بادلوں میں لپٹا ہوا نانگا پر بت پہلی قسط

پہاڑوں پر شیردریا دھاڑ رہا تھا، بلندیوں کی طرف سفر کی کہانی

پہاڑوں پر شیردریا دھاڑ رہا تھا، بلندیوں کی طرف سفر کی کہانی ۔ فوٹو : فائل

ایک لمبے عرصے سے میرا یہی معاملہ رہا ہے کہ جب جب مجھ سے کسی نے مشورہ مانگا کہ تارڑ صاحب کو کہاں سے پڑھنا شروع کیا جائے تو میرا جواب ''نکلے تری تلاش میں'' ہی ہوتا تھا۔ اس کتاب کے بعد اگر مزید مشورہ مانگا جاتا تو میں نے ہمیشہ ''خانہ بدوش'' کو ووٹ دیا۔

اس کتاب کے بعد میں نے سب کو یہی کہا کہ اب جو مرضی پڑھو، کوئی فرق نہیں پڑتا۔ پہلے پہل سمجھ نہ آتی تھی کہ تارڑ صاحب کے یہی دو سفرنامے میرے پسندیدہ کیوں ہیں مگر اب اس کا جواب شاید میرے پاس ہے۔ تارڑ صاحب کے صرف یہی وہ دو سفر نامے ہیں جس میں وہ ہمیں ایک ٹریولر کے طور پر نظر آتے ہیں جب کہ باقی جگہ وہ ٹورسٹ معلوم پڑتے ہیں۔ ''اندلس میں اجنبی'' میں بھی وہ ٹریولر ہی ہیں مگر اس سفرنامے کی نوعیت کچھ اور ہے۔

اس لیے اس کا ذکر یہاں نہیں کر رہا۔ جتنے منہ اتنے ٹریولر اور ٹورسٹ میں فرق مگر شاید ان میں بنیادی فرق یہ ہے کہ ٹورسٹ دنیا کے مصائب سے، دنیا سے دور بھاگنا چاہتا ہے، زندگی کے مسائل کو کچھ دیر کے لیے بھول کر ایک پُر سکون جگہ پر جانا چاہتا ہے جب کہ ایک ٹریولر گھر سے نکل جانے کے بعد اپنے سفر کے ایک ایک پَل کو جینا چاہتا ہے۔ وہ گاڑیوں، بسوں، ریل گاڑیوں پر دھکے کھاتا ہے، ان سے لطف اندوز ہوتا ہے اور بھری گاڑی میں جو اسے تنہائی میسر آتی ہے سب سے زیادہ اُس سے جی بھلاتا ہے۔

اگرچہ کہ میں بھی اس بات کا قائل ہوں کہ پیرس میں بیٹھ کر رونا چیچہ وطنی میں بیٹھ کر رونے سے کم از کم ایک ہزار گنا بہتر ہے مگر میری بات کو رد مت کیجیے کہ لوکل گاڑیوں میں عوام الناس کے ساتھ سفر کرنے کا بھی ایک اپنا ہی لطف ہے۔ کسی بھی تخلیقی کام کے لیے تنہائی اولین شرط ہے اور لوکل ٹرانسپورٹ سے زیادہ آپ کو تنہائی اور کہاں میسر آ سکے گی۔

آپ کو کوئی نہیں جانتا ہوتا، اس سے بڑھ کر اور کیا آزادی ہوسکتی ہے؟ آپ آزاد ہوتے ہیں کچھ بھی سوچنے کے لیے۔ ایسے میں اگر آپ شام کے وقت ایک صاف ستھری بس پر سفر کر رہے ہوں جو اپنی مکمل رفتار سے جا رہی ہے، سورج ڈوب رہا ہو اور مدہم سی آواز سے آپ کے کانوں میں نصرت کی آواز رَس ٹپکا رہی ہو تو مجھے آپ ہی ایمان داری سے بتائیں کہ ذہن میں نئے نئے تخلیقی خیالات کیوں کر نہ آئیں گے۔ آزادی سے ایک بات یاد آئی، ٹھہریں ذرا یہیں بریک پر پاؤں رکھیں اور بس کو آگے جانے دیں ورنہ میں نے پھر وہ آزادی والی بات بھول جانی ہے۔

