کیوں نکالا بابراعظم کو

پاکستان میں میڈیا اور ایجنٹس نے بعض کھلاڑیوں کو اتنا بڑا بنا کر پیش کیا جتنے وہ نہیں تھے

(فوٹو: فائل)

آج سے ایک سال پہلے اگر میں یہ کہتا کہ بابر اعظم کو قومی ٹیم سے ڈراپ کر دیا گیا تو شاید آپ کا جواب یہ ہوتا کہ کپیل شرما شو کی سستی پاکستانی کاپی کی طرح اس مذاق پربھی ہمیں ہنسی نہیں آئی، کچھ لوگ یہ سوچتے کہ میری طبعیت تو ٹھیک ہے جو ایسی باتیں کر رہا ہوں، مگر ہر عروج کو زوال ہے۔

اب بابر کو ٹیسٹ اسکواڈ سے باہر کرنے پر شاید ہی کسی کو حیرت ہوئی ہو، بلاشبہ وہ پاکستان کے بہترین بیٹر ہیں، گذشتہ کئی برسوں میں ہمیں کوئی ایسا کھلاڑی نہیں ملا لیکن بدقسمتی سے کپتانی و دیگر معاملات میں پڑنے سے ان کی کارکردگی متاثر ہوئی،چند ماہ پہلے تک کوئی بابر کے بارے میں سوشل میڈیا پر کچھ کہنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا لیکن اب لوگ خود انھیں نہ کھلانے کی باتیں کر رہے تھے، مکی آرتھر نے نام تو نہیں لیا مگر بات درست کی کہ پاکستان میں میڈیا اور ایجنٹس نے بعض کھلاڑیوں کو اتنا بڑا بنا کر پیش کیا جتنے وہ نہیں تھے اس سے وہ خود کو کچھ اور ہی سمجھنے لگے۔

میں بھی کئی ماہ سے یہی بات کہہ رہا ہوں، ہم نے خود اپنے اسٹارز کو خراب کیا،انھیں ایسا محسوس کرایا جیسے وہ کھیل سے بڑے ہیں یہیں سے معاملہ خراب ہوا، جتنی تیزی سے وہ اوپر گئے اتنی ہی تیزی سے زمین پر آ گرے، جب آپ عروج پر ہوں تو قدم زمین پر رکھنے چاہیئں، بدقسمتی سے بعض کھلاڑیوں نے ایسا نہ کیا جس کی وجہ سے اب تکلیف میں ہوں گے۔

آپ سچ بتائیں کہ کیا 18 اننگز میں نصف سنچری نہ بنانے والا کوئی اور کرکٹر اتنے مواقع پا سکتا تھا، ماضی میں جاوید میانداد جیسے کھلاڑی کو ایک سیریز میں ناکامی پر باہر بٹھا دیا جاتا تھا، آپ کسی ایک پلیئر کو کتنے مواقع دے سکتے ہیں؟ ہاں مگر ٹائمنگ کا خیال رکھنا چاہیے، بنگلہ دیش کیخلاف ایک ٹیسٹ میں بابر کو ریسٹ کرا دیتے تو مناسب رہتا، اب انگلینڈ سے بدترین شکست کے بعد ان کا نہ ہونا بیٹنگ لائن پر دباؤ بڑھا دے گا، نیا کھلاڑی جتنا بھی باصلاحیت ہو آتے ہی ٹیم میں کیسے سیٹ ہو سکتا ہے؟ وہ دباؤ کا شکار ہی رہے گا۔

بابر کی جگہ فی الحال کوئی نہیں لے سکتا، ابھی کوئی ڈومیسٹک میچ بھی نہیں، صرف نیٹ پریکٹس سے تو فارم واپس نہیں آ سکتی، آسٹریلیا کا مشکل وائٹ بال ٹور بھی قریب ہے،کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ایسے میں جہاں 18 اننگز تک انتظار کیا وہاں 4 بار اور بیٹنگ کرنے دیتے شاید فارم واپس آ جاتی، ہاں اگر ایسا صرف یہ احساس دلانے کیلیے کیا گیا ہے کہ انھیں بھی ڈراپ کیا جا سکتا ہے تو ایک ہی میچ کیلیے کرتے ، تیسرے ٹیسٹ میں واپس لے آتے۔

بابر ان دنوں ذہنی طور پر ڈسٹرب نظر آتے ہیں، ان پر پہلے کبھی اتنا طویل بیڈپیج نہیں آیا، وہ اپنی دھن میں مگن رہنے والے انسان ہیں، والد اور ایجنٹ کے سوا کسی کی نہیں سنتے،انا بہت ہے اسی لیے خراب فارم سے چھٹکارے کیلیے کسی سابق بڑے بیٹر سے رجوع تک نہیں کیا،ایک سال پہلے تک وہ سب کی آنکھ کا تارا تھے،بورڈ سے لڑ کر مرضی کا سینٹرل کنٹریکٹ بنوایا، کسے کھلانا کسے نکالنا ہے سب میں ان کی رائے شامل ہوتی تھی، کٹ کا ڈیزائن تک انھیں پہلے دکھایا جاتا تھا، اتنا طاقتور بندہ اچانک صرف عام کھلاڑی بن جائے تو احساس تو ہوتا ہوگا نہ، بابر کے ساتھ بھی یہی ہوا۔


