دنیا میں تنہا ہونے کا تاثر زائل سفارتی و معاشی لحاظ سے فائدہ ہوگا
پاکستان میں ایس سی او سمٹ کا انعقاد بڑا بریک تھرو
15 اور 16 اکتوبر کو اسلام آباد میں شنگھائی تعاون تنظیم سمٹ کا انعقاد کیا جارہا ہے۔ جو یقینا پاکستان کیلئے انتہائی اہم ہے۔ ایس سی اوسمٹ کیلئے سربراہان حکومت 15 اکتوبر کو اسلام آباد پہنچیں گے اور 15 اکتوبر کی شام وزیراعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف کی جانب سے مہمانوں کے اعزازمیں عشائیہ دیا جائے گا۔اجلاس میں ایس سی او کے رکن ممالک شریک ہوں گے۔
جن کے وزرائے اعظم اور صدور،نمائندے وفود اور صحافی پاکستان آئیں گے۔ایس سی او اجلاس سے وزیراعظم ودیگر سربراہان اورنمائندے خطاب کریں گے، اجلاس کے بعد ایس سی او ممالک کی طرف سے مفاہمتی یادداشتوں پردستخط ہوں گے۔ایس سی او اجلاس میں معیشت،تجارت،باہمی روابط کے فروغ پرتوجہ مرکوز کی جائے گی۔ اس سمٹ کی اہمیت اور مختلف پہلوؤں کا جائزہ لینے کیلئے ''پاکستان میں ایس سی او سمٹ کا انعقاد اور مستقبل کا منظر نامہ'' کے موضوع پر ''ایکسپریس فورم'' کا انعقاد کیا گیا جس میں ماہرین امور خارجہ اور سیاسی تجزیہ کاروں کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
ڈاکٹر امجد مگسی
(ماہر امور خارجہ و سیاسی تجزیہ نگار)
ایس سی او سمٹ اسلام آباد انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ عالمی سیاست میں علاقائی گروپس بن چکے ہیں، ان میں شنگھائی تعاون تنظیم کافی اہمیت اختیار کر چکی ہے۔ یہ دنیا کی دو بڑی طاقتوں روس اور چین نے مل کر بنائی اور اس میں وسطی ایشیائی ریاستیں شامل ہوئیں، پھر پاکستان اور بھارت کا اس میں شامل ہونا خاص اہمیت کا حامل تھا۔ موجودہ عالمی ، علاقائی اور ملکی تناظر میں دیکھا جائے تو بڑے عالمی لیڈرز کا اکٹھا ہونا،پاکستان کا اس کی میزبانی کرنا اور شنگھائی تعاون تنظیم جیسے بڑے آرگنائزیشن کا یہاں اجلاس ہونا معمولی نہیں ہے۔
اس سے پاکستان کی عالمی اور علاقائی اہمیت اجاگر ہو رہی ہے۔ اس تنظیم کے چارٹر میں تجارتی تعلقات کے ساتھ ساتھ، سکیورٹی اور دہشت گردی کے معاملات بھی شامل ہیں جس کی وجہ سے رکن ممالک مشترکہ زمینی و بحری مشقیں کرتے ہیں، سکیورٹی و دیگر معاملات پر مل کر کام کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت خود خواہش کرکے اس کا رکن بنا ۔ 2019ء میں بھارت نے کشمیر کو غیر قانونی طور پر ضم کیا تو پاک بھارت سفارتی تعلقات ختم ہوگئے۔ اس کے بعد اب بھارتی وزیر خارجہ کا ایس سی او سمٹ اسلام آباد میں شرکت کرنا اہم ہے۔ روس اور چین کے وزیراعظم پاکستان آرہے ہیں، وسطی ایشیائی ممالک کے سربراہان مملکت بھی شرکت کر رہے ہیں، اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم کتنا اہم بلاک ہے۔
میں ا یس سی او کے حوالے سے چار برس پہلے مقالہ شائع کر چکا ہوں۔ 2019ء میں میں نے چین میں مقالہ پیش کیا کہ ایس سی او کا پلیٹ فارم، پاک بھارت کشیدگی کو نارملائز کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس بلاک میں روس اور چین کا ہونا اہم ہے ۔ اب ایران نے بھی اس میں شمولیت کا کہا ہے، جلد ممبر بن جائے گا۔ان ممالک کی موجودگی میں، خصوصاََ چین اور روس کے ساتھ بھارت کے تعلقات زیادہ ہیں، دفاعی تعلقات بھی ہیں، پھر چین اور روس کی عالمی اہمیت بھی ہے۔
چین اور روس خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں کہ پاک بھارت معاملات بہتر ہوں کیونکہ اگر مسائل رہیں گے تو ایس سی او کو معاشی طور پر بہترین پلیٹ فارم بنانا ممکن نہ ہوگا۔ اسی طرح سی پیک اور بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کی کامیابی بھی پاک بھارت بہتر تعلقات سے جڑی ہے۔ جب پاکستان اور بھارت کو اس تنظیم کا رکن بنایا گیا تو اس وقت بھی دونوں ممالک کے درمیان کوئی خوشگوار تعلقات نہیں تھے۔چین، روس و دیگر ممالک نے جب رکنیت دی تو انہیں تعلقات کی نوعیت کا علم ہے۔ میرے نزدیک چین اور روس اس میں اہم کردار ادا کریں گے۔
اس وقت علاقائی امن اور خطے کی معاشی ترقی پاک بھارت بہتر تعلقات سے جڑی ہے۔ بھارت کے چین کے ساتھ تجارتی تعلقات اچھے ہیں لیکن اس نے چین کے ساتھ سرحدی تنازعہ پیدا کیا۔ میرے نزدیک ایس سی او سمٹ سے امید کی کرن پھوٹی ہے۔ پاکستان کیلئے کافی فائدہ ہوگا۔ ایسی کانفرنسز سے برف پگھلتی ہے۔ میں پر امید ہوں کہ پاک بھارت تعلقات میں ایس سی ا و سمٹ اہم کردار ادا کرے گا۔ سارک میں صرف سوشل اور اکنامک معاملات ہیں جبکہ شنگھائی تعاون تنظیم میں ان معاملات کے ساتھ ساتھ سکیورٹی بھی شامل ہے۔
ایس اسی او میں دنیا کے طاقتور ممالک ہیں لہٰذا مجھے امید ہے کہ یہ پاکستان ، بھارت اور خطے کیلئے اچھا ثابت ہوگا۔ اس موقع پر پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے احتجاج کی کال افسوسناک ہے۔ کافی عرصے بعد پاکستان میں انتہائی اہم کانفرنس ہونے جا رہی ہے جس میں چین اور روس کے وزرائے اعظم تشریف لا رہے ہیں، اس موقع پر ایسا کوئی اقدام نہیں ہونا چاہیے۔ اس عمل کو ہندوستان میں کافی ہائی لائٹ کیا جا رہا ہے، پی ٹی آئی قیادت کو ایسا نہیں کرنا چاہیے ،اس سے ملک کی ساکھ کو نقصان پہنچ رہا ہے۔
ڈاکٹر عاصم اللہ بخش
(سیاسی تجزیہ نگار)
شنگھائی تعاون تنظیم، دراصل شنگھائی فائیو کی ترقی یافتہ شکل ہے۔ 1996ء میں پانچ ممالک نے شنگھائی فائیو کی صورت میں ایک دفاعی اتحاد قائم کیا جس میں روس، چین، کرغستان، قازقستان اور تاجکستان شامل تھے۔ 2001ء میں نہ صرف اس کی رکنیت کو وسعت دی گئی بلکہ اس کے اغراص و مقاصد میں نئی جہتیں شامل کی گئیں جس میں معاشی ترقی، علاقائی تعاون، رکن ممالک کے درمیان آپسی تعلق کا فروغ شامل ہیں۔
اگر ہم اپنے خطے میں نظر دوڑائیں تو تقریباََ ویسا ہی معاملہ چل رہا تھا جیسا جنوبی ایشیاء میں سارک کا معاملہ تھا۔ سارک میں پاکستان اور بھارت کی کشمکش اور بھارت کے مخاصمانہ رویے نے اسے عملاََ بے اثر کر دیا ۔ شنگھائی تعاون تنظیم میں پاکستان اور بھارت بھی شامل ہیں، ان کی آپس کی کشمکش یہاں بھی ہے۔ جیسے اب 15 اور 16 اکتوبر کو اسلام آباد میں ایس سی او سمٹ کے حوالے سے یہ بات زیر بحث رہی کہ بھارتی وزیراعظم شریک ہوں گے یا نہیں، ہوسکتا ہے کہ وہاں سے شرکت کیلئے کوئی بھی نہ آئے لیکن پھر طے ہوا کہ بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر شرکت کریں گے۔ میرے نزدیک اس میں بھارت کا خفیہ ایجنڈہ موجود ہے۔ دو نکات ایسے ہیں جن پر بھارت پوائنٹ سکورنگ کی کوشش کرے گا۔
پہلا یہ کہ دہشت گردی کی سرکو بی ہونی چاہیے اور جو ممالک یا ریاستیں دہشت گردوں کی سپورٹ کرتی ہیں ان سے معاشی و سفارتی تعاون ختم کیا جائے۔ ایسا لگتا ہے کہ جے شنکر اس پر پاکستان کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کوشش کریں گے ۔ وہ مہمان ہیں اور پاکستان میزبان لہٰذا ان کے پاس سفارتی آزادی ہوگی۔دوسرا یہ کہ بھارت میک ان انڈیا کے تعارف کا ارادہ رکھتے ہیں، اس میں بھارت کی ترقی اور کامیابیوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کی کوشش کریں گے۔ پاکستان کیلئے اس سمٹ کی اہمیت اس لحاظ سے دوچند ہے کہ ایک تو یہ پاکستان کے دو حلیف ممالک چین اور روس کا اقدام ہے جو دنیا کی بڑی طاقتیں ہیں۔ دوسری طرف وسطی ایشیاء میں پاکستان کا علاقائی تعاون بڑھ رہا ہے اور پاکستان کے تنہا ہونے کا تاثر زائل ہوچکا ہے۔ اس حوالے سے بھی یہ اجلاس اہمیت کا حامل ہے۔ ہمیں اپنے معروضی حالات کا جائزہ بھی لینا ہے۔
اس کانفرنس میں چین اور روس کے صدور کے بجائے ان کے وزرائے اعظم آرہے ہیں۔ ایران کے صدر کی شرکت بھی متوقع ہے۔ ایک بڑے سفارتی ایونٹ کا میزبان ہونے کی وجہ سے سے پاکستان کو سفارتی تعلقات بہتر کرنے کا موقع ملے گا۔ افغانستان اس میں بطور مبصر شریک ہوگا، منگولیا اور بیلاروس بھی شریک ہونگے۔ اس وقت دنیا کی نظریں اسلام آباد پر لگی ہیں۔ حکومت کو یہ کوشش کرنی ہے کہ اس دوران امن و امان کے حوالے سے کوئی معاملہ نہ ہو۔ دوسرا یہ کہ حکومت کو اسلام آباد کو محفوظ بنانا ہے۔ اگر کسی اور ملک میں ہوتا تو اتنے بڑے پیمانے پر سکیورٹی انتظامات نہ کرنا پڑتے کہ تعلیمی اداروں میں چھٹیاں دے دی جائیں۔ ایسے اقدامات ملک کے حالات کے بارے میں شک پیدا کرتے ہیں۔
ہمیں ان چیزوں کو دورس بنیادوں پر ٹھیک کرنا ہوگا کہ اگر یہاں کوئی میچ ہو یا کانفرنس، وہ بلا تردد ہو، نارمل لگے۔ ہمیں اپنی سیاست، امن و امان، اندرونی تنازعات، بلوچستان، فاٹا اور خیبر پختونخوا کے معاملات کو بھی دیکھنا ہوگا۔ پاکستان ایک گریٹ گیم میں پھنسا ہے، امریکا اور چین کی چپقلش ، سی پیک کو ناکام بنانے کی کوشش میں پاکستان کا نقصان ہو رہا ہے۔ اب سی پیک ٹو کا آغاز ہو رہا ہے، بلوچستان، کراچی اور خیبر پختونخوا میں ایسے واقعات ہو رہے ہیں جہاں جانی نقصان ہو رہا ہے۔ کوشش ہونی چاہیے کہ یہ چیزیں قابو سے باہر نہ ہوں اور دنیا کو ایسا تاثر نہ جائے کہ پاکستان ایک غیر مستحکم ملک ہے۔ اس کے لیے طویل المدت اور کثیر المدت اقدامات کرنا ہونگے۔
پاکستان کی معیشت اہم ہے، ایسی کانفرنسز زیادہ ہونی چاہئیں جن میں تعلقات کو فروغ ملے۔ حال ہی میں سعودی وفد بھی پاکستان آیا جس میں اربوں ڈالر کے معاہدوں پر دستخط ہوئے۔ پاکستان چاہتا ہے کہ ایران کے ساتھ معاملات بہتر ہوں، روس اور چین کے ساتھ تجارت بڑھے۔ خاص طور پر قازقستان، کرغزستان، ازبکستان و دیگر سے بھی پاکستان کی تجارت بڑھے۔
ہم معاشی بریک تھرو کے دہانے پر ہیں۔ اس کے معاشی، سفارتی، سیاسی، سکیورٹی اور جیو پولیٹکس کے معاملات، پاکستان کے امن و امان اور داخلی استحکام سے ہوکر گزرتے ہیں۔ یہ راستہ جتنی جلدی اپنا لیں گے، اتنی جلدی ہی نتائج آئیں گے۔ ہماری نیک تمنائیں ہیں کہ حالیہ سمٹ کامیاب ہو۔ پاکستان اس وقت ایس سی او کا چیئرمین ہے،ا س کا عالمی امیج بھی بہتر ہوگا۔
ڈاکٹرزمرد اعوان
(ایسوسی ایٹ پروفیسر ، شعبہ سیاسیات ایف سی کالج یونیورسٹی)
جنگ عظیم دوئم کے بعد علاقائی تنظیمیں ابھریں جن کا بنیادی مقصد سکیورٹی، معاشی تعاون اور مقامی ثقافتی و دیگر تعلقات کو مضبوط بنانا ہے۔ اسی وجہ سے 1945ء سے 1990ء کی دہائی تک بہت ساری تنظیمیں بنیں ، خاص طور پر افریقہ، ایشیاء اور کریبین ممالک کے درمیان تعلقات کیلئے۔ 90ء کی دہائی میں نیفٹا اور یورپی یونین بنی۔ بیشتر تنظیموں کا آغازمعاشی تعلقات سے ہوا جبکہ بعض سکیورٹی کی بنیاد پر بنیں۔ ایسی تنظیمیں جن کی بنیاد معاشی مفادات پر رکھی گئی، اور بعد ازاں انہوں نے سکیورٹی معاملات کو شامل کیا، وہ مضبوط ہیں۔
اس وقت ایشیاء میں 11 ریجنل تنظیمیں موجود ہیں جن کا کام سکیورٹی معاملات اور معاشی تعاون کو دیکھنا ہے۔ ان میں سے ایک شنگھائی تعاون تنظیم ہے جو شروع میں تو وسطی ایشیاء کی سکیورٹی کیلئے بنائی گئی تھی لیکن اس کے بعد سیاسی و معاشی معاملات پر دائرہ کار وسیع ہوا، پھر اس تنظیم میں پاکستان، ایران اور بھارت بھی شامل ہوئے۔ پہلے اسے شنگھائی فائیو کے نام سے پکارا جاتا تھا جس میں چین، روس، قازقستان، کرغزستان اور تاجکستان تھے۔ پہلے توجہ ان ممالک کے درمیان بارڈر مسائل کو حل کرنا تھا۔ پھر آہستہ آہستہ سکیورٹی اور معیشت میں تعاون ہوا۔ 2001ء میں اس کا نام تبدیل کرکے شنگھائی تعاون تنظیم رکھا گیا اور ازبکستان نے اس میں شمولیت اختیار کی۔ پھر پاکستان، بھارت، ایران، بیلاروس و دیگر نے جوائن کیا۔
جولائی 2023ء میں بڑی پیش رفت ہوئی جب ایران فل ممبر کے طور پر اس میں شامل ہوا۔ یہ تنظیم اس لیے اہمیت اختیار کرچکی ہے کہ اس میں ایسے ممالک شامل ہیں جن کے بڑے مفادات جڑے ہیں۔ یہ نہ صرف ان ممالک کی معاشی و سکیورٹی معاملات کو دیکھ رہی ہے بلکہ خطے کی سکیورٹی میں سب کا تعاون بھی اہم ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم جن ممالک پر مشتمل ہے وہ دنیا کی آبادی کا ایک چوتھائی ہے۔ اس تنظیم کا سٹرکچر اہم ہے۔ اس میں سربراہان مملکت،سربراہان حکومت اور وزرائے خارجہ کی کونسلز الگ الگ ہیں۔ اس میں ایک اہم باڈی جو بعد میں بنائی گئی وہ علاقائی انسداد دہشت گردی کے حوالے سے ہے جس کی ضرورت دہشت گردی اور انہتا پسندی کی شدت اضافے کے بعد پیش آئی۔ شنگھائی تعاون تنظیم میں دو بڑے ممالک چین اور روس ہیں۔ چین کی توجہ ہمیشہ سے اقتصادی تعلقات کی بہتری اور فروغ پر ہوتی ہے۔
بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کی وجہ سے چین کو ضرورت ہے کہ وہ ان ممالک سے اپنے تعلقات کو فروغ دے۔ اس میں شنگھائی تعاون تنظیم اہم کردار ادا کرتی ہے۔ چین اور روس کا اس تنظیم میں ہونا اور پھر ایران کا شامل ہونا، یہ معمولی نہیں ہے۔ ایران نے خود کو امریکا اور اسرائیل مخالف ملک ثابت کیا ہے۔ ایک دوسرے پر جو حملے ہو رہے ہیں، وہ دنیا دیکھ رہی ہے لہٰذا اس تنظیم میں ایران کے شامل ہونے سے اس کا سٹریچر تبدیل ہوگیا ہے۔ ایران پر امریکا نے پابندیاں لگائیں، اس کیلئے خطے اور عالمی سطح پر مسائل پیدا ہوئے، ایسی صورتحال میں ایران کو بھی ضرورت تھی کہ وہ ایسی تنظیم کا حصہ بنے جہاں سکیورٹی و دیگر معاملات پر انفرادی اور مجموعی حیثیت میں بات ہو۔
پاکستان کے چین اور ایران سے اچھے تعلقات ہیں۔ ایران کے ساتھ مذہبی اور جغرافیائی تعلقات ہیں۔ پاکستان کے لیے یہ پلیٹ فارم اہم ہے جس میں نہ صرف علاقائی مسائل حل کیے جاسکتے ہیں بلکہ معیشت اور تجارت کو بھی فروغ دیا جاسکتا ہے۔ پاکستان کو اندورنی طور پر سیاسی اور معاشی مسائل کا سامنا ہے۔ ایسے حالات میں پاکستان کے پاس آپشنز محدود ہیں۔ وہ ملک جو اندورنی ور پر کمزور ہو وہ عالمی سطح پر نہ تو تجارت کو زیادہ فروغ دے سکتا ہے اور نہ ہی معاشی روابط کو فروغ دے سکتا ہے۔ اس تنظیم میں بھارت کا ہونا جو پاکستان مخالف ہے، اہمیت کا حامل ہے۔
اس پلیٹ فارم کے ذریعے خطے میں بھارت کی بدمعاشی کو کم کیا جاسکے۔ یہ اس وقت ممکن ہے جب پاکستان اندرونی طور پر مضبوط ہو، ہماری پالیسی واضح ہو اور ہم سفارتی محاذ پر ڈٹ کر کھڑے ہوں۔ پاکستان، بھارت ، چین و دیگر ممالک اگر باہمی طور پر اپنے مسائل حل کرلیں تو یہ یقینا شنگھائی تعاون تنظیم کی کامیابی مانا جائے گا۔موجودہ حالات میں جہاں عالمی سطح پر سکیورٹی کے مسائل ہیں،امریکا و مغربی ممالک کا گٹھ جوڑ ہے۔ فلسطینیوں کے ساتھ مظالم ڈھائے جا رہے ہیں، ایران کے ساتھ جنگ چھیڑ رکھی ہے، مڈل ایسٹ کو غیرمستحکم کیا جا رہا ہے، ایسے حالات میں علاقائی تنظیموں کا کامیاب ہونا ناگزیر ہوجاتا ہے۔ اگر علاقائی مسائل آپس میں حل نہ کیے جاسکیں تو مسائل سنگین ہوجاتے ہیں۔
ایران شروع سے ہی کہتا آیا ہے کہ سکیورٹی یقینی بنانا علاقائی ممالک کی ذمہ داری ہے۔ یہی موقف اس کا گلف ممالک کے بارے میں ہے کہ گلف ہمارا ہے اور اس کی سکیورٹی کے ذمہ دار ہم ہیں۔ہمیں یہاں امریکی و مغربی افواج نہیں چاہئیں۔ ایشیاء اور سینٹرل ایشیاء کے ممالک کیلئے شنگھائی تعاون تنظیم اہم ہے، اگر اس کے درست فوائد حاصل کرنے ہیں تو انہیں مل کر خطے کی سکیورٹی یقینی بنانا ہوگی۔ اس آرگنائزیشن کی کامیابی سے امریکا اور مغربی ممالک کو تکلیف ہوگی خاص طور پر جب اس میں ایسے ممالک ہوں جن سے ان کے تعلقات کشیدہ ہیں۔ اس کو ذہن میں لائے بغیر بارڈر سکیورٹی کو بہتر بنانا، ڈائیلاگ کو فروغ دینا، تعاون کی بات کرنا، اس تنظیم کے ہر رکن کیلئے اہم ہے۔ جب تک اندرونی معاملات درست نہیں ہونگے، ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات بہتر نہیں ہوتے، تب تک علاقائی تنظیموں کے فوائد محدود ہوتے ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام آباد میں ہونے والے 'ایس سی او سمٹ' سے خاطر خواہ نتائج حاصل کرنے کیلئے ضروری ہے کہ اس کے رکن ممالک اپنے باہمی مسائل بھی حل کریں۔ جیسے پاکستان بھارت کشیدگی، مسئلہ کشمیر، پاکستان، ایران کے درمیان بارڈر اور جنداللہ کے مسائل،جب تک یہ مسائل حل نہیں ہونگے، پیشرفت نہیں ہوگی۔ اسی طرح حالیہ کراچی حملے سے چین کے ساتھ ہمارے تعلقات کچھ خراب ہوئے ہیں۔ چین نے اپنے شہریوں کو ایڈوائزری جاری کی ہے کہ وہ پاکستان نہ جائیں۔ اگر اس طرح کے مسائل ہوں تو اس میں ریجنل سکیورٹی جیسے معاملات بھی مسائل کا شکار ہوجاتے ہیں۔ تمام رکن ممالک کیلئے آپس کے مسائل حل کرنا ضروری ہے، اسی صورت میں ہی علاقائی مسائل حل ہونگے اور ایسی تنظیموں کا فائدہ ہوگا۔