کیا کروں پچھلی عمر کے یہی تو مسائل ہیں کہ اب میں باتیں بھولنے لگا ہوں۔ ہاں تو آزادی سے یاد آیا کہ میں اس بار استور میں اکیلا تھا، کوئی یار دوست کوئی نہ تھا اور نہ ہی میں کسی ٹور کمپنی کے ساتھ تھا۔ حالاں کہ میں گلگت بلتستان میں پہلی بار جا رہا تھا مگر پھر بھی خوش تھا، مطمئن تھا، ڈرا بالکل نہیں کیوں کہ میں اپنے ہی ملک میں تھا، آزاد تھا۔

یہاں تک کہ میں نانگا پربت بیس کیمپ 2 پر بھی اکیلا تھا مگر مطمئن تھا۔ مجھے اس وقت تارڑ صاحب کی بات سمجھ میں آئی کہ آزادی کی ایک تعریف یہ بھی ہے کہ آپ کے پاؤں کے نیچے آنے والے کنکر بھی آپ کو پہنچانتے ہیں۔ آپ تنہائی میں بھی گھبراتے نہیں کیوں کہ آپ آزاد ہوتے ہیں۔ میں آزاد تھا، ایک آزاد ملک میں تھا، اس لیے نانگا پربت بیس کیمپ 2 پر تنہا ہونے کے باوجود بھی میں خوش تھا کیوں کہ یہ نانگا پربت مجھے پہچانتا تھا، اس کی برفوں کو اگرچہ میں پہلی بار دیکھ رہا تھا مگر برف کے ایک ایک ذرے پر فقط ایک ہی لفظ لکھا تھا، پاکستان۔

چلیں واپس اپنی بس میں چلتے ہیں، بلکہ بس پر چڑھنے سے پہلے مجھے یہ جاننا ہے کہ یہ ہمارے اردو ادب والوں نے سفرنامہ کو کس خوشی میں ادب سے باہر نکالا ہوا ہے۔ آج تو میں پورے احتجاج کے موڈ میں ہوں۔ آپ کے خیال میں کیا سفرنامہ لکھنا آسان ہے؟ نہ تو ہم منشی ہیں کہ سیدھے سیدھے پورے دن کے معاملات لکھ دیں۔ ایک اچھا سفرنامہ لکھنے کے لیے ہمیں بہت کچھ پڑھنا پڑھتا ہے۔

سفرنامہ میں نئی نئی جدتیں ڈالنے کے لیے ہمیں افسانے، ناول، شاعری، خاکے الغرض نہ جانے کیا کچھ نہیں پڑھنا پڑتا مگر ہمارے اردو دان سفر نامہ نگاروں کو مکھن میں سے بال کی طرح باہر نکال کرتے ہیں۔ اچھا بھائی آپ نہ تسلیم کریں کہ سفرنامہ بھی اردو ادب کا حصہ ہے مگر اس سے ہمارے حوصلوں میں نہ تو کمی آئے گی اور نہ ہی پرواز میں کوتاہی آئے گی۔ ہم اپنے سفر ناموں کو بلھے شاہ کی شاعری کا ہلکی آنچ پر تڑکا بھی لگائیں گے، اس کو افسانوی رنگ بھی دیں گے اور اسے ناول کی طرح نئے نئے کرداروں سے خوب کھینچ کر بھی رکھیں گے۔ نہ مانیں آپ ہمارے سفر نامے کو ادب کا حصہ۔

کیا آپ کو نہیں لگتا کہ ایک سیدھا سیدھا لکھا ہوا سفرنامہ اپنی دل چسپی کھو دیتا ہے جب تک کہ اس میں ہلکے پھلکے مزاح کا تڑکا نہ ہو۔ سفرنامہ بنیادی طور پر آپ کے جذبات سے، احساسات سے، تجربے سے اور مشاہدے سے بنتا ہے۔ ہاں اگر ساتھ میں تھوڑی سی سفری معلومات بھی ہوں تو سفرنامے کو چار چاند لگ جاتے ہیں۔ اب ہم کوئی ابنِ بطوطہ تو ہیں نہیں کہ سیدھا سیدھا لکھنا شروع کریں اور بات کو ختم کردیں۔ وہ ابنِ بطوطہ تھا، میں حارث بٹ ہوں۔ میں نے بھٹک کر اِدھر اُدھر بھی ہوجانا ہے اور سفرنامے میں اپنی کچھ کھٹی میٹھی ٹکیاں ٹافیاں بھی بیچنی ہیں اور اپنے کچھ خواہ مخواہ کے فلسفے بھی تو ڈالنے ہیں۔

