اخلاق نبوت کی مہکتی خوشبو
حضرت زیدبن سعنہؓ، جو پہلے ایک یہودی عالم تھے، انہوں نے حضورﷺ سے کھجوریں خریدی تھیں۔
انسان کی پہچان اس کے اخلاق سے ہوتی ہے۔ اخلاق ہی انسان کو بلندیوں تک پہنچانے میں مدد کرسکتے ہیں۔ یہ اخلاق قدرت کا بہترین تحفہ ہوا کرتے ہیں۔ اللّہ پاک نے ہمارے پیارے نبی ﷺ کے اخلاق کو ہی خلق عظیم کہا ہے اور آپ ﷺ کے پاک اخلاق کی گواہی کفار بھی دیتے رہے۔
آپ ﷺ محاسنِ اخلاق کے تمام گوشوں کے جامع تھے، یعنی حلم وعفو، جودوسخا، عدل وانصاف، ایثاروقربانی، مہمان نوازی، عدم تشدد، ایفائے عہد، حسنِ معاملہ، صبروقناعت، شجاعت، نرم گفتاری، ملنساری، سادگی وبے تکلفی، تواضع وانکساری، حیاداری کی اتنی بلند منزلوں پر آپ ہیں کہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے ایک ہی جملے میں اس کی مکمل تصویر کھینچتے ہوئے فرمایا کہ ''کان خلقہ القرآن'' یعنی قرآن پاک کی تعلیمات پر پورا عمل یہی آپ ؐ کے اخلاق تھے۔ آئیے اخلاق نبوت کے چند پھولوں کی خوشبو سونگھتے ہیں۔
حضرت زیدبن سعنہؓ، جو پہلے ایک یہودی عالم تھے، انہوں نے حضورﷺ سے کھجوریں خریدی تھیں۔ کھجوریں دینے کی مدت میں ابھی ایک دو دن باقی تھے کہ انہوں نے بھرے مجمع میں نبی پاک ﷺ سے انتہائی تلخ وترش لہجے میں سختی کے ساتھ تقاضا کیا اور آپ کا دامن اور چادر پکڑ کر نہایت تندوتیز نظروں سے آپ ؐ کی طرف دیکھا اورچلاّچلاّ کر گستاخانہ جملے کہے۔ یہ منظر دیکھ کر حضرت عمرؓ کا خون کھول اٹھا اور آپ نے نہایت غضب ناک نظروں سے گھور کر دیکھا اور کہا کہ اے خدا کے دشمن! تو خدا کے رسول (ﷺ) سے ایسی گستاخی کر رہا ہے؟ خدا کی قسم! اگر حضورﷺ کا ادب مانع نہ ہوتا تو میں ابھی اپنی تلوار سے تیرا سر اڑا دیتا۔ یہ سن کر آپ ؐ نے فرمایا کہ اے عمر! تم یہ کیا کہہ رہے ہو؟ تمہیں تو یہ چاہیے تھا کہ مجھ کو ادائے حق کی ترغیب دے کر اور اس کو نرمی کے ساتھ تقاضا کرنے کی ہدایت کرکے ہم دونوں کی مدد کرتے۔ پھر آپ ؐ نے حکم دیا کہ اے عمر! اس کو اس کے حق کے برابر کھجوریں دے دو! اور کچھ زیادہ بھی دے دو۔
حضرت عمرؓ نے جب حق سے زیادہ کھجوریں دیں تو حضرت زیدبن سعنہ ؓ نے کہا کہ اے عمر! میرے حق سے زیادہ کیوں دے رہے ہو؟ آپ نے فرمایا کہ چوںکہ میں نے ٹیڑھے ترچھی نظروں سے دیکھ کر تم کو خوف زدہ کردیا تھا، اس لیے حضورﷺ نے تمہاری دل جوئی کے لیے تمہارے حق سے کچھ زیادہ دینے کا مجھے حکم دیا ہے۔ یہ سن کر حضرت زیدبن سعنہ ؓنے کہا کہ اے عمر! کیا تم مجھے پہچانتے ہو؟ میں زیدبن سعنہ ہوں۔ آپ ؓ نے فرمایا تم وہی زیدبن سعنہ ہو جو یہودیوں کا بہت بڑا عالم ہے۔
