک سپورٹ معاہدہ (1991ء )؛ اور اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے مطابق فورسز کا معاہدہ (1994ء )۔
2011 ء سے ریاست ہائے متحدہ امریکا نے مغربی کنارے میں روایتی ہتھیاروں کی تباہی کے پروگراموں (onventional Weapons Destruction programs)میں 8ملین ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کی ہے تاکہ بارودی سرنگوں کی کلیئرنس کے ذریعے علاقائی اور انسانی سلامتی کو بہتر بنایا جا سکے۔
فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے ساتھ برسوں کے مذاکرات کے بعد انسانی بنیادوں پر بارودی سرنگیں صاٖف کرنے کی سرگرمیاں اپریل 2014 ء میں شروع ہوئیں ۔ اسرائیل کو امریکی قانون کے تحت ''امریکی میجر نان نیٹو اتحادی'' کے طور پر بھی نامزد کیا گیا ہے۔ یہ حیثیت غیر ملکی شراکت داروں کو دفاعی تجارت اور سیکورٹی تعاون کے شعبوں میں کچھ فوائد فراہم کرتی ہے اور یہ امریکا کے ساتھ ان کے قریبی تعلقات کی ایک طاقتور علامت بھی ہے۔