نہ جانے کیا معاملہ ہے کہ مجھے سمجھ ہی نہیں آ رہی کہ اس سفرنامے کا آغاز کیسے کروں اور کہاں سے کروں۔ ذہن میں فقط ایک ہی منظر گھوم رہا ہے کہ میں استور جانے والی ایک بس میں سوار ہوں اور گاڑی فراٹے بھرتے ہوئے جا رہی ہے۔ اگرچہ کہ میں پہلے بھی تقریباً بنا رکے چالیس گھنٹوں کا ایک ٹور کرچکا ہوں جس میں، میں صادق آباد تک گیا تھا۔ جانے کا سفر تو ٹھیک تھا مگر واپسی پر مختلف شہروں میں جانے کی وجہ سے مجھے گاڑیاں بدلنی پڑی تھیں مگر وہ سفر بہت آرام دہ تھا اور گاڑیاں بھی اچھی تھیں۔

استور جانے والی گاڑیوں اور استور روڈ کے تو پھر کیا ہی کہنے۔ پنڈی سے جو گاڑی استور کے لیے پکڑی تھی، برائے نام ہی گاڑی یا بس تھی۔ کرایہ تو 3200 روپے تھا اور سہولیات بھی کرائے کے مطابق ہی تھیں۔ اے سی کو تو چھوڑیں، حالات یہ تھے کہ جو شیشے بند تھے وہ کھلتے نہ تھے اور جو کھلے تھے، وہ بند نہ ہوتے تھے۔ نیلے رنگ کی میری اس بس نے، استور پہنچتے پہنچتے میری بس کروا دی تھی۔ پنڈی سے چلنے کا وقت تو سہہ پہر چار بجے کا تھا مگر گاڑی صاحبہ نے پیر ودھائی سے نکلتے نکلتے پانچ تو بجا ہی دیے۔ نہ جانے پیر ودھائی کو پیر ودھائی کیوں کہتے ہیں۔ کوئی نہ کوئی اس کی وجہِ تسمیہ رہی ہوگی۔

اصل مزہ تو تب آنا شروع ہوا جب ہماری بس اڈے سے روانہ ہوئی تو میری ساتھ والی سیٹ خالی نکلی۔ سفر کا مزہ موٹر وے نے دوبالا کردیا۔ میری خوش قسمتی کہ میری طرف والی کھڑکی تقریباً آدھی کھلتی تھی۔ میں نے فوراً کھڑکی کھولی، اپنا بیگ دوسری سیٹ پر رکھا اور لیٹ گیا۔ ذرا دل پشوری کے لیے میں نے ٹانگیں کھڑکی سے باہر نکال لیں۔ سچی بات ہے جب سفر کا مزہ آنے لگتا ہے کہ انسان اپنے سارے مسائل بھول جانے لگتا ہے۔ کچھ یاد رہتا ہے تو صرف اور صرف محبوب کا چہرہ۔ مجھے تو کبھی کبھی یہ بات بھی بالکل فراڈ لگتی ہے کہ انسان کو پہلی محبت کبھی نہیں بھولتی۔ مجھے تو کب کی بھول چکی اور نہ ہی میں نے کبھی اسے سوچ کر آہیں بھری ہیں مگر وہ چہرہ آج بھی یاد ہے۔

اب چہرہ تو کبھی نہیں بھول سکتا ناں۔ یہ بات تو سو فی صد فراڈ ہے کہ محبت زندگی میں ایک بار ہی ہوسکتی ہے۔ ہمیں تو بار بار ہوتی ہے اور جب بھی ہوتی ہے، اسی شدت سے ہوتی ہے جیسے بالی عمریا میں پہلی محبت ہوئی تھی۔ ایک محبت ہی تو ہے جو میرے زندہ ہونے کی نشانی ہے۔ یہ محبت ہی تو ہے کہ میں ہر روز نئے خوابوں کے ساتھ بیدار ہوتا ہوں۔ سب کو یاد کرتا ہوں، کچھ نئے چہرے تلاش کرتا ہوں اور پھر سو جاتا ہوں۔ میں تو کہتا ہوں چھوڑو سفر کی باتیں۔ چلیں بس اِدھر اُدھر کی باتوں میں وقت ضائع کرتے ہیں۔