انہوں نے کہا جی ہاں! یہ سن کر حضرت عمرؓ نے دریافت فرمایا کہ پھر تم نے حضورﷺ کے ساتھ ایسی گستاخی کیوں کی؟ حضر ت زیدبن سعنہ نے جواب دیا: اے عمر! دراصل بات یہ ہے کہ میں نے توراۃ میں نبی آخرالزماں کی جتنی نشانیاں پڑھی تھیں، ان سب کو ان کی ذات میں دیکھ لیا، مگر دو نشانیوں کے بارے میں مجھے ان کا امتحان کرنا باقی رہ گیا تھا۔ ایک یہ کہ ان کا حلم جہل پر غالب رہے گا اور جس قدر زیادہ ان کے ساتھ جہل کا برتاؤ کیا جائے گا اسی قدر ان کا حلم بڑھتا جائے گا۔ چناںچہ میں نے اس ترکیب سے ان دونوں نشانیوں کو بھی ان میں دیکھ لیا اور میں شہادت دیتا ہوں کہ یقیناً یہ نبی برحق ہیں اور اے عمر! میں بہت ہی مال دار آدمی ہوں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اپنا آدھا مال حضورﷺ کی امت پر صدقہ کردیا۔ پھر وہ بارگاہ رسالت ﷺ میں آئے اور کلمہ پڑھ کر اسلام میں داخل ہوگئے۔ (زرقانی ج 4ص253)
حضرت انس بن مالک ؓ کا بیان ہے کہ میں حضورﷺ کے ہم راہ چل رہاتھا اور آپ ایک نجرانی چادر اوڑھے ہوئے تھے جس کے کنارے موٹے اور کھردرے تھے۔ ایک دم ایک بدوی نے آپ کو پکڑلیا اور اتنے زبردست جھٹکے سے چادر مبارک کو اس نے کھینچا کہ حضورﷺ کی نرم ونازک گردن پر چادر کے کنارے سے خراش آگئی۔ پھر اس بدوی نے کہا کہ اللّہ کا جو مال آپ کے پاس ہے آپ حکم دیجیے کہ اس میں سے مجھے کچھ مل جائے۔ حضوررحمت عالم ﷺ نے جب اس بدوی کی طرف توجہ فرمائی تو کمال حلم وعفو سے اس کی طرف دیکھ کر ہنس پڑے اور پھر اس کو کچھ مال عطا کرنے کا حکم صادر فرمایا۔ (بخاری ج 1ص246 باب ماکان یعطی النبی المؤ لفۃ)
ایک مرتبہ ابوجہل محفل سجائے بیٹھا تھا۔ جناب رسالت مآب ﷺ ادھر آنکلے۔ آپ ؐ نے دعوت اسلام دی، لیکن ابوجہل بدتمیزی پر اتر آیا۔ اس نے نہ صرف بدزبانی کی بلکہ سرکار دوعالم پرتشدد بھی کیا۔ آپ ؐ کا سرمبارک زخمی ہوگیا اور خون بہنے لگا۔ حضرت حمزہ ؓ کی خادمہ نے سارا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ سو اس نے حضرت حمزہ ؓکی اہلیہ کو سارا واقعہ سنادیا۔ جب حضرت حمزہ ؓ گھر واپس آئے تو حضوراقدس ؐ کی چچی نے آپ ؓ کو بتایا کہ آج ابوجہل نے ہمارے یتیم بھتیجے کے ساتھ اتنا ظلم کیا ہے۔ یہ سن کر کلیجہ پھٹنے کوآتا ہے۔
