رمضان میں گراں فروشی

رمضان بابرکت مہینہ ہے مگر صد افسوس بعض مسلمانوں کو اس کی اہمیت کو یکسر نظر انداز کردیتے ہ


Pakiza Munir July 18, 2014

رمضان بابرکت مہینہ ہے مگر صد افسوس بعض مسلمانوں کو اس کی اہمیت کو یکسر نظر انداز کردیتے ہیں اور اپنے طور طریقے اس بابرکت ماہ میں بھی نہیں بدلتے ہیں۔

ناپ تول سے متعلق 1965 میں آرڈیننس جاری کیا گیا جس کے تحت کوئی دکاندار ناپ تول میں کمی کرے تو ایسے دکاندار کو 6ماہ قید اور 5سو روپے جرمانے کی سزا ہوسکتی ہے لیکن بدقسمتی سے انتظامی افسران ذمے دار دکانداروں سے سازباز کر کے چند سو روپے جرمانے کی کاغذی کارروائی اور باقی پیسے رشوت لے کر انھیں چھوڑ دیتے ہیں۔

ہمیں 1965 کے آرڈیننس میں ترمیم کی اشد ضرورت ہے ان بے ایمان دکانداروں کے لیے سخت سے سخت سزا اور جرمانہ بھی زیادہ کرنا چاہیے تاکہ معاشرے میں توازن قائم ہو، تاجروں نے غریبوں کا جینا مشکل سے مشکل ترکردیا ہے یہ مسلمان ہوتے ہوئے خدا کے احکامات کو فراموش کر بیٹھے ہیں اور غیر اسلامی ممالک اور ان کے لوگ رمضان کے اس بابرکت مہینے میں مسلمانوں کے لیے اشیا کم قیمت پر فروخت کرتے ہیں۔ رمضان آفر آپ کے مختلف مقامات پر دیکھنے کو ملتی ہے اور ایک ہمارے یہاں کے افراد ہیں جو رمضان میں چیزوں کی چارگنا قیمت پر فروخت کر کے کمائی کا ''سیزن'' لگاتے ہیں ۔

میں پھل لینے کے لیے بازار گئی تو میرے ہوش اڑ ہوگئے یا خدا کیلا 100 روپے درجن، سیب 200 روپے، پھیکا خربوزہ 80 روپے کلو۔ یا الٰہی یہ میں کہاں آگئی، رمضان سے پہلے بھی اسی بازار سے چیزیں لیتی تھی اب ان چیزوں کی قیمت میں اتنا اضافہ رمضان کے آتے ہی میں نے ٹھیلے والے سے پوچھا بھائی منڈی میں کیا پھل آنا بند ہوگئے ہیں جو پھل آپ کو اس قدر مہنگا مل رہا ہے یا پھر منڈی کے راستے جنگ چھڑی ہوئی ہے جو آپ لوگ بڑی مشکل سے منڈی سے سامان لیتے ہو اور پھر اتنا مہنگا کرکے بیچ رہے ہو یا پھر سب کے سب پیسوں کی ہوس میں پاگل ہوگئے ہو۔ ٹھیلے والے نے بہت برا سا منہ بنایا بولا یہی تو ایک مہینہ آتا ہے جس میں ہم خوب کماتے ہیں۔ آہ ! کماؤ مگر ناجائز تو نہ کماؤ آج ہم مسلمان خدا کی بتائی ہوئی ساری تعلیمات کو فراموش کرتے ہی چلے جا رہے ہیں صرف چند پیسوں کی خاطر ہمیں نعوذ باللہ خدا کے احکامات سے زیادہ آج اپنے مفادات زیادہ عزیز ترین ہوچکے ہیں۔

اگر ہم قرآن پاک کا مطالعہ کریں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ناپ تول میں کمی کو سخت ناپسند قرار دیا ہے ۔ حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم کو اللہ نے تباہ اسی وجہ سے کیا کہ وہ ناپ تول میں کمی کیا کرتے تھے۔ حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم تو غرق ہوگئی اپنے برے اعمال کی وجہ سے، میں تو یہ سوچتی ہوں آج ہمارے معاشرے میں وہ تمام برائیاں موجود ہیں جن کی وجہ سے پچھلی تمام قوموں کو غرق کردیا گیا تھا سب میں ایک ایک کوئی برائی تھی۔ قرآن پاک کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ کوئی قوم ناپ تول میں کمی کی وجہ سے غرق ہوئی تو کوئی قوم غیرفطری جنسی تعلقات پر سزا وار ٹھہرئی، کوئی قوم شرک کرنے پرتباہ ہوئی یعنی ہر وہ قوم جس نے خدا کے احکامات کو نظرانداز کیا وہ سب کے سب عذاب کا شکار ہوئے اور خدا نے ان تمام کو ہمارے لیے عبرت کا نشان بنا دیا ۔آج ہمارے معاشرے میں ایک نہیں وہ تمام کی تمام برائیاں موجود ہیں جس کی وجہ سے قومیں تباہ و برباد ہوئیں مگر پھر بھی ہم عبرت حاصل نہیں کر رہے ہیں اپنے آپ کو اور اپنی قوم کو غرق کرنے کی تیاریوں میں لگے پڑے ہیں۔