جن کے وزرائے اعظم اور صدور،نمائندے وفود اور صحافی پاکستان آئیں گے۔ایس سی او اجلاس سے وزیراعظم ودیگر سربراہان اورنمائندے خطاب کریں گے، اجلاس کے بعد ایس سی او ممالک کی طرف سے مفاہمتی یادداشتوں پردستخط ہوں گے۔ایس سی او اجلاس میں معیشت،تجارت،باہمی روابط کے فروغ پرتوجہ مرکوز کی جائے گی۔ اس سمٹ کی اہمیت اور مختلف پہلوؤں کا جائزہ لینے کیلئے ''پاکستان میں ایس سی او سمٹ کا انعقاد اور مستقبل کا منظر نامہ'' کے موضوع پر ''ایکسپریس فورم'' کا انعقاد کیا گیا جس میں ماہرین امور خارجہ اور سیاسی تجزیہ کاروں کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
ڈاکٹر امجد مگسی
(ماہر امور خارجہ و سیاسی تجزیہ نگار)
ایس سی او سمٹ اسلام آباد انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ عالمی سیاست میں علاقائی گروپس بن چکے ہیں، ان میں شنگھائی تعاون تنظیم کافی اہمیت اختیار کر چکی ہے۔ یہ دنیا کی دو بڑی طاقتوں روس اور چین نے مل کر بنائی اور اس میں وسطی ایشیائی ریاستیں شامل ہوئیں، پھر پاکستان اور بھارت کا اس میں شامل ہونا خاص اہمیت کا حامل تھا۔ موجودہ عالمی ، علاقائی اور ملکی تناظر میں دیکھا جائے تو بڑے عالمی لیڈرز کا اکٹھا ہونا،پاکستان کا اس کی میزبانی کرنا اور شنگھائی تعاون تنظیم جیسے بڑے آرگنائزیشن کا یہاں اجلاس ہونا معمولی نہیں ہے۔
اس سے پاکستان کی عالمی اور علاقائی اہمیت اجاگر ہو رہی ہے۔ اس تنظیم کے چارٹر میں تجارتی تعلقات کے ساتھ ساتھ، سکیورٹی اور دہشت گردی کے معاملات بھی شامل ہیں جس کی وجہ سے رکن ممالک مشترکہ زمینی و بحری مشقیں کرتے ہیں، سکیورٹی و دیگر معاملات پر مل کر کام کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت خود خواہش کرکے اس کا رکن بنا ۔ 2019ء میں بھارت نے کشمیر کو غیر قانونی طور پر ضم کیا تو پاک بھارت سفارتی تعلقات ختم ہوگئے۔ اس کے بعد اب بھارتی وزیر خارجہ کا ایس سی او سمٹ اسلام آباد میں شرکت کرنا اہم ہے۔ روس اور چین کے وزیراعظم پاکستان آرہے ہیں، وسطی ایشیائی ممالک کے سربراہان مملکت بھی شرکت کر رہے ہیں، اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم کتنا اہم بلاک ہے۔
میں ا یس سی او کے حوالے سے چار برس پہلے مقالہ شائع کر چکا ہوں۔ 2019ء میں میں نے چین میں مقالہ پیش کیا کہ ایس سی او کا پلیٹ فارم، پاک بھارت کشیدگی کو نارملائز کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس بلاک میں روس اور چین کا ہونا اہم ہے ۔ اب ایران نے بھی اس میں شمولیت کا کہا ہے، جلد ممبر بن جائے گا۔ان ممالک کی موجودگی میں، خصوصاََ چین اور روس کے ساتھ بھارت کے تعلقات زیادہ ہیں، دفاعی تعلقات بھی ہیں، پھر چین اور روس کی عالمی اہمیت بھی ہے۔
چین اور روس خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں کہ پاک بھارت معاملات بہتر ہوں کیونکہ اگر مسائل رہیں گے تو ایس سی او کو معاشی طور پر بہترین پلیٹ فارم بنانا ممکن نہ ہوگا۔ اسی طرح سی پیک اور بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کی کامیابی بھی پاک بھارت بہتر تعلقات سے جڑی ہے۔ جب پاکستان اور بھارت کو اس تنظیم کا رکن بنایا گیا تو اس وقت بھی دونوں ممالک کے درمیان کوئی خوشگوار تعلقات نہیں تھے۔چین، روس و دیگر ممالک نے جب رکنیت دی تو انہیں تعلقات کی نوعیت کا علم ہے۔ میرے نزدیک چین اور روس اس میں اہم کردار ادا کریں گے۔