اسی طرح بولنگ میں شاہین شاہ آفریدی اور نسیم شاہ کو بھی باہر بٹھا دیا گیا، ویسے ہی ہماری بولنگ جدوجہد کر رہی تھی، اب دونوں اہم بولرز باہر ہو گئے، عالمی معیار کے اسپنرز موجود ہیں نہیں تو اب 20 وکٹیں کیسے لیں گے؟ یہ ٹھیک ہے کہ پہلے ٹیسٹ میں بڑا اسکور بنا لیکن اس پچ پر تو پہلی اننگز میں پاکستانی بیٹرز نے بھی بڑی اننگز کھیلی تھیں، وہاں پیسرز کیلیے مدد ہی موجود نہ تھی، اگر دونوں سینئر پیسرز خود دستبردار ہوئے تو انھیں اس کی اجازت بھی نہیں دینی چاہیے تھی، اتنے اہم میچ سے قبل ایسا کرنا اپنی مشکلات بڑھانے کے مترادف ہے۔

میر حمزہ اچھے بولر ہیں لیکن ڈیڈ پچزبنیں تو وہ بھی کیا کر لیں گے، جب اچھی پچ ہو تو انھیں کھلایا نہیں جاتا، جس طرح کسی تھانے میں کوئی نیا ایس ایچ او آتا ہے تو اپنی آمد کا اعلان کرنے کیلیے کچھ چھاپے وغیرہ مارتا ہے، اسی طرح نئے سلیکٹرز نے اپنی اہمیت دکھانے کیلیے سینئرز کو ایک ساتھ باہر کر دیا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ پی سی بی کے اعلان سے کئی گھنٹے قبل کون ڈراپ ہو رہا ہے اور کون آئے گا یہ میڈیا کو پتا تھا، کھلاڑیوں کو رسمی طور پر کسی سلیکٹر نے یہ بتانے کی زحمت نہ کی، البتہ مینجمنٹ کے ایک رکن نے ایسا ہونے کا عندیہ ضرور دیا تھا، اس وقت پلیئرز بورڈ سے خوش نہیں ہیں، این او سی پالیسی کے سبب بھی مسائل ہو رہے ہیں، حالیہ کچھ عرصے میں کئی کھلاڑیوں کو لیگز کھیلنے کی اجازت نہیں دی گئی جس سے انھیں لاکھوں، کروڑوں روپے کا نقصان ہوا۔

دوسری جانب 50 لاکھ روپے ماہانہ لینے والے مینٹور مصباح الحق چیمپئنزکپ کے دوران ہی امریکا چلے گئے، اب سلیکٹر اسد شفیق بھی وہیں ہیں، کیا ان سے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے؟ کھلاڑی واضح طور پر اپنے لیے کھیلتے نظر آ رہے ہیں، اسی لیے ٹیم کا یہ حال ہو گیا، فٹنس کا معیار بھی اچھا نہیں ہے، سابق کرکٹرز بجائے مسائل کی نشاندہی کرنے کے بورڈ میں نوکریاں لے کر خاموش ہوتے جا رہے ہیں، مشورے نجانے کون دے رہا ہے جیسے امپائر کو سلیکٹر بنانے کی کیا کوئی لاجک ہے؟ علیم ڈار اچھے انسان ہیں مگر سلیکشن سے ان کا کیا تعلق، ان کو امپائرنگ کے حوالے سے کوئی کام سونپنا چاہیے تھا۔

میں چیئرمین محسن نقوی کو الزام نہیں دیتا ، وہ جب سے پی سی بی میں آئے انھیں سیاسی محاذ پر بھی مسلسل چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا ہے، وہ فیئر انسان ہیں، اگر کرکٹ کو مکمل وقت دیا تو یقینی طور پر حالات ٹھیک کر دیں گے لیکن جب تک دیگرمصروفیات زیادہ ہیں ان کی ٹیم کو تو اچھا کام کرنا چاہیے، یقین مانیے اس وقت ملکی کرکٹ کا جو حال ہے اس کا ہم نے تصور بھی نہیں کیا تھا، نئے سلیکٹرز نے بہت بڑا فیصلہ کیا ہے نجانے اس کے کیا نتائج سامنے آتے ہیں،شائقین کو جیت درکار ہے، اگر نئے لڑکوں نے پرفارم کر کے ٹیم کو جتوا دیا تو سلیکٹرز کی واہ واہ ہو جائیگی، بصورت دیگر آتے ہی تنقید کے نشتر کھانا پڑیں گے، دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)
Load Next Story