حضرت حمزہ ؓ نے کمان اٹھائی اور سیدھے ابوجہل کی خبر لینے کو دوڑے۔ حرم پاک میں پہنچ کر حضرت حمزہ ؓ نے ابوجہل کے سر پر کمان اس زور سے ماری کہ اسے لہولہان کردیا۔ حضرت حمزہ ؓ نے فرمایا کہ اے ابوجہل! کیا تو نے ہمارے مرحوم بھائی کے فرزند کو لاوارث سمجھا ہے۔ خبردار! حمزہ اس کا حمایتی ہے۔ ابوجہل سے انتقام لینے کے بعد حمزہ ؓ آپ ؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے دیکھا کہ آقائے نامدارﷺ غم گین آنکھوں میں آنسو بھرے بیٹھے ہیں۔ حضرت حمزہ ؓ کو دیکھا تو اپنے باپ کا دست شفقت نظر آیا۔ آپ ؐ نے فرمایا کہ چچا! میں جب دنیا میں آیا تو باپ کے سائے سے محروم تھا۔ ابھی بچہ تھا کہ ماں کی ممتا ساتھ چھوڑ گئی۔ جب سن شعورکو پہنچا تو دادا انتقال کرگئے۔ اب اپنی قوم دشمن ہوگئی ہے۔
کل تک پیار کرنے والے آج خون کے پیاسے ہوگئے ہیں۔ حضرت حمزہ ؓ نے عرض کیا کہ بھتیجے غم نہ کریں! جس مردود ابوجہل نے آپ کا سر زخمی کیا تھا میں اس کا سر پھوڑ آیا ہوں۔ اب تو خوش ہوجائیے۔ میں نے بدلہ لے کر حساب برابر کردیا ہے۔ سرکاردوعالم ؐ نے فرمایا کہ چچا! میں آپ کے اس اقدام پر خوش نہیں ہوں۔ عرض کی کہ آپ ؐ کی خوشی کس بات میں ہے؟ شاہ دوجہاںؐ نے فرمایا! میں دنیا میں سراپا رحمت اور کرم بن کر آیا ہوں، انتقام لینے کے لیے نہیں آیا۔ میری خوشی اس میں ہے کہ آپ کفروشرک کے اندھیروں سے نکل کر اسلام لے آئیں۔ میرے خون کا بدلا کسی سے نہ لیتے بلکہ اس کے بدلے کلمہ طیبہ کی دولت سے سرفراز ہوجاتے۔ حضوراکرم ؐ کے سچے جذبات دیکھ کرحضرت حمزہ ؓ نے کلمہ پڑھا اور مسلمان ہوگئے۔
ابوجہل سے آپ ﷺ کی ذاتی دشمنی نہیں تھی بلکہ وہ آپ ؐ کے مشن کا مخالف تھا۔ ابوجہل نے نعوذباللّہ آپ ؐ کوختم کرنے کی ایک تدبیر سوچی۔ اس نے ایک گہرا کنواں کھودا۔ اس کے منہ پر کھجور کی ٹہنیاں رکھیں، پھر اوپر مٹی ڈال کر زمین کو برابر کردیا۔ خود بیمار بن بیٹھا تاکہ جب رسول پاک ؐاس کی عیادت کو آئیں تو اس گڑھے میں گرجائیں۔
ابوجہل کو جناب رسول مقبول ؐ کے مکارم اخلاق کا بخوبی علم تھا کہ آپ ؐاس کی عیادت کے لیے ضرور آئیں گے۔ جب آپ ؐ اس کی تیمارداری کے لیے اس کنویں کے قریب پہنچے توجبرائیلؑؑ تشریف لائے اور سرکاردوعالم ؐ کو حقیقت سے آگاہ کیا اورآگے جانے سے منع کردیا۔ سرکاردوجہاں واپس ہوئے تو ابوجہل کو افسوس ہوا اس کی سازش نکام ہوگئی ہے، چناںچہ وہ گھبراہٹ میں نبی کریم ؐ کو بلانے کے لیے دوڑا اور اپنے ہاتھ سے کھودے ہوئے کنویں میں خود ہی گرگیا۔ ابوجہل کو نکانے کے لیے اس کے ساتھیوں نے بہت کوشش کی مگر ناکام رہے۔