ہمارا اخلاق، ہماری اسلامی تعلیمات سب کیوں ختم ہو چکی ہیں، کیا نعوذ باللہ اور روز قیامت پر سے یقین ختم ہو چلا ہے اگر ایسی بات نہیں تو روز قیامت اللہ کو کیا جواب دو گے اور رسول پاکؐ کو کیا منہ دکھاؤ گے خدا اور اس کے رسولؐ نے ہمیں ایسی تعلیمات کی اجازت ہرگز نہیں دیں بلکہ انسانیت کی خدمت کو اولین عبادات میں سے افضل قرار دیا گیا ہے۔ یہ مت بھولو جہاں تم رہتے ہو وہ اسلامی جمہوری پاکستان ہے اسلام کے نام پر لاکھوں مسلمانوں نے اپنی جانیں دیں اور 27 رمضان کو خدا نے پاکستان جیسی نعمت سے ہمیں نوازا۔ پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا کہ ہم یہاں اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی بسر کرینگے تو کیا ہمارا مقصد پورا ہوا؟ ہم نے پاکستان میں اسلامی طریقوں کے ساتھ زندگی بسر کی؟

اگر ہمیں بے ایمانی کے ساتھ دھوکابازی کے ساتھ فحش حرکتوں کے ساتھ ہی رہنا پسند تھا تو ہندوستان میں رہا جاسکتا تھا۔ لاکھوں لوگوں کو قربان کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ پاکستان کو اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا ہے مگر افسوس اسلامی تعلیمات ہمیں دور دور تک نظر نہیں آتیں۔ ہر انسان حیوان بنا گھوم رہا ہے رشوت، لوٹ مار، چوری، ڈکیتی، زنا، قتل و غارتگری اتنا عام ہو گیا ہے کہ جیسے کوئی بات ہی نہ ہو، کیوں آخر کیوں؟ ہم اتنے بے حس ہوچکے ہیں کہ بھائی بھائی کا احترام ختم کر بیٹھے ہیں۔ دولت کی ہوس نے ہمیں انسان سے حیوان بنا ڈالا ہے۔

کاش کہ یہ مسلمان سمجھ لیں کہ یہ دولت یہ عیش و عشرت سب عارضی ہیں اصل زندگی تو موت کے بعد شروع ہوگی پھر اے مسلمانوں تم اپنے خدا کو کیا منہ دکھاؤ گے۔

ایک اخباری رپورٹ کے مطابق رمضان میں 2551 گراں فروشوں کے چالان اور 257 جیل بھجوا دیے گئے۔ 468 دودھ فروشوں کا چالان اور 17 لاکھ 84 ہزار 500 روپے جرمانہ، 684 پھل مہنگا فروخت کرنیوالوں کے چالان اور ان پر 7 لاکھ 85 ہزار 700 روپے جرمانہ، 906 سبزی مہنگی فروخت کرنیوالوں پر 8 لاکھ 32 ہزار روپے جرمانہ، 13 گوشت فروخت کرنیوالوں پر 62 ہزار 500 روپے جرمانہ۔ بے ایمان افراد کی میرے پاس ایک بہت بڑی لسٹ ہے ان کے جرمانے لکھتی رہی تو صفحہ ختم ہوجائیں گے مگر ان کی بے ایمانیاں ختم نہیں ہوں گی۔

پاکستان کا ہر شہر اور ہر علاقہ ان بے ایمان لوگوں سے بھرا پڑا ہے ان لوگوں نے شہریوں کا جینا مشکل سے مشکل ترین کیا ہوا ہے غریب کے منہ سے روٹی چھین لی گئی ہے۔

میری انتظامیہ سے درخواست ہے کہ ایسے تمام منافع خور دکانداروں کے خلاف مستقل طور پر کارروائی کی جانی چاہیے رمضان ہو یا دوسرے مہینے سب مہینوں میں اشیا لوگوں کو مناسب قیمت پر میسر آئیں ۔ مستقل طور پر ایسے قانون اور کارروائیوں کی اشد ضرورت ہے کہ یہ بے ایمان دکاندار 12 مہینے شہریوں کو مناسب قیمت پر اشیا دیں۔اگر ان بے ایمان دکانداروں کے خلاف کارروائی نہیں کی گئی تو وہ دن دور نہیں کہ ان بے ایمان دکانداروں کی وجہ سے ہمارے معاشرے کو بھی تباہ ہونے سے پھر کوئی نہیں بچا سکتا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں