عدلیہ کے رویے میں تبدیلی کے باوجود آئینی عدالت کیوں ضروری

حسنات ملک  پير 14 اکتوبر 2024
(فوٹو: سوشل میڈیا)

(فوٹو: سوشل میڈیا)

  اسلام آباد: مارچ 2009 کے بعد سے جوڈیشل ایکٹیوازم کا سامنا کرنیوالی پی پی پی کو آج جارح سپریم کورٹ کا سامنا نہیں، اس کے باوجود پی پی پی وفاقی آئینی عدالت کے قیام کی کوششوں میں پیش پیش ہے۔

چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو زرداری اعلیٰ عدلیہ کے الزامات کی فہرست پیش کرتے رہتے ہیں،جوکہ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی قیادت میں اعلیٰ عدلیہ کی بحالی کے بعد شروع ہوئی،  جس میں گورننس ، قانون سازی کے معاملات میں مداخلت شامل ہیں۔ اس لئے یہ تاثر عام ہے کہ پی پی پی موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سابق چیفس کے اقدامات کا حساب موجودہ اعلیٰ عدلیہ کیساتھ چکتا کرنا چاہتی ہے۔

حالانکہ گزشتہ چند سال سے عدلیہ کی سوچ میں واضح تبدیلی آئی ہے۔ سپریم کورٹ کے اندرونی معاملات پرقانون سازی میں پارلیمنٹ کی اتھارٹی کو ججوں کی اکثریت آج تسلیم کرتی ہے،  دس ججوں نے  سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 کی توثیق کی۔

اسی  ججوں کی اکثریت اپنے سابق چیفس افتخار چودھری اور ثاقب نثار کے ادوار کی جوڈیشل ایکٹیوازم کا دفاع نہیں کر رہی ہے۔ اکثر وکلا ء کی نظر میں وفاقی آئینی عدالت کا قیام آزاد منش ججوں کو کنٹرول کرنے کے علاوہ کچھ نہیں، وہ حیران ہیں کہ پارلیمنٹ میں دوتہائی اکثریت کیلئے دباؤ ڈالنے پر سیاسی رہنما خاموش کیوں ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