خدا کی شان کہ اسے نکالنے کے لیے کنویں میں جو رسی ڈالی جاتی وہ چھوٹی ہوجاتی یاٹوٹ جاتی۔ ابوجہل مایوس ہوا تو اس کے دل نے شہادت دی کہ مجھے اس کنویں سے صرف آمنہ کا لال ہی نکال سکتا ہے۔ ابوجہل پکا بے ایمان تھا لیکن محسن انسانیت ﷺ کے اخلاق کریمہ کا دلی معترف تھا۔ چناںچہ نبی کریم ؐ کو پیغام بھیجا۔ آپ ؐ فوراً تشریف لے آئے اور فرمایا تمہاری ساری تدبیریں ناکام ہوگئیں، اگر میں تم کو اس گڑھے سے باہر نکال دوں تو کیا مجھ پر ایمان لے آؤ گے؟ ابوجہل نے کہا کہ ضرور آپ کا کلمہ پڑھ لوں گا۔ افضل الموعظ ازمولانامحمدابراہیم میں ایک روایت نقل کی گئی ہے کہ سرکاردوعالم ؐ نے دست کرم کنویں میں ڈالاجوابوجہل کے ہاتھوں تک پہنچ گیا۔ ابوجہل حیران رہ گیا۔ یہ تو معمولی کنواں تھا اگر ابوجہل تحت السرا کے پستیوں میں ہوتا ہمارے پیارے آقا محمدمصطفیؐ کا دست نبوت وہاں بھی پہنچ جاتا ابوجہل کو آپؐ نے باہر نکالا اور فرمایا! جس طرح میں نے تم کو اس گڑھے سے نکالا ہے اسی طرح میں تمھیں کفروشرک، فسق وفجور اور جہنم کے گڑھے سے نکال کر ایمان کی دنیا میں لانا چاہتا ہوں۔ ایک خدا کی ذات پر ایمان لاکر دوزخ کی آگ سے بچ جاؤ۔ لیکن ابوجہل اپنے کفروجہل پر قائم رہا۔
قارئین کرام! دیکھیے ہمارے پیارے نبی ﷺ کے پیارے اخلاق کیسی بہار لے کر آئے کہ اللہ پاک نے جس کی وجہ سے لوگوں کو ایمان کی دولت سے نوازا۔ جن کے مقدر میں ہدایت نہیں تھی وہ دنیا میں بھی ناکام ہوئے اور آخرت میں بھی نامراد۔ ہم نبی پاک ﷺ کے نام لیوا اور جانثار ہیں، ہمیں بھی ان جیسے اخلاق کا مالک بننا ہوگا، تاکہ ہمارے کردار سے کوئی مایوس نہ ہو بلکہ ہمارے اخلاق دیکھ کر غیرمسلم بھی یہ گواہی دیں کہ جس نبی ﷺ کے امتی کے اخلاق ایسے ہیں وہ کیسا عظیم نبی مکرم ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اخلاق کی عظیم دولت سے مالامال فرمائے (آمین)
آپ ﷺ محاسنِ اخلاق کے تمام گوشوں کے جامع تھے، یعنی حلم وعفو، جودوسخا، عدل وانصاف، ایثاروقربانی، مہمان نوازی، عدم تشدد، ایفائے عہد، حسنِ معاملہ، صبروقناعت، شجاعت، نرم گفتاری، ملنساری، سادگی وبے تکلفی، تواضع وانکساری، حیاداری کی اتنی بلند منزلوں پر آپ ہیں کہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے ایک ہی جملے میں اس کی مکمل تصویر کھینچتے ہوئے فرمایا کہ ''کان خلقہ القرآن'' یعنی قرآن پاک کی تعلیمات پر پورا عمل یہی آپ ؐ کے اخلاق تھے۔ آئیے اخلاق نبوت کے چند پھولوں کی خوشبو سونگھتے ہیں۔
حضرت زیدبن سعنہؓ، جو پہلے ایک یہودی عالم تھے، انہوں نے حضورﷺ سے کھجوریں خریدی تھیں۔ کھجوریں دینے کی مدت میں ابھی ایک دو دن باقی تھے کہ انہوں نے بھرے مجمع میں نبی پاک ﷺ سے انتہائی تلخ وترش لہجے میں سختی کے ساتھ تقاضا کیا اور آپ کا دامن اور چادر پکڑ کر نہایت تندوتیز نظروں سے آپ ؐ کی طرف دیکھا اورچلاّچلاّ کر گستاخانہ جملے کہے۔ یہ منظر دیکھ کر حضرت عمرؓ کا خون کھول اٹھا اور آپ نے نہایت غضب ناک نظروں سے گھور کر دیکھا اور کہا کہ اے خدا کے دشمن! تو خدا کے رسول (ﷺ) سے ایسی گستاخی کر رہا ہے؟ خدا کی قسم! اگر حضورﷺ کا ادب مانع نہ ہوتا تو میں ابھی اپنی تلوار سے تیرا سر اڑا دیتا۔ یہ سن کر آپ ؐ نے فرمایا کہ اے عمر! تم یہ کیا کہہ رہے ہو؟ تمہیں تو یہ چاہیے تھا کہ مجھ کو ادائے حق کی ترغیب دے کر اور اس کو نرمی کے ساتھ تقاضا کرنے کی ہدایت کرکے ہم دونوں کی مدد کرتے۔ پھر آپ ؐ نے حکم دیا کہ اے عمر! اس کو اس کے حق کے برابر کھجوریں دے دو! اور کچھ زیادہ بھی دے دو۔
حضرت عمرؓ نے جب حق سے زیادہ کھجوریں دیں تو حضرت زیدبن سعنہ ؓ نے کہا کہ اے عمر! میرے حق سے زیادہ کیوں دے رہے ہو؟ آپ نے فرمایا کہ چوںکہ میں نے ٹیڑھے ترچھی نظروں سے دیکھ کر تم کو خوف زدہ کردیا تھا، اس لیے حضورﷺ نے تمہاری دل جوئی کے لیے تمہارے حق سے کچھ زیادہ دینے کا مجھے حکم دیا ہے۔ یہ سن کر حضرت زیدبن سعنہ ؓنے کہا کہ اے عمر! کیا تم مجھے پہچانتے ہو؟ میں زیدبن سعنہ ہوں۔ آپ ؓ نے فرمایا تم وہی زیدبن سعنہ ہو جو یہودیوں کا بہت بڑا عالم ہے۔
انہوں نے کہا جی ہاں! یہ سن کر حضرت عمرؓ نے دریافت فرمایا کہ پھر تم نے حضورﷺ کے ساتھ ایسی گستاخی کیوں کی؟ حضر ت زیدبن سعنہ نے جواب دیا: اے عمر! دراصل بات یہ ہے کہ میں نے توراۃ میں نبی آخرالزماں کی جتنی نشانیاں پڑھی تھیں، ان سب کو ان کی ذات میں دیکھ لیا، مگر دو نشانیوں کے بارے میں مجھے ان کا امتحان کرنا باقی رہ گیا تھا۔ ایک یہ کہ ان کا حلم جہل پر غالب رہے گا اور جس قدر زیادہ ان کے ساتھ جہل کا برتاؤ کیا جائے گا اسی قدر ان کا حلم بڑھتا جائے گا۔ چناںچہ میں نے اس ترکیب سے ان دونوں نشانیوں کو بھی ان میں دیکھ لیا اور میں شہادت دیتا ہوں کہ یقیناً یہ نبی برحق ہیں اور اے عمر! میں بہت ہی مال دار آدمی ہوں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اپنا آدھا مال حضورﷺ کی امت پر صدقہ کردیا۔ پھر وہ بارگاہ رسالت ﷺ میں آئے اور کلمہ پڑھ کر اسلام میں داخل ہوگئے۔ (زرقانی ج 4ص253)
حضرت انس بن مالک ؓ کا بیان ہے کہ میں حضورﷺ کے ہم راہ چل رہاتھا اور آپ ایک نجرانی چادر اوڑھے ہوئے تھے جس کے کنارے موٹے اور کھردرے تھے۔ ایک دم ایک بدوی نے آپ کو پکڑلیا اور اتنے زبردست جھٹکے سے چادر مبارک کو اس نے کھینچا کہ حضورﷺ کی نرم ونازک گردن پر چادر کے کنارے سے خراش آگئی۔ پھر اس بدوی نے کہا کہ اللّہ کا جو مال آپ کے پاس ہے آپ حکم دیجیے کہ اس میں سے مجھے کچھ مل جائے۔ حضوررحمت عالم ﷺ نے جب اس بدوی کی طرف توجہ فرمائی تو کمال حلم وعفو سے اس کی طرف دیکھ کر ہنس پڑے اور پھر اس کو کچھ مال عطا کرنے کا حکم صادر فرمایا۔ (بخاری ج 1ص246 باب ماکان یعطی النبی المؤ لفۃ)