اس وقت علاقائی امن اور خطے کی معاشی ترقی پاک بھارت بہتر تعلقات سے جڑی ہے۔ بھارت کے چین کے ساتھ تجارتی تعلقات اچھے ہیں لیکن اس نے چین کے ساتھ سرحدی تنازعہ پیدا کیا۔ میرے نزدیک ایس سی او سمٹ سے امید کی کرن پھوٹی ہے۔ پاکستان کیلئے کافی فائدہ ہوگا۔ ایسی کانفرنسز سے برف پگھلتی ہے۔ میں پر امید ہوں کہ پاک بھارت تعلقات میں ایس سی ا و سمٹ اہم کردار ادا کرے گا۔ سارک میں صرف سوشل اور اکنامک معاملات ہیں جبکہ شنگھائی تعاون تنظیم میں ان معاملات کے ساتھ ساتھ سکیورٹی بھی شامل ہے۔
ایس اسی او میں دنیا کے طاقتور ممالک ہیں لہٰذا مجھے امید ہے کہ یہ پاکستان ، بھارت اور خطے کیلئے اچھا ثابت ہوگا۔ اس موقع پر پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے احتجاج کی کال افسوسناک ہے۔ کافی عرصے بعد پاکستان میں انتہائی اہم کانفرنس ہونے جا رہی ہے جس میں چین اور روس کے وزرائے اعظم تشریف لا رہے ہیں، اس موقع پر ایسا کوئی اقدام نہیں ہونا چاہیے۔ اس عمل کو ہندوستان میں کافی ہائی لائٹ کیا جا رہا ہے، پی ٹی آئی قیادت کو ایسا نہیں کرنا چاہیے ،اس سے ملک کی ساکھ کو نقصان پہنچ رہا ہے۔
ڈاکٹر عاصم اللہ بخش
(سیاسی تجزیہ نگار)
شنگھائی تعاون تنظیم، دراصل شنگھائی فائیو کی ترقی یافتہ شکل ہے۔ 1996ء میں پانچ ممالک نے شنگھائی فائیو کی صورت میں ایک دفاعی اتحاد قائم کیا جس میں روس، چین، کرغستان، قازقستان اور تاجکستان شامل تھے۔ 2001ء میں نہ صرف اس کی رکنیت کو وسعت دی گئی بلکہ اس کے اغراص و مقاصد میں نئی جہتیں شامل کی گئیں جس میں معاشی ترقی، علاقائی تعاون، رکن ممالک کے درمیان آپسی تعلق کا فروغ شامل ہیں۔
اگر ہم اپنے خطے میں نظر دوڑائیں تو تقریباََ ویسا ہی معاملہ چل رہا تھا جیسا جنوبی ایشیاء میں سارک کا معاملہ تھا۔ سارک میں پاکستان اور بھارت کی کشمکش اور بھارت کے مخاصمانہ رویے نے اسے عملاََ بے اثر کر دیا ۔ شنگھائی تعاون تنظیم میں پاکستان اور بھارت بھی شامل ہیں، ان کی آپس کی کشمکش یہاں بھی ہے۔ جیسے اب 15 اور 16 اکتوبر کو اسلام آباد میں ایس سی او سمٹ کے حوالے سے یہ بات زیر بحث رہی کہ بھارتی وزیراعظم شریک ہوں گے یا نہیں، ہوسکتا ہے کہ وہاں سے شرکت کیلئے کوئی بھی نہ آئے لیکن پھر طے ہوا کہ بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر شرکت کریں گے۔ میرے نزدیک اس میں بھارت کا خفیہ ایجنڈہ موجود ہے۔ دو نکات ایسے ہیں جن پر بھارت پوائنٹ سکورنگ کی کوشش کرے گا۔
پہلا یہ کہ دہشت گردی کی سرکو بی ہونی چاہیے اور جو ممالک یا ریاستیں دہشت گردوں کی سپورٹ کرتی ہیں ان سے معاشی و سفارتی تعاون ختم کیا جائے۔ ایسا لگتا ہے کہ جے شنکر اس پر پاکستان کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کوشش کریں گے ۔ وہ مہمان ہیں اور پاکستان میزبان لہٰذا ان کے پاس سفارتی آزادی ہوگی۔دوسرا یہ کہ بھارت میک ان انڈیا کے تعارف کا ارادہ رکھتے ہیں، اس میں بھارت کی ترقی اور کامیابیوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کی کوشش کریں گے۔ پاکستان کیلئے اس سمٹ کی اہمیت اس لحاظ سے دوچند ہے کہ ایک تو یہ پاکستان کے دو حلیف ممالک چین اور روس کا اقدام ہے جو دنیا کی بڑی طاقتیں ہیں۔ دوسری طرف وسطی ایشیاء میں پاکستان کا علاقائی تعاون بڑھ رہا ہے اور پاکستان کے تنہا ہونے کا تاثر زائل ہوچکا ہے۔ اس حوالے سے بھی یہ اجلاس اہمیت کا حامل ہے۔ ہمیں اپنے معروضی حالات کا جائزہ بھی لینا ہے۔
اس کانفرنس میں چین اور روس کے صدور کے بجائے ان کے وزرائے اعظم آرہے ہیں۔ ایران کے صدر کی شرکت بھی متوقع ہے۔ ایک بڑے سفارتی ایونٹ کا میزبان ہونے کی وجہ سے سے پاکستان کو سفارتی تعلقات بہتر کرنے کا موقع ملے گا۔ افغانستان اس میں بطور مبصر شریک ہوگا، منگولیا اور بیلاروس بھی شریک ہونگے۔ اس وقت دنیا کی نظریں اسلام آباد پر لگی ہیں۔ حکومت کو یہ کوشش کرنی ہے کہ اس دوران امن و امان کے حوالے سے کوئی معاملہ نہ ہو۔ دوسرا یہ کہ حکومت کو اسلام آباد کو محفوظ بنانا ہے۔ اگر کسی اور ملک میں ہوتا تو اتنے بڑے پیمانے پر سکیورٹی انتظامات نہ کرنا پڑتے کہ تعلیمی اداروں میں چھٹیاں دے دی جائیں۔ ایسے اقدامات ملک کے حالات کے بارے میں شک پیدا کرتے ہیں۔