مجھ جیسے ہی کسی عظیم انسان نے ایک بار کہا تھا کہ مرد کو اگر کسی طوائف سے محبت ہوجائے اسے اپنے ہی بچے بہت برے لگنے لگتے ہیں۔ آج تک زندگی میں طوائف سے محبت کا تجربہ نہ ہوسکا۔ سوچتا ہوں کہ کبھی یہ تجربہ بھی کرنا ہی چاہیے۔ نہ جانے ایک طوائف کی انگلیوں میں ایسا کیا نشہ ہوتا ہے کہ مرد خود ناچنا شروع کر دیتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ مجھے اگلے سال جون یا جولائی میں ہیرا سنگھ کی منڈی کا ضرور ایک چکر لگانا چاہیے۔ کیا پتا میں کسی پتلی کمر والی، ناک میں نتھنی ڈالے، انگلیوں کے پوٹوں پر مہندی لگائے کسی طوائف کا عاشق بن جاؤں۔ سوچتا ہوں پچھلی عمر میں اب یہ تجربہ بھی کرلینا چاہیے۔

راجا مان سنگھ کے شہر مانسہرہ کی چائے میں نہ جانے ایسی کیا بات تھی کہ میں مغرب کے بعد سویا تو سویا ہی چلتا گیا۔ ہلکی پھلکی پھوار شروع ہو چکی تھی۔ بارش کا پانی بس کے اندر آنے لگا تو مجبوراً مجھے کھڑکی تھوڑی سی بند کرنا پڑی۔ کان تھک چکے تھے کہ ان میں مسلسل ایک سو بیس روپے والی ہینڈ فری لگی تھی۔ میں نے ہینڈ فری اتاری، موبائل سینے پر رکھا اور میوزک کو چلنے دیا۔ کھڑکی کے باہر نکلا چاند کبھی مجھے دیکھ کر شرماتا اور کبھی خوش ہوتا۔ سیاہ بادلوں میں لپٹی ہوئی موت، چاند کے ساتھ رقص کرنے میں مصروف تھی۔ اچانک سے ایک زور کا بادل گرجا اور بس صاحبہ کانپتی ہوئی ذرا دائیں جانب لڑھک گئی۔ میں نے ڈر کر اپنے موبائل پر لگا میوزک بند کردیا۔ چاند اور موت دونوں میرا ڈر دیکھ کر ہنس پڑے۔

دوستو بات یہ ہے کہ سفر میں موت آپ کے بالکل ساتھ ساتھ چل رہی ہوتی ہے۔ وہ کب اوپر سے آتے ہوئے پتھر کی طرح آپ پر آن ٹپکے یا پھر پیچھے سے آنے والی گاڑی آپ سے ٹکرا جائے، کچھ پتا نہیں چلتا اور ایسا واپسی کے سفر میں میرے ساتھ ہوا بھی۔ میں جب استور سے واپس پنڈی آ رہا تھا تو شاہراہِ قراقرم پر اسکردو سے آنے والی فیصل موور کی ایک گاڑی کو پیچھے سے ایک دوسری گاڑی نے ہی ٹکر مار دی تھی۔ یہی گاڑی ہمیں بھی اوور ٹیک کر کے گزری تھی۔ میں اس وقت بھی ڈرا تھا کہ پہاڑوں پر اتنی رفتار نہیں ہونی چاہیے۔

کچھ آگے گئے تو گاڑیوں کی ایک قطار تھی۔ کوئی جانی نقصان تو نہ ہوا مگر مادی نقصان ہوا اور سواریوں پر جو خوف طاری ہوا، وہ الگ۔ ویسے تو موت ہمیشہ ہی آپ کے ساتھ رہتی ہے مگر سفر میں یہ بدبخت آپ کے کچھ زیادہ ہی قریب ہوجاتی ہے ایسے جیسے وہ ہماری بچھڑی ہوئی محبوبہ ہو۔ نہ جانے سفر میں ایسی کیا بات ہے کہ مجھے نیند بڑی اچھی آتی ہے۔ جب تک موٹر وے اور صاف ستھری سڑک رہی، میں مزے سے سوتا رہا۔ آنکھ کھلی تو نیچے شیر دریا (دریائے سندھ) دھاڑ رہا تھا۔