ایک مرتبہ ابوجہل محفل سجائے بیٹھا تھا۔ جناب رسالت مآب ﷺ ادھر آنکلے۔ آپ ؐ نے دعوت اسلام دی، لیکن ابوجہل بدتمیزی پر اتر آیا۔ اس نے نہ صرف بدزبانی کی بلکہ سرکار دوعالم پرتشدد بھی کیا۔ آپ ؐ کا سرمبارک زخمی ہوگیا اور خون بہنے لگا۔ حضرت حمزہ ؓ کی خادمہ نے سارا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ سو اس نے حضرت حمزہ ؓکی اہلیہ کو سارا واقعہ سنادیا۔ جب حضرت حمزہ ؓ گھر واپس آئے تو حضوراقدس ؐ کی چچی نے آپ ؓ کو بتایا کہ آج ابوجہل نے ہمارے یتیم بھتیجے کے ساتھ اتنا ظلم کیا ہے۔ یہ سن کر کلیجہ پھٹنے کوآتا ہے۔
حضرت حمزہ ؓ نے کمان اٹھائی اور سیدھے ابوجہل کی خبر لینے کو دوڑے۔ حرم پاک میں پہنچ کر حضرت حمزہ ؓ نے ابوجہل کے سر پر کمان اس زور سے ماری کہ اسے لہولہان کردیا۔ حضرت حمزہ ؓ نے فرمایا کہ اے ابوجہل! کیا تو نے ہمارے مرحوم بھائی کے فرزند کو لاوارث سمجھا ہے۔ خبردار! حمزہ اس کا حمایتی ہے۔ ابوجہل سے انتقام لینے کے بعد حمزہ ؓ آپ ؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے دیکھا کہ آقائے نامدارﷺ غم گین آنکھوں میں آنسو بھرے بیٹھے ہیں۔ حضرت حمزہ ؓ کو دیکھا تو اپنے باپ کا دست شفقت نظر آیا۔ آپ ؐ نے فرمایا کہ چچا! میں جب دنیا میں آیا تو باپ کے سائے سے محروم تھا۔ ابھی بچہ تھا کہ ماں کی ممتا ساتھ چھوڑ گئی۔ جب سن شعورکو پہنچا تو دادا انتقال کرگئے۔ اب اپنی قوم دشمن ہوگئی ہے۔
کل تک پیار کرنے والے آج خون کے پیاسے ہوگئے ہیں۔ حضرت حمزہ ؓ نے عرض کیا کہ بھتیجے غم نہ کریں! جس مردود ابوجہل نے آپ کا سر زخمی کیا تھا میں اس کا سر پھوڑ آیا ہوں۔ اب تو خوش ہوجائیے۔ میں نے بدلہ لے کر حساب برابر کردیا ہے۔ سرکاردوعالم ؐ نے فرمایا کہ چچا! میں آپ کے اس اقدام پر خوش نہیں ہوں۔ عرض کی کہ آپ ؐ کی خوشی کس بات میں ہے؟ شاہ دوجہاںؐ نے فرمایا! میں دنیا میں سراپا رحمت اور کرم بن کر آیا ہوں، انتقام لینے کے لیے نہیں آیا۔ میری خوشی اس میں ہے کہ آپ کفروشرک کے اندھیروں سے نکل کر اسلام لے آئیں۔ میرے خون کا بدلا کسی سے نہ لیتے بلکہ اس کے بدلے کلمہ طیبہ کی دولت سے سرفراز ہوجاتے۔ حضوراکرم ؐ کے سچے جذبات دیکھ کرحضرت حمزہ ؓ نے کلمہ پڑھا اور مسلمان ہوگئے۔
ابوجہل سے آپ ﷺ کی ذاتی دشمنی نہیں تھی بلکہ وہ آپ ؐ کے مشن کا مخالف تھا۔ ابوجہل نے نعوذباللّہ آپ ؐ کوختم کرنے کی ایک تدبیر سوچی۔ اس نے ایک گہرا کنواں کھودا۔ اس کے منہ پر کھجور کی ٹہنیاں رکھیں، پھر اوپر مٹی ڈال کر زمین کو برابر کردیا۔ خود بیمار بن بیٹھا تاکہ جب رسول پاک ؐاس کی عیادت کو آئیں تو اس گڑھے میں گرجائیں۔