ہمیں ان چیزوں کو دورس بنیادوں پر ٹھیک کرنا ہوگا کہ اگر یہاں کوئی میچ ہو یا کانفرنس، وہ بلا تردد ہو، نارمل لگے۔ ہمیں اپنی سیاست، امن و امان، اندرونی تنازعات، بلوچستان، فاٹا اور خیبر پختونخوا کے معاملات کو بھی دیکھنا ہوگا۔ پاکستان ایک گریٹ گیم میں پھنسا ہے، امریکا اور چین کی چپقلش ، سی پیک کو ناکام بنانے کی کوشش میں پاکستان کا نقصان ہو رہا ہے۔ اب سی پیک ٹو کا آغاز ہو رہا ہے، بلوچستان، کراچی اور خیبر پختونخوا میں ایسے واقعات ہو رہے ہیں جہاں جانی نقصان ہو رہا ہے۔ کوشش ہونی چاہیے کہ یہ چیزیں قابو سے باہر نہ ہوں اور دنیا کو ایسا تاثر نہ جائے کہ پاکستان ایک غیر مستحکم ملک ہے۔ اس کے لیے طویل المدت اور کثیر المدت اقدامات کرنا ہونگے۔
پاکستان کی معیشت اہم ہے، ایسی کانفرنسز زیادہ ہونی چاہئیں جن میں تعلقات کو فروغ ملے۔ حال ہی میں سعودی وفد بھی پاکستان آیا جس میں اربوں ڈالر کے معاہدوں پر دستخط ہوئے۔ پاکستان چاہتا ہے کہ ایران کے ساتھ معاملات بہتر ہوں، روس اور چین کے ساتھ تجارت بڑھے۔ خاص طور پر قازقستان، کرغزستان، ازبکستان و دیگر سے بھی پاکستان کی تجارت بڑھے۔
ہم معاشی بریک تھرو کے دہانے پر ہیں۔ اس کے معاشی، سفارتی، سیاسی، سکیورٹی اور جیو پولیٹکس کے معاملات، پاکستان کے امن و امان اور داخلی استحکام سے ہوکر گزرتے ہیں۔ یہ راستہ جتنی جلدی اپنا لیں گے، اتنی جلدی ہی نتائج آئیں گے۔ ہماری نیک تمنائیں ہیں کہ حالیہ سمٹ کامیاب ہو۔ پاکستان اس وقت ایس سی او کا چیئرمین ہے،ا س کا عالمی امیج بھی بہتر ہوگا۔
ڈاکٹرزمرد اعوان
(ایسوسی ایٹ پروفیسر ، شعبہ سیاسیات ایف سی کالج یونیورسٹی)
جنگ عظیم دوئم کے بعد علاقائی تنظیمیں ابھریں جن کا بنیادی مقصد سکیورٹی، معاشی تعاون اور مقامی ثقافتی و دیگر تعلقات کو مضبوط بنانا ہے۔ اسی وجہ سے 1945ء سے 1990ء کی دہائی تک بہت ساری تنظیمیں بنیں ، خاص طور پر افریقہ، ایشیاء اور کریبین ممالک کے درمیان تعلقات کیلئے۔ 90ء کی دہائی میں نیفٹا اور یورپی یونین بنی۔ بیشتر تنظیموں کا آغازمعاشی تعلقات سے ہوا جبکہ بعض سکیورٹی کی بنیاد پر بنیں۔ ایسی تنظیمیں جن کی بنیاد معاشی مفادات پر رکھی گئی، اور بعد ازاں انہوں نے سکیورٹی معاملات کو شامل کیا، وہ مضبوط ہیں۔
اس وقت ایشیاء میں 11 ریجنل تنظیمیں موجود ہیں جن کا کام سکیورٹی معاملات اور معاشی تعاون کو دیکھنا ہے۔ ان میں سے ایک شنگھائی تعاون تنظیم ہے جو شروع میں تو وسطی ایشیاء کی سکیورٹی کیلئے بنائی گئی تھی لیکن اس کے بعد سیاسی و معاشی معاملات پر دائرہ کار وسیع ہوا، پھر اس تنظیم میں پاکستان، ایران اور بھارت بھی شامل ہوئے۔ پہلے اسے شنگھائی فائیو کے نام سے پکارا جاتا تھا جس میں چین، روس، قازقستان، کرغزستان اور تاجکستان تھے۔ پہلے توجہ ان ممالک کے درمیان بارڈر مسائل کو حل کرنا تھا۔ پھر آہستہ آہستہ سکیورٹی اور معیشت میں تعاون ہوا۔ 2001ء میں اس کا نام تبدیل کرکے شنگھائی تعاون تنظیم رکھا گیا اور ازبکستان نے اس میں شمولیت اختیار کی۔ پھر پاکستان، بھارت، ایران، بیلاروس و دیگر نے جوائن کیا۔
جولائی 2023ء میں بڑی پیش رفت ہوئی جب ایران فل ممبر کے طور پر اس میں شامل ہوا۔ یہ تنظیم اس لیے اہمیت اختیار کرچکی ہے کہ اس میں ایسے ممالک شامل ہیں جن کے بڑے مفادات جڑے ہیں۔ یہ نہ صرف ان ممالک کی معاشی و سکیورٹی معاملات کو دیکھ رہی ہے بلکہ خطے کی سکیورٹی میں سب کا تعاون بھی اہم ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم جن ممالک پر مشتمل ہے وہ دنیا کی آبادی کا ایک چوتھائی ہے۔ اس تنظیم کا سٹرکچر اہم ہے۔ اس میں سربراہان مملکت،سربراہان حکومت اور وزرائے خارجہ کی کونسلز الگ الگ ہیں۔ اس میں ایک اہم باڈی جو بعد میں بنائی گئی وہ علاقائی انسداد دہشت گردی کے حوالے سے ہے جس کی ضرورت دہشت گردی اور انہتا پسندی کی شدت اضافے کے بعد پیش آئی۔ شنگھائی تعاون تنظیم میں دو بڑے ممالک چین اور روس ہیں۔ چین کی توجہ ہمیشہ سے اقتصادی تعلقات کی بہتری اور فروغ پر ہوتی ہے۔
بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کی وجہ سے چین کو ضرورت ہے کہ وہ ان ممالک سے اپنے تعلقات کو فروغ دے۔ اس میں شنگھائی تعاون تنظیم اہم کردار ادا کرتی ہے۔ چین اور روس کا اس تنظیم میں ہونا اور پھر ایران کا شامل ہونا، یہ معمولی نہیں ہے۔ ایران نے خود کو امریکا اور اسرائیل مخالف ملک ثابت کیا ہے۔ ایک دوسرے پر جو حملے ہو رہے ہیں، وہ دنیا دیکھ رہی ہے لہٰذا اس تنظیم میں ایران کے شامل ہونے سے اس کا سٹریچر تبدیل ہوگیا ہے۔ ایران پر امریکا نے پابندیاں لگائیں، اس کیلئے خطے اور عالمی سطح پر مسائل پیدا ہوئے، ایسی صورتحال میں ایران کو بھی ضرورت تھی کہ وہ ایسی تنظیم کا حصہ بنے جہاں سکیورٹی و دیگر معاملات پر انفرادی اور مجموعی حیثیت میں بات ہو۔
پاکستان کے چین اور ایران سے اچھے تعلقات ہیں۔ ایران کے ساتھ مذہبی اور جغرافیائی تعلقات ہیں۔ پاکستان کے لیے یہ پلیٹ فارم اہم ہے جس میں نہ صرف علاقائی مسائل حل کیے جاسکتے ہیں بلکہ معیشت اور تجارت کو بھی فروغ دیا جاسکتا ہے۔ پاکستان کو اندورنی طور پر سیاسی اور معاشی مسائل کا سامنا ہے۔ ایسے حالات میں پاکستان کے پاس آپشنز محدود ہیں۔ وہ ملک جو اندورنی ور پر کمزور ہو وہ عالمی سطح پر نہ تو تجارت کو زیادہ فروغ دے سکتا ہے اور نہ ہی معاشی روابط کو فروغ دے سکتا ہے۔ اس تنظیم میں بھارت کا ہونا جو پاکستان مخالف ہے، اہمیت کا حامل ہے۔
اس پلیٹ فارم کے ذریعے خطے میں بھارت کی بدمعاشی کو کم کیا جاسکے۔ یہ اس وقت ممکن ہے جب پاکستان اندرونی طور پر مضبوط ہو، ہماری پالیسی واضح ہو اور ہم سفارتی محاذ پر ڈٹ کر کھڑے ہوں۔ پاکستان، بھارت ، چین و دیگر ممالک اگر باہمی طور پر اپنے مسائل حل کرلیں تو یہ یقینا شنگھائی تعاون تنظیم کی کامیابی مانا جائے گا۔موجودہ حالات میں جہاں عالمی سطح پر سکیورٹی کے مسائل ہیں،امریکا و مغربی ممالک کا گٹھ جوڑ ہے۔ فلسطینیوں کے ساتھ مظالم ڈھائے جا رہے ہیں، ایران کے ساتھ جنگ چھیڑ رکھی ہے، مڈل ایسٹ کو غیرمستحکم کیا جا رہا ہے، ایسے حالات میں علاقائی تنظیموں کا کامیاب ہونا ناگزیر ہوجاتا ہے۔ اگر علاقائی مسائل آپس میں حل نہ کیے جاسکیں تو مسائل سنگین ہوجاتے ہیں۔
ایران شروع سے ہی کہتا آیا ہے کہ سکیورٹی یقینی بنانا علاقائی ممالک کی ذمہ داری ہے۔ یہی موقف اس کا گلف ممالک کے بارے میں ہے کہ گلف ہمارا ہے اور اس کی سکیورٹی کے ذمہ دار ہم ہیں۔ہمیں یہاں امریکی و مغربی افواج نہیں چاہئیں۔ ایشیاء اور سینٹرل ایشیاء کے ممالک کیلئے شنگھائی تعاون تنظیم اہم ہے، اگر اس کے درست فوائد حاصل کرنے ہیں تو انہیں مل کر خطے کی سکیورٹی یقینی بنانا ہوگی۔ اس آرگنائزیشن کی کامیابی سے امریکا اور مغربی ممالک کو تکلیف ہوگی خاص طور پر جب اس میں ایسے ممالک ہوں جن سے ان کے تعلقات کشیدہ ہیں۔ اس کو ذہن میں لائے بغیر بارڈر سکیورٹی کو بہتر بنانا، ڈائیلاگ کو فروغ دینا، تعاون کی بات کرنا، اس تنظیم کے ہر رکن کیلئے اہم ہے۔ جب تک اندرونی معاملات درست نہیں ہونگے، ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات بہتر نہیں ہوتے، تب تک علاقائی تنظیموں کے فوائد محدود ہوتے ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام آباد میں ہونے والے 'ایس سی او سمٹ' سے خاطر خواہ نتائج حاصل کرنے کیلئے ضروری ہے کہ اس کے رکن ممالک اپنے باہمی مسائل بھی حل کریں۔ جیسے پاکستان بھارت کشیدگی، مسئلہ کشمیر، پاکستان، ایران کے درمیان بارڈر اور جنداللہ کے مسائل،جب تک یہ مسائل حل نہیں ہونگے، پیشرفت نہیں ہوگی۔ اسی طرح حالیہ کراچی حملے سے چین کے ساتھ ہمارے تعلقات کچھ خراب ہوئے ہیں۔ چین نے اپنے شہریوں کو ایڈوائزری جاری کی ہے کہ وہ پاکستان نہ جائیں۔ اگر اس طرح کے مسائل ہوں تو اس میں ریجنل سکیورٹی جیسے معاملات بھی مسائل کا شکار ہوجاتے ہیں۔ تمام رکن ممالک کیلئے آپس کے مسائل حل کرنا ضروری ہے، اسی صورت میں ہی علاقائی مسائل حل ہونگے اور ایسی تنظیموں کا فائدہ ہوگا۔