میں نے پہاڑوں پر کبھی دریائے سندھ نہیں دیکھا مگر مجھے بہت اشتیاق تھا کہ اس کی ہیبت دیکھوں۔ سنا تھا دریائے سندھ گلگت بلتستان میں پتھروں پر ایسے ٹکریں مارتا ہے کہ بس خدا کی پناہ۔ یہ دریا تبت میں چوں کہ کیلاش کی پہاڑیوں سے شیر کے منہ سے نکلتا ہے، اس لیے تبتی اسے شیر دریا کہتے ہیں، جب کہ لداخ والے اسے ''سنگھے دریا یا سنگھ دریا'' کہتے ہیں۔ تبت سے شروع ہونے والا یہ دریا سب کے لیے فائدہ مند نہیں ہے۔ زیادہ تر علاقوں میں یہ بہت نیچے ہی بہتا ہوا آگے چلا جاتا ہے جب کہ آبادی بہت اوپر ہے۔

تبت جسے دنیا کی چھت بھی کہا جاتا ہے، سطع سمندر سے تقریباً 4800 میٹر بلند ہے۔ تبت ہی کا کیلاش پہاڑ جو سطع سمندر سے 6714 میٹر بلند اور شیوا بھگوان کا گھر بھی کہلاتا ہے، سے دریائے سندھ جنم لیتا ہے۔ دنیا کے چار مذاہب میں یہ پہاڑ عقیدت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے جن میں ہندو، جین اور بدھ مذہب بھی شامل ہیں۔ برصغیر پاک و ہند کے تین اہم دریا دریائے سندھ، دریائے ستلج اور دریائے برہما پتر یہیں سے جنم لیتے ہیں۔ کیلاش پہاڑ کے Bomhar-Chu گلیشئیر کو دریائے سندھ جب کہ اس کے بالکل قریب ہی بہنے والیManasarovar مانسرور جھیل کو دریائے ستلج اور دریائے برہما پتر کا منبع تسلیم کیا جاتا ہے۔ دریائے سندھ ایک قدیم دریا ہے جس کا ذکر رامائن اور دنیا کے چند دوسرے مذاہب میں بھی ملتا ہے۔

دریائے سندھ تبت سے لداخ میں داخل ہوتا ہے پھر وہاں سے گلگت بلتستان کی جانب راہ فرار کر لیتا ہے۔ پاکستان میں بہنے والی ہر ندی، ہر نالہ، ہر چھوٹا بڑا دریا کہیں نہ کہیں جا کر دریائے سندھ سے ہی ملتا ہے مگر پاکستان کی حدود میں سب سے پہلے سیاچن گلیشیئر سے پیدا ہونے والا دریا دریائے شوک دریائے سندھ میں شامل ہوتا ہے۔ لداخ جو ہمالیہ سلسلہ کے پیچھے کی طرف ہے۔

لداخ خشک ہے، پتھریلا ہے، ریتلا ہے، بنجر ہے اور صرف لداخ ہی ایسا نہیں ہے۔ صوبہ خیبر پختونخوا کی جانب سے اگر آپ گلگت بلتستان میں داخل ہوں تو آپ کو چلاس، استور اور نہ جانے آگے کون کون سے علاقے آپ کو ایسے ہی بنجر، خشک اور گرم ہی ملیں گے۔ آپ کوہستان سے ہوتے ہوئے جوں ہی گلگت بلتستان میں داخل ہوتے ہیں تو آپ کا استقبال سب سے پہلے داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کرتا ہے۔ ایک ایسا پراجیکٹ جو آپ کو خوش کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔کسی بھی ملک کی آبی سیکیوریٹی کے لیے ضروری ہے کہ اس کے دریاوں میں بہنے والے پانی کے حجم کا 40 فی صد تک ذخیرہ کرنے کے لئے ڈیم موجود ہوں۔ پاکستان میں دریاؤں پر بنے ڈیم بہنے والے پانی کا صرف 10 فی صد تک ذخیرہ کرسکتے ہیں۔ مگر اب شاید حالات بدلیں کہ ہمارے پاس اب وقت بالکل بھی نہیں ہے اور مقابلہ انتہائی سخت۔

داسو انتہائی کم ماحولیاتی اثرات سے صاف ستھری بجلی پیدا کرنے والا منصوبہ ہے جس کے پہلے مرحلے کی 2026 میں تکمیل کے بعد یہ 12ارب سالانہ بجلی کے یونٹ پیدا کرے گا۔منصوبے کا پہلا بریک تھرو اس وقت ہوا تھا جب عظیم تر دریائے سندھ کو کامیابی سے دو سرنگوں کے ذریعے 1.33 کلومیٹر کی لمبائی میں منصوبے کے علاقے سے موڑ کر دوبارہ واپس لایا گیا تھا تاکہ منصوبے کی مختلف تعمیراتی سرگرمیوں والی جگہ خشک رکھی جاسکے۔ کوہستان کا علاقہ صوبہ خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان کے سنگم پر واقع ہے۔

