- غزہ کے اسکول پر اسرائیل کا حملہ؛ خواتین اور بچوں سمیت 22 پناہ گزین شہید
- کیوں نکالا بابراعظم کو؟
- مسافر ٹرینوں کے دروازے خراب، فیملیاں غیر محفوظ، چوری کی وارداتیں عام
- روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس، ترسیلات زر کا حجم 8.749 ارب ڈالرسے متجاوز
- معاشی آزادی کے لیے حکومتی حجم کم کرنا ضروری
- عدلیہ کے رویے میں تبدیلی کے باوجود آئینی عدالت کیوں ضروری
- لی کیانگ کا دورہ، چینی شہریوں کی سیکیورٹی سرفہرست ایجنڈا
- بلاول کا نواز شریف سے ٹیلفونک رابطہ، آئینی ترمیم پر پیشرفت سے آگاہ کیا
- بھارت؛ بابا صدیقی کو جلوس، فائر ورک کی آڑ میں قتل کیا گیا، رپورٹ
- کراچی؛ کورنگی کے علاقے عوامی کالونی میں دو گروپوں میں تصادم، فائرنگ سے 6 افراد زخمی
- سوڈان؛ فوج کی دارالحکومت میں مارکیٹ پر فضائی کارروائی، 23 افراد ہلاک
- اسلام آباد سے لاہور آنے والی ٹرین کو حادثہ، مسافر بوگی ایک طرف جھک گئی
- حزب اللہ کا اسرائیلی فوجی اڈے پر ڈرون حملہ، تین افراد ہلاک، 67 زخمی
- اقوام متحدہ کے امن مشن پر حملے ناقابل قبول ہیں، اٹلی کا اسرائیلی وزیراعظم کا پیغام
- فخر زمان کی بابراعظم کو ڈراپ کرنے کے فیصلے پر شدید تنقید
- ویمنز ٹی 20 ورلڈ کپ: آسٹریلیا بھارت کو ہراکر سیمی فائنل میں پہنچ گیا
- امریکا کا اسرائیل کو ایڈوانس اینٹی میزائل سسٹم فراہم کرنے کا اعلان
- پنجاب یونیورسٹی کے ہاسٹل میں طالبہ نے خودکشی کرلی
- کراچی؛ شیر شاہ کے قریب ٹریفک حادثے میں ایک خاتون جاں بحق، 5 افراد زخمی
- غزہ کے 27 طلباء میڈیکل تعلیم کیلئے مصر سے پاکستان پہنچ گئے
عدلیہ کے رویے میں تبدیلی کے باوجود آئینی عدالت کیوں ضروری
اسلام آباد: مارچ 2009 کے بعد سے جوڈیشل ایکٹیوازم کا سامنا کرنیوالی پی پی پی کو آج جارح سپریم کورٹ کا سامنا نہیں، اس کے باوجود پی پی پی وفاقی آئینی عدالت کے قیام کی کوششوں میں پیش پیش ہے۔
چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو زرداری اعلیٰ عدلیہ کے الزامات کی فہرست پیش کرتے رہتے ہیں،جوکہ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی قیادت میں اعلیٰ عدلیہ کی بحالی کے بعد شروع ہوئی، جس میں گورننس ، قانون سازی کے معاملات میں مداخلت شامل ہیں۔ اس لئے یہ تاثر عام ہے کہ پی پی پی موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سابق چیفس کے اقدامات کا حساب موجودہ اعلیٰ عدلیہ کیساتھ چکتا کرنا چاہتی ہے۔
حالانکہ گزشتہ چند سال سے عدلیہ کی سوچ میں واضح تبدیلی آئی ہے۔ سپریم کورٹ کے اندرونی معاملات پرقانون سازی میں پارلیمنٹ کی اتھارٹی کو ججوں کی اکثریت آج تسلیم کرتی ہے، دس ججوں نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 کی توثیق کی۔
اسی ججوں کی اکثریت اپنے سابق چیفس افتخار چودھری اور ثاقب نثار کے ادوار کی جوڈیشل ایکٹیوازم کا دفاع نہیں کر رہی ہے۔ اکثر وکلا ء کی نظر میں وفاقی آئینی عدالت کا قیام آزاد منش ججوں کو کنٹرول کرنے کے علاوہ کچھ نہیں، وہ حیران ہیں کہ پارلیمنٹ میں دوتہائی اکثریت کیلئے دباؤ ڈالنے پر سیاسی رہنما خاموش کیوں ہیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