ابوجہل کو جناب رسول مقبول ؐ کے مکارم اخلاق کا بخوبی علم تھا کہ آپ ؐاس کی عیادت کے لیے ضرور آئیں گے۔ جب آپ ؐ اس کی تیمارداری کے لیے اس کنویں کے قریب پہنچے توجبرائیلؑؑ تشریف لائے اور سرکاردوعالم ؐ کو حقیقت سے آگاہ کیا اورآگے جانے سے منع کردیا۔ سرکاردوجہاں واپس ہوئے تو ابوجہل کو افسوس ہوا اس کی سازش نکام ہوگئی ہے، چناںچہ وہ گھبراہٹ میں نبی کریم ؐ کو بلانے کے لیے دوڑا اور اپنے ہاتھ سے کھودے ہوئے کنویں میں خود ہی گرگیا۔ ابوجہل کو نکانے کے لیے اس کے ساتھیوں نے بہت کوشش کی مگر ناکام رہے۔
خدا کی شان کہ اسے نکالنے کے لیے کنویں میں جو رسی ڈالی جاتی وہ چھوٹی ہوجاتی یاٹوٹ جاتی۔ ابوجہل مایوس ہوا تو اس کے دل نے شہادت دی کہ مجھے اس کنویں سے صرف آمنہ کا لال ہی نکال سکتا ہے۔ ابوجہل پکا بے ایمان تھا لیکن محسن انسانیت ﷺ کے اخلاق کریمہ کا دلی معترف تھا۔ چناںچہ نبی کریم ؐ کو پیغام بھیجا۔ آپ ؐ فوراً تشریف لے آئے اور فرمایا تمہاری ساری تدبیریں ناکام ہوگئیں، اگر میں تم کو اس گڑھے سے باہر نکال دوں تو کیا مجھ پر ایمان لے آؤ گے؟ ابوجہل نے کہا کہ ضرور آپ کا کلمہ پڑھ لوں گا۔ افضل الموعظ ازمولانامحمدابراہیم میں ایک روایت نقل کی گئی ہے کہ سرکاردوعالم ؐ نے دست کرم کنویں میں ڈالاجوابوجہل کے ہاتھوں تک پہنچ گیا۔ ابوجہل حیران رہ گیا۔ یہ تو معمولی کنواں تھا اگر ابوجہل تحت السرا کے پستیوں میں ہوتا ہمارے پیارے آقا محمدمصطفیؐ کا دست نبوت وہاں بھی پہنچ جاتا ابوجہل کو آپؐ نے باہر نکالا اور فرمایا! جس طرح میں نے تم کو اس گڑھے سے نکالا ہے اسی طرح میں تمھیں کفروشرک، فسق وفجور اور جہنم کے گڑھے سے نکال کر ایمان کی دنیا میں لانا چاہتا ہوں۔ ایک خدا کی ذات پر ایمان لاکر دوزخ کی آگ سے بچ جاؤ۔ لیکن ابوجہل اپنے کفروجہل پر قائم رہا۔
قارئین کرام! دیکھیے ہمارے پیارے نبی ﷺ کے پیارے اخلاق کیسی بہار لے کر آئے کہ اللہ پاک نے جس کی وجہ سے لوگوں کو ایمان کی دولت سے نوازا۔ جن کے مقدر میں ہدایت نہیں تھی وہ دنیا میں بھی ناکام ہوئے اور آخرت میں بھی نامراد۔ ہم نبی پاک ﷺ کے نام لیوا اور جانثار ہیں، ہمیں بھی ان جیسے اخلاق کا مالک بننا ہوگا، تاکہ ہمارے کردار سے کوئی مایوس نہ ہو بلکہ ہمارے اخلاق دیکھ کر غیرمسلم بھی یہ گواہی دیں کہ جس نبی ﷺ کے امتی کے اخلاق ایسے ہیں وہ کیسا عظیم نبی مکرم ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اخلاق کی عظیم دولت سے مالامال فرمائے (آمین)