داسو ڈیم کا منصوبہ کے پی کے ضلع اپر کوہستان میں داسو قصبے سے تھوڑا آگے تعمیر ہو رہا ہے۔ داسو ہائیڈر وپاور پراجیکٹ کا دوسرا اہم میل اس وقت کامیابی سے طے ہوا جب مین ڈیم سے اوپر اسٹارٹر ڈیم۔1 کی تعمیر مکمل ہوئی۔ مون سون کا فلڈ سیزن گزارنے کے بعد اس ڈیم کو 7 میٹر مزید بلند کرکے میں ڈیم کی تعمیر کے لئے علاقہ خشک کر لیا جائے گا جس سے دریا کے اس حصے کے اندر تعمیراتی سرگرمیاں ہر موسم میں بلا روک ٹوک جاری رہ سکیں گی۔ اسی پروجیکٹ کے ساتھ ساتھ ایک نئی سرنگ بھی بنائی گئی ہے جو فی الحال صرف اس حالت میں ہے کہ یہاں سے گاڑیاں آرام سے گزر سکیں۔ سرنگ مکمل ہے مگر ابھی اس کا اچھی شکل میں آنا باقی ہے۔ پہلے پہل ٹریفک ساتھ موجود سڑک پر سے گزرتی تھی مگر اس سڑک کے اب ڈیم کی حدود میں آنے کی وجہ سے سرنگ ضروری تھی۔

آپ اگر قراقرم ہائی وے پر اپنا سفر جاری رکھیں تو آپ کی ملاقات مزید ایک کلیجہ ٹھنڈا کرنے والے پراجیکٹ دیا میر بھاشا ڈیم سے ہو گی۔ دیامیر بھاشا ڈیم کا اہم سنگ میل اس وقت عبور ہوا جب چلاس سے 40 کلومیٹر نیچے عظیم تر دریائے سندھ کا رُخ دیامیر بھاشا ڈیم کی سائٹ سے موڑ دیا گیا۔ دریا ایک کلومیٹر لمبی سرنگ اور 800 میٹر لمبی نہر سے ہوتا ہوا نیچے واپس اپنے اصلی روٹ سے جا ملا۔

دیامیر بھاشا ڈیم نہ صرف 8.1 ملئین ایکڑ فٹ سیلابی پانی ذخیرہ کرے گا بلکہ 4500 میگاواٹ صلاحیت کے بجلی گھر سے سالانہ 18 ارب اضافی بجلی کے یونٹ بھی پیدا کرے گا اور ساتھ ہی ایک ملئین ایکڑ سے زیادہ اراضی سیراب کرے گا۔ اس وقت پاکستان کے بڑے ڈیموں (منگلا، تربیلا اور گومل زام کے آبی ذخائر) میں تقریباً 14.28 ملین ایکڑ فٹ پانی کی ذخیرہ کرنے گنجائش ہے جب کہ پاکستان دو بڑے آبی ذخائر, مہمند ڈیم (1.239 مین ایکڑ فٹ) اور دیامر بھاشا ڈیم (8.1 ملین ایکڑ فٹ) تعمیر کر رہا ہے جس کے بعد پاکستان کی پانی ذخیرہ کرنے کی کل گنجائش 23.58 ملین ایکڑ فٹ ہو جائے گی جو کہ پچھلے چالیس سال سے مسلسل کم ہورہی تھی۔

استور والے سو رہے تھے۔ آسمان پر گہرے بادل تھے۔ استور بازار ابھی بند تھا۔ کبھی کبھار ہلکی پھوار برس جاتی۔ ایک چھوٹے سے ہوٹل میں گیا۔ سوچا موبائل کی بیٹری ذرا چارج کرلی جائے تو بہتر ہے۔ معلوم پڑا کہ کل سے پورے استور میں لائٹ صاحبہ نہیں تھیں۔ دریا میں کہیں گلیشیر گرا تھا جس نے بجلی گھر کو کافی نقصان پہنچایا تھا۔ اب کب بجلی آئے گی، کچھ معلوم نہ تھا۔ استور یا پہاڑی مقامات پر بجلی گھٹنوں کے لیے نہیں جاتی بلکہ دنوں کے لیے جاتی ہے۔ موسم سازگار رہے تو بجلی گھر چلتا رہتا ہے۔

جوں ہی دریا یا گلیشیر اوپر نیچے ہوا، بجلی چند دنوں کے لیے غائب۔ بازار میں اک دکان پر نظر پڑی جہاں اسپورٹس کمپنی سیال کوٹ کا بورڈ لگا تھا۔ دیارِغیر میں یوں اپنے شہر کا نام لکھا دیکھ کر کتنا اچھا لگتا ہے ناں۔ میں نے ہوٹل والے کو دو انڈے ابالنے کا کہا اور اپنی موٹر سائیکل والے کو کال کر دی۔ استور شہر سے دوپہر کے وقت ترشنگ جانے کے لیے سواریوں کے حساب سے جیپ چلتی ہے۔ تریشنگ سے آگے آپ کو اپنے بَل بوتے پر جانا پڑے گا۔ میں نے یہ کام کیا کہ پہلے سے ایک موٹر سائیکل والے کا بندوست کر لیا۔ اب موٹر سائیکل والے نے مجھے استور سے اٹھانا تھا اور ہرلنگ کوفر جا کر پٹخ دینا تھا۔ ایک رات وہیں میرے ساتھ گزارنی تھی اور اگلے روز مجھے واپس استور چھوڑنا تھا۔ طے یہ پایا کہ اس کام کے عوض میں اسے سات ہزار روپے ادا کروں گا۔

شاہراہِ قراقرم پر لینڈ اسکیپ ایک جیسا نہیں ہے۔ میدان کی کیفیت بدلتی رہتی ہے۔ کبھی بڑی بڑی چٹانیں آپ کو ملتی ہیں تو کبھی قراقرم کے ساتھ ساتھ دریائے سندھ ایسا شور مچاتا ہوا گزرتا ہے کہ کان پڑی آواز بھی سنائی نہیں دیتی اور کبھی یہ اتنا پُر سکون ہوتا ہے کہ اس کی خاموشی بھی بھلی لگتی ہے۔

آسمان پر ہلکے پھلکے بادل تھے، دھوپ نہ تھی۔ مجھے ویسے بھی پہاڑوں پر دھوپ سے اب ڈرتا لگتا ہے۔ کرومبر سے واپسی پر دھوپ نے میرا چہرہ بری طرح جلا دیا تھا حالاں کہ دھوپ سے بچنے کے لیے کریم بھی لگائی تھی مگر یا تو میری کریم کچھ زیادہ ہی سستی تھی یا پھر میری جلد ضرورت سے زیادہ حساس۔ میرے ساتھ ایک نئے دن کا سورج طلوع ہو رہا تھا۔ میں اپنا وقت اور عہد بہت پیچھے آیا تھا۔

یہاں استور میں مجھے کوئی نہ جانتا تھا کہ میں کون ہوں، کیا ہوں اور کیوں ہوں۔ استور والوں کو بس اتنی غرض تھی کہ ایک آوارہ انسان پنجاب سے یہاں ایک پہاڑ دیکھنے کے لیے آیا ہے جسے ساری دنیا نانگا پربت کے نام سے جانتی ہے۔ ایک عرصے سے عجب رواج چل پڑا ہے کہ تقریباً ہر شہر میں Love I فلاں شہر کا بورڈ ضرور لگا ہوتا ہے۔

ہم استور سے باہر نکلے تو یہاں بھی یہی بورڈ لگا تھا۔ میرا گائیڈ، نہ جانے کیا برا سا نام تھا اس کا، مجھے راستے میں آنے والی مختلف جھیلوں کے بارے بتاتا رہتا کہ یہ ٹریک فلاں جھیل کو جاتا ہے اور یہاں استور میں آپ فلاں فلاں جھیل سکتے ہیں۔ تھوڑا آگے بڑھے تو سامنے مشرف چوک آ گیا۔ وجہِ تسمیہ یہی ہو گی کہ اسے مشرف دور میں بنایا گیا ہو گا۔ مونومنٹ کا ڈیزائن اچھا ہے۔ چھوٹی چھوٹی دیواریں بنا کر گلگت بلتستان کے اہم علاقوں جن میں گلگت، اسکردو، دیا میر، نگر، ہنزہ، کھرمنگ، گانچھے اور غذر شامل ہیں، کے نام لکھے گئے ہیں۔

ہم جوں ہی استور شہر سے باہر نکلے تو استور نالہ ہمارے ساتھ ساتھ چلتا رہا۔ معلوم ہوا کہ اب یہ استور نالہ نہیں بلکہ روپل نالہ یا دریائے روپل ہے۔ سڑک بہت اوپر تھی اور دریائے روپل بہت نیچے۔ ہر چند کلومیٹر کے بعد چھوٹے چھوٹے مختلف نالے دائیں بائیں سے دریائے روپل میں شامل ہو رہے تھے۔ دریائے روپل کا پانی مٹی رنگ کا ہے۔ آس پاس کے بہت سے ندی نالوں کا پانی مٹی کی وجہ سے ایسا ہی ہے۔ اگر کبھی بے رنگ پانی کہیں کسی مقام پر دریائے روپل سے ملتا تھا تو ظاہر سی بات ہے وہ اپنا اصل رنگ کھو دیتا تھا اور دریائے روپل کے رنگ میں رنگا جاتا تھا۔

میں ترشنگ جاتے ہوئے ابھی چکار سے بہت پیچھے تھا کہ اچانک سے ایک نوے ڈگری کا موڑ آیا اور سامنے ایک بڑا سا پہاڑ آ گیا۔ میرا رہنما کہنے لگا، حارث بھائی وہ سامنے جو پہاڑ دیکھ رہے ہیں ناں، وہ نانگا پربت ہے۔ میں نے بائیک وہیں رکوا دی اور آگے جانے سے شدید انکاری ہو گیا اور وہیں سڑک پر آلتی پالتی ہو کر بیٹھ گیا۔ چوٹی مکمل طور پر بادلوں میں ڈھکی ہوئی تھی بلکہ اگلا پورا دن بھی چوٹی پر بادل ہی رہے مگر عصر کے بعد منظر ایسا کھلا کہ پوچھو مت۔ بادلوں میں لپٹے ہوئے نانگا پربت کے مناظر تو ابھی بعد میں بتاؤں گا پہلے آپ روپل روڈ پر ہی واپس آ جائیں۔ راستے میں ایک علاقہ بارے بھی ہے جہاں سے روپل دریا آپ کے ذرا قریب ہو جاتا ہے۔ نہ صرف قریب ہوتا ہے بلکہ آپ کو اپنائیت کا احساس بھی دلاتا ہے۔ مگر بعد میں تحقیق کرنے پر پتہ چلا کہ یہ منظر نانگا پربت کا نہیں تھا۔

سنا تھا تریشنگ ایک خوبصورت گاؤں ہے، بالکل ہے۔ شاید یہ ایک بہت خوب صورت گاؤں ہو مگر یہ نے استور سے اب تک جتنے بھی گاؤں دیکھے تھے، ان میں سب سے خوب صورت تریشنگ ہی تھا۔ آپ خود تصور کریں کہ آپ سرسوں کے کھیت میں کھڑے ہوں، کھیت کے ایک طرف ایک چھوٹی سی نالی میں صاف شفاف پانی بہہ رہا ہو، اتنا صاف کہ مجھ جیسا کمزور پیٹ والا شخص بھی اگر اس پانی کو پیے تو اس کا پیٹ ذرا طاقت ور ہوجائے، اسی نالی کے گرد سفید خوب صورت پھول ہوں اور آپ کے سامنے نانگا پربت کھڑا ہو۔

ذرا تصور کریں کہ یہ کیسا منظر ہوگا اور جس گاؤں میں یہ منظر ہوگا، اسے میں وادیِ روپل کا خوب صورت ترین گاؤں نہ کہوں تو پھر کیا کہوں۔ تریشنگ میں ہمارے پنجاب کی طرح کے سر سبز کھیت ہیں، پھول ہیں، چشمے ہیں، صاف ستھرا آسمان ہے اور نانگا پربت ہے۔ عین ممکن ہے کہ میں آپ کو نہ بتا سکوں کہ تریشنگ کیا ہے۔ آپ بس میری بات کا یقین کرلیں کہ ترشنگ بہت خوب صورت ہے۔ ترشنگ کے خوب صورت ہونے کی یہ دلیل کیا ہم ہے کہ اس میں نانگا پربت ہے۔ آپ اگر رات رکنا چاہیں تو ترشنگ رک سکتے ہیں مگر بہتر یہی ہے کہ آپ صراطِ مستقیم پر چلتے جائیں۔ ہاں نانگا پربت کے اس چہرے سے لطف اندوز ہونے کے لیے آپ کو کچھ پَل یہاں ضرور گزارنے چاہییں۔
Load